عاشق
الیگزنڈرنیل /اے خیام
ایلس کی چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں اور میں ہول رہا تھا کہ وہ چلی گئی تو دفتر کا کام تو ٹھپ ہو کر رہ جائے گا یا کم از کم میں تو بالکل مفلوج ہو کر رہ جاؤں گا۔ کسی سے رابطہ کرنا ہوتا، کوئی کارروائی کرنی ہوتی، کہیں جانا ہوتا، کوئی مسئلہ درپیش ہوتا کوئی گفت و شنید کرنی ہوتی، ایلس کی موجودگی ضروری تھی اور اکثر مسئلہ یوں چٹکی بجاتے حل ہوتا کہ میں حیرت زدہ رہ جاتا۔
کسی یورپی ملک میں میری تعیناتی کا یہ پہلا موقع تھا اور میرے پیش رو نے دفتر میرے حوالے کرتے ہوئے ایلس کو خصوصی طور پر میرے چارج میں دیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ ایلس کی مدت ملازمت اس دفتر میں دو سال ہو چکی اور تیسرے سال کے معاہدے کی تجدید کی تاریخ آنے والی ہے۔
اگر میں چاہوں تو معاہدے کی تجدید کر دوں ورنہ اسے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ مجھے ہی کسی بہتر متبادل کی تعیناتی کے لیے تگ و دو کرنی پڑے گی اور عین ممکن ہے کہ ایلس سے بہتر کارکن کی دستیابی نہ ہو سکے۔
اس نے ایلس کی تعریف کے پل باندھ دیے تھے کہ دفتری کام کی مہارت کے علاوہ نجی حالات میں بھی بے حد معاون ہو گی اور قدم قدم پر راہنمائی بھی کرے گی کیونکہ مستقل رہائش کے سلسلے میں یہاں ابتدا میں کاغذی کارروائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انسان بوکھلا کر رہ جاتا ہے۔
میں یوں بھی یہاں اجنبی تھا اور مجھے قدم قدم پر راہنمائی کی ضرورت تھی۔ اس لیے ایلس کی ملازمت کی مدت میں، توسیع کر دی اور یہ عمل میرے لیے بڑا فائدہ مند ثابت ہوا۔ یہاں ملازمت کے اوقات کار کی بڑی سختی سے پابندی کی جاتی تھی لیکن ایلس کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔
اوقات کار کے دوران ایسا لگتا کہ اسے دفتری معاملات کے علاوہ کسی دوسری چیز سے قطعی دلچسپی نہیں۔ اوقات کار کے بعد، جب دوسرے ملازمین ہاتھ جھاڑ کر ’’سی یو ٹو مارو‘‘ کہتے ہوئے دفتر سے نکل جاتے تو وہ میرے کمرے میں آ جاتی اور پھر دفتری معاملات کے علاوہ بھی بے شمار موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ میرے تمام معاملات اس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے تھے اور مسئلے تیز رفتاری سے حل ہوتے جا رہے تھے۔
کچھ ہی دنوں میں ہم بے تکلف ہو گئے۔ اس کا زیادہ تر وقت میرے ساتھ گزرتا، اوقات کار کے علاوہ کام کرنے کی اُجرت اس نے کبھی طلب نہیں کی۔ میں جب تک دفتر میں بیٹھتا وہ میرے اردگرد موجود رہتی۔ دفتر کے بعد ایسا لگتا کہ وہ مزید میرا ساتھ دینے کے لیے میری دعوت کی منتظر ہے اور یوں دفتر کے بعد کے اوقات میں بھی ہم دونوں کا ساتھ رہتا۔
ایلس کی بس ایک شرط تھی کہ اس کے ویک اینڈ کی مصروفیت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اپنا ویک اینڈ وہ اپنے طور پر گزارتی تھی اور کبھی کبھی میرے ساتھ بھی۔
میرے ساتھ نہ ہونے کی صورت میں اگلے روز مزے لے لے کر اپنے گزارے گئے اوقات کی رُوداد سناتی اور پھر اگلے ویک اینڈ کی منصوبہ بندی شروع ہو جاتی۔
اس کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی ماں سے بے حد پیار کرتی ہے کیونکہ گھوم پھر کر اس کی گفتگو کا رخ ماں کی طرف مڑ جاتا۔ اس نے اپنی ماں کا ذکر تھوڑے ہی دنوں میں اتنی بار کیا کہ میرے ذہن میں اس کی ماں کی طبیعت، مزاج، عادات و اطوار سب واضح ہو گئے، لیکن اس کے خدوخال پھر بھی واضح نہیں ہو رہے تھے۔ ایلس کی عمر بتیس سال تھی۔
اس طرح ماں کی عمر پچاس پچپن کے درمیان تو یقیناً ہی ہوگی لیکن ایلس نے مزاج اور اطوار کے متعلق جو کچھ بتایا تھا اس کی روشنی میں عمر کا صحیح تعین نہیں ہو پایا۔ ایلس کے مطابق اس کی ماں نے ایک کے بعد ایک کئی شادیاں کی تھیں۔
وہ خود اپنی ماں کے چوتھے شوہر کی بیٹی تھی اور جب کبھی وہ یوں گویا ہوتی
میرے ایک باپ نے کل مجھے کھانے پر بلایا ہے یا میرا ایک باپ کل ملا تھا۔ اس نے بتایا کہ تو میری ہنسی چھوٹ جاتی اور وہ خود بھی کھلکھلا کر ہنس پڑتی۔ اسے ہماری روایتوں کا بھی علم تھا، میرے پیش رو کے ساتھ وہ دو سال سے زیادہ کام کر چکی تھی اور اس سے بے تکلف بھی تھی۔
ان دنوں اس کی ماں اسپین میں اپنے پارٹنر کے ساتھ مقیم تھی۔ ایلس کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے شادی بھی کر لی یا نہیں۔ کبھی کبھی اپنی ماں کے ساتھ یا اس کے غیاب میں وہ اپنی ماں کے گھر ہی رہائش پزیر ہو جاتی۔
اس طرح مکان کی دیکھ بھال ہو جاتی اور اپنے مکان کے کرایے کی ادائی سے بھی بچ جاتی۔ یوں اس کا ویک اینڈ زیادہ خوشگوار ہو جاتا یا چھٹیاں گزارنے کے لیے اچھی رقم پس انداز ہو جاتی۔
ایلس مجھ سے بار بار کہتی کہ وہ مجھے اپنی ماں سے ضرور ملوائے گی۔ تقریباً چار مہینے کے قیام کے بعد اس کی ماں اسپین سے واپس آ گئی… تنہا۔
اس نے وقت مقرر کر کے مجھے اپنی ماں سے ملوایا اور میں حیرت زدہ رہ گیا۔
بظاہر وہ چالیس سال کے پیٹے میں لگتی تھی۔
گفتگو بے محابانہ اور بے تکلفانہ کرتی، دلچسپی سے بھرپور…چند لمحوں میں وہ مدمقابل کی مزاج شناس بن جاتی اور پھر اسی کے مزاج کے مطابق باتیں کرنے لگتی۔ اس کی یہ خصوصیت ایلس نے بھی بتائی تھی۔
’’میں لیزا ہوں… اس بدقسمت ایلس کی ماں جس نے اب تک ایک شادی بھی نہیں کی۔
اس نے ایک کھنکھناتا ہوا قہقہہ لگایا۔ اس کی آواز بھی خدوخال کی طرح جاندار تھی۔ بڑی پراعتماد اور بیک وقت پروقار اور شوخ…
پہلی ملاقات میں گفتگو کا مرکز زیادہ تر ایلس ہی رہی۔
’’یہ شادی سے خوفزدہ ہے حالانکہ اسے مجھ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔‘‘ وہ ہنس کر بولی تھی۔
بھئی یہ تو ایک معاہدہ ہے، ملازمت کی طرح… ایک مخصوص مدت کے لیے بھی کی جا سکتی ہے، مدت کی تجدید بھی ہو سکتی ہے یا کچھ جرمانہ ادا کرکے معاہدے کو توڑا بھی جا سکتا ہے۔ ایلس کی خوفزدگی میرے لیے ناقابل فہم ہے۔‘‘
لیزا بڑی دلچسپ عورت تھی۔ گفتگو بڑے سلیقے سے کرتی، الفاظ کی موزویت کا بے حد خیال رکھتی اور الفاظ کی ادائی اس طرح کرتی جیسے وہ ان الفاظ کی معنویت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ایلس نے بتایا تھا کہ ان سب باتوں کے باوجود وہ بہت متلون مزاج بھی ہے…
غیر مستقل مزاج اورتنک مزاج۔ دوستی قائم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی لیکن کوئی بات مزاج کے خلاف ہو جائے اور اس کے ذہن میں یہ سما جائے کہ دوستی تادیر قائم نہیں رہ سکتی تو وہ بڑے سلیقے سے فضا کو ناخوشگوار بنائے بغیر آہستگی سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے۔
جب وہ تنہا ہو تو سال میں ایک مرتبہ اپنے تمام ہم وطنوں کی طرح ملک سے باہر کسی گرم سمندر کے ساحل پر اپنی چھٹیاں گزارنے ضرور جاتی ہے لیکن دوسری مرتبہ وہ کسی اور مقام کا تعین کرتی ہے۔ وہ بڑے فخر سے بتاتی تھی
’’میں نے جب سے ہوش سنبھالا، مجھے یاد نہیں کہ اپنی چھٹیاں گزارنے میں کسی ایک مقام پر دوبارہ گئی ہوں۔ ہر بار نئی جگہ، نئی دلچسپیاں، نئی فضا، نیا ماحول، نئے لوگ۔‘‘
اس لفظ ’’نئے لوگ‘‘ کو وہ بار بار دہراتی اور کھنکھناتا ہوا قہقہہ لگاتی اور میں نظریں جھکا لیتا تو ایلس بھی ہنس پڑتی۔
’’کوئی بات نہیں…تم میرے لیے ’’نئے لوگ ‘‘نہیں ہو سکتے۔ تم ایلس کے دوست ہو۔‘‘
پھر وہ ایلس کو مخاطب کر کے کہتی۔
’’ایلس اسے سنبھال کر رکھو ورنہ میں اسے اغوا کر لوں گی۔ یہ زیادہ مضبوط شخص نہیں۔‘‘ پھر ماں بیٹی میں خوشگوار نوک جھونک شروع ہو جاتی، دو بے تکلف سہیلیوں کی طرح…
ان دونوں کی نوک جھونک چونکہ میرے حوالے سے ہوتی اس لیے میری دلچسپی برقرار رہتی۔
لیزا بہت مصروف ہو گئی تھی اسی لیے میری ملاقات کم ہی ہوتی۔ اس کی چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں، لہٰذا اس نے اپنے اوقات کار بڑھا لیے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم پس انداز کر سکے۔
اس بار لیزا نے آبنائے باسفورس کا انتخاب کیا تھا، وہاں کے ساحل اور کشتی رانی وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کی تھیں۔ اس کا ارادہ تھا کہ پوری چھٹیاں کرایے پر حاصل کی گئی کشتی میں گزارے۔
لیزا اپنی چھٹیاں گزارنے چلی گئی تو ایلس پھر اس کے گھر منتقل ہوگئی۔ ایلس کے شب و روز ویسے ہی تھے۔ اوقات کار کے بعد میرے ساتھ وقت گزارنا، ڈنر کرنا اور پھر اپنے گھر چلے جانا۔ ویک اینڈ پر وہ اپنے انداز سےلطف اُٹھاتی۔
لیزا واپس آئی تو ایلس کو گفتگو کا نیا موضوع مل گیا۔ لیزا اپنے تجربات ایلس کو بڑی تفصیل سے سناتی اور ایلس مجھے منتقل کر دیتی۔
’’یہ میرے لیے بھی نیا تجربہ ہے۔‘‘ ایلس نے بتایا۔ ’’ماما کہتی ہے کہ اگلی چھٹیاں میں وہ پھر آبنائے باسفورس کا ہی انتخاب کرے گی۔ وہ بہت خوش ہے۔ ماما کہتی ہیں کہ اس بار اس کا تجربہ بالکل مختلف ہے اور یہ کہ اس نے اب تک اپنا وقت برباد کیا۔
اس جگہ کا انتخاب اس نے پہلی بار کیوں کیا، وہ جگہ تو بار بار جانے کی ہے۔ اس نے مجھ سے بھی کہا کہ میں چھٹیوں میں وہاں جائوں… جگہ نسبتاً کم خرچ بھی ہے اور … اور…‘‘
ایلس ہنس ہنس کر لیزا کے تجربات بیان کرتی اور اس نے وہیں جانے کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ کرلیا۔ میرے اصرار پر اس نے اپنی چھٹیوں کی مدت بیس دن سے کم کرکے پندرہ دن کر دی۔ یہ پندرہ دن گزارنا بھی میرے لیے مشکل ہو گیا۔
میں دفتر اور باہر بھی اس کا عادی ہو چکا تھا۔ کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں بوکھلا جاتا کہ ایلس کی غیر موجودگی میں اس سے کس طرح نبٹا جا سکے گا۔ زیادہ تر کام ملتوی کر دیے کہ کسی طرح پندرہ دن کی مدت ختم ہو اور ایلس واپس آ جائے۔ پھر ملتوی شدہ کام کو انجام دے دیا جائے۔
وہ واپس آئی تو مجھے اس میں کچھ تبدیلی محسوس ہوئی۔ میں نے اس سے چھٹیوں میں گزارے گئے اوقات کے بارے میں پوچھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ سی پھیل گئی۔ میرے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے وہ گم سی ہو جاتی اور مجھے اس کو جھنجھوڑنا پڑتا۔
’’بھئی مجھے بتائو کہ آبنائے باسفورس میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ لیزا بھی وہاں کی دیوانی ہو بیٹھی اور تم بھی واپس آئی ہو تو مجھے لگتا ہے کہ تم اسی جگہ کی اسیر ہو کر رہ گئی ہو۔‘‘
’’آبنائے باسفورس میں کچھ نہیں ہے۔‘‘ وہ کھوئے ہوئے لہجے میں کہتی۔
ایسے موقع پر وہ خاموش ہو جاتی۔ میں بولتا تو ایسا لگتا کہ میری آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی۔
پھر یوں ہوا کہ دفتر میں ٹیلی فون پر اس کی گفتگو طویل ہونے لگی۔
وہ دبی ہوئی آواز میں گفتگو کرتی۔ ٹھہر ٹھہر کر، جیسے کسی ناواقف زبان میں گفتگو کر رہی ہو۔ میرے ساتھ بھی اس کا وقت کم گزرنے لگا۔ میں اسے چھیڑنے کی کوشش کرتا۔
’’کیا تمہیں محبت ہو گئی ہے؟‘‘
’’یہ لفظ مجھے اجنبی سا لگتا ہے۔‘‘ وہ کہتی لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے سوال میں اسے لذت سی محسوس ہوتی ہے۔
کئی بار اس کی کال میں نے ریسیو کی۔ دور سے آتی ہوئی آواز کا لہجہ مجھے اجنبی سا لگا۔ ایلس کو کال منتقل کی تو بات واضح ہو گئی۔ وہ اس سے دیر تک باتیں کرتی رہی۔
باتیں کرتے ہوئے ایسا لگتا جیسے وہ کسی سحر میں گرفتار ہے۔ میں اپنے کمرے کے شیشے سے ایلس کی طرف دیکھتا تو اس کی آواز مزید دب جاتی اور وہ کچھ جھینپ سی جاتی۔
’’کون ہے وہ؟‘‘ ایک دن میں نے پوچھ لیا۔
وہ کچھ ہچکچائی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اس موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتی۔ میں نے جواب کے لیے اصرار نہیں کیا۔
اس کا ویک اینڈ گھر پر گزرتا یا پھر میرے ساتھ۔ اس کی دلچسپیوں کی حدود سمٹتی جا رہی تھیں۔ وہ لیزا کو بھی گفتگو میں کم ہی موضوع بناتی۔ میں نے اس کے انداز میں بیزاری کی سی کیفیت محسوس کی اور اس کی معیت میں مجھے بھی دلچسپی کا عنصر کم سے کم ہوتا محسوس ہونے لگا تھا۔
ایلس اگر تم چاہو تو مجھے اپنا رازدار بنا سکتی ہو…ایک دوست کی حیثیت سے…میرا قیام تو مزید ایک دو سال اور ہے پھر میں چلا جاؤں گا، تمہیں بلیک میلنگ کا کوئی خطرہ نہیں… ایک دن میں نے اُسے کہا۔
بلیک میلنگ…‘‘ وہ ہنسنے لگی۔
مجھ میں بلیک میلنگ کے لیے کیا رکھا ہے۔ میں تو بالکل واضح ہوں۔ پوشیدہ رکھنے کے لیے تو کچھ بھی نہیں۔
بات یہیں ختم ہو گئی۔ اس نے کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ دوبارہ اس میں وہی طراری اور شوخی واپس آ رہی ہے۔ دفتر کے کام پوری انہماک سے کرتی۔ دفتر کے بعد میرے ساتھ زیادہ وقت گزارتی۔
کل ماما جا رہی ہے…اپنی چھٹیاں گزارنے… وہیں… دوبارہ…
ایک دن اس نے کہا۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ اس کی چھٹیاں پھر آ پہنچیں۔ پندرہ بیس دن اس کے بغیر کام کرنا کتنا دشوار ہوگا۔ کب تک کام ملتوی کرنا پڑے گا اور مجھے اپنے آپ پر غصہ بھی آنے لگا کہ میں گویا اس کا محتاج ہو کر رہ گیا ہوں۔
ان دنوں اس کے ٹیلی فون بھی کم آنے لگے لیکن مجھے اس میں کسی بے چینی یا اداسی کا شائبہ نظر نہ آیا، شاید یہ اس لیے ہو کہ وہ خود چند دنوں بعد چھٹیاں گزارنے جانے رہی تھی۔
اب رُوبرو ملاقات کی سبیل نکلنے والی تھی۔
وہ بیس دنوں سے کم چھٹی پر آمادہ نہیں ہوئی۔ لیزا چھٹیاں گزار کر واپس آئی تو ایلس چلی گئی۔ کام اسی طرح ملتوی ہوتا رہا لیکن واپس آ کر اس نے ملتوی شدہ کام تیزی سے نبٹا دیے۔
دفتر اوقات کے بعد ہم اکٹھے ہوتے تو وہ ہنستی زیادہ اور باتیں کم کرتی۔ چہرہ تمتمایا رہتا لیکن کچھ خوف زدہ بھی رہنے لگی تھی۔ میں نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تو کہنے لگی
’’وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ شادی ہی تو کرنا چاہتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے۔‘‘
’’نہیں، پتا نہیں کیوں، مجھے ڈر سا لگتا ہے۔‘‘
’’آخر کیوں؟ کیسا ڈر؟ مرد تمہارے لیے اجنبی تو نہیں۔‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری بات اسے ناخوشگوار بھی نہیں لگی۔
’’لیزا کی چھٹیاں کیسی گزریں؟ تم نے بتایا نہیں۔‘‘ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
’’اچھی گزریں لیکن اس نے تیسری بار وہاں جانے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔‘‘ وہ ہنسی لیکن اس کی آواز بڑی بے جان تھی۔
’’تمہارا تیسری بار جانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
وہ کچھ سوچنے لگی۔ پھر میری طرف جھک کر آہستہ سے بولی:
’’وہ یہاں آنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں بھی اس سے مل لوں گا۔ اس کے قریب رہ کر تم اس سے شادی کا فیصلہ بھی کر سکو گی۔‘‘
’’نہیں، میں شادی نہیں کروں گی۔‘‘ اس نے مضبوطی سے کہا۔
’’اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اسے اس فیصلے سے آگاہ کر دو۔‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا:
’’میں یہ بھی نہیں کر سکتی۔‘‘
’’کیوں، کیا وہ ناراض ہو جائے گا۔‘‘
’’نہیں… وہ مجھے قتل کر دے گا۔‘‘
میں سناٹے میں آگیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، وہ کہیں اور دیکھ رہی تھی۔
دفتر میں تقریباً روزانہ اس کی کال آتی۔ ایلس کوشش کرتی کہ ٹیلی فون کوئی اور اٹھا لے اور پھر اشارے سے کہتی کہ وہ یہاں موجود نہیں۔
ایک دن ٹیلی فون میں نے اُٹھا لیا۔ آواز آئی۔ ’’یہ میں ہوں۔‘‘
میں نے غور کیا، یہ اسی کی آواز تھی۔ ایلس میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے باتوں میں الجھانا چاہا۔
’’میں جانتا ہوں ایلس موجود ہے لیکن وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟‘‘
’’میں تو تمہارا نام بھی نہیں جانتا دوست۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں جودت ہوں۔ اب آپ نے دوست کہا ہے تو میری مدد بھی ضرور کریں گے۔‘‘
میں نے ایلس کو اشارہ کیا۔ اس نے جھجکتے ہوئے کال لے لی۔
میں ایلس کے چہرے کے آتے جاتے رنگ دیکھتا رہا۔
ڈنر پر اس نے بتایا کہ جودت آنے والا ہے۔
’’تم پر آخر اتنی گھبراہٹ کیوں طاری ہے؟ وہ تمہیں کھا جائے گا کیا۔‘‘ میں نے جھلا کر کہا۔
وہ شادی کے لیے بضد ہے۔ کہتا ہے اگر میں راضی نہ ہوئی تو وہ مجھے قتل کر دے گا اور خود کو بھی مار ڈالے گا۔
’’اسے آنے دو۔ میں اسے سمجھاؤں گا۔‘‘ کچھ دیر خاموشی رہی۔
’’لیزا سے تم نے ذکر کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ماما میری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ وہ بس ہنستی اور کہتی ہے میں اپنے عاشق کا دو سال سے پیچھا کر رہی ہوں اور وہ دامن بچا کر نکل جاتا ہے۔ تمہارا عاشق تو پیچھا کرتا ہوا یہاں تک آ پہنچا۔ تم خوش قسمت ہو۔ ماما بالکل سنجیدہ نہیں ہوتی۔‘‘
آخر وہ دن بھی آ پہنچا۔ میں ایلس کے ساتھ اسے لینے پہنچا۔ ایلس کے ساتھ ہی اسے ٹھہرنا تھا۔ لیزا نے ایلس کو اسے اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور بولا
’’دوست!‘‘
تعارف کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اس کے پاس صرف ایک بیگ تھا جو اس کے کاندھے سے جھول رہا تھا۔ ایلس کچھ جھینپی جھینپی سی تھی یا خوف زدہ، مجھے صحیح اندازہ نہ ہو سکا۔
گاڑی میں جودت میرے ساتھ ہی بیٹھا اور ایلس پیچھے کی نشست پر بیٹھی۔ میں موسم کی باتیں کرتا رہا۔ جودت بار بار پیچھے مڑ کر ایلس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایلس کا گھر آ گیا۔
ایلس کے پاس گھر کی چابی تو ہوتی تھی لیکن اس وقت شاید نہیں تھی۔ اس نے اطلاعی گھنٹی پر ہاتھ رکھا۔ میں اور جودت گاڑی سے اُتر کر اس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں بعد قدموں کی آواز سنائی دی۔ دروازہ کھولنے والی لیزا تھی۔
لیزا کے چہرے کی رونق اچانک جیسے غائب ہو گئی۔ وہ حیرت زدہ سی جودت اور ایلس کو باری باری دیکھتی رہی۔
’’جودت…یہ تم… یہ تم ہو…‘‘ لیزا کی آواز بڑی مشکل سے نکلی۔
’’ماما…یہ…کیا یہ… یہی…‘‘ ایلس کی زبان بھی لڑکھڑائی۔
مجھے حیرت ہوئی کہ لیزا اسے کس طرح جانتی ہے؟ ایلس کا چہرہ سپاٹ تھا اور جودت مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر اچانک لیزا نے اپنا مخصوص کھنکھناتا ہوا قہقہہ لگایا اور ایلس اور جودت کی طرف اپنے ہاتھ بڑھا دیے۔
چند لمحوں میں مجھ پر بہت کچھ منکشف ہو گیا۔
ایلس بھی ہنس رہی تھی اور جودت بھی مسکرا رہا تھا۔ بس میں ہی احمقوں کی طرح منہ کھولے ان تینوں کو باری باری دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭