( 49 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
سرمد کو ہوش آیا تو وہ لوہے کے ایک بڑے سے گودام میں تھا۔ گودام میں کئی چھوٹے بڑے ٹائر بکھرے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ پُرانے بحری جہازوں اور ریل کے پُرانے ڈبوں کے ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ بے شمار پُرانے انجن بھی تھے۔ وہ ایک انجن کے اُوپر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے حرکت کرنے کی کوشش کی تو اُسے پتا چلا کہ اُس کے دونوں ہاتھ پشت کی طرف سے کسی چیز نے جکڑ رکھے ہیں۔ وہ زور لگانے لگا تو پچھلی طرف سے اُس کے کانوں میں ایک آواز پڑی:
’’امپورٹڈ ہتھکڑی ہے۔۔۔ نہیں ٹوٹے گی۔‘‘ جبران جپہ پیچھے سے چلتا ہوا اُس کے سامنے آیا۔ اُس کے ساتھ بختیاربابا بھی تھا، جس کے ہاتھ میں اُسی طرح کی ایک اور ہتھکڑی تھی۔
’’کیا چاہتے ہو مجھ سے؟‘‘ سرمد نے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ جبران نے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’پھر مجھے باندھنے کی وجہ؟‘‘ سرمد نے جانچتی نگاہوں کے ساتھ سوال کیا۔
’’وجہ پہلے ایک تھی۔۔۔ اب دو ہیں۔‘‘ جبران نے اپنا ایک پیر پُرانے کالے انجن پر رکھتے ہوئے کہا۔
۞۞۞
منشامزاری علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے باہر نکلی۔ اُس کے باڈی گارڈ پہلے سے اُس کے منتظر تھے۔ دو باڈی گارڈ اُس کے آگے چلنے لگے۔ پیچھے والے دو میں سے ایک نے عطا سے سامان والی ٹرالی لے لی۔ عطا نے چلتے چلتے جیب سے اپنا موبائل نکالا اور دیکھنے لگا۔ منشا کا ڈرائیور گاڑی کا دروازہ اور ڈگی کھولے پہلے سے منتظر تھا۔ جیسے ہی منشا گاڑی میں بیٹھی عطا نے دروازہ بند کرتے ہوئے سارے باڈی گارڈز کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ ڈگی میں سامان رکھنے والا باڈی گارڈ سب سے بعد میں وہاں سے بھاگ کر اپنے ساتھیوں تک پہنچا۔
منشا کی گاڑی پارکنگ سے نکلی تو اُس کے محافظوں کی گاڑی بھی اُن کے ساتھ مل گئی۔ دونوں گاڑیاں رنگ روڈکی طرف رواں دواں تھیں۔ عطا نے بڑی سنجیدگی سے اپنا موبائل منشا کو پیش کیا۔ موبائل کی اسکرین پر سرمد کی بے ہوشی کے عالم میں ایک تصویر منشا کو نظر آئی۔ منشا نے چبھتی نظروں کے ساتھ اُس تصویر کو دیکھا، پھر موبائل اسکرین کو اسکرول کرنے لگی۔ واٹس ایپ پر چارتصویریں بھیجنے کے بعد جبران نے ایک وائس میسج بھی بھیجا تھا۔ منشا نے اُس میسج کو Play کیا:
’’عطا۔۔۔! تمھاری بی بی سرکار نے کہا تھا: ’’تم چار بھی مانگتے تو میں دے دیتی۔۔۔ اِسی لیے دو کروڑ اور لینے کے بعد اِسے تمھاری بی بی سرکار کے حوالے کروں گا۔‘‘
وائس میسج سننے کے بعد منشا نے عطا کی طرف دیکھا۔ منشا کی نظر اپنی نظر سے ٹکراتے ہی عطا نے آنکھیں جھکا دیں۔
۞۞۞
ستارہ بائی چندا کے ساتھ کشمالہ کو لے کر لہراتی ہوئی گودام پر پہنچی۔ چندا اور کشمالہ پوری سج دھج کے ساتھ وہاں آئی تھیں۔ اُن دونوں کے بالوں میں بے شمار پھول سجے ہوئے تھے۔ چندا نے تو اپنی بوڑھی کلائیوں میں گجرے بھی پہن رکھے تھے۔ انھیں دیکھتے ہی جبران جپہ بولا:
’’لو۔۔۔ دُوسری وجہ پہلے آگئی۔‘‘
اس کے بعد جبران کشمالہ کے حسن کو نظروں سے ہی پینے لگا۔
’’یہ دُوسری وجہ ہیں تو پہلی کون ہے؟‘‘ سرمد نے پوچھا۔ یہ سنتے ہی جبران ہلکا سا مسکرا دیا۔ سب نے لمحہ بھر سوچا۔ سرمد نے ترش انداز میں جبران کو طیش دلانے کے لیے کہا:
’’منشامزاری نے اب تُم جیسے ہیجڑے اپنی فوج میں بھرتی کر لیے ہیں۔‘‘
جبران نے ایک زوردار مُکّا سرمد کے منہ پر دے مارا۔ سرمد سے زیادہ اِس مُکّے پر ستارہ بائی کو غصہ آیا۔ وہ تیکھے لہجے میں بولی:
’’کسی کو باندھ کر تو ہم بھی نہیں مارتے۔‘‘
جبران نے یہ سنتے ہی کشمالہ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا، پھر ستارہ بائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگا:
’’ماریں یا چھوڑیں۔۔۔ یہ رہا مفرور آپ کا۔۔۔ میں اپنے محبوب کو چوبیس گھنٹوں کے لیے لے کر جا رہا ہوں۔۔۔ محبوب واپس کرنے کے بعد مفرور کو پہلی وجہ کے حوالے کر دوں گا۔‘‘
یہ بولنے کے بعد جیسے ہی جبران کشمالہ کی طرف بڑھنے لگا، اُس کے پیچھے کھڑے بختیار بابا نے اُس کی ایک کلائی میں ایک ہتھ کڑی لگا دی۔ جبران نے کرختگی سے بابا بختیار کی طرف دیکھا۔ بختیار بابا نے دُوسری ہتھ کڑی اُسے تھماتے ہوئے بڑے دل نشین انداز میں کہا:
’’محبوب کو قید نہیں کرتے۔۔۔ خود ہو جاتے ہیں۔‘‘
بختیار بابا کی بات سن کر جبران سمجھ گیا ۔ وہ لوہے کے ایک کالے انجن کے ساتھ کھڑی دودھیا کشمالہ کی طرف بڑھا۔ کشمالہ نے مسکرا کر اُس کا استقبال کیا۔ جبران نے جاتے ہی ہتھ کڑی کا دُوسرا کھلا ہوا کڑا اُسے پیش کر دیا۔ کشمالہ نے وہ کڑا پکڑنے کے بعد بڑی پُھرتی سے اُسے انجن کے ایک چکے کے ساتھ بند کر دیا اور خود جبران سے دُور ہٹ گئی۔ جبران جپہ نے تفریحی انداز میں مسکراتے ہوئے بختیار بابا کی طرف دیکھا، پھر کہنے لگا:
’’دیکھیں بختیار بابا۔۔۔! میں محبوب کے ہاتھوں قید ہو گیا۔‘‘
بختیار بابا نے اپنی ویس کوٹ کی جیب سے چابی نکالی اور ہلکا ہلکا لنگڑاتے ہوئے جبران کی طرف بڑھنے لگا۔ پھر یک لخت سرمد کے سامنے رُکتے ہوئے اُس کی ہتھ کڑی کا ایک کڑا کھولنے لگا۔ جبران طیش میں آتے ہوئے چلّایا:
’’اِسے کیوں کھول رہے ہیں؟‘‘
بختیار بابا نے ہلکا سا معنی خیز قہقہہ لگانے کے بعد بتایا:
’’کیوں کہ محبوب کے قابل یہی ہے۔‘‘
جبران نے دُور کھڑے اپنے چار آدمیوں کو اشارہ کیا۔ اُنھوں نے اشارہ ملتے ہی گردنیں جھکا لیں۔ ستارہ بائی نے آگے بڑھ کر سرمد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بختیار بابا کے ہاتھ سے ہتھ کڑی کا دُوسر اکڑا پکڑ لیا۔ بختیار بابا نے وہ چابی بڑی جی حضوری سے ستارہ بائی کو دے دی۔ جبران کے چاروں بندے آگے آتے ہوئے چوکنے ہو گئے۔ اُن کے ساتھ ساتھ کشمالہ کے باڈی گارڈ بھی حرکت میں آگئے۔
سرمد نے اُن کو دیکھا تو مزاحمت کرنے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ ستارہ بائی نے کشمالہ کو نظروں سے اشارہ کیا۔ وہ بڑے وقار سے چلتی ہوئی اُن کی طرف آئی۔ ستارہ بائی نے اُسے ہتھ کڑی کا دُوسرا کڑا دیا۔ کشمالہ نے وہ کڑا بڑی ادا سے پکڑا جیسے مصر کے بازار سے کوئی حسین غلام خریدا ہو۔
سرمد بھی غلام بنا ہی کھڑا تھا۔ ستارہ بائی نے ہتھ کڑی کی چابی چندا کو دے دی جس نے فوراً اُسے اپنے کندھے پر لٹکے ہوئے پرس میں رکھ لیا۔
جبران نے طیش میں آتے ہوئے اپنی جیکٹ کے اندر سے جدید موزر نکال لیا اور اُسے سرمد پر تانتے ہوئے کہنے لگا:
’’سرمد۔۔۔! کہیں مت جانا۔‘‘
’’سرمد۔۔۔!!‘‘ ستارہ بائی نے چندا کی طرف دیکھ کر زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا۔
سرمد تو سکون سے کھڑا رہا۔ کشمالہ کچھ گھبرا گئی۔ ستارہ بائی نے بختیار بابا کی طرف دیکھا تو وہ بڑے اطمینان سے بولا:
’’ستارہ جی۔۔۔! پستول میں گولیاں نہ ہوں تو وہ کھلونا ہی ہوتا ہے۔‘‘
ستارہ نے یہ سنتے ہی شاہانہ انداز سے کہا:
’’سرمد کو لے جاؤ۔۔۔!‘‘
کشمالہ اُسے لے کر وہاں سے چلی گئی۔ بختیار بابا کی ویس کوٹ کی جیب میں جبران کا فون بجنے لگا۔ بختیار بابا نے فون نکال کر نام دیکھا، پھر کال کاٹتے ہوئے جبران کو بتایا:
’’عطا کا فون ہے۔‘‘
’’میں نے تمھیں فون بند کر کے دیا تھا۔‘‘ جبران شدید غصے سے چلّایا۔
جبران کا فون پھر سے بجنے لگا۔
’’فون OFFکر دو۔۔۔!‘‘ جبران جپہ دانت پیستے ہوئے گرجا۔
فون پھر سے بجنے لگا۔ بختیار بابا نے کال کاٹ دی۔
’’تُم نے یہ کیوں کیا بختیار بدر؟‘‘ جبران نے بڑے جلال کے ساتھ پوچھا۔ بختیار بدر نے مسکراتے ہوئے ستارہ بائی کی طرف دیکھا، پھر بولا:
’’حرام کی کمائی اور طوائف کی تنہائی کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔‘‘
ستارہ بائی نے آگے بڑھ کر بختیار بدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اُسی وقت پھر سے عطا کی کال آگئی۔ بختیار بدر نے بڑی ناگواری سے کال کاٹتے ہوئے فون ہی سائلنٹ کر دیا۔ ستارہ بائی نے اب بڑی اُلفت سے بختیار بدر کے رخسار پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ بختیار بدر ستارہ بائی کے گلے لگ گیا اور آنکھیں بند کر تے ہوئے ستارہ بائی کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بڑی فرحت سے کہنے لگا :
’’ستارہ جان ! آج سالوں بعد آپ کا کندھا نصیب ہوا ہے۔‘‘
’’حرام زادے۔۔۔ نمک حرام۔۔۔ کُتے۔۔۔‘‘ جبران نے طیش میں آتے ہوئے یہ سارے القابات بختیار بدر کو دیے۔ بختیار بدر نے ستارہ بائی کے کندھے سے سر اُٹھایا اور لنگڑاتا ہوا جبران کے سامنے گیا اور اُس کی پہنچ سے دُور اُس کے سامنے اُس کا فون ایک ٹائر پر رکھ دیا۔ ستارہ کو یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی۔ جبران موبائل رکھنے کی وجہ جان گیا۔ اُس نے بڑی حقارت سے کہا:
’’تجھے تو کُتا کہنا بھی کُتے کی توہین ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی بختیار بدر کھل کھلا اُٹھا، پھر اپنی لنگڑانے والی ٹانگ کے پیر کو بڑی مشکل سے ایک ٹائر پر رکھتے ہوئے بولا:
’’کُتا لنگڑا بھی ہو جائے، موتتا پھر بھی ٹانگ اُٹھا کے ہی ہے۔‘‘
۞۞۞
عطا نے چلتی گاڑی میں بڑی مایوسی سے بتایا:
’’بی بی سرکار۔۔۔! وہ فون بھی نہیں اُٹھا رہا۔‘‘
منشا کا چہرہ غصے سے دہکنے لگا۔ وہ طیش سے بولی:
’’اُس کے گھر چلو۔۔۔!‘‘
’’گھر۔۔۔؟‘‘ عطا نے بڑی حیرت سے گھر کہا، پھر ڈرائیور کو نہ چاہتے ہوئے بھی جبران کے گھر جانے کا اشارہ کر دیا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞