11 C
Lahore
Friday, December 27, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 44

 

( 44 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

ٹاؤن شپ کے ایک پارک میں شادی والے ٹینٹ کے اندر بارات کا کھانا کھل چکا تھا۔ ثمرہ  نے جب باراتیوں کو کھانے میں مصروف دیکھا تو وہ چپکے سے ٹینٹ سے نکل آئی۔ سرفراز پارک کے ایک کونے میں واسا کی پانی والی موٹر کی عمارت کی اوٹ میں کھڑا تھا۔ ثمرہ اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے اُس کے قریب گئی۔
یہ زیور تمھارے لیے۔۔۔
سرفراز  نے ثمرہ کو ایک تھیلے میں سے پوٹلی نکال کر دیتے ہوئے کہا۔
زیور۔۔۔؟  ثمرہ  نے حیرت سے پوچھا، پھر پوٹلی کھول کر زیور دیکھنے لگی۔
تمھاری فیس کی دُوسری قسط۔۔۔  سرفراز نے سنجیدگی سے بتایا۔
یہ تو رمشا کا زیور ہے۔۔۔ ابھی پچھلے مہینے تو اُس نے خریدا تھا۔
ثمرہ نے کہا۔
اب تمہارا ہے۔  سرفراز نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا۔
کیا۔۔۔ کِیا ہے تُم  نے رمشا کے ساتھ؟ ثمرہ نے تلخی سے سوال کیا۔
وہی جو سہاگ رات میں ہوتا ہے۔
سرفراز نے کمینی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے بتایا۔ ثمرہ نے ہلکا سا شرماتے ہوئے سانس لی، پھر بولی
میں سمجھی۔۔۔ تُم نے۔۔۔  ثمرہ بات کرتے کرتے رُک گئی۔
میں  نے اُسے مار دیا؟  سرفراز نے پوچھا۔
ثمرہ نے گردن ہلا کر اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
رمشا سے شادی میں تُم میری مددگار تھی۔۔۔ اگر یہ بات باہر نکلی تو تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔۔۔
مزاری تمھیں چھوڑیں گے نہیں۔۔۔ آگے تُم خود سمجھ دار ہو۔
سرفراز نے پوٹلی والا تھیلا ثمرہ کی طرف کر دیا۔ ثمرہ نے جلدی سے اُسے پکڑ کر پوٹلی اُس تھیلے میں ڈال دی۔ اس کے بعد سرفراز موٹر کی عمارت کے عقب سے سڑک کی طرف چل دیا۔
میرے باقی پیسے کب ملیں گے؟  ثمرہ نے جلدی سے پوچھا۔
رمشا کے چراغ والی سے لوٹنے کے بعد۔۔۔  سرفراز نے پلٹ کر بتایا۔
ثمرہ نے اردگرد دیکھنے کے بعد پارک کے اندر لگے شادی والے ٹینٹ کی راہ پکڑی۔

۞۞۞

منشا کے گھر لوٹنے تک عقیلہ  نے حویلی کے دُوسرے ملازموں کو اِس حادثے کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ دیوانِ خاص ہونے کی وجہ سے تہ خانے کے اُس کمرے تک عطا اور عقیلہ کے علاوہ کسی کو بھی رسائی حاصل نہ تھی۔ جب منشا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی تو بلاج مزاری پیشانی کے بل اور رمشا کمر کے بل زمین پر ڈھیر تھی۔
رمشا کے خون سے کمرے کا سرخ فرش مزید سرخ دکھائی دے رہا تھا۔ فرش پر بکھری پڑی رمشا کی ننگی تصویروں میں سے ایک منشا نے اُٹھا کر دیکھی، پھر اُس کی نظر اُس کاغذ پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا
’’گوری کے بیٹے سونو  نے تیرا منہ کالا کر دیا۔‘‘
بے ساختہ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، پھر وہ غصے سے چیخی
’’سونو۔۔۔‘‘
اگر وہ چیختی نہ تو غصے کی آگ سے راکھ ہو جاتی۔
اُسی روز، رات گئے بلاج مزاری اور رمشا کی تدفین کر دی گئی۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles