30 C
Lahore
Tuesday, April 30, 2024

Book Store

ایک چیک(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

تیسری قسط

ایک چیک

شکیل احمد چوہان

بڑے سے ڈائننگ ہال میں جمال رندھاوا بڑے سے ڈائننگ ٹیبل پر اخبار پڑھنے میں مصروف تھا۔ باجی غفوراں اور شاہد محمود سکھیرا کچن میں ناشتا تیار کرنے میں لگے تھے۔ ہال کے عقب میں ایک بڑا دلکش کچن واقع تھا۔
’’اوئے شاہد…! آج تو بلال بھی ناشتے کے لیے آئے گا۔‘‘باجی غفوراں نے کہا جو چائے بنانے میں مصروف تھی۔
’’Yes BG ‘‘ شاہد نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا ۔
’’اوئے فرنگیوں کی اولاد۔ تجھے کتنی بار سمجھایا ہے، باجی بول نہیں تو سیدھا غفوراں کہہ لے یہ BG مت کہا کر۔
‘‘باجی غفوراں نے بائیں ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے شاہد کی گردن پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ ہاتھ چالاکی مت کیا کر باجی غفوراں۔ تجھے کتنی بار کہا ہے۔ ‘‘چڑ کر تیور دکھاتے ہوئے شاہد نے تلخی سے جواب دیا۔
’’تیری ماں جیسی ہوں۔ تجھے اپنے بچوں کی طرح چوما چاٹا ہے۔ اتنا بھی حق نہیں ہے میرا؟ ‘‘باجی غفوراں نے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
’’چل فیر کوئی گل نئیں۔‘‘پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح شاہد نے کہا۔ ’’تینوں ست خون معاف باجی۔‘‘
’’خون تو ایک بھی معاف نہیں ہوتا شاہد۔‘‘ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے باجی غفوراں بول اٹھی۔ جیسے کوئی زخم ہرے ہوگئے ہوں اس کے۔
نوبجنے میں پانچ منٹ باقی تھے، جب بلال ڈائننگ ہال میں داخل ہوا ۔
’’السلام علیکم ماموں جان۔‘‘ بلال نے شائستگی سے کہا۔
’’وعلیکم السلام۔ ‘‘وال کلاک دیکھتے ہوئے ’’ٹائم کی پابندی کوئی تم سے سیکھے بلال۔۔۔!‘‘گلے لگاکر بلال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا۔
اتنے میں جہاں آرا بیگم بھی تشریف لے آئیں۔ ڈائننگ ٹیبل کے اطراف میں محفل سج گئی۔
جمال کے دائیں ہاتھ جمال کی بیوی ناہید جمال اور ایک کرسی چھوڑ کر اس کی دونوں بیٹیاں نسیم اور تسلیم عرف نوشی اور توشی براجمان تھیں، بائیں ہاتھ ایک کرسی خالی تھی۔ جس پر سب کی نظریں تھیں، اس گھر کا ولی عہد شعیب، جمال کا اکلوتا اور بڑا بیٹا۔ جمال لیڈر آف دا ہائوس کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے بالکل سامنے اس کی ماں جہاں آرا تشریف فرما تھیں۔ جہاں آرا کے دائیں ہاتھ ان کا نواسہ بلال احمد بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ انتہائی سادہ ناشتہ دوبرائون بریڈ کے سلائس ایک انڈے کی سفیدی اور چائے کا پھیکا کپ۔
’’شعیب صاحب کہاں ہیں ‘‘چائے کا سپ لیتے ہوئے جمال نے ناہید سے پوچھا۔
’’اپنے کمرے میں ہوگا‘‘ناہید نے ابرو چڑھاتے ہوئے تیکھی نظروں سے جمال کو دیکھ کر جواب دیا۔
’’شاہد …شاہد …!‘‘جمال نے رُعب دار آواز میں شاہد کو بلایا۔
’’جی سر‘‘شاہد چند سیکنڈ میں پاس کھڑا عرض کر رہا تھا۔
’’شعیب صاحب کو بلا کرلائو‘‘جمال نے اُسی انداز میں پھر کہا۔
شاہد کے جانے سے پہلے آواز آئی ۔
’’ہیلو ڈیڈ… ہیلو ایوری باڈی…‘‘شعیب آ چکا تھا۔
’’بیٹا آپ پندرہ منٹ لیٹ ہیں ‘‘جمال نے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بتایا۔
’’ڈیڈ ہمارے سوشل سرکل میں ٹائم پر آنے والے کو ایڈیٹ سمجھا جاتا ہے ‘‘شعیب نے بلال کی طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’یہ تمہارا سوشل سرکل نہیں تمہارا گھر ہے۔‘‘جمال نے کچھ خفگی سے کہا۔
’’رندھاوا صاحب…! وہی تو… یہ اسکول نہیں گھر ہے۔ ڈائننگ ہال اور میٹنگ ہال میں فرق رکھا کریں۔ شعیب…! تم ناشتا کرو۔‘‘ ناہید نے بلال اور جمال کو گھوری ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
’’میرا ناشتا کہاں ہے؟ کہاں مرگئے ہو SMS…؟‘‘شعیب چلّایا۔
’’آپ نے بلایا بندہ حاضر ہے۔ ‘‘ SMS مطلب شاہد محمود سکھیرا مسکا پالش لگاتے ہوئے مؤدب جوس کا گلاس لیے پاس کھڑا تھا۔
شعیب غٹاغٹ جوس کا گلاس پی کر فارغ ہو گیا اور اجازت لے کر چلا بھی گیا۔
’’ڈیڈ ہم بھی یہاں بیٹھے ہیں۔ ‘‘توشی نے خفگی سے کہا۔
’’ہمیں تو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا ‘‘
’’یہ لو…فرمائیں۔ ‘‘ جمال نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
’’فرمائیں خاک آپ نے کچھ پوچھا ہی نہیں ‘‘توشی یکایک بولی۔ سب ہنس پڑے۔
ناشتے کے دوران ناہید اور نوشی لال پیلی ہوتی رہیں مگر کچھ کہا نہیں۔ ناشتے سے فارغ ہو کر نوشی اور ناہید بھی چلی گئیں۔ بلال اٹھنے لگا جس کے ہاتھ میں اپنی نانی جہاں آرا بیگم کا ہاتھ تھا۔
’’بلال۔۔۔! تم رکو۔‘‘ جمال نے سگار سلگاتے ہوئے بلال سے کہا ۔
’’ماں جی آپ توشی کے ساتھ تشریف لے جائیں‘‘
جمال رندھاوا اور بلال ڈائننگ ہال سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے ہوئے کوریڈور میں تھے۔ تب جمال نے اپنے بلیک کوٹ کی دائیں پاکٹ میں پڑے چیک کو نکالا۔
گل شیر خان بلیک مرسیڈیز کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر جمال نے وہ چیک بلال کو دیا۔
’’ماموں جان ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘بلال نے دبی دبی آواز میں عرض کیا۔
’’جب ضرورت ہو گی، مانگ لوں گا۔ ‘‘
’’کاش وہ دن آئے میری زندگی میں۔ ‘‘جمال نپے تلے انداز میں بولا۔
میں نے اپنی زندگی میں تم جیسا Selfless بندہ نہیں دیکھا۔‘‘ جمال نے چیک بلال کے ہاتھ میں تھما۔دیا۔ وہ چیک Cash کا تھا۔ بلال نے وہ چیک گل شیر خان کو دیتے ہوئے درخواست کی آپ Cash کروا دیجیے گا۔
جمال گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اور جانچتی نظروں سے بلال کو دیکھ رہا تھا ۔ جمال اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔
گاڑی فیروزپور روڈ پر تھی۔ڈرائیور کے ساتھ گل شیر خان بیٹھا تھا اور پچھلی سیٹ پر جمال۔
’’خان صاحب…! آپ بھی…‘‘ جمال نے گلے کے انداز میں کہا۔
’’رندھاوا صاحب…! آپ سب جانتے ہیں… پھر کیوں دیتے ہیں اُسے چیک؟‘‘

(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles