خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
چودہواں حصہ
ہلنسگور کا سفر دو شاعروں کے ہمراہ
طارق محمود مرزا، سڈنی
کھانے سے فارغ ہوئے تھے کہ ڈنمارک کے مشہور شاعر طاہر عدیل مجھے لینے آ گئے۔ میں نے محمد یاسین کا شکریہ ادا کیا جو دو دن سے میرے ساتھ تھے۔ ان سے ایک روز قبل ملاقات ہوئی تھی اور آج ایسے لگ رہا تھا کہ مدّتوں پرانا تعلق ہے۔ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو دھیرے دھیرے آ پ کے دل میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ دھیمے لہجے والے محمد یاسین کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
طاہر عدیل مجھے لے کر نصر ملک کے دولت خانہ پہنچے۔ اُن کی عمارت کے ارد گرد، بے شمار اشجار، پودے، پھل دار پیڑ، رنگین پھول اور سبز گھاس کی وجہ سے انتہائی حسین منظر تھا۔ گھنے سرسبز درختوں اور گلہائے رنگین میں گھری اکلوتی عمارت کے سامنے جا کر رُکے تھے کہ نصر ملک تشریف لے آئے ۔
دونوں میزبان شعر و ادب سے تعلق ِخاص رکھتے تھے۔ طاہر عدیل اردو، پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں میں نہایت عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ جبکہ نصر ملک تو ادب و صحافت کی یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ادب، شاعری، مصوری، تاریخ، ترجمہ، صحافت، براڈ کاسٹنگ اور نشر و اشاعت کے ہر موضوع پر بیک وقت دسترس اور تجربہ رکھنے والی ایسی شخصیت میں نے پہلے دیکھی نہ سنی۔
ان کا مطالعہ وسیع، تجربہ لامحدود اور ذوقِ ادب نہایت عمدہ ہے۔ ان کی گفتگو دلنشین اور تجربے کی چاشنی سے معمور ہے۔ اگلے چند گھنٹے ان کے ساتھ اور طاہر عدیل کے ساتھ ایسے گزرے جیسے کوئی رنگین فلم ہو، کوئی سہانا سپنا ہو، کوئی دلچسپ کتاب ہو یا رنگ و نکہت کی برسات۔
طاہر عدیل نے پوچھا، مرزا صاحب! آپ کے پاس پاسپورٹ ہے کیا؟
نہیں، میں ہوٹل میں چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے حیرت سے کہا۔
اوہ، اگر آپ کے پاس پاسپورٹ ہوتا تو ہم سویڈن کے شہر مالمو جا سکتے تھے۔
کتنی دور ہے یہاں سے سویڈن؟ میں نے دریافت کیا۔
نصر ملک صاحب نے بتایا، زیادہ دور نہیں ہے۔ آدھ پون گھنٹے میں وہاں جا سکتے تھے۔ کئی لوگ سویڈن کے اس ساحلی شہر میں رہتے ہیں اور روزانہ ڈنمارک کام کرنے آتے ہیں۔ اسی طرح ڈنمارک کے کئی افراد روزانہ وہاں جاتے ہیں۔
آخر طے یہ ہوا کہ ہم کوپن ہیگن سے باہر سیر کے لیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ڈنمارک کے انتہائی شمال میں واقع شہر ہلسنگور کا انتخاب ہوا جسے انگریز ایلسنور کہتے ہیں۔
نصر ملک نے بتایا، یہ ایک قدیم شہر ہے اس کی موجودہ آبادی باسٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے ۔دیگر کئی اور دلچسپیوں کے علاوہ اس تاریخی شہر کی عالمی وجہِ شہرت ولیم شیکسپئیر کا ایک ڈرامہ ہیملٹ ہے۔ جس میں اس نے ایلسنور کے تاریخی کراؤن بورگ قلعہ کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ اپنے اس مشہورِ زمانہ ڈرامے میں اس شہر ہیلسنور اور ڈینش شاہی خاندان کا بہت دلچسپ انداز میں ذکر کرتے ہوئے کراؤن بورگ قلعہ کو شہرتِ دوام بخش دی۔ شیکسپیر کے اس ڈرامے میں ڈنمارک کے حوالے سے ایک مکالمہ
Something is Rotton in the state of Denmark
فن کی دنیا میں بہت مشہور ہوا۔ یہ قلعہ شمال مغربی یورپ میں علوم و فنون کے احیا کے زما نے کی اہم یادگار ہے کہ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونسیکو کی عالمی ثقافتی اثاثے کی فہرست میں نمایاں شامل ہے۔
ہلنسگور شہر بذات خود ڈینش صوبہ سٹی لینڈ کے انتہائی شمال مشرقی کنارے پر واقع ہے۔
اس شہر کے ساتھ سمندری پٹی کے دوسری جانب سویڈن کا شہر ہلنسبورگ ہے جو کسی دور میں ڈنمارک کا حصّہ تھا۔
ہلسنگور کے لیے طاہر عدیل نے ساحلی شاہراہ کا انتخاب کیا جو قدرے طویل ہے مگر اس راہ کے مناظر اس قدر حسین تھے کہ طوالت محسوس نہیں ہوئی۔ یوں بھی ہم جگہ جگہ رُکتے، چائے، کافی اور سگریٹ نوشی کرتے اور فوٹو گرافی کرتے جا رہے تھے۔ اس دوران نصر ملک کی معلومات افزا دلچسپ گفتگو جاری تھی۔
طاہر عدیل بھی اپنے شعری اور ادبی ذوق کے رنگ شامل کر رہے تھے۔ میں بھی حتی المقدور ان دوستوں کا ساتھ دے رہا تھا۔ ہلسنگور جانے سے پہلے ہم کلین بورگ کے قصبے میں واقع تفریحی پارک باکن میں گئے۔
نصر ملک نے بتایا، کلمین بورگ تفریحی پارک باکن تاریخی اور ہرنوں والے جنگل کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگل میں شاہ بلوط کے صدیوں پرانے درخت آ ج بھی ایک عجب سکون دیتے ہیں۔ اس جنگل کا رقبہ گیارہ کلومیٹر ہے اور یہ دُنیا کے قدیم جنگلوں میں شامل ہے، جنہیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ کلمین بورگ شہر سمندر کے کنارے واقع ہو نے کی وجہ سے خوبصورت ساحلوں کے لیے مشہور ہے۔ گرما کے دنوں میں ایسے دِلکش نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان دیکھتا رہ جائے۔
ہم سفر کے دلفریب نظاروں، سمندر کے ساتھ ساتھ چلتی شاہراہ اور راستے میں آنے والے ڈینش آبادیوں کے طرز رہائش اور طرز حیا ت پر نظر دوڑاتے باکن پارک کے سامنے پہنچے تو کئی دلفریب نظارے ہمارے منتظر تھے۔ مغرب میں نیلا سمندر محوِ استراحت تھا ۔جبکہ سمندر کے کنارے سرسبز و شاداب پارک میں لوگ تفریحی مصروفیا ت میں مشغول تھے۔
دوسری جانب باکن پارک کا سرخ بلند و بالا گیٹ ہمارے سامنے تھا جس کے باہر دو گھوڑوں والی بگھیاں کھڑی تھیں۔ کئی سیاح پارک کی سیر کے لیے یہ بگھیاں کرائے پر لے جاتے تھے۔ دراز قد و قامت کے جسیم گھوڑے اس کے پیچھے سجی ہوئی بگھیاں، باوردی ڈینش کوچوان، انسان کو ماضی کے اُس دور میں لے جاتا تھا جب ایسی بھگیاں شاندار شاہی سواری سمجھی جاتی تھیں۔
عصرِ حاضر کے عام انسان کو ماضی کے شہنشاہوں سے زیادہ سہولیات میسر ہیں۔ اس کے پاس برق رفتار کاریں، بلٹ ٹرین، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر سمیت جدید تیز ترین ذرائع سفر موجود ہیں مگر ان بگھیوں میں جوشاہانہ احساس ہوتا ہے وہ ان جدید گاڑیوں اور جہازوں میں نہیں ہے۔
صدیوں قدیم پیڑوں، رنگارنگ پھولوں کے قطعات اور دیدہ زیب تراشیدہ پودوں سے سجا یہ وسیع و عریض پارک مقامی افراد کی تفریح اور بین الاقوامی سیاحوں کا سیاحتی مرکز ہے۔
یہ اتنا وسیع ہے کہ پورے پارک کی پیدل سیر ناممکن ہے۔ اس لیے میں اور عدیل تقریباً ایک کلو میٹر تک پارک کے اندر چلتے چلے گئے۔ یہاں انواع و اقسام کے درختوں کے گھنے جھنڈ، سبز گھاس کے قطعات، کناروں پر گلہائے رنگین کی قطاریں، خوبصورت روشیں اور درختوں کی شاخوں پر مختلف النوع طیور میٹھی بولیاں بول رہے تھے۔
ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ہم آبادیوں سے کہیں دور گھنے جنگلوں میں آ گئے ہیں۔ حالانکہ اس پارک سے باہر مصروف شاہراہیں اور آ بادیاں تھیں۔ مگر پارک کے اندر کی دنیا بالکل جُدا تھی۔
منتظمین نے دانستہ یہ ماحول تخلیق کیا تھا۔ پارک کے اندر سڑک ہونے کے باوجود گاڑی لے جانے کی ممانعت ہے۔ بگھیاں بھی ایک حد سے آگے نہیں جا سکتیں۔ تاہم مشینی دور کی ایک شے سائیکل نظر آتی تھی جس کے مخصوص ٹریک بنے تھے۔
قدیم اشجار کی شاخیں خستہ ہو کر ٹوٹتی اور لٹکتی رہتی ہیں۔ درختوں کے پتے گرتے ہیں اور ان کا فرش بچھ جاتا ہے۔ مگر راہ گیر وں کے لیے مختص رستوں کے علاوہ بقیہ پارک کو اصلی اور قدرتی شکل میں رکھا جاتا ہے۔ تاہم پارک کے اندر گھاس اور پودوں سے مزیّن قطعات کی مکمل نگہداشت و پرداخت کر کے اسے صاف و شفاف اور دلکش بنایا جاتا ہے تاکہ بچے اور بڑے اس سے محظوظ ہو سکیں۔
نصر ملک صاحب ہمارے ساتھ پارک کے اندر نہیں آئے تھے۔ اس کی تین وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ ٹانگوں کی تکلیف کی وجہ سے وہ زیادہ چل نہیں پا تے تھے۔ دوسری وجہ ان کی سگریٹ نوشی تھی جو مسلسل جاری رہتی تھی۔ تیسری اور سب سے بڑی وجہ باکن پارک کے عین سامنے شاہ ہ بلوط کا ایک درخت تھا۔ جو بیک وقت انتہائی قدیم، تاریخی اور کئی رومانوی داستانوں کا مرکز تھا۔
آٹھ سو برس پرانا یہ پیڑ کوپن ہیگن شہر سے بھی قدیم تھا۔ ہم پارک کے اندر گئے تو ملک صاحب اس شجرِقدیم سے راز و نیاز کرنے چلے گئے۔ ہم واپس آئے تو یہ صدیوں قدیم پیڑ ڈھونڈنے میں کوئی دقّت نہیں ہوئی۔ ملک صاحب اس درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے سگریٹ نوشی میں مشغول تھے۔
اس پیڑ کا تنا بڑ کے درخت کی طر ح پھیلا ہوا ہے اور امتدادِ زما نہ سے اس میں بڑے بڑے چھید بن گئے ہیں۔ اس کی شاخیں سنگلاخ، چھدری اور ان دنوں پتوں سے عاری تھیں۔ ہم نے ملک صاحب کو تنہا چھوڑ نے پر معذرت کی تو انہوں نے جو جواب دیا وہ ایک مصنف و محقق ہی دے سکتا ہے۔
میں ہرگز اکیلا نہیں تھا۔ میں اس قدیمی شجر کے ساتھ تاریخ کے لمحات دُہرا رہا تھا ۔یہ کئی صدیوں کے رازوں کا امین ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ وقت گزارنا ایک خوشگوار مشغلہ ہے۔
طاہر عدیل نوجوان ہے مگر ملک صاحب کے ساتھ کبھی کبھی بے تکلف ہو جاتا ہے،ہنستے ہوئے بولا۔
پھر ہمیں بھی بتائیے اس درخت کے ساتھ کیا راز و نیاز ہو ئے؟
ملک صاحب مسکراتے ہو ئے، برخوردار راز و نیاز طشت ازبام کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ بلکہ اس سے دِل کی دُنیا آباد کی جاتی ہے۔
طاہر عدیل شرارت پر تلا ہوا تھا، ویسے چالیس پچاس برس سے آپ ڈنمارک میں مقیم ہیں۔ اس دوران دل کی بستی کتنی مرتبہ آباد ہوئی؟
طاہر عدیل دل اور اس کے مکینوں کا کیا ذکر چھیڑ تے ہو؟
ملک صاحب نے آہ بھری۔ یہ ذکر چلے گا تو دُور تک جائے گا۔ کئی پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔ کئی غزلیں اور کئی افسانے جنم لیں گے۔ یہ بستی قدرے پُرسکون ہے اسے یُونہی ہی رہنے دو۔ کیوں بڑھاپے میں بدنام کرنے والی بات کرتے ہو۔
بہرحال اس بزرگ پیڑ کی بات ہو رہی تھی جو اس راہ سے گزرنے والوں پر نظریں جمائے صدیوں سے یہاں کھڑا ہے۔ اس طلسماتی پیڑ کا تنا اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اور اس کے اندر داخل ہو نے کے لیے بڑا سا چھید بن گیا ہے۔ میں نے اندر جھانک کر دیکھا تو اتنی جگہ تھی کہ بیک وقت سات آٹھ افراد وہاں سما سکتے تھے۔
اس کے تنے کا قطر بارہ میٹر ہے۔ میں نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ درخت کے اندر یہ قدرتی غار گیان اور چلّے کی جگہ لگتی ہے ۔
طاہر عدیل کا چشمِ تخیل جاگ اُٹھا۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے اس مقصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہوں۔ اپنی طویل العمری کی مناسبت سے اس درخت نے کتنے موسم، کتنے ماہ و سال، کتنے افراد، کتنی کہانیاں اور کتنے زمانے دیکھے ہوں گے۔ اگر اس کی زبان ہو تو کیسی کیسی کہانیاں سُنائے۔ نہ جانے اپنے سائے میں کتنے دلوں کو جُڑ تے اور ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہو گا۔
ملک صاحب ایسا موقع کم ضائع کرتے تھے۔ فوراً بولے۔ دلوں کا تو معلوم نہیں، جسموں کو ملتے، جڑ تے، سکڑ تے ضرور دیکھا ہو گا۔ اسی لیے شرم سے خاموش ہے۔
میں نے کہا۔ اسے خاموش ہی رہنے دیجیے اور ہم سامنے والے ساحلی پارک میں چلتے ہیں۔
بقیہ اگلی قسط میں
یہ مضمون انگریزی میں پڑھیے
https://shanurdu.com/a-trip-to-helsingborg/