( 45 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
بارہ دسمبر 2008ء کو دن کے پچھلے پہر منشامزاری اِس سانحے کی تہ تک پہنچنے کے لیے خود لاہور پہنچ گئی۔
بہن اور باپ کی موت کا غم اُس کے انگ انگ اور نس نس میں سرایت کر چکا تھا۔ چراغ والی میں وہ تعزیت کرنے والوں سے جھوٹ بول بول کر تھک چکی تھی۔
منشا کی گاڑی ہاسٹل والی مارکیٹ کی پارکنگ میں کھڑی تھی اور وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر گُم سم بیٹھی، گھنٹہ پہلے آفرین اور خود کی ملاقات میں ہوئی باتوں پر غور کر رہی تھی۔ اُسے آفرین آنسو بہاتے ہوئے بتا رہی تھی
مجھے اُس کی کال آئی۔۔ کہنے لگی
منشا گاؤں گئی ہے۔۔۔ سوچ رہی ہوں دو دن کے لیے تمہاری طرف آ جاؤں۔
ساتھ ہی بولی، اچھا۔۔۔ ایسا کرو تم ساڑھے تین بجے ٹریک سوٹ پہن کر میری طرف آ جانا۔۔۔ میں ریڈی رہوں گی۔۔۔ اکٹھے جاگنگ کریں گے، پھر پارک سے ہی تمہاری طرف چلے جائیں گے۔۔۔
میں ساڑھے تین بجے ڈرائیور کے ساتھ تمہارے بنگلے پر پہنچ گئی۔ اُس نے اپنا ہینڈکیری میری گاڑی میں رکھوایا۔۔۔ پارک میں جاگنگ کرتے ہوئے بولی
میرا دل گھبرا رہا ہے۔۔۔
گاؤں جانا چاہتی ہوں۔
میں نے اُسے کہا
آؤ تمھیں ڈراپ کر دیتی ہوں۔۔۔
کہنے لگی: پاس ہی تو گھر ہے۔۔۔ میں چلی جاؤں گی۔
اس سے پہلے میں کچھ کہتی رمشا نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔۔۔ پارکنگ میں اُس نے میرے ڈرائیور سے اپنا ہینڈکیری لے لیا۔۔۔ بس مجھے اتنا ہی پتا ہے۔
آفرین نے تھوڑے توقف کے بعد بے یقینی سے کہا
’’کیسے مان لوں۔۔۔ کہ رمشا نے خودکشی کی ہے؟‘‘
۞۞۞
گاڑی کے شیشے پر دستک ہوئی۔ منشا کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا۔ اُس نے شیشہ نیچے کیا۔ عطا نے بتایا
’’بی بی سرکار۔۔۔! وہ شادی سے ابھی نہیں لوٹی۔‘‘
منشا نے کچھ سوچتے ہوئے ماموں مومن کی طرف دیکھا جو اپنی دُکان پر چند لڑکیوں کے لیے جوس بنانے میں مصروف تھا۔ عطا اُس کی طرف دیکھنے کے بعد تلخی سے بولا
’’اِس بڈھے کو ضرور پتا ہو گا۔‘‘
منشا نے افسردگی سے لمبی سانس لی، پھر عطا کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی
’’جب ہم ہی بے خبر رہے تو اِسے کیا خبر ہو گی۔‘‘
منشا عطا سے نظریں ہٹا کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھنے لگی، پھر رندھی ہوئی آواز میں بولی
’’حویلی کے تہ خانے میں جو ہوا وہ بات ہم تینوں کے سینوں میں ہی دفن رہنی چاہیے۔‘‘
’’بی بی سرکار! مجھ سے بڑھ کر عقیلہ اس حویلی کی وفادار ہے۔‘‘
ایک لمحے کے لیے منشا نے عطا پر نظر ڈالی، یکایک اُس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ اُس نے منہ دُوسری طرف موڑ لیا۔
گاڑی دیکھ کر مجھے لگا رمشا بیٹی آئی ہے۔
عطا کے پیچھے سے ماموں مومن کی آواز اُن دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ عطا پلٹتے ہوئے گاڑی کی کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ اور ماموں مومن اب روبرو کھڑے تھے۔ عطا نے بغور ماموں مومن کو دیکھا تو اُسے ہلکی سی تشویش ہوئی۔ وہ کہنے لگا
’’میں رمشا کی وجہ سے چلا آیا تھا۔۔۔ چلتا ہوں۔‘‘
ٹھہریں۔۔۔! ‘‘ منشا نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ عطا درمیان سے ہٹ گیا۔ ماموں مومن اور منشا کی ایک دُوسرے پر نظر پڑی۔ منشا اپنے درد کو چھپانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اُس نے سپاٹ انداز میں پوچھا
’’کچھ کام تھا رمشا سے؟‘‘
ماموں مومن یہ سنتے ہی گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔
مجھے بھی بتا سکتے ہیں۔ منشا نے شائستہ انداز میں کہا۔
رمشا بیٹی کدھر ہے؟ ماموں مومن نے ہلکی سی ہچکچاہٹ سے پوچھا۔
گاؤں میں۔۔۔ منشا نے بتایا۔
سرفراز تین چار دن سے غائب ہے۔۔۔ میں پولیس اسٹیشن گیا تھا۔۔۔ مگر
ماموں مومن شش و پنج میں مبتلا تھا۔
سرفراز جو ادھر کام کرتا تھا؟ منشا نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہی۔۔۔
کہیں اپنے گاؤں نہ چلا گیا ہو۔ منشا بولی۔
’’یتیم کا کون سا گاؤں ہوتا ہے۔‘‘
کیسے جانتے ہیں اُسے ؟ منشا نے سوال کیا۔
وہ میرے سالے کی چوڑیوں کی دُکان پر کام کرتا تھا۔ ماموں مومن نے بتایا۔
اُس کے شناختی کارڈ کی کاپی تو ہو گی آپ کے پاس؟ منشا نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
نہیں۔۔۔ ماموں مومن نے افسردگی سے بتایا۔ منشا بھی یہ سن کر مزید سنجیدہ ہو گئی۔
میں پھر آپ کی کیسے مدد کر سکتی ہوں؟ منشا نے بڑے اچھے انداز میں پوچھا۔
میرے پاس اُس کی ایک تصویر ہے۔ ماموں مومن نے جلدی سے بتایا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ آپ وہ تصویر مجھے دے دیں۔۔۔ میں بابا سائیں سے بولوں گی۔۔۔ جلد ہی سرفراز مل جائے گا۔‘‘
ماموں مومن مطمئن ہو گیا۔ اُس نے پارکنگ کے سامنے اپنی دُکان کی طرف دیکھا۔ دو لڑکیاں ادھر ادھر اُسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
آیا بیٹی۔۔۔! ماموں مومن نے اُونچی آواز کے ساتھ فضا میں اپنا بازو بلند کرتے ہوئے اپنی موجودگی ظاہر کی، پھر منشا کی طرف دیکھ کر کہنے لگا
’’میں اُن بچیوں کو فارغ کر کے تصویر دے جاتا ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی منشا کے چہرے پر اُمید کی رمق لوٹ آئی۔ اُس نے عطا کی طرف دیکھا۔ عطا جلدی سے کہنے لگا
’’میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔‘‘
ماموں مومن نے شکرگزار نظروں کے ساتھ منشا کو دیکھا، پھر اپنی دُکان کی طرف چل دیا۔ عطا نے اُس کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے پوچھا
’’شناختی کارڈ دیکھے بغیر ہی اُسے کام پر رکھ لیا تھا؟‘‘
شناختی کارڈ مانگا تھا میں نے۔۔۔ کہنے لگا کھو گیا ہے۔۔۔ جلد ہی بنوا لوں گا۔ ماموں مومن نے چلتے چلتے بتایا۔
یہ سنتے ہی منشا گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞