23 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

بےوجہ نفرت(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

پانچویں قسط

بےوجہ نفرت

شکیل احمد چوہان

ست رنگی کمرے میں وہ داخل ہوئی ۔
’’ملاقات ہو گئی تمہاری؟ ‘‘دانت پیستے ہوئے نوشی نے کہا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی ۔
’’کس سے؟ ‘‘ توشی نے سوال پر سوال کیا۔
’’تمہارے بلال سے۔ ‘‘ تفتیشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر نوشی بولی۔
’’جسٹ شٹ اپ۔ میں نے تم سے زیادہ اسٹوپڈ اور نیگٹو سوچ کسی کی نہیں دیکھی… وہ تم سے منسوب ہے۔ بچپن سے تمہارے علاوہ اس نے زندگی میں کسی کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔ ‘‘
توشی نے اپنی Tone(لہجہ) بدلی: ’’کیوں اپنے آپ کو نفرت میں جلا رہی ہو۔‘‘
وہ نوشی کے پاس آکر بیٹھ گئی اور محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ’’میں بہن ہوں تمہاری… اچھا ہی چاہوں گی تمہارے لیے ‘‘
’’تمہارا مشورہ مانگا ہے؟ ایک نمبر کی ڈفر ہو تم۔‘‘ نوشی نے اپنے شانے اچکاتے ہوئے اس کی ہمدردی واپس کر دی۔
’’جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘ نوشی نے حکمیہ انداز میں کہا جو اب کھڑی ہو چکی تھی اور جانے کے لیے تیار تھی۔
توشی اپنی جگہ سے اٹھی اور نوشی کے بالکل سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ اس نے بغیر تمہید باندھے ترش لہجے میں دو ٹوک کہا:
’’میں آج تک یہ سمجھ نہیں پائی کیوں تم بلال سے نفرت کرتی ہو…؟‘‘
’’کس وجہ سے محبت کروں؟ ‘‘نوشی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
دونوں بہنوں میں جرح شروع ہو چکی تھی۔ توشی سرخ آنکھوں کے ساتھ بولی:
’’محبت بے وجہ ہوتی ہے مائی ڈیئر۔‘‘
’’نفرت کرنے کے لیے بھی وجہ ضروری نہیں ہوتی۔‘‘ نوشی نے جواب دیا۔
’’غلط بالکل غلط۔ محبت کرنا نیکی ہے اور بغیر وجہ کے نفرت گناہ۔‘‘ توشی یک لخت بولی۔
’’کیا محبت کرنے سے ثواب ملتا ہے؟‘‘ نوشی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں اگر وہ حرص و ہوس سے پاک ہو۔‘‘ توشی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اس کی سنگت میں ملنگنی مت بن جانا۔‘‘ نوشی نے اس کے رخساروں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اور توشی کی پیشانی چوم لی۔
’’میں جا رہی ہوں۔ تیار ہو کر آ جاؤ… DJ اُلّو کا پٹھا سویا ہو گا ابھی تک۔‘‘ نوشی نے کمرے سے جاتے جاتے کہا۔
کچن میں SMS برتن دھو رہا تھا اور اس کے بالکل پیچھے دوسری طرف BG دودھ گرم کر رہی تھی۔ دونوں کی پشتیں ایک دوسرے کی طرف تھیں۔ سنک کے سامنے کھڑا SMS اچانک بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ بولا۔
’’باجی…!تمہیں پتا ہے؟ بلال بھائی اس گھر کا کھانا نہیں کھاتے۔ ‘‘
’’شاہد، مجھے تو یہ بھی پتا ہے کب سے نہیں کھاتا۔‘‘ BG ساس پین میں دودھ ہلاتے ہوئے بولی۔
’’میں شعیب صاحب کے کمرے میں فروٹ دینے گیا تو چھوٹی بیگم صاحبہ غصے سے بھری پڑی تھیں۔ انہیں پتا نہیں کیوں بلال بھائی پر اتنا غصہ آتا ہے …‘‘
SMS کپڑے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اظہارِ خیال کر رہا تھا ۔ وہ برتن دھو کر فارغ ہو چکا تھا۔
’’میں تو کبھی اس کے کمرے میں نہیں گئی کھاتا کیا ہے؟‘‘
BG دودھ مگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
’’اکثر تو وہ سینڈوچ بنا کر کھاتا ہے۔ ہفتہ میں ایک دفعہ پیاز گوشت پکاتا ہے ۔‘‘
SMS نے تفصیلی رپورٹ دی۔ ’’ سینڈوچ تو وہی کھا سکتا ہے مگر پیاز گوشت کی کیا بات ہے۔‘‘
SMS کے منہ میں پانی آ گیا جیسے لذیذ کھانا یاد کر رہا ہو۔
’’ہیلو BG، ہائے SMS‘‘۔ DJفاتحانہ انداز میں کچن کے اندر داخل ہوا۔
’’لو ان کی کمی تھی۔ ‘‘ BG بڑبڑائی
’’چمچہ کہیں کا …میں دودھ دینے جا رہی ہوں۔ اس مسٹنڈے کو ناشتا دے کر تتر بتر مت ہو جانا ساری صفائی کر کے جانا۔‘‘
BG جاتے ہوئے تمام احکام سنا کر گئی۔ وہ روزانہ ناشتا کے بعد بڑی بیگم صاحبہ کے لیے ایک مگ دودھ لے کر جاتی تھی ۔
’’کیا کھاؤ گے؟ ‘‘
SMS نے پوچھا۔ BG کے جانے کے بعد کچن پر اب اس کی حکومت تھی۔
’’پیاز گوشت۔‘‘
DJ نے اُسی انداز میں جواب دیا ۔ دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
’’پیاز گوشت کے بچے چپ کرو۔ ‘‘ SMS دونوں ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر بولا۔ ’’
بیگم صاحبہ آ گئیں تو ہمارا قیمہ بنادیں گی۔ ویسے بھی آج ان کا موڈ خراب ہے۔ ‘‘
’’وہ کیوں؟ ‘‘
DJ نے سرگوشی کے انداز میں سوال کیا۔ ’’
کہیں بلال بھائی تو گھر نہیں آئے تھے؟ ‘‘ اور خود ہی جواب بھی دے دیا۔
’’بیگم صاحبہ تو نہیں مگر… نوشی میڈم کو تو… سمجھا سکتے ہو۔‘‘
SMS نے ناشتا اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’توبہ توبہ بھائی میرے… میں مرمت کروا کر ہی آ رہا ہوں۔ ‘‘
DJ نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
توشی اپنی دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی اور دادی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھیں۔
’’بیٹا وقت کیا ہوا ہے؟ ‘‘ دادی نے پوچھا۔
’’گیارہ بجنے والے ہیں۔ ‘‘ توشی نے بند آنکھوں کے ساتھ غنودگی میں جواب دیا۔
’’کیا تم آج اپنی دکان پر نہیں جاؤ گی؟‘‘ دادی نے سوال کیا۔
’’دادی آپ کو کتنی بار بتایا ہے دکان نہیں ہے بوتیک ہے بوتیک۔‘‘
’’اچھا …اچھا وہی جو تم کہہ رہی ہو بوتیک۔‘‘ دادی نے جان چھڑائی۔
’’آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘ توشی نے دھیرے سے جواب دیا۔
’’پھر لڑائی ہو گئی تم دونوں کی۔ کتنی دفعہ لڑتی ہو دن میں۔‘‘ دادی توشی کے چہرے کی طرف دیکھ کر خود سے بولیں۔’’
ایک دوسری پر جان بھی تو دیتی ہو، تمہیں منانے کے لیے ابھی آ جائے گی۔ ‘‘ دروازے پر دستک ہوئی۔
’’لو آ گئی۔ ‘‘دادی یکایک بول اٹھی
’’اِسے کہیے گا، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘
’’توبہ توبہ میں جھوٹ نہیں بول سکتی۔ ‘‘ دادی نے فوراً کہا ۔
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ۔
’’آجاؤ بھئی آ جاؤ۔ ‘‘دادی نے آواز دی
’’یہ تو اپنی غفوراں بی بی ہے۔ ‘‘
’’دودھ، بیگم صاحبہ۔‘‘ غفوراں  نے کہا جو دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے کھڑی تھی ۔
’’بیٹھ جاؤ غفوراں۔ ‘‘غفوراں قالین پر نیچے بیٹھنے لگی۔
’’اوپر بیٹھو غفوراں کرسی پر نیچے مت بیٹھا کرو۔‘‘
’’وہ جی آپ کا ادب لحاظ کرتی ہوں، اس لیے۔ ‘‘ غفوراں نے صفائی دی ۔
’’غفوراں ادب لحاظ دل سے ہوتا ہے۔ نیچے بیٹھنے سے نہیں۔‘‘
’’جی توشی بی بی تو سو گئی ہے۔ ‘‘ غفوراں نے بات بدلی۔ دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ ’’آ جائیں جی آ جائیں۔‘‘ غفوراں نے بیگم صاحبہ کی طرف سے صدا لگا دی۔ نوشی پائوں پٹختے ہوئے اندر داخل ہوئی اور چنگھاڑ کر بولی :
’’دادو یہ میرے ہاتھ سے قتل ہو جائے گی۔ اب تک تیار نہیں ہوئی ۔ ‘‘
’’یہ لو… قتل کرو گی تو جیل جانا پڑے گا۔ ‘‘ توشی بند آنکھوں کے ساتھ معصومیت سے بولی۔
’’بیٹا کیوں لڑتی رہتی ہو۔ ‘‘ دادی بول پڑیں بیچ بچاؤ کے لیے۔
’’دادو میری واقعی طبیعت خراب ہے، میں نہیں جا سکتی آج۔ ‘‘ توشی نے دوٹوک فیصلہ سنا دیا۔
’’نوشی بیٹا تم جاؤ۔ ‘‘
دادی نے کہا اور کلائی پکڑ کر نوشی کا دایاں ہاتھ چوم لیا۔
’’دادو بہت ڈھیٹ اور کام چور ہے۔ ‘‘ نوشی نے شکایت لگائی اور مسکراتے ہوئے چلی گئی۔
’’دروازہ بند کر کے جانا دادو کو سردی لگ جاتی ہے۔ ‘‘ توشی نے حکمیہ انداز میں کہا۔
غفوراں کرسی پر بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ اچانک بول اٹھی جیسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’بیگم صاحبہ مجھے اجازت دیں، ورنہ وہ کام چور سجے کھبے ہو جائے گا۔ ‘‘
توشی نے بند آنکھوں سے آواز دی : ’’BG‘‘
’’جی پتا ہے دروازہ بند کرنا ہے۔ ‘‘ BG نے جاتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی۔
’’چلو اب اٹھ جاؤ سب چلے گئے۔ ‘‘دادی نے حکم دیا۔
’’نہیں دادو مجھے نیند آ رہی ہے۔ ‘‘ توشی نے بند آنکھوں سے ہی جواب دیا۔
’’بیٹا مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ ‘‘ توشی کے گالوں پر پیار کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ توشی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اپنے بالوں کو کیچر سے کس کے باندھا اور اپنے گھٹنوں پر تکیہ رکھا۔
’’جی دادو فرمائیے۔‘‘ دادی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی ۔
’’بیٹا یہ کام وام چھوڑو اور شادی کر لو۔ ‘‘دادی نے اس کے دائیں گال پر ہاتھ پھیر کر کہا۔ توشی یک لخت چنچل انداز میں بولی :
’’اُو شادی …مگر وہ کم بخت…مانے تو…‘‘
’’بات ٹالنے کی کوشش مت کرو۔ تم دونوں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دو دو فیکٹریاں ہیں۔ تم دونوں کے پاس اپنا بہت کچھ ہے اگر ماہانہ کرایہ بھی لو تو وہ لاکھوں میں ہے۔ باپ تمھارے نے اپنی زندگی میں تم لوگوں کا حصہ تقسیم کر دیا ہے۔ ‘‘
دادی نے اپنی بات تفصیل سے بیان کر دی ۔
’’وہ مانے تو۔ ‘‘دادی نے جیسے سنا ہی نہیں۔
’’شادی مگر کس سے کوئی لڑکا بھی تو ہو۔ ‘‘ توشی نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے الفاظ بدل کر کہا۔
’’ویسے ایک لڑکا ہے اگر آپ بات کریں تو وہ مان جائے گا ‘‘
’’وہ کون…؟‘‘ دادی نے حیرت سے پوچھا ۔
توشی کھل کھلا کر ہنس پڑی اور اپنا سر تکیہ سے لگادیا جو دادی کے بالکل سامنے تھا۔ دادی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا پھر شگفتگی سے بولیں :
’’بیٹا وہ تمہاری بہن سے منسوب ہے۔ وہ بھی بچپن سے تمہاری پھوپھو اور تمہارے باپ نے یہ رشتہ جوڑا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں ہے۔ ‘‘ دادی نے سمجھانے کی کوشش کی۔ توشی گردن اٹھا کر دادی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ رنجیدگی سے بولی:
’’مگر نوشی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور اُسے پسند بھی نہیں کرتی۔ رہا میرا سوال تو میں اسے پسند بھی کرتی ہوں اور محبت بھی۔ ‘‘
’’دیکھو بیٹا، شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو اور وہ نوشی سے محبت کرتا ہے اور وہ اس کی ماں کی پسند بھی ہے۔ ‘‘
’’پھوپھو نے مجھے کیوں نہیں پسند کیا۔ ‘‘ توشی نے معصومیت سے پوچھا۔
’’دادو…! بلال کو تو مجھ سے شادی کرنی چاہیے کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ ‘‘
’’نہیں بیٹا، تم اس کو صرف پسند کرتی ہو۔ اس کی اچھائیوں کی وجہ سے اس کی خودداری کی وجہ سے اس کے اخلاق کی وجہ سے اور بس …‘‘
’’اور بس…دادو…اور بس…‘‘ وہ بھری ہوئی آواز سے بولی جیسے اور بس اس کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہو۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ جیسے اور بس اس پر زبردستی مسلط کیا گیا ہو۔
’’بیٹا مجھے غلط مت سمجھو مگر یہ حقیقت ہے۔ تجربہ دنیا کی کسی درسگاہ سے نہیں ملتا۔ یہ عمر گزار کر ہی آتا ہے۔ یہ 82 سال پرانی آنکھوں کا تجربہ ہے۔ میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے بے پناہ محبت… ‘‘
دادی نے توشی کو بازو سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ توشی کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔

(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles