( 16 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
جبران جپہ اپنی چھت پر بے چینی سے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ اُس نے وقتی طور پر ورزش کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ وہ بار بار ہاتھ میں پکڑے اپنے موبائل کو دیکھ رہا تھا، پھر اُس نے بختیار بابا کی طرف دیکھا جو تھوڑے فاصلے پر کھڑا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ جبران نے لمحہ بھر سوچا، پھر کہنے لگا
’’بابا جی۔۔۔! وہ موبائلز والا بیگ تو لائیے گا۔‘‘
بختیار بابا یہ سنتے ہی جبران کے آفس میں چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد اُس نے موبائل والا بیگ کھول کر میز پر رکھ دیا۔ جبران نے اپنا آئی فون میز پر رکھا اور بیگ میں پڑے ہوئے آٹھ موبائلوں میں سے ایک موبائل اُٹھایا اور لمحہ بھر اپنے دماغ پر زور دیا، جیسے دماغ کی ڈائری سے کسی کا نمبر نکال رہا ہو۔ اس کے بعد اُس نے وہ نمبر ڈائل کر دیا۔
۞۞۞
داؤد اپنے بندوں کے ساتھ اپنی جیب سے اُتر کر اپنے اڈّے کی طرف جانے ہی لگا تھا کہ اُس کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ اُس کے پاس وہ نمبر سیو نہیں تھا۔ اُس نے لمحہ بھر سوچا، پھر کال ریسیو کرتے ہوئے کہنے لگا
’’ہیلو۔۔۔‘‘
ٹرین کے نیچے آکے مر تو نہیں گئے؟‘‘ جبران نے تلخی سے پوچھا۔ داؤد کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی، پھر ہڑبڑاتے ہوئے بولا
’’نہیں۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ زندہ۔۔۔ ہوں۔۔۔‘‘
پولیس مقابلے میں مرتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ جبران نے معنی خیز انداز میں بتایا۔ یہ سنتے ہی داؤد تھوڑا سا پریشان ہوا، پھر جلدی سے کہنے لگا
’’ابھی تو وہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، مگر کراچی سے نہیں نکل سکتا۔‘‘
وہ مل جائے تو مجھے اُسی وقت میسج کر۔۔۔ جبران نے یہ بولنے کے بعد کال کاٹتے ہوئے وہ موبائل بیگ میں رکھ دیا اور دُوسرا اُٹھا لیا۔ اُس نے ایک نمبر ملایا۔
۞۞۞
لاہور ملتان موٹروے پر منشا مزاری کی گاڑیاں ملتان کی طرف رواں دواں تھیں۔ منشا کی گاڑی آگے اور اُس کے پیچھے اُس کے چار باڈی گارڈز اور ایک ڈرائیور دُوسری گاڑی میں تھے۔ سفید رینج روور میں منشا پچھلی سیٹ پر کالے ماتمی لباس میں ملبوس کالا چشمہ لگائے اکیلی بیٹھی ہوئی تھی۔
پہلو میں اُس کا پرس اور پانی کی ایک بوتل پڑی تھی۔ عطا اور ڈرائیور اگلی سیٹوں پر تھے۔ ڈیش بورڈ پر رکھا ہوا عطا کا موبائل وائبریٹ کرنے لگا۔ عطا نے کال آنے والے نمبر پر غور کیا، مگر اُسے کچھ یاد نہ آیا۔ اِس سے پہلے کہ کال کٹ جاتی عطا نے پوچھا
’’جی۔۔۔ کون۔۔۔؟‘‘
’’جپہ۔۔۔‘‘ جبران جپہ نے بتایا۔
جی جپہ صاحب۔۔۔!عطا نے متحرک ہوتے ہوئے کہا۔
اپنی بی بی سرکار سے بات کراؤ۔۔۔‘‘ جیسے ہی جبران جپہ کی بات عطا نے سنی تو اُس نے لمحہ بھر اُس کی بات پر غور کیا، پھر تھوڑی جھجھک کے ساتھ پیچھے بیٹھی ہوئی منشا مزاری کی طرف دیکھا جو سیٹ کی پشت کے ساتھ سر لگائے بیٹھی تھی۔ آنکھوں پر کالا چشمہ ہونے کی وجہ سے عطا کچھ اُلجھن کا شکار تھا۔
کیا بات ہے عطا۔۔۔؟ یہ پوچھ کر منشا نے عطا کی اُلجھن کو خود ہی دُور کر دیا۔
’’بی بی سرکار۔۔۔! جپہ صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
منشا نے چشمہ اُتارا تو اُس کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ اُسی عالم میں اُس نے عطا کے ہاتھ سے موبائل پکڑتے ہوئے اپنے کان سے لگاتے ہوئے کہا
’’جپہ صاحب۔۔۔! آپ کے متعلق تو سُنا تھا کہ آپ موبائل پر کسی سے بات ہی نہیں کرتے۔‘‘
جب بات خاموشی سے زیادہ اہم ہو پھر کر لیتا ہوں۔ جبران جپہ نے بڑے مزے سے بتایا۔
اچھا۔۔۔ پھر بتائیں وہ اہم بات! منشانے سنجیدگی سے کہا۔
سرمد نواب کل صبح سات سے آٹھ کے درمیان پنڈی ریلوے اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا تھا۔۔۔ آج وہ کراچی پہنچ گیا ہے۔
جیسے ہی جبران نے یہ بتایا، منشا نے طنز سے بھرپور قہقہہ لگایا، پھر کہنے لگی
’’پچھلے بارہ سال سے میرے مخبر مجھے ایسی ہی خبریں سنا رہے ہیں۔۔۔ اہم بات بتائیں!‘‘
میں جب تک مرنے والے کی لاش نہ دیکھ لوں۔۔۔ اُسے زندہ ہی مانتا ہوں۔ جبران نے یہ بول کر کال کاٹ دی۔
وہ فون بیگ میں رکھ دیا اور بختیار بابا کو بیگ میز سے اُٹھانے کا اشارہ دے دیا۔ بختیار بابا وہ بیگ لے کر آفس کے اندر چلا گیا۔
جبران نے اپنا میز سے پکڑا اور واٹس ایپ سے ایک موبائل سے بنی ہوئی ویڈیو عطا کو بھیجی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞