( 53 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
چراغ والی میں گھنے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ جب کشمالہ کی Toyota Vigo ٹیلے پر واقع قبرستان کے سامنے جا کے رُکی۔ سامنے قطاردرقطار منشا کے بندے ہاتھوں میں ڈانگیں، چُھرے، بیلچے، ترگلیاں اور کلہاڑیاں لیے کھڑے تھے۔ ٹیلے پر واقع سرمد کے والدین کی قبروں پر آدمیوں کی یہ قطار جا کے ختم ہو رہی تھی۔
سب سے آخر میں مضبوط جسم اور دراز قد ضادو کھڑا تھا، جس کے کندھے پر AK-47 لٹک رہی تھی۔ چندا اور کشمالہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گئیں، جب کہ سرمد کے چہرے پر دُور دُور تک خوف کے آثار نہ تھے۔ وہ گاڑی سے نیچے اُترنے لگا تو کشمالہ نے اُس کی کلائی تھامتے ہوئے خفگی سے کہا:
’’جھوٹ بولا تُم نے میرے ساتھ۔۔۔‘‘
سرمد نے بڑے سکون سے گردن کو نفی میں ہلایا، پھر ہولے سے بولا:
’’پورا سچ نہیں بتایا۔‘‘
سرمد نے بڑے آرام سے کشمالہ کے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑوائی اور گاڑی سے اُتر گیا۔ وہ چلتا ہوا اُس راہ داری کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جو اُس کے والدین کی قبروں تک جا رہی تھی۔ اُس راہ داری کے اردگرد منشا کے دو درجن کے قریب بندے سرمد کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے تھے۔ قبریں اُونچی جگہ تھیں اور سرمد نیچے کھڑا تھا۔ ہر بندہ اُسے اور وہ ہر بندے کو دیکھ رہا تھا۔ سرمد نے اُن سے نظریں ملانے کے بعد زور سے کہا:
’’بھائیو۔۔۔! میں نے ساری حیاتی جان بوجھ کر کبھی مکھی بھی نہیں ماری۔۔۔‘‘
سرمد کی بات ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ قبرستان میں قہقہے گونج اُٹھے۔ منشا کی خاندانی قبروں پر قرآن پاک پڑھنے والے دونوں مولوی بھی چار دیواری کے اندر سے جھانک کر یہ منظر دیکھنے لگے۔ ایک قہقہوں میں شامل، جب کہ عطا سے مار کھانے والا رنجیدہ تھا۔ منشا کے بندوں نے اُس کا خوب مذاق اُڑایا۔ سرمد کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ وہ دھاڑتے ہوئے بولا:
’’مگر جس نے آج مجھے روکا۔۔۔ وہ زندہ نہیں بچے گا۔‘‘ یہ بولتے ہی سرمد آگے بڑھ گیا۔ اُس پر ڈانگوں سے دو بندوں نے حملہ کر دیا۔ سرمد نے اُن کی ہی ڈانگیں اُن پر توڑ دیں۔ وہ دونوں زمین پر پڑے ہوئے آہیں بھر رہے تھے۔
سرمد آگے بڑھا تو چار ترگلیاں والے اُس پر ٹوٹ پڑے۔ اگلے دو منٹ کے اندر اندر اُن چاروں میں سے دو کے پیٹ میں اور دو کے کندھون میں اُن کی ہی ترگلیاں گھس چکی تھیں۔اب چُھرے والوں نے اُس پر یلغار کر دی۔ کسی کے گلے میں اور کسی کے پیٹ میں اُن کے ہی چُھرے گھس چکے تھے۔
جب ضادو کے آدھے بندے زمین پر ڈھیر ہو گئے تو اُس نے اپنے کندھے سے AK-47 اُتار لی اور سرمد پر دُور سے ہی تان دی۔ اُسی لمحے اُس کے کانوں میں منشا کا جملہ گونجا:
’’میرے پہنچنے تک اُسے زندہ رکھنا۔‘‘
اُس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور اپنے سامنے کھڑے اپنے دو خاص بندوں کو سرمد پر ہلہ بولنے کا اشارہ کر دیا۔ وہ دونوں بڑی بڑی چمکتی کلہاڑیاں لے کر سرمد پر چڑھ دوڑے۔ ایک نے جاتے ہی کلہاڑی سرمد کی ران میں گھسیڑ دی۔ دُوسرے نے کندھے پر وار کیا، جس سے سرمد کا کندھا کٹا تو نہیں، ہاں چھل ضرور گیا۔
تیسرے نے بیلچا اُس کے سر پر دے مارا۔ سرمد کا سر چکرانے لگا۔ اُسے سب گھومتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ وہ زمین پر جا گرا۔ اُس کے گرتے ہی کشمالہ اور چندا فکرمندی سے اپنی گاڑی سے اُتر آئیں۔ سرمد کے حمایتی مولوی کے چہرے سے اُمید کی رمق ختم ہو گئی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞