15 C
Lahore
Tuesday, April 30, 2024

Book Store

حسد اور محبت(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

ساتویں قسط

حسد اور محبت

شکیل احمد چوہان

اُسی دن رات عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال حسب معمول نانی کی خدمت میں حاضر ہوا تو کمرے میں پہلے سے کھسر پھسر ہو رہی تھی۔ جب اس نے دروازے پر مؤدبانہ دستک کی تو اندر سے نوشی کی آواز آئی :
’’ Yes come in‘‘ اس نے دروازے کی ناب کو بائیں ہاتھ سے پکڑا اور نہایت آہستگی سے جب دروازہ کھولا تو سامنے صوفے پر نوشی بیٹھی تھی۔
دروازہ کھولتے ہی لمحہ بھر کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے سیراب ہوئی تھیں۔ توشی سامنے کمبل میں بیٹھی آج پہلی دفعہ بول کم اور دیکھ زیادہ رہی تھی۔
(میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے۔ بے شمار محبت ایک دوسرے کے لیے …)
صبح یہ جملہ دادو  نے بولا تھا اور توشی نے اب دیکھ لیا۔ اس نے دل میں سوچا بعض اوقات انسان آنکھیں رکھتے ہوئے بھی بینائی سے محروم ہوتا ہے۔
بلال نے آ کر سلام کیا اور دیوان پر بیٹھ گیا جو نوشی کے بائیں ہاتھ تھا۔ توشی دائیں ہاتھ بیڈ پر آلتی پالتی مار کر کمبل میں بیٹھی تھی۔ نوشی کے سامنے دادی موونگ چیئر پر بائیں ہاتھ میں تسبیح لیے جلوہ افروز تھیں۔
نوشی نے چور نگاہوں سے ایک بار پھر بلال کو دیکھا۔ اس کا دیکھنا توشی سے بچ نہیں پایا۔ توشی کے تیکھے نین تفتیش کر رہے تھے۔
جہاں آرا نے بلال سے پوچھا :
’’بلال بیٹا کھانا کھا لیا ؟‘‘
’’جی ہاں۔ ‘‘بلال نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’سینڈوچ…؟‘‘ توشی یکایک بول اٹھی جو ٹکٹکی لگائے بلال کو دیکھ رہی تھی ۔
’’نہیں، آج باہر کھانا کھایا تھا۔ ‘‘ اس نے جہاں آرا بیگم کی طرف دیکھ کر کہا ۔
’’گرل فش…؟ ‘‘ توشی نے پوچھا جیسے پہلے سے جانتی ہو۔
بلال نے توشی کی طرف دیکھ کر اثبات میں سرہلا دیا۔ زبان سے کچھ نہیں کہا۔
’’ان دونوں فراڈیوں کے ساتھ کھایا ہو گا ؟‘‘ توشی پھر بولی جو اپنی طرف سے آج کم بول کم رہی تھی۔
’’کون فراڈیے ؟‘‘ دادی نے بلال کو دیکھ کر تشویس سے پوچھا ۔
’’جی وہ طارق رامے اور اعجاز ٹھیکیدار وہ اچھے بندے ہیں، فراڈیے نہیں ! ‘‘ بلال نے صفائی دی۔
’’مجھے فوزیہ نے سب کچھ بتادیا ہے کہ تم لوگ ہفتے میں ایک بار باہر کھانا کھاتے ہو اور تمہارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔‘‘ توشی سرزنش کرنے والے انداز میں بولی، جیسے کوئی ماں اپنے آٹھ سال کے بچے کو ٹریٹ کرتی ہے ۔
’’بیٹا مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا اگر ان دونوں میں کوئی عیب ہے بھی تو بلال کے ساتھ وقت گزار کر ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘
جہاں آرا  نے ایسے سمجھایا جیسے وہ چند دنوں میں بلال کے معتقد ہو جائیں گے۔ انہیں ان کی خامیوں سے زیادہ بلال کی خوبیوں پر اعتماد تھا۔
’’نانو…! مالش کر دوں؟ ‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا نوشی نے کر دی ہے۔ ‘‘ جہاں آرا بیگم نے جواب دیا۔
بلال نے خوابیدہ نگاہوں سے نوشی کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے ہی سے منتظر تھی۔ اس کی ایک نظر کی جیسے پہلی دفعہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔
’’میری بھی دادو ہیں۔‘‘ نوشی نے جاذبیت سے دیکھتے ہوئے بلال کو بتایا۔
’’کل ہیڈ بلوکی چلیں؟‘‘ توشی پھر سے بول اٹھی ۔ اس نے نینوں کی چہ مگوئیاں روکیں جو آپس میں محو گفتگو تھے۔
’’کل نہیں پھر کبھی کل میں مصروف ہوں۔ ‘‘ بلال نے جواب دیا۔
’’تم تو ہر سنڈے مصروف ہوتے ہو… ویسے جاتے کہاں ہو؟ ‘‘ توشی نے تجسس سے پوچھا۔
’’اپنی جاسوس فوزیہ سے پوچھ لینا۔ ‘‘ بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
سب ہنس پڑے۔
فرح اپنے بیڈروم میں بیٹھی گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور غصہ دونوں موجود تھے۔ وہ موبائل پکڑ کر بار بار فون کر رہی تھی۔
فون کی گھنٹی بجی بلال نے فون سکرین پر فرح بھابھی پڑھا۔
’’ہیلو…جی بھابھی خیریت ہے؟ ‘‘ بلال نے سوال کیا۔
’’بلال… جنجوعہ صاحب ابھی تک گھر نہیں آئے … اور فون بھی ریسیو نہیں کر رہے۔ ‘‘ فرح نے پریشانی میں جواب دیا۔
’’بھابھی آپ فکر نہ کریں …میں پتا کرتا ہوں۔ ‘‘بلال نے تسلی دی۔
فون کٹ کرنے کے بعد ’’کہاں گئے ہوں گے۔‘‘ خود سے کہا اور نمبر ملایا بیل جارہی تھی مگر رسپانس کوئی نہیں ملا۔ پھر دوسرا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’جی…بلال صاحب…‘‘طارق رامے نے پوچھا۔
’’جنجوعہ صاحب…‘‘بلال کے بات کرنے سے پہلے ہی طارق رامے نے زور سے کھل کھلا کر ہنسنا شروع کر دیا۔ پھر ہنستے ہنستے کہنے لگا :
’’جنجوعہ بڑا کمینہ ہے کروڑ پتی ہے مگر گاڑی نہیں بدلتا۔ پھٹیچر Suzuki FX رکھی ہے۔ مجھے بھی ذلیل کروا دیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے …رامے صاحب…صبح بات ہو گی۔‘‘ بلال نے فون بند کر دیا۔
وہ ساری بات سمجھ گیا۔ ڈیفنس سے کھانا کھانے کے بعد اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے جوہر ٹائون جانے کے لیے نکلے تو راستے میں جنجوعہ کی گاڑی خراب ہو گئی۔ فون Silent موڈ پر تھا اور وہ ریسیو نہیں کر رہا تھا۔ بلال نے فرح کو فون ملایا۔
’’جی بلال …کچھ پتا چلا …خیریت تو ہے ، کہاں ہیں؟ ‘‘ فرح  نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔
’’جی بھابھی خیریت ہے۔ جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ ابھی تھوڑی دیر میں آ جاتے ہیں۔ ‘‘ بلال نے تسلی دی۔
’’مگر وہ فون کیوں نہیں اٹینڈ کر رہے؟ ‘‘وہ غصے سے چیخی۔
’’وہی پرانی عادت ان کی۔ ‘‘بلال نے کال کاٹنے سے پہلے کہا۔
بلال کا فون دوبارہ بول اٹھا۔
’’جی رامے صاحب۔ ‘‘ بلال  نے کال ریسیو کی۔
’’جنجوعہ کی …آج ہر گئی…اس کی مرمت ہووئے ہی ہووئے …تم دیکھ لینا۔ ‘‘رامے  نے ہنستے ہوئے کہا۔ فون کی دوسری طرف خوشی کا ماحول تھا۔
مین گیٹ پر گاڑی کا ہارن بجا۔ Suzuki FX اندر داخل ہوئی۔ بیڈروم کا دروازہ کھول کر اعجاز جنجوعہ اندر داخل ہوا ہی تھا۔
’’جنجوعہ صاحب…آ پ کو کسی کی فیلنگ کا ذرہ برابر بھی احساس ہے۔ ‘‘ فرح زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی۔ ’’ میں کب سے فون کر رہی تھی آپ کو …ذہن میں ہزاروں طرح کے خیال…دل میں وسوسے، خدشے ۔ اللہ خیر کرے…اور آپ کو کوئی پروا ہی نہیں۔ ‘‘
اعجاز جنجوعہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنا ماتھا انگوٹھے اور دو انگلیوں سے پکڑ لیا۔ فرح نے دیکھا تو اس کا سارا غصہ فکر مندی میں بدل گیا۔
وہ پاس آئی۔ دو زانو بیٹھ کر جنجوعہ صاحب کا چشمہ اتارا۔
’’طبیعت تو ٹھیک ہے …آپ کی؟ ‘‘ فرح نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’بس کچھ سر میں درد ہے۔‘‘ اعجاز جنجوعہ نے جواب دیا۔ فرح  نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا۔ پیناڈول کی گولی نکالی۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی دیا
’’آپ یہ کھائیں …میں گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ دودھ لینے چلی گئی۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا۔ اتنے میں طارق رامے کا فون آ گیا۔ فون اعجاز جنجوعہ کے ہاتھ ہی میں تھا، جو فرح کی مس کالز دیکھ رہا تھا۔
’’ہاں وئی …مرمت ہو گئی…یا ہونے والی ہے۔ ‘‘طارق رامے نے مزے سے پوچھا۔
’’بیٹا جی…ہم بھی کھلاڑی ہیں … بیوی کو بے وقوف بنانا کون سا مشکل کام ہے۔ ‘‘ اعجاز جنجوعہ نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
’’کون سے گولی دی ہے بھابھی کو اس بار؟‘‘ طارق رامے نے پوچھا۔
’’ہزاروں گولیاں ہیں کوئی سی بھی دے دو… تو بیٹا شادی کروا۔ ایسے ایسے مشورے دوں گا۔ بیوی تمہارے سامنے بھیگی بلی…‘‘
فرح پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی ۔
’’یہ لیجیے دودھ۔ ‘‘فرح نے کہا۔
’’تم کب آئی۔‘‘ جنجوعہ نے پوچھا۔
’’جب آپ گولیاں دے رہے تھے۔‘‘ فرح نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
’’یار…وہ …یہ …فون…ہاں فون سائلنٹ تھا۔ ‘‘ فون بند کرتے ہوئے ہکلاہٹ میں کہا۔
’’گولی کھائی بھی ہے …یا پھر صرف گولیاں دیتے ہی ہیں۔ ‘‘دودھ کا مگ جنجوعہ صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے فرح بولی۔
’’نہیں وہ…وہ…سوری یار۔‘‘ اعجاز جنجوعہ نے فورا ً ہتھیار ڈال دیے۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر دودھ پینے میں مصروف ہو گیا اور فرح ٹیرس کا دروازہ کھول کو باہر ٹیرس پر چلی گئی اور لان کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی۔
جب اعجاز جنجوعہ کی نظر اس پر پڑی تو دودھ کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر فرح کے پیچھے گیا اور فرح کے پیچھے کھڑا ہو کر بولا :
’’فری جی …سوری… یار وہ فون سائلنٹ تھا …کہا نا سچی یہی بات تھی۔ ‘‘ اعجاز جنجوعہ نے انتہائی سنجیدگی سے صفائی پیش کی۔
’’آگے سے خیال رکھوں گا پکا وعدہ، فری جی …فری جی …‘‘
’’آپ مجھے فری مت کہا کریں۔ ‘‘فرح  نے دوٹوک جواب دیا۔ اعجاز جنجوعہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف چہرہ کر کے بولا:
’’مجھے پتا ہے۔ آپ کی والدہ کہتی ہیں ۔ مجھے اجازت کی ضرورت نہیں۔ ‘‘
’’وہ کیوں جی؟‘‘ شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرح نے سوال کیا۔
’’اس لیے کہ …محبت کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور محبوب کو کوئی بھی نام دے دو وہ محبوب ہی رہتا ہے۔ ‘‘
فرح کے چہرے پر رومینٹک مسکراہٹ ابھری۔
’’آج آپ بلال کے ساتھ تھے۔ اسی لیے اتنی رومینٹک باتیں کر رہے ہیں، ورنہ آپ تو سیمنٹ، ریت، سریا، بجری، ماربل اور بس یہی کچھ…‘‘ فرح نے محبت والی کھا جانے والی نظروں سے اعجاز جنجوعہ کو دیکھا۔
’’چلو اندر چلو باہر سردی ہے۔ ‘‘ اعجاز جنجوعہ نے فرح کو بازو کے حصار کے ساتھ اندر لاتے ہوئے کہا۔
وہ مَن ہی مَن میں سوچ رہی تھی۔ جب اس نے سونے کی کوشش کی تو نیند آنے کو تیار نہیں تھی۔ ذہن میں دادی کے الفاظ گونج رہے تھے۔ وہ اٹھی، واش روم گئی، اپنا چہرہ آئینے میں غور سے دیکھا :
’’کیا میں اپنی بہن سے جلن محسوس کر رہی ہوں…؟‘‘ اس کے من میں خیال آیا۔
’’نہیں نہیں میں ایسی تو نہیں ہوں۔‘‘ اس نے خود ہی صفائی دی۔ ’’ تو پھر یہ کیا ہے جو مجھے سونے نہیں دے رہا…؟
بلال تو کہتا ہے کہ حسد اور محبت ایک دل میں نہیں رہ سکتے تو یہ محبت ہے یا حسد، کیا ہے؟‘‘ اس نے اپنا چہرہ دھویا اور واپس بیڈ روم میں آ گئی۔ رات اپنی آخری سانسیں لی رہی تھی، جب اس نے اپنے موبائل پر ٹائم دیکھا۔ ساڑھے 4 بج گئے تھے۔ اس نے نوشی کی طرف دیکھا جو نیند کی آغوش میں تھی۔ ’’
یہ میری بہن ہے اور میں اس کے منگیتر سے، نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا…‘‘
وہ کمرے سے نکل گئی کوریڈور میں آ کر رک گئی۔ ’’مگر کہاں جاؤں…؟‘‘ پھر وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی بغیر ناک کیے دادی کے کمرے میں تھی۔
دادی جائے نماز پر بیٹھی تھیں۔ وہ دادی سے لپٹ گئی۔
’’کیا ہوا میرا بچہ؟ ‘‘دادی نے پریشانی سے پوچھا۔
’’نیند نہیں آ رہی ہے۔‘‘ زخمی آواز کے ساتھ توشی بولی۔ اس کے اندر داخلی ٹوٹ پھوٹ جاری تھی۔ دادی نے اسے اٹھایا اور بیڈ پر لے گئی۔
’’ادھر لیٹ جاؤ میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ دادی نے اسے لٹایا اور کمرے کی لائٹ جلائی۔ انٹرکام پر پیغام دیا اور خود توشی کے ساتھ لیٹ گئیں۔
اس کے گالوں پر ہاتھ رکھا پھر اس کا ماتھا چوم لیا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد زینب دو مگ دودھ لے کر آ گئی۔ زینب جہاں آرا کی خاص ملازمہ تھی۔ باجی غفوراں کی دور کی رشتہ دار تھی اور بیوہ تھی۔
’’بیگم صاحبہ دودھ۔‘‘زینب نے نہایت فرماں برداری سے کہا۔
’’معاف کرنا بیٹی تمہاری نیند خراب کر دی۔ ‘‘ جہاں آرا  نے کہا۔
’’نہیں بیگم صاحبہ کوئی بات نہیں، کچھ اور چاہیے آپ کو؟ ‘‘زینب نے عرض کی ۔
’’نہیں بیٹی تم جاؤ شکریہ۔ ‘‘زینب جا چکی تھی۔
’’اٹھو بیٹا دودھ پی لو۔‘‘ دادی نے کہا ۔
’’نہیں دادو دل نہیں چاہ رہا۔ ‘‘ توشی نے بے دلی سے کہا۔
’’پی لو وہ بیچاری گرم کر کے لائی ہے، اس کی نیند بھی خراب کی، چلو اٹھو تھوڑا سا پی لو۔‘‘ توشی کے دودھ ختم کرنے کے بعد۔
’’کیوں نیند نہیں آ رہی میری جان کو ؟‘‘ دادی نے پوچھا۔
’’دادو کیا میں خود غرض ہوں؟ ‘‘ توشی نے سوال پر سوال کر دیا۔
’’نہیں ایسا تو بالکل بھی نہیں ہے بلکہ تم تو مدد کرنے والی اور دوسروں کے کام آنے والی ہو… ایسا کیوں سوچا تم  نے؟‘‘ دادی نے جواب دیا۔ پھر دادی تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولیں :
’’تم کل والی بات پر پریشان ہو؟‘‘
’’جی ہاں…مگر نوشی کی مجھے سمجھ نہیں آتی…ماما کے ساتھ بلال کی بہت برائیاں کرتی ہے مگر کل رات کو بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے…‘‘
توشی نے صاف گوئی سے ساری بات کہہ دی۔
’’تمہاری ماں نے اسے بچپن سے نفرت کرنا سکھایا ہے۔ نفرت کی چھاؤں بھی برگد کے پیڑ کی چھاؤں کی طرح گھنی ہوتی ہے۔ جس کے نیچے چھوٹے پودے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح نفرت کی چھاؤں میں محبت مرتی تو نہیں مگر کمزور ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’دادو…! آپ بھی بلال کی طرح باتیں کرنا شروع ہو گئی ہیں۔ ‘‘
’’ہاں بیٹا ٹھیک کہہ رہی ہو…میں نے بلال سے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘‘
’’دادو…! اگر نوشی بلال سے محبت کرتی ہے تو وہ شادی کے لیے راضی کیوں نہیں ہوتی…؟ ‘‘
’’اس لیے کہ اُس کی محبت نفرت کے پنجرے میں قید ہے اور اُس کے پنجرے کی چابی تمہاری ماں کے پاس ہے۔‘‘
’’کیا نوشی بلال سے شادی کرے گی ؟‘‘ توشی نے بھولی صورت بنا کر پوچھا۔
’’یہ تو آنے والا وقت بتائے گا …تم میرا بچہ سو جاؤ۔ ‘‘ یہ کہنے کے بعد دادی دیر تک اس کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سہلاتی رہیں۔

(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles