15 C
Lahore
Sunday, December 15, 2024

Book Store

کوپن ہیگن کی عجیب بستی|Denmark

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

ساتواں حصہ

کوپن ہیگن کی عجیب بستی

طارق محمود مرزا، سڈنی

یہ تو تھیں ڈنمارک کی چند اہم اور دلچسپ باتیں۔
اب ہم کوپن ہیگن کے سب سے دلچسپ اور عجیب علاقے کرسچینیا چلتے ہیں۔ جو اوپیرا ہاؤس کے قریب اور مرکز شہر میں واقع ایک قدیم اور تاریخی آبادی ہے۔ یہ بقیہ شہر سے مختلف، جدا طرز زندگی کا حامل اور انوکھے رہن سہن پر مشتمل ہے۔
تقر یبا ً ۱۹ ایکڑ پہ محیط اور ایک ہزار افراد پر مشتمل قدیمی باشندوں کی یہ کالونی چاروں اطراف سے بلند دیواروں میں محصور ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ یہ لوگ اس کے اندر مقید ہیں۔ اس آبادی کے لوگ باہر اور باہر کے لوگ اس آبادی میں آزادانہ آ جا سکتے ہیں۔
تاہم ان دیواروں کے اندر قانون کی عملداری کافی کم ہے۔ یہاں جگہ جگہ چرس، مارفین اور دیگر منشیات سرِعام فروخت ہوتی ہیں۔ مگر قانون کی آنکھ ان سے صرفِ نظر کرتی ہے کیونکہ یہ ان قدیمی باشندوں کا روایتی دھندا ہے۔
صدیوں قدیم پتھریلی دیوار کے ساتھ اور قدرے گندی گلی میں گیٹ کے قریب رمضان رفیق  نے کار کھڑی کی تو میں  نے پوچھا۔ یہاں گاڑی کو خطرہ تو نہیں ہے۔
رمضان رفیق  نے بتایا۔ نہیں، یہ لوگ اتنے دیدہ دلیر بھی نہیں ہیں۔ یہ باہر نکل کر جرائم وغیرہ نہیں کر تے۔ تاہم چار دیواری کے اندر قانون کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ خود بھی نشہ کرتے ہیں اور اس کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ نشے میں دُھت ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ غلط حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں مگر عموماً بےضرر ہیں۔
گاڑی پارک کر کے ہم کر سچنیا کے گیٹ کے اندر داخل ہو ئے تو جیسے ایک انوکھے اور قدیم دور میں داخل ہو گئے۔ ٹین کی چھتوں والے کاٹیج نما گھروں کے آگے نشے میں دُھت مردوں اور عورتوں کی ٹولیاں ہمیں بنظرِ غائر دیکھ رہی تھیں۔
چند ایک نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ ایک دو  نے پوچھا، کون سی منشیات درکار ہے؟ ہمیں بتاؤ ۔
ہم  نے مُسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور آ گے بڑھتے چلے گئے۔ پرانے اور خستہ مکانات کے درودیوار پر مختلف رنگوں سے عجیب و غریب تصویرکشی اور نقش نگاری کی گئی تھی۔ گھروں کے صحنوں میں کاٹھ کباڑ رکھا تھا۔
سانولی رنگت کے مرد اور عورتیں ملگجے بلکہ غلیظ لباس میں ملبوس جگہ جگہ ٹولیاں بنا کر بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔
کوئی ہنس رہا تھا تو کسی  نے سرزمین پر ٹیکا ہوا تھا۔ شاید زمین پر سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی آسمان کو گھور رہا تھا اور کوئی مکھیاں اڑا رہا تھا۔ وہ دُنیا و مافہیا سے بےخبر اپنی دُھن میں مگن تھے۔
آبادی کے اندر اچھی خاصی وسیع گلیاں تھیں مگر گاڑی لے جانا منع ہے۔ اس لیے ہم پیدل جا رہے تھے۔ آگے ایک چوک میں چرسیوں کی اس آبادی کا مرکز اور بازار تھا۔ چوک میں چاروں اطراف دُکا نیں، کیفے، ریستوران ،سینما گھر، اوپن ائیر تھیٹر اور فٹ پاتھ پر منشیات کے اسٹال سجے تھے۔
بڑی بڑی میزوں پہ انواع و اقسام کی چرس رکھی تھی۔ اُن کے نام کچھ اس طرح تھے۔ افریقن، مراکو، ڈنیش، میکسکو اورپشاوری وغیرہ وغیرہ۔ ہم ایک اسٹال کے پاس رُکے تو دکاندار ہمیں مختلف اقسام کی چرس کے بارے میں بتانے لگا۔
یہ میرے لئے یکسر نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ یہاں چرس اور دیگر منشیات کے استعمال کرنے والوں کے لیے کرسیاں بچھی تھیں۔ چھو ٹے چھوٹے کمرے بھی موجود تھے۔ دوسری جانب اس چوک میں سینڈوچ ،کافی اور ہاٹ ڈاگ وغیرہ فروخت ہو رہے تھے۔
ایک کونے میں ہپیوں کا گروپ موسیقی کی دُھنیں بکھیر رہا تھا۔ کئی لوگ اُ ن  کے سامنے کھڑے چرس بھری سگریٹ کے سوٹے لگاتے اور یاہو کے نعرے لگاتے۔ فضامیں چرس، دُھوئیں اور کھانے کی بوئیں گردش کر رہی تھیں۔
یہاں موجود لوگ دُنیا کے غم، فکر اور پریشانیوں سے آزاد اپنی دنیا میں خوش و خرّم اور مست تھے۔ یہ بھی ایک انوکھی اور جُدا دُنیا تھی۔
کرسچینیا میں گلیوں اور گھروں کی ترتیب عجیب و غریب تھی۔ ایک جانب سمندر کا پانی ان کی دیواروں کو چُھو رہا تھا ۔پانی کے ساتھ ایک اونچی مُنڈیر تھی۔
جس کے اوپر درختوں اور پو دوں کے جُھنڈ تھے۔ ان میں رنگ برنگے پُھول جُھومتے تو قدرت جلوہ افروز نظر آتی۔ اشجار کے جھنڈ اور پھولوں کے قطعات کے درمیان بنچ بچھے تھے۔ گھنے سرسبز پیڑوں والی یہ منڈیر دور تک چلی جاتی تھی۔
ہم ان پیڑوں کے درمیان چلتے جا رہے تھے ۔صبح کے اس وقت وہاں ہمارے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ اس آبادی کی ہیٔت اور اس کے مکینوں کی کیفیت کے پیش نظر یہ ویران اور ڈراؤنی سی جگہ تھی ۔مگر رمضان رفیق بےفکر چلتے جا رہے تھے۔ انہوں  نے بتایا
یہاں اصل رونق شام کے وقت ہوتی ہے۔ کوپن ہیگن آ نے والا کوئی سیاح کرسچینیا دیکھے بغیر واپس نہیں جاتا ۔
میں  نے پوچھا۔
یہ کون لوگ ہیں اور یہ آبادی کب سے قائم ہے ؟
رمضان رفیق  نے بتایا
اسے آزاد کرسچینیا بھی کہتے ہیں۔ اس میں مخصوص مزاج، معاشرت اور معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ۱۹۷۱ء سے پہلے یہ فوجی چھاؤنی تھی۔ اس کے بعد اسے ان مخصوص افراد کے لیے مختص کر دیا گیا۔ تاکہ منشیات کا دھندا اس علاقے تک محدود رہے اور پورے ملک میں نہ پھیلے ۔
شروع سے یہ لوگ قانون سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء تک نشے کا یہ کاروبار نظرانداز کیا گیا۔ اس وقت یہ لوگ پولیس کو یہاں نہیں آنے دیتے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں کریک ڈاؤن کر کے انہیں قانون کی دسترس میں لایا گیا۔ اب بھی یہ لوگ قانون کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ قانون کا ہاتھ بھی ان کے لیے خاصا نرم ہے۔ تاہم یہ معاشرے کے لیے خطرناک نہیں ہیں۔ محض زندگی اپنے انداز میں گزارنے کے خواہاں ہیں۔
یہ لوگ کہاں سے آ ئے ہیں اور اس حالت میں کیسے پہنچے ؟
رمضان صاحب  نے بتایا، جیسا کہ میں  نے بتایا کہ یہ ملٹری بیرک تھیں اور کوپن ہیگن کی حفاظت کی غرض سے قلعے کی شکل میں بنائی گئیں۔
اُن کی تعمیر ۱۶۱۷ء میں بادشا ہ کرسچین کے دور میں ہوئی۔ سویڈن کے ساتھ دوسری شمالی جنگ میں کوپن ہیگن پر سویڈن کا قبضہ ہو گیا۔ ڈنمارک کی آزادی کے بعد۱۶۹۰ء میں کرسچین پنجم  نے یہ حفاظتی حصار دوبارہ بنوائی۔ اس کے بعد کرسچین ہیون سے آ ئے قلعے کے محافظوں کو یہاں بسایا گیا۔
کرسچینیا کے موجودہ مکین ان محافظوں کی اولاد ہیں۔ جو کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہیں مُقیم ہیں۔ اس کے گرد و نواح کا علاقہ ڈنمارک نیوی اور آرمی کی مختلف یونٹس کے زیر استعمال رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بیرک آرمی سے خالی کر کے موجودہ مکینوں کے حوالے کر دی گئیں جو اب تک اسی شکل میں قائم ہیں۔
تاہم اس میں منشیات فروشی اور دیگر غیر قانونی دھندے شروع ہو گئے۔ ان لوگوں  نے ریاست کے اندر ایک خود مختار ریاست قائم کی ہوئی تھی جو ختم کر دی گئی۔ مگر اب بھی پسِ دیوار انہیں بہت زیادہ آزادی حاصل ہے۔
یہی باتیں کرتے ہم کرسچینیا سے باہر نکل آئے۔
گاڑی کو صحیح سلامت پا کر اطمینان ہوا۔ ورنہ ایسی آبادی میں کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ دُنیا کے ہر شہر میں کچھ علاقے ایسے پائے جاتے ہیں جہاں جاتے ہوئے شریف آدمی ڈرتا ہے۔ سڈنی کا ایک علاقہ ریڈفرن بھی اسی طرح بدنام  ہے۔
اس علاقے میں آسٹریلیا کی آبائی قوم جنہیں عُرفِ عام میں ایب اوریجنل کہا جاتا ہے بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ اکثر ہر وقت نشے میں ڈوبے اور بےکار بیٹھے رہتے ہیں۔ اس علاقے میں چوری چکاری اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم عام ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ملنے والا الاؤنس روزمرہ زندگی گزارنے کے لیے تو کافی ہوتا ہے نشہ کر نے کے لیے نہیں۔ اس لت کو پورا کرنے کے لیے یہ لوگ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ عام لو گ اس علاقے میں جانے سے ہچکچاتے ہیں۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles