( 9 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
ساحل ہاتھ منہ دھو کر واش روم سے نکلا تو اُس کے ایک پیر کے نیچے سے کچھ چٹخنے کی آواز گونجی۔ اُس نے نیچے دیکھا تو اُس کے بوٹ کے نیچے چند ٹوٹی ہوئی چوڑیاں تھیں۔ ساحل بیٹھ گیا اور وہ ساری ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے کانچ چُننے لگا۔
خاتون کی گود میں سر رکھ کر دس سالہ بچی سو چکی تھی اور آٹھ سالہ اُس سے لپٹی ہوئی تھی جس کی آنکھوں میں اب بھی خوف تھا۔ آنیہ اپنی بھابھی کے ماتھے پر پٹی اور کلائی پر ڈیٹول لگانے کے بعد فرسٹ ایڈ کا سامان پلاسٹک کے ڈبے میں رکھ رہی تھی۔ خاتون اور آنیہ نے ساحل کے چوڑیاں اُٹھانے کے عمل کو بڑے غور سے دیکھا۔ ساحل کی بھی اُٹھتے ہوئے اُن دونوں پر نظر پڑی تو وہ سنجیدگی سے بتانے لگا
’’پانچ مراحل اور درجنوں ہاتھوں سے گزر کر ایک چوڑی تیار ہوتی ہے۔‘‘
آمنے سامنے بیٹھی ہوئی خاتون اور آنیہ نے ایک دُوسرے کو حیرت سے دیکھا، پھر آنیہ قدرے ترش لہجے میں بولی
’’لگتا ہے آپ کو ہمارے زخموں سے زیادہ کانچ کی چوڑیاں ٹوٹنے کا دُکھ ہے۔‘‘
آنیہ کا جملہ سننے کے بعد ساحل نے لمحہ بھر اُس پر غور کیا، پھر خاتون کی کلائی کی طرف دیکھا، جس پر زخموں کی ہلکی ہلکی لکیریں تھیں۔ وہ دیکھنے کے بعد ساحل گیلی آواز میں بولا
کسی کی زبردستی چوڑیاں توڑنے سے کلائی پر خراشیں نہیں۔۔۔ دل پہ گھاؤ لگتے ہیں۔ آپ دونوں بھلانا بھی چاہیں تو ساری زندگی آج کے دن کو بھلا نہیں پائیں گی۔
لمحوں میں ہی آنیہ کی آنکھوں میں نمی اُمڈ آئی۔ اس سے پہلے کہ اُس کے آنسو چھلک پڑتے خاتون نے اُسے کہا
’’تم بھی فریش ہو جاؤ آنیہ۔۔۔!‘‘
آنیہ جلدی سے واش روم کی طرف چل دی۔ ساحل نے اُسے راستہ دیا۔ آنیہ نے واش روم کے اندر داخل ہوتے ہی اُس کا دروازہ بند کر لیا اور دیوار سے ٹیک لگا کے آواز نکالے بغیر زاروقطار رونے لگی۔
بیٹھیں بھائی۔۔۔! خاتون نے ساحل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ خاتون کے سامنے ساحل، آنیہ کی جگہ بیٹھ گیا۔
کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں بھائی۔۔۔! اگر آنیہ کے ساتھ ایسا ویسا کچھ ہو جاتا تو میں کس منہ سے اس کے بھائی کا سامنا کرتی؟
خاتون کی آواز میں درد کی گونج نمایاں تھی۔ ضبط کے باوجود خاتون کے آنسو بہنے لگے۔
آنیہ نے واش روم میں لگے شیشے میں خود کا چہرہ دیکھا۔ اُس کے چہرے پر ایک مرد کے ناخنوں اور دانتوں کے نشانات کے اثرات اب بھی موجود تھے۔ آنیہ نے پانی سے اُن اثرات کو دھونا شروع کیا۔ آنیہ نے روتے روتے اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی جا رہی تھی۔
خاتون کے آنسو بھی مسلسل بہنے لگے۔ ساحل نے اُٹھ کر خاتون کے شانے پر اپنا دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا
’’بہن۔۔۔! اِن باتوں کو اِس ڈبے سے باہر مت جانے دیجیے گا۔‘‘
کیوں۔۔۔؟ آنیہ نے واش روم سے نکلتے ہوئے پوچھا۔
آنیہ کا چہرہ تر و تازہ دکھائی دے رہا تھا۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ واش روم میں رو رہی تھی۔
تیزگام تو کراچی پہنچنے کے بعد رُک جائے گی، مگر یہ بات۔۔۔ ساری زندگی طعنوں کی پٹڑی پر سفر کرتی رہے گی۔
ساحل کی بات پر آنیہ سوچ میں پڑ گئی۔
میں چلتا ہوں۔
ساحل نے آٹھ سالہ بچی کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔
کدھر۔۔۔؟ خاتون نے جلدی سے پوچھا۔
کسی اور ڈبے میں۔ ساحل نے بتایا۔
آپ نے جانا کدھر ہے؟ آنیہ کے سوال پر ساحل سوچ میں پڑ گیا۔ تھوڑے توقف کے بعد کہنے لگا
حیدر آباد۔۔۔
اگر آپ کے ساتھ کوئی نہیں تو حیدر آباد تک ہمارے ساتھ سفر کر سکتے ہیں۔ آنیہ نے صاف گوئی سے دل کی بات بول دی۔ ساحل نے خاتون کی طرف دیکھا تو اُس نے بھی یک لخت بول دیا
’’ہاں۔۔۔ ہاں کیوں نہیں۔۔۔‘‘
ساحل فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ رُک جائے یا وہاں سے چلا جائے۔
مت جائیں ماموں۔۔۔
ننھی آواز ساحل کے کانوں میں پڑی۔ اُس نے خاتون کی گود کی طرف دیکھا۔ آٹھ سالہ بچی مسکرا رہی تھی۔
’’آپ بولتی بھی ہو؟‘‘ ساحل نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی۔۔۔ آپ نے میرا نام تو پوچھا ہی نہیں۔۔۔‘‘ بچی نے کہا۔
’’کیا نام ہے آپ کا۔۔۔؟‘‘ ساحل نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
میں زیب اور یہ زینت۔۔۔ زیب نے پہلے اُنگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا، پھر اپنی سوئی ہوئی بہن کی طرف ساتھ ہی خاتون بھی بول پڑی
میں فریدہ وجاہت۔۔۔ آنیہ کے بھائی صاحب کا نام وجاہت ہے۔۔۔ یہ میری نند ہے۔۔۔ میرے چھوٹے بھائی کی پنڈی میں شادی تھی۔۔۔ کراچی سے ہم جہاز پر آئے تھے۔۔۔ آنیہ میرے ساتھ اِس شرط پر آئی تھی کہ واپسی کا سفر ٹرین سے کریں گے۔۔۔
فریدہ بات کرتے کرتے رُک گئی۔ اُسے پھر سے وہ بات یاد آ گئی تھی۔ اس موقع پر آنیہ نے بات بدلتے ہوئے کہا
بھابھی۔۔۔! کھانے والی ٹوکری میں کھانا پڑا پڑا خراب ہو جائے گا۔۔۔ آپ کی امی نے اتنا کچھ بنا کے دیا ہے۔
کیا کیا بنایا ہے اِن کی امی نے۔۔۔؟ ساحل نے بھی بات کا رُخ بدلتے ہوئے آنیہ کا ساتھ دیا۔
نمکین گوشت۔۔۔ چپلی کباب۔۔۔ گاجر کا حلوہ۔۔۔ فریدہ نے بولتے ہوئے لمحہ بھر سوچا تو ساحل بول اُٹھا
’’تو کھلائیں نا۔۔۔‘‘
تم زینت آپی کو اُٹھاؤ۔۔۔
فریدہ نے اپنے پاس لیٹی ہوئی زیب کو خود سے جدا کرتے ہوئے کہا اور خود دونوں کھڑکیوں کے درمیان بنی ہوئی میز کی طرف ہوتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ اُس میز پر کھانے والی ٹوکری پڑی ہوئی تھی۔ زیب ہولے ہولے سوئی ہوئی زینت کو ہلانے لگی جیسے جھولے دے رہی ہو۔ ٹرین مقبرہ جہانگیر کے سامنے سے گزر رہی تھی۔ ساحل کے منہ سے بے ساختہ نکلا
ارے۔۔۔! لاہور آ گیا۔۔۔
لاہور کا نام لیتے ہوئے ساحل کے لہجے کی مٹھاس کو آنیہ نے چکھ لیا۔ اُس نے یقین سے کہا
’’لگتا ہے لاہور کو بڑے قریب سے دیکھا ہے آپ نے۔‘‘
یہ سنتے ہی ساحل کے منہ سے نکلا
ہاں۔۔۔ پھر جلدی سے اُس نے خود ہی اپنی بات کی نفی کر دی
نہیں۔۔۔ وہ کام کے سلسلے میں ۔۔۔ میرا چوڑیوں کا بزنس ہے۔۔۔ اُسی سلسلے میں لاہور آنا جانا لگا رہتا ہے۔
کیا چوڑیاں۔۔۔؟ کھانا نکالتے ہوئے فریدہ نے پلٹ کر دیکھا، پھر پوچھنے لگی
’’چوڑیوں کی دُکان ہے آپ کی؟‘‘
نہیں۔۔۔ حیدرآباد میں ہمارا چوڑیوں کا کارخانہ ہے۔ ساحل نے بتایا۔
کس جگہ۔۔۔؟ آنیہ نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
چوڑی پارہ۔۔۔ ساحل نے آنیہ کی طرف دیکھ کر بتایا۔ آنیہ نے ساحل سے نظریں ملائیں تو اُس نے باہر کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ ٹرین راوی کا پُل پار کر کے سبزی اور فروٹ منڈی کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ زیب کی کوشش رنگ لے آئی۔ زینت نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنی سیٹ پر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ فریدہ نے دیکھا تو بولی
’’منہ ہاتھ دھو لو۔۔۔!‘‘
زینت نے واش روم جانے سے پہلے جانچتی نظروں سے ساحل کو دیکھا، پھر کھڑی ہو گئی۔ آنیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر زینت کا ہاتھ پکڑا او ردُوسرے ہاتھ سے واش روم کا دروازہ کھولتے ہوئے تاکید کی
’’میری گڑیا۔۔۔! صابن ضرور لگانا۔‘‘
ٹرین کی رفتار بہت کم ہو چکی تھی۔ وہ دو موریہ پُل کے اُوپر سے گزر کر ریلوے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔
فریدہ بہن۔۔۔! کچھ گرم کروانا ہے تو بتائیں۔ ساحل نے کہا۔
سب کچھ ہی تو ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ فریدہ نے ٹھنڈے لہجے میں ہی بتایا۔
دیں۔۔۔ میں گرم کروا دیتا ہوں۔ ساحل نے جب یہ کہا اُس وقت ٹرین پلیٹ فارم پر داخل ہو رہی تھی۔ ٹرین کے رُکتے ہی ٹفن کے دو ڈبے تھامے ساحل ٹرین سے اُترا۔ اُس نے بڑی اُلفت سے لاہور کی فضا میں سانس لی۔
بڑا اچھا آدمی ہے۔ فریدہ نے آنیہ کی طرف دیکھ کر رائے دی۔ آنیہ نے واش روم سے نکلتی ہوئی زینت کے سرسے بوسہ لیتے ہوئے فریدہ کی رائے پر اثبات میں گردن کو ہلایا، پھر دل میں کہنے لگی
’’اتنا بھی اچھا نہیں۔۔۔‘‘
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞