موت کیا ہے؟
تحریر از ابوحمزہ محمد عمران مدنی
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی متوفّی۶۷۱ھ فرماتے ہیں :موت عدم و فناء کا نام نہیں ہے ، بلکہ موت روح و جسم کا تعلق منقطع ہو جانے، اور روح و جسم کے مابین حائل پردے کے زائل ہو جانے، اور ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہو جانے کا نام ہے. ) التّذکرۃ ،باب النّہی عن تمنّی الموت ص۴
انسانی موت کی تاریخ
محمد بن منکدر علیہ رحمۃ اللہ المقتدر بیان کرتے ہیں:’’حضرت آدم علیہ السّلام کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا تو آپ علیہ الصّلوۃ والسّلام نے فرمایا:’’اے حوا! تیرے بیٹے کو موت نے آ لیا ہے‘‘۔
حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا بولیں کہ موت کیا ہوتی
ہے ؟ تو حضرت آدم علیہ الصّلوۃ والسّلام نے جواباً فرمایا:
’’اب تیرا بیٹا نہ کھا سکے گا ،نہ ہی کچھ پی سکے گا ،نہ ہی کھڑا ہو سکے، اور نہ بیٹھ سکے گا
۔یہ سن کر حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا رونے لگیں ،تو حضرت آدم علیہ الصّلوۃ والسّلا م نے فرمایا:یہ رونا تم پر اور تمہاری بیٹیوں پر رہا ،میں اور میرے بیٹے اس رونے سے بَری ہیں۔ (التّذکرۃ,ص:۵)
موت کو پیدا کرنے کی حکمت
مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی پشت پر اپنا (بے کیف)یدِ قدرت پھیرا، اور اس سے آدم علیہ السّلام کی ذرّیّت کو نکالا تو ملائکہ نے عرض کی
اے پروردگار! زمین میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
میں موت کو پیدا کرنے والا ہوں، تو انہوں نے کہا :
تب تو ان کی زندگی مُکَدَّر اور گدلی ہو جائے گی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک میں امید کو پیدا کرنے والا ہوں۔
علامہ قرطبی اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:
انسان کے دل میں امید کو پیدا کرنا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے۔ امید ہی سے ذرائعِ معاش کا انتظام ، و انصرام ہوتا ہے ۔ اور امید ہی سے دنیا کے معاملات کو استحکام حاصل ہوتا ہے ، کاریگر اور صنعت کار اپنی صنعت و حرفت کو امید ہی کے سہارے قائم کرتا ہے ۔ایک عبادت گزار امید پر ہی عبادت میں مشغول رہتا ہے ۔ اور جس امید اور آرزو کی مذمّت کی گئی ہے ۔
اُس سے مراد یہ ہے کہ انسان ایسی لمبی اور دراز امیدیں باندھے کہ اپنی آخرت کو پسِ پشت ڈال دے ، اور دنیا میں ایسا کھو جائے، کہ اپنی عاقبت کی یاد سے غافل ، اور اعمالِ صالحہ سے لا پروا ہو جائے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غفلت اور امید بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابنِ آدم پر دو عظیم انعام ہیں ۔ کیونکہ اگر غفلت اور اُمید کا وجود نہ ہوتا، تو پھر کوئی مسلمان سڑکوں پر اور بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر نہ آتا۔
(قصر الأمل ،الجزء الاوّل، برقم:۲۲ ص۲۳)
آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگوں میں اس قدر بیداری پیدا ہو جائے کہ اُن کی امیدیں ختم ہو جائیں اور
موت کا خوف اُن پر ایسا چھا جائے کہ وہ اپنے معاش کی طرف نظر ہی نہ کریں۔ اور زندگی کے دیگر لوازمات اور ضروریات کے حصول سے الگ ہو جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ ہلاک ہو جائیں گے ۔ اس لیے غفلت اور امیدِ زندگی بھی بہت بڑا انعام خداوندی ہے۔ ( التذکرۃ ، باب فی نسیان أھل المیّت میّتھم الخ ،ص۱۲۱)
اور اسی مفہوم کا ایک مقولہ مطرف بن عبداللہ رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔ فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ میں کب مروں گا تو مجھے اپنی عقل کے زائل ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ احسان فرمایا کہ ان کو موت سے غافل فرما دیا ہے۔
اور اگر غفلت نہ ہوتی ،تو زندگی کا کوئی لُطف اور مزہ نہ ہوتا اور نہ ہی بازاروں کی رونقیں ہوتی، اور نہ بازاروں میں لوگوں کی یوں گہماگہمی۔ یہ سب رونق غفلت کے سبب ہیں۔
(قصر الأمل ، ،برقم:۲۳ص۲۴
اللہ پاک ہمیں موت سے قبل اپنی موت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے!
٭٭٭