آدھا خواب

   تحریر: عمارہ جہان

وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صحرا کی ریت اڑ اڑ کر اس کی آنکھوں میں گھسی جا رہی تھی۔ حلق خشک ہو چکا تھا ۔ اس  نے مڑ کر دیکھا۔ دشمن سر پر پہنچ چکا تھا۔ اس  نے نظریں واپس  سامنے کی طرف پھیریں۔
دور تک پھیلا صحرا سورج کی تپش سے آگ اگل رہا تھا۔ آخری کوشش کرنے کے لئے اس نے اپنے دل کو آمادہ کیا اور ریت کے ٹیلے سے چھلانگ لگا دی ۔ ابھی وہ  زمین پر ایک دو لمحے ٹھہرا بھی نہ تھا کہ اس کی چیخ صحرا کی وسعتوں میں دور دور تک گونجی۔
دشمن نے اپنے خنجر سے وار کر کے ایک جھٹکے میں اس کی دونوں ٹانگیں دھڑ سے الگ کر دی تھیں۔

۞۞۞۞۞

“کیا ہوا ؟”
اس کی بیوی نے اس کے کندھے کو جھنجھوڑا۔
“آپ نیند میں چیخ رہے تھے۔”
” ہاں ۔ ۔ وہ۔ ۔  پانی۔ ”
وہ بمشکل بولا
بیوی نے اس کے سرہانے رکھی چھوٹی سی میز سے پلاسٹک کا جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی بھر دیا۔
ٰ “یہ پی لو۔”
اس کے سر کو بازو کے سہارے اونچا کرتے ہوئے وہ بڑی مشکل سے خود پر قابو کئے بیٹھی رہی۔ گلاس ہونٹوں سے لگتے ہی وہ کسی صدیوں پیاسے شخص کی طرح غٹاغٹ سارا پانی پی گیا۔
“کیا خواب دیکھا تھا آج  ؟”
بیوی کی آواز نیند سے بوجھل تھی۔ وہ بستر پر پڑا ہانپ رہا تھا ۔
“خواب میں کسی نے میری دونوں ٹانگیں کاٹ دی تھیں۔”
وہ خلا میں تکتے ہوئے بولا ۔
ّ”سو جاؤ۔”
بیوی رکھائی سے کہتے ہوئے کروٹ بدل گئی۔
” کمبل ٹھیک کر دو میرا ۔”
وہ مدھم آواز میں بولا ۔وہ اٹھ کر اس کے آدھے جسم پر کمبل پھیلانے لگی۔ پلنگ پر پیٹ کے بعد ٹانگوں کی جگہ بالکل خالی تھی ۔

************

تین سال پہلے جب وہ اپنی دکان سے واپس گھر کی طرف آ رہا تھا تو جیب میں رکھے پیسوں کی اسے اتنی خوشی تھی کہ سڑک پار کرتے ہوئے اس کا دھیان دوسری طرف سے آتی کالج بس پر بھی نہ جا سکا ۔
بس کا ڈرائیور بھی کوئی اندھا بندہ ہی تھا، جس نے بس لا کر سیدھے اس پر ہی چڑھا دی ۔ حادثے کے بعد وہ اپنے دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا ۔ بیوی نے دکان کا سامان گھر لا کر رکھا.  محلے کے لوگ ضروری اشیاء لینے کے لئے ان کے گھر آنے لگے ۔اس  نے گھر میں ہی چھوٹی سی دکان کھول لی تھی۔  ان کی گزر بسر ہو رہی تھی۔
دنیا معذور کو معذور سمجھ سکتی ہے، معذور کی دنیا نہیں سمجھ سکتی۔
اس کی دنیا چھت کی بارہ کڑیوں ،پنکھے کے تین پروں اور سر پر جلتے اکلوتے بلب پر مشتمل ہو گئی ۔ وہ نظریں چھت پر ٹکائے اپنے ادھورے خوابوں کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ، جو وہ اکثر گہری نیند میں دیکھا کرتا تھا ۔اس کے خواب ہی اس کی قسمت کی طرح ہوتے۔ اس پر جھپٹنے کو تیار ۔
رونے کو ہزار باتیں تھیں لیکن ایک بات جس پر رونے کے لئے اسے ہزار دن بھی کم لگتے, وہ جان سے عزیز بیوی کا بدل جانا تھا۔
وہ تکیے میں منہ چھپائے گھٹ گھٹ  کر روتا رہتا اور اس کی بیوی باہر دکان پر مصروف ہوتی۔ اس کی بیوی کو لگنے لگا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ پاگل ہونے لگا ہے ۔اگر اس کی سرگوشیاں کوئی سننے کی کوشش کرتا تو شاید اس کا بھی یہی خیال ہوتا۔
نیند ہی نیند میں وہ ہر بار وہ مقابلہ جیت کر خوشی سے چلاتے ہوئے اٹھ جاتا جس میں اسے دوڑ جتنے پر انعام دیا جا رہا ہوتا تھا، پھر اس کی نظر چارپائی کے اس حصے کی طرف اٹھتی جو بالکل خالی ہوتا۔
اس کے بعد اس کی دبی دبی سسکیاں اس قدر بلند ہو جاتیں کہ اس کی بیوی  سنتے سنتے  تنگ آ جاتی۔ ابتدا کے تین مہینوں  میں ہی وہ بیزار آ گئی تھی ۔اسے اپنی زندگی ایک ایسی سرنگ کے مانند محسوس ہو رہی تھی جس کا کوئی اختتام نہیں تھا۔
دکان میں بیٹھے بیٹھے اس پر سوچوں کے نئے درد وا ہونے شروع ہوئے ۔
“میں ساری عمر اس نمونے کے ساتھ اس کی خدمت کرتے نہیں گزار سکتی۔”
اس کی سوچوں میں نفرت کی بو پھیل گئی اور وہ بو اتنی تیز تھی کہ وہ بھی چونک پڑا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ ٹٹولنے لگا۔ وہ بےنیازی سے نظریں پھیر گئی۔ اس پر پھر دورہ پڑ گیا ۔
” ڈاکٹر سے پوچھو۔  میری ٹانگیں کہاں پھینک دی ہیں؟ مجھے وہ چاہئیں۔”
وہ چیخا۔ جوابا وہ سرد نظروں سے اسے ایسے دیکھنے لگی کہ وہ ایک لمحے میں ہی مر گیا۔ یہ وہ نظریں نہیں تھیں جن میں  کبھی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا بھی تھا تو وہ آج جم کر گلیشئر بن چکا تھا ۔
دعوے تو ہر قوت  گویائی رکھنے والا کر سکتا ہے، پر آزمائش میں آدھے بھی نہیں پورے اتر پاتے  اور نتیجہ آنے تک کوئی ایک ذی نفس باقی رہ جاتا ہے اور وہ ایک وہی ہوتا ہے جو محبت کے دربار میں سربراہی کرسی پر بیٹھنے کا اہل ہوتا ہے ۔
وہ اس کےلولے لنگڑے وجود سے حد درجہ بیزار آ چکی تھی۔ آج تو اس کی آنکھوں میں بیگانگی کے موسم  واضح دکھائے دے رہے تھے۔
” ابھی تو دنیا میں بہت کچھ ہے ۔”
دکان میں بیٹھے بیٹھے اس نے سوچوں کو جھٹکا ۔
رات کو حسب معمول  وہ پھر خواب سے جاگ گیا ۔
“میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔”
وہ بڑبڑایا۔ گھبراہٹ میں وہ یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ وہ پہلے سے جاگ رہی تھی۔
آج اس نے پوچھا بھی نہیں کہ کیا دیکھا۔
وہ لالٹین کی روشنی میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اسے کسی ظالم بادشاہ کی طرح دیکھ رہی تھی۔
وہ خود ہی آہستگی سے بولنے لگا۔
“میں ایک باغ میں لیٹا ہوا تھا کہ ایک چیل آئی اور اس نے ۔ ۔ ۔”
وہ خاموش ہوا۔ وہ ہلکے سےکانپ رہا تھا۔ اگلے لمحے وہ اس پر جھپٹی اور تکیہ اٹھا کر اس کے پیلے پڑتے چہرے پر رکھ دیا۔ اس کو چیخنے کا موقع بھی نہیں ملا ۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے سے تکیہ ہٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ پورا زور لگا کر تکیہ دبانے لگی۔ اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں  جبکہ دم توڑتے آدھے دھڑ  کی سانسیں تھمنے لگی تھیں۔
وہ ہمت ہار بیٹھا تھا ،پھر اس کے دونوں ہاتھ بےجان انداز میں گرے۔
اگلے دن گھر میں میت کے سامنے وہ  پچھاڑے کھا رہی تھی۔ غم سے نڈھال ہوتے اس کے وجود کو سنبھالتے ہوئے ایک خاتون بولیں۔
” بیچاری پیار بھی تو بڑا کرتی تھی اپنی شوہر سے ۔دن رات اس کی خدمت کرتی تھی اور وہ آخر میں اسے داغ مفارقت دے گیا۔”
عورت کی آواز مدھم ہوئی تو دوسری آواز بلند ہوئی ۔
“بیچارا اتنا پریشان رہتا تھا اور پھر اسی پریشانی میں اس کے دل نے  نے کام
کرنا چھوڑ دیا،، ہاہ ۔”
پھر چند روز بعد  کہانی کا تیسرا کردار بھی آ گیا۔  اس کے شوہر کا بھائی، جو  پہلے بھی ہر تین دن بعد چکر لگا لیا کرتا تھا دکان کا۔
ان دونوں کی شادی کی رات تھی، جب اسے پہلی مرتبہ اپنے پہلے شوہر کی خوف سے پھٹی آنکھیں یاد آئیں جو بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
ان دونوں کی شادی کو تین ماہ ہو گئے تھے۔ دونوں  اس گھر  میں خوشی خوشی رہ رہے تھے۔  دکان اس کا دوسرا شوہر چلاتا تھا اور وہ گھر میں بیٹھ کر آئینے کے سامنے بیٹھ کر آنکھوں میں کاجل کی دھار لگا  کر خود کو دیکھتی رہتی۔
ایک دن اپنی سہیلی کی انگلی میں اپنی انگوٹھی دیکھ کر دنگ رہ گئی جو وہ جو وہ تین دن سے گھر میں ڈھونڈ رہی تھی ۔ایک ثانیے  کو وہ ہکا بکا رہ گئی۔
پوچھنے کی کوشش میں تنتنا کر رہ گئی۔ اس کا چین کوئی غارت کر چکا تھا۔ رات پلنگ پر  کروٹیں لیتے ہوئے نفرت سے اپنے دوسرے شوہر کو گھورتی رہی ۔
اس رات جب اسے پنڈلی میں چبھن کا احساس ہوا تو وہ جاگ گئی۔ کمرے میں اس کے پاؤں کے قریب ایک سانپ  اپنی دو شاخہ زبان لہرا کر اسے گھور رہا تھا لیکن اس کا شوہر کمرے میں موجود نہیں تھا ۔
وہ پکارنا چاہتی تھی لیکن اس کی اندر کی ساری توانائی وہ خواب نچوڑ کر پی گیا۔ جس سے ڈر کر وہ اٹھ گئی تھی۔ صبح تک اس کی حالت خراب ہو چکی تھی ۔ہوش و حواس سے عاری ہوتے ہوئے وہ بار بار  کچھ جملے دہرا رہی تھی ۔
“میں نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں ایک باغ میں لیٹی ہوئی تھی کہ ایک چیل آئی اور اس نے ۔ ۔ ۔ ۔”
ختم شد