صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
دلِ مضطرب کی آواز
23/08/2013
ہم جو چار افراد اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ہیجان انگیزی سے تنگ آ کر سکون کی خاطر جنگلوں کی طرف چل نکلے تھے
جناب وزیراعظم نوازشریف کا چودہ سال بعد قومی خطاب ٹی وی پر دیکھ نہ سکے ٗ چونکہ اِس وقت ہماری کار آزادکشمیر میں راولاکوٹ سے گزر کر
بن جوسہ ریسٹ ہاؤس کی طرف ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی اور
درختوں کی گھنی شاخوں سے چاندنی چھن چھن کر ہمارے وجود کو سرشار کیے دے رہی تھی۔
جمعرات کی رات ٹی وی پر اسکندر زمرد خاں کا جو ہولناک ڈراما پانچ گھنٹے دکھایا گیا تو دل بہت سوگوار ہوا
اور جوہرٹاؤن کے چند مکینوں نے حُسنِ فطرت سے لطف اندوز ہونے کے لیے نتھیاگلی جانے کا ارادہ کیا۔
چیئرمین واپڈا جناب راغب عباس شاہ نے کمالِ محبت سے ریسٹ ہاؤس میں دو کمرے مختص کرا دیے۔
شاہ صاحب کا تعلق سندھ سے ہے اور وہ آبی وسائل کو ترقی دینے کا بڑا تجربہ رکھتے ہیں اور
کئی سال واپڈا میں ممبر واٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔
میری اُن سے اُنہی دنوں ملاقات ہوئی تھی اور اِس وقت سے ایک تعلق چلا آ رہا ہے۔
ہم نے اگلے روز رختِ سفر باندھا اور موٹروے پر ہماری گاڑی فراٹے بھرنے لگی اور اِسی تیزرفتاری سے
میں نے سوچنا شروع کیا کہ جس نواز شریف کے ویژن نے موٹروے تخلیق کی ہے
وہ پاکستان کو نئی رفعتوں سے یقینا ہمکنار کر سکتا ہے۔ مجھے وہ دن یاد آئے جب ایک تنگ نظر
سیاسی طبقہ موٹروے کو پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دے رہا تھا اور میں
اُردو ڈائجسٹ میں اِس کی افادیت اور ہمارے مستقبل پر مرتب ہونے والے اثرات کی تصویر کشی کر رہا تھا۔
ہم تین گھنٹوں میں کلرکہار جا پہنچے۔
وہاں سے نیچے اُترے تو ایک نیلگوں جھیل نے ہمارا استقبال کیا اور کچھ آگے بڑھے تو ایک مزار دکھائی دیا جو ’’موروں والی سرکار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہاں حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے دو پوتے دفن ہیں جو مرہٹوں کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لشکر کے ہمرا بغداد سے آئے تھے۔ہم نے فاتحہ پڑھی اور پنجاب ٹورازم کے ریسٹ ہاؤس میں چائے پینے چلے آئے۔
یہ سفید رنگ کی عمارت درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ 27نومبر 1997ء کو جب
موٹروے کا افتتاح ہوا
تو اخبار نویسوں کی ایک ٹیم نے چند گھنٹوں کے لیے یہاں قیام کیا تھا جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔
اِس روز ہماری خوشیوں اور مسرتوں کی کوئی حد نہیں تھی کہ
ہمارے ملک میں پہلی موٹروے تعمیر ہوئی تھی جس کی نظیر پوری اسلامی دنیا میں نہیں ملتی
اور جس نے ہماری ترقی کا ایک عظیم سنگِ میل ثبت کر دیا تھا۔
وسطی پنجاب کے وہ علاقے جو بہت دورافتادہ تھے ٗ اب مین اسٹریم میں آ گئے تھے۔
اِسی ریسٹ ہاؤس کے عقب میں وہ تختِ بابری آج بھی موجود ہے جس پر کھڑے ہو کر حملہ آور بابر نے
اپنی فوج سے خطاب کیا تھا اور شراب نوشی کے تمام لوازم توڑ ڈالے تھے۔
پاکستان کے معروف قانون دان جناب جہانگیر اے جھوجھا ہماری قیادت کر رہے تھے ٗ
اُنہیں سیاحت کا بڑا شوق ہے۔ اُنہوں نے ہنزہ وادی کا ایک معنی خیز اور دلچسپ واقعہ سنایا کہ
میرا ایک دوست اکثر مجھے ہنزہ جانے کی ترغیب دیتا اور یہ کہتا کہ وہاں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں اور پھلوں سے ضیافت کرتے ہیں۔ ہم کچھ دوستوں نے وہاں جانے کا پروگرام بنا لیا اور ہنزہ پہنچ گئے۔
میں وہاں انتظار ہی کرتا رہا کہ لوگ پھلوں کے ٹوکرے لے کر آئیں گے۔ جب کئی گھنٹے گزر گئے تو میں نے
ایک مقامی لڑکے سے پوچھا کہ ہم نے سنا تھا کہ یہاں پھلوں کی بڑی بہتات ہے اور باہر سے آنے والوں کی بڑی تواضع کی جاتی ہے
تو اُس نے جواب میں کہا کہ اب یہاں سڑک آ گئی ہے اور ہم پھل منڈیوں میں بھیج دیتے ہیں۔ اِس سے ہماری معاشی حالت بہت اچھی ہو گئی ہے اور ہماری زراعت میں بھی ایک انقلاب آ گیا ہے۔
میں نے سوچا کہ جناب نواز شریف جو خنجراب سے گوادر تک شاہراہ کی تعمیر کرنے کے لیے جس
منصوبے کا گاہے گاہے تذکرہ کرتے ہیں
وہ صنعتی کے ساتھ ساتھ زرعی انقلاب بھی لائے گا اور اِس خطے میں ترقی اور خوشحالی کی نئی
نئی شاہراہیں کھولتا جائے گا۔
ہمارے جواں ہمت ساتھی خواجہ وسیم احمد کار ڈرائیو کر رہے تھے اور عزیزی انجینئر کامران مناظرِ
فطرت سے سرشار تھے۔
ہم نتھیا گلی کے علاوہ نیلم وادی سے بھی گزرے اور دھیر کوٹ کے گھنے اور شاداب جنگلوں میں بھی
مختلف مراحل سے گزرے ٗ ہمیں قدم قدم پر آبشاریں ٗ چشمے ٗ جھرنے اور بل کھاتے ہوئے راستے ملے۔
بار بار خیال آیا کہ ہمارے انجینئرز اِس پانی سے بجلی بھی پیدا کر سکتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنا سکتے ہیں۔ چین میں چھوٹے چھوٹے راجباہوں سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔
ماضی میں ہمارے منصوبہ سازوں نے اِس طرف سرے سے کوئی توجہ نہیں دی جس کے باعث توانائی کا شدید بحران پیدا ہوا ہے اور
جناب نواز شریف نے اپنی نشری تقریر میں اعلان کیا ہے کہ ہم اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اِس بحران پر بہت پہلے بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
ہمارے قابل اور جدت طراز انجینئروں کو یہ قومی مشن سونپ دیا جائے تو وہ پانی کی قلت کے آنے والے
بحران پر بروقت قابو پا سکتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں مکینک اسپوٹس بہت بڑی تعداد میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔
ایک زمانے میں جناب سردار عبدالقیوم خاں اور اُن کے صاحبزادے سردار عتیق نے آزاد کشمیر میں موٹروے
تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہاں سڑکیں چوڑی کی جا رہی ہیں ٗ مگر وہ کولتار کی تہہ سے محروم ہیں۔
اِس علاقے میں آبادی بہت پھیل گئی ہے اور کاروباری مشاغل میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
سب سے زیادہ خوشی اِس بات پر ہوئی کہ جگہ جگہ اسکول اور کالج کھلے ہیں اور صحت مند لڑکے
اور لڑکیاں خوشی خوشی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
بن جوسہ کے مقام پر جہاں کبھی ایک مختصر سا ریسٹ ہاؤس ہوتا تھا ٗ اب درجن سے زیادہ اچھے ہوٹل ٗ ریسٹ ہاؤس اور شادی ہال کھل گئے ہیں ٗ مگر ہر اسپوٹ کے اردگرد گندگی پھیلی ہوئی ہے۔
شاید ہمارے گھروں ٗ ہمارے اسکولوں میں صفائی رکھنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ آپ کو یہی کثافتیں سیاست میں بھی نظر آتی ہیں ۔
ہم جب بن جوسہ پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس پہنچے تو رات کے نو بج چکے تھے اور ہم جناب وزیر اعظم کی تقریر سننے سے محروم رہے ٗ مگر لاہور آ کر جو کچھ پڑھا ٗ سنا اور خود تجزیہ کیا
اِس کے مطابق وہ ایک مضطرب دل کی سچی آواز تھی۔
اِس میں کرب کے علاوہ مسائل کا گہرا ادراک بھی تھا۔ اُن کے اِس جملے نے کہ ’’ہر شہری میرے لیے اولاد کی طرح ہے‘‘ ریاست اور شہری کے باہمی رشتے کی نزاکت اور اہمیت پوری طرح واضح کر دی ہے۔
یہ جملہ میرے نزدیک روایتی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ موتی دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے۔
بس یہی رشتہ اگر صحیح معنویت اور حساسیت کے ساتھ قائم رہا ٗ تو گڈگورننس کا شجرِ طیبہ
ہم پر سایہ فگن ہو گا اور اقرباپروری کی لعنت بتدریج ختم ہوتی جائے گی۔
ایک مشفق باپ یہ کیسے برداشت کرے گا کہ اُس کے بچے گرمی میں بلبلاتے ٗ بھوک سے تڑپتے اور
چھت کے سائے سے محروم رہیں اور وہ خود شہزادوں کی سی زندگی بسر کرے۔
اُسے سب سے پہلے اپنے رہن سہن میں تبدیلی لانا اور اُس کے وزرائے کرام کو ایثار کی مثالیں قائم کرنا ہوں گی۔ پاکستان کی بہت بڑی آبادی اِس امر پر یقین رکھتی ہے کہ نواز شریف پاکستان سے ٹوٹ کر
محبت کرتے اور اُسے اپنی جان سے عزیز رکھتے ہیں۔
اُنہیں عوام کے اِس اعتماد پر اِس طرح پورا اُترنا ہو گا کہ وہ اضطراب کی کیفیت سے باہر آ کر
یک سوئی ٗ بے نفسی اور بالغ نظری کا ثبوت دیں اور امانتیں اہل اور دیانت دار لوگوں تک لوٹا دیں۔
آغاز بہت اچھا ہو گیا ہے اور اب استقامت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر چلتے رہنا ہوگا جو عظیم تر
پاکستان کی طرف جاتا ہے۔