( 15 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
ٹیکسی میں خاموشی تھی۔ سب اپنی اپنی سوچوں میں گُم تھے۔ اُسی دوران زینت کی آواز گونجی
’’ماما۔۔۔! بھوک لگی ہے۔‘‘
تینوں نے حیرت سے زینت کی طرف دیکھا۔
ماما۔۔۔ زینت نے بڑی محبت سے ایک بار پھر فریدہ کو مخاطب کیا۔ آنیہ کو جلدی سے سندان کا خیال آیا۔
۞۞۞
یہ زینت کو دے دیجیے گا۔ سندان نے جانے سے پہلے ٹرین میں خریدی ہوئی چاکلیٹ آنیہ کو دی تھی۔
تُم نے خود کیوں نہیں دی؟ آنیہ نے پوچھا۔
’’وہ مردوں سے ڈرتی ہے۔۔۔ اُسے خود کے لیے لڑنا سکھا دیں۔۔۔ وہ ڈرنا چھوڑ دے گی۔‘‘
آنیہ نے جلدی سے اپنے شولڈر بیگ سے وہ چاکلیٹ نکال کے زینت کو دیتے ہوئے کہا
’’تمہارے ٹرین والے ماموں نے دی تھی۔‘‘
زینت نے جلدی سے وہ چاکلیٹ لیتے ہوئے کھولی۔ آدھی اپنی چھوٹی بہن کو دی اور آدھی خود کھانے لگی۔ فریدہ نے جب اپنی بچیوں کو خوش دیکھا تو اُسے بھی سندان کی ایک نصیحت یاد آئی
’’ماں کے روپ میں عورت سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔۔۔ آپ کی طاقت سے آپ کی بیٹیاں مضبوط بنیں گی۔‘‘
اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی آنیہ کو سندان کے جانے سے پہلے کی ایک اور بات یاد آئی
’’یہ قُلی یقینا اُسی کا مخبر ہے۔۔۔ یہاں سے نکلنے میں میری مدد کریں‘‘
کیوں یقین کروں تمہاری بات پر؟ آنیہ نے جذباتی انداز میں پوچھا۔ سندان نے اپنے چہرے سے آنیہ کے ہی دیے ہوئے ماسک کو اُتارا، پھر مسکراتے ہوئے بولا
’’بغیر یقین کے ہی خود کو مجھے سونپ دیا تھا۔‘‘
آنیہ کے دل پر سندان کی کہی ہوئی بات جا کے لگی۔ سندان نے جیسے ہی اپنے چہرے پر ماسک لگایا، قاسم قُلی دُوسری بار بیگ لے جانے کے لیے گلی والا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ جیسے ہی قاسم قُلی دو بیگ لے کر گلی والے دروازے سے نکلا، آنیہ جلدی سے بولی
’’مجھ سے رابطہ رکھنے کا وعدہ کرو۔۔۔ پھر مدد کروں گی۔‘‘
’’میں آپ سے رابطے میں رہا تو آپ کہیں کی بھی نہیں رہیں گی۔‘‘
اپنا اصل نام اور موبائل نمبر بتاؤ۔۔۔ آنیہ نے یکایک پوچھا، پھر اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا۔ سندان نے پہلے لمحہ بھر سوچا، پھر کہنے لگا
سرمد نواب عرف سونو۔۔۔ موبائل نمبر نہیں ہے۔ یہ بتاتے ہی سندان وہاں سے چلنے لگا تو آنیہ نے فٹ سے اُسے جیکٹ سے پکڑتے ہوئے کہا
’’مجھے پتا تھا تم اپنا نمبر نہیں دو گے۔۔۔ میرا کارڈ رکھ لو۔۔۔ زندگی میں ایک بار رابطہ ضرور کرنا۔‘‘
’’اگر زندہ رہا تو۔۔۔‘‘
سندان نے اپنی پلکوں کو ہاں میں جنبش دیتے ہوئے آنیہ کے ہاتھ سے کارڈ پکڑا تو ساتھ والے پلیٹ فارم کی ٹرین نے روانگی سے پہلے آخری سائرن دیا اور ہولے ہولے چلنے لگی۔
سندان اپنے پیچھے گلی والے دروازے سے باہر نکل گیا۔ آنیہ نے دروازے کے بند ہوتے ہی خود کو سنبھالتے ہوئے اپنے آپ کو موبائل پر مصروف کر لیا۔ قاسم قُلی نے اندر داخل ہوتے ہی پوچھا
’’سر کدھر گئے؟‘‘
واش روم۔۔۔ آنیہ نے قُلی کو دیکھے بغیر بتایا۔
ٹیکسی کی یک دَم بریک لگی تو آنیہ کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا۔ آنیہ کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ اُبھری۔ اُس نے اُسی مسکراہٹ کے ساتھ بڑے چنچل لہجے میں پوچھا
’’بھابھی۔۔۔! آپ کے ابو تھانے دار کب سے بن گئے؟‘‘
’’جب سے تمہارے ڈیڈی اسٹیشن ماسٹر ہوئے ہیں۔‘‘
فریدہ کی بات سنتے ہی وہ دونوں ایک ساتھ کھل کھلا کے ہنسنے لگیں۔ ٹیکسی ڈرائیور اُن کے اِس عمل پر ہلکا سا حیران ہوا تھا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞