صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
اطاعت میں ڈھلنے والی عقیدت
17/01/2014
عید میلاد النبیؐ کی رات یوں لگتا تھا جیسے ستارے آسمان سے زمین پر اُتر آئے ہوں اور فرشتے
قطار اندر قطار عاشقانِ رسولؐ کا استقبال کر رہے ہوں۔
وطن کی فضائیں درودوسلام کی صداؤں سے مہک اُٹھی تھیں اور اہلِ کراچی نے تیرہ ہزار دیے
روشن کر کے عالمی ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔
یوں لگا جیسے پاکستان کے باشندے عشقِ رسولؐ کی لڑی میں پروئے جا چکے ہوں اور اخوت و محبت
کی ایک بڑی مضبوط زنجیر بن گئے ہوں۔
اِن روح پرور مناظر نے یہ پیغام دیا کہ مختلف نوع کے اختلافات کے باوجود عوام کو ایک دوسرے کے
ساتھ پیوست رکھنے والا
سب سے طاقت ور اور لازوال رشتہ محبوب خداؐ سے والہانہ عقیدت اور بے پایاں سرمستی و سرشاری کا ہے۔
شاعرِ مشرق حضرتِ اقبال آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کے بارے میں کامل شعور کے ساتھ پکار اُٹھے تھے ؎
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب
اِس کامل شعور کے بغیر دین کی اصل روح پوری طرح سمجھی نہیں جا سکتی جس میں حضرت محمد ﷺ کی اطاعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
مستشرقین اِس امر سے اچھی طرح واقف تھے کہ روحِ محمد ﷺ سے اسلامی تہذیب و تمدن میں
ایک ناقابلِ تسخیر قوت رواں دواں ہے
اِس لیے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے رسولؐ کے لیے جو وارفتگی اور فداکاری پائی جاتی ہے
اُسے کم یا ختم کرنا بہت ضروری ہے۔
اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے سرورِدوعالمؐ کی ایک ایسی تصویر پیش کرنے کی پے درپے جسارت کی
جو عقیدتوں اور محبتوں کے رشتے کمزور کرنے کا باعث بن سکتی تھی۔
آج بھی مغرب میں اِس عظیم ترین ہستی کے مضحکہ خیز خاکے شائع کیے جا رہے ہیں جن کے خلاف
عالمِ اسلام کے طول و عرض میں جو شدید ردِعمل سامنے آیا ٗ اُس سے اہلِ مغرب پر لرزہ طاری ہو گیا ہے۔
اُنہیں ایک بار پھر یہ تجربہ ہوا کہ مسلمان آنحضرتؐ کی ناموس پر اپنی جانیں نچھاور کرنے میں
فخر محسوس کرتے اور بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرانے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے بدن سے روحِ محمد ﷺ نکالنے کے لیے انگریزوں نے مرزا غلام احمد سے نبوت کا دعویٰ بھی کرایا
اور اُس کی جماعت کو پُرکشش مراعات سے بھی نوازا ٗ مگر مسلمانوں کے ضمیر نے اُسے ہر عہد میں
مسترد کیا
اور اُن کے اندر اپنے رسولؐ کے ساتھ عقیدت کے رشتے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتے گئے
اور جاں نثاری کے جذبے اُمڈے چلے آ رہے ہیں۔
اب اِن کیفیتوں اور جذبوں کو اطاعتِ رسولؐ میں ڈھلنا چاہیے کہ اِس کے بغیر اﷲ کی اطاعت کا
تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
اطاعتِ رسولؐ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے جو اخلاقی انقلاب برپا کیا اور جن اصولوں پر اسلامی ریاست قائم کی ٗ ریاست اور شہریوں کے مابین جو عمرانی معاہدہ استوار کیا
انسانی آزادی کے جو پیمانے مقرر کیے ٗ جنگ اور امن میں اقلیتوں ٗ عورتوں ٗ بچوں اور بوڑھوں کے جو حقوق طے کیے ٗ سفارت کاری کے جو بین الاقوامی قوانین وضع کیے ٗ تعلیم و تربیت کا جو نصاب تیار کیا
اور باہمی اعتماد ٗ باہمی اخوت اور احترامِ انسانیت کی جو بے نظیر مثالیں قائم کیں
وہ ہمارے فکروعمل میں رچی بسی اور ہمارے اجتماعی نظام کے اندر رواں دواں نظر آنی چاہئیں۔
پانچ لاکھ راوی اِس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ نے اپنے اخلاق اور کردار کی
طاقت سے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا
اور اپنی زندگی اِس قدر سادہ بسر کی کہ اِس کا معیار اسلامی ریاست کے ہر شہری سے کم تر تھا۔
غزوۂ خندق میں ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ بھوک سے مجاہدین کو اپنے پیٹوں پر ایک ایک پتھر
باندھنا پڑا تھا۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ اﷲ کے رسولؐ نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں۔
اِس مثال سے یہ اصول طے پایا کہ عوام سے قربانی کا مطالبہ کرنے سے پہلے لیڈر کو دوگنا ایثار کا ثبوت دینا ہو گا۔ اسلام کی فلاحی ریاست کی ضمانت دیتے ہوئے رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ
وہ شخص ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ گویا یہ اصول طے پایا کہ
مسلم معاشرے میں ہر شہری اپنے پڑوسی کا پورا پورا خیال رکھے گا اور ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے گا
جس میں حاجت مندوں کی کفالت کی پوری ضمانت ہو گی۔
حضرت محمد ﷺ جزیرہ نما عرب میں مبعوث ہوئے تھے جہاں قدم قدم پر قبائلی جھگڑے اور
قتل و غارت کے خونخوار مناظر دیکھنے میں آتے تھے۔
آپؐ نے انسانی باطن بیدار کر کے پورے معاشرے کو شیر و شکر کر دیا اور قرآن کی اِس تعلیم کو
عملی جامہ پہنادیا تھا کہ
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور معاشرے میں فتنہ و فساد قتل سے بھی زیادہ شدیدتر ہے۔
آپؐ نے امن کے لیے انسانی رشتے مضبوط کیے اور طاقت صرف اِس وقت استعمال کی
جب سرکشی حد سے بڑھنے لگی اور فسادیوں کی سرکوبی امنِ عامہ کے لیے ناگزیر ہو گئی تھی۔
اطاعتِ رسولؐ کا اوّلین تقاضا یہی ہے کہ اُن کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں ایک عادلانہ معاشی
اور معاشرتی نظام قائم کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے ٗقانون کے نفاذ میں کسی سے رورعایت
نہ برتی جائے
اور احتساب کا نہایت کڑا نظام روبہ عمل آتا دکھائی دے
مگر اِس سے پہلے تمام شہریوں کے لیے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ازبس ضروری ہے کہ
پیغمبر آخر الزماںؐ نے غربت کے خاتمے پر سب سے زیادہ زور دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ دیکھنا کہیں
فقر کفر کی طرف نہ لے جائے۔
اب دنیا میں سرمایہ داری اور فری مارکیٹ کا نظام ایک منطقی انجام تک پہنچنے والا ہے
اِس لیے ہمیں اخوت کے عالمی نظام کی ترویج اور اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے عزم اور
جذبے کے ساتھ منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔
آج اطاعتِ رسولؐ ہم سے متقاضی ہے کہ ملک میں امن قائم کرنے کے لیے فراستِ نبویؐ سے کام لیتے ہوئے
مذہب کے نام پر فساد پھیلانے والوں کو راہِ حق پر لانے کی کاوش بھی کی جائے اور ضرورت پڑنے پر
طاقت بھی استعمال کی جائے۔ پاکستان میں تیس چالیس ہزار کے لگ بھگ شہری اپنی زندگیوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور پولیس ٗ رینجرز اور فوج کے ہزاروں جوان فساد پر قابو پانے میں اپنی جانوں
کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ہنگو اسکول کے طالب علم اعتزاز حسن نے خودکش حملہ آور
کو اسکول کی عمارت میں داخل ہونے سے روکنے پر جامِ شہادت نوش کیا جبکہ پولیس کے اعلیٰ افسر
چودھری محمد اسلم نے فتنہ پرور عناصر کی سرکوبی میں اپنی جان خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اُن کی عظمت و کردار کو سب سے پہلے خراجِ تحسین پیش کیا
اور اپنا یہ عزم دہرایا کہ ہم دہشت گردی کا ناسور ختم کر کے دم لیں گے۔ سیاسی قیادت بھی
اِن خیالات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اِس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں نورِ محمدیؐ
کی روشنی میں اصل راستے پر آگے بڑھنا اور درودوسلام سے اپنی باطنی طاقت میں اضافہ کرنا ہوگا۔
آخر میں اپنی ایک نعت کے چند اشعار جو روضۂ اطہر پر حاضری دیتے ہوئے نازل ہوئے تھے ؎
وہی اک در ہے سجدۂ گاہ دل تو پوچھتا کیا ہے
وہیں چل کر کھلے گا زندگی کا مدعا کیا ہے
میں کب تک فلسفے کے جنگلوں میں ٹھوکریں کھاتا
مجھے یہ کون سمجھاتا خودی کیا ہے خدا کیا ہے
یہ اِس سرکارؐ کا دربار ہے جس کی حضوری میں
خرد نے خود نمود جانا جنوں کا مرتبہ کیا ہے
شبِ معراج سے عقدہ کھلا یہ چشمِ عالم پر
بشر کی ابتدا کیا ہے بشر کی انتہا کیا ہے
فقط تیرے غلاموں کو ہے اِس عظمت کا اندازہ
یہ پیوندِ قبا کیا ہے یہ شکستہ بوریا کیا ہے