تحریر، جاوید راہی
ہمیں اس کرایہ کے گھر میں رہتے اٹھارہ سال بیت رہے تھے ۔اس گھر کے مالک نے ڈبل سٹوری اس لئے بنائی تھی کہ نیچے وہ خود فیملی کے ساتھ رہتا تھا اور اوپر والا حصہ کرایہ پر اُٹھا دیتا۔ جب سے اس نے الگ رہائش بنائی تھی تب سے یہ نیچے والا حصہ ہمیں کرایہ پر دے دیا۔ اوپر والا حصہ جس کی سیڑھیاں گو کہ باہر گیٹ کے ساتھ اوپر جاتی تھیں مگر نیچے صحن میں بھی سیڑھیوں کو جانے والا ایک دروازہ تھا اوپر جانے کیلئے۔زیادہ تردن بھر او پر والے کرایہ دار آنے جانے کیلئے ہمارے صحن سے گزرتے تھے ۔
جب سے ہم یہاں کرایہ دار چلے آرہے تھے کئی فیملیز اوپر والے پورشن میں کرایہ دار کی حیثیت سے آئے اور چلے گئے مگر رمضان مکینک چار سال سے رہ رہا تھا ۔ تین لڑکیاں اور دو لڑکے تھے اور دونوں میاں بیوی۔ بڑے لڑکے کو ساتھ رکھا ہوا تھا چھوٹا اسکول جاتا، دو بیٹیاں اسی گھر سے بیاہی گئیں۔ چھوٹی عنبر آٹھ پڑھ کر گھر میں بٹھا لی گئی کہ کافی ہے اتنا۔
سال میں ایک بار انڈیا سے رمضان بھائی (سب ہی رمضان بھائی کہہ کر بلاتے تھے انہیں )کی بڑی بہن ، اس کے میاں اور بچے انڈیا سے پاکستان آتے دو تین ماہ گزارنے کے بعد روتے دھوتے واپس چلے جاتے۔ ان سب کو میں نے دیکھاہوا تھامگر اس بار جب وہ ملنے آئے تو ان کے ہمراہ ایک لڑکی کا اضافہ تھا۔ بلا کی خوبصورت تھی وہ، آتے جاتے تو میری نظر پڑ جاتی مگر براہ راست اتنے قریب سے اسے دیکھنے کا موقع اس وقت
ملا جب والدہ صاحبہ نے ان کی دعوت کر ڈالی۔ دھان پان سی صبا پہلی بار پاکستان آئی تھی باتوں باتو ںمیں رمضان بھائی نے مجھے مخاطب کرتے کہا’’ لو بھئی اشرف، مہمانوں کو لاہور کے خاص خاص مقامات دکھانے کی ڈیوٹی تمہاری لگ گئی۔دو ہفتے تک سر کھجانے کی فرصت نہیں ہم دونوں باپ بیٹے کو ۔ تین گاڑیوں کے انجن ڈائون کر رکھے ہیں‘‘ رمضان بھائی نے بڑی محبت سے کہا۔
’’جی بہترانکل جب یہ جانا چاہیں میں ان کو لے جائوں گا ‘‘میں نے صبا کی طرف دیکھتے جواب دیا۔
کھانے کے دوران انڈیا پاکستان پر تبصرہ ہو تا رہا ۔یوں صبا سے بات کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ صبا رمضان بھائی کی بہن کے دیور کی بیٹی تھی اور ان کی فیملی کے ساتھ آئی تھی۔
دو روز بعد خالہ جی نے نیچے آکر بتایا کہ صبح میں تیار رہوں ہم لوگوں نے گھومنے جانا ہے ۔
’’جی بہتر خالہ جان!‘‘
میں نے رات کو ہی دوکان پر فون کر کے بتا دیا کہ میں صبح کام پر نہیں آسکوں گا مجھے گھر پر کچھ کام ہے ۔ میرے مالکان بہت اچھے تھے انہوں نے کوئی عذر نہیں کیا ویسے بھی گندم کی کٹائی کا سیزن تھا اس لئے کام مندہ ہونے کی وجہ سے مجھے چھٹی مل گئی تھی۔ میں تیار ہو کر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ خالہ اور وہ سب لوگ نیچے آگئے تو میں ان کے ہمراہ باہر نکل آیا ۔
خالی گزرتے دو رکشے روک کر لارنس چلنے کا کہا ایک میں وہ چار لوگ بیٹھ گئے دوسرے میں خالہ ، صبااور عنبر ، میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا۔ خالہ نے دوپہر کا کھانا زبردست بنایا تھا جس کی خوشبو نے بھاگ دوڑ کرتے ہم سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ صبا نے بریانی کی پلیٹ میرے آگے رکھتے میری آنکھوں میں اس طرح جھانکا کہ مجھے اس کا سارا وجود اپنے آپ میں اُترتا محسوس ہوا۔ اس کی بے باکی تو میں دو چار دِنوں سے دیکھ رہا تھا مگر وہ اس طرح مجھے اپنے بس میں کر لے گی مجھے اس کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا۔ کھانا کھاتے اس نے مرغی کی ٹانگ آدھی کھا کر میری پلیٹ میں سب کی نظر بچا کر رکھ دی۔ میں اس صورتحال سے اور بھی گڑبڑاگیا۔
شام کو واپس جانے کیلئے پھر سے دو رکشوں کا بندوبست کیا گیا میں ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر جبکہ صبا اور عنبر، صبا کی والدہ پچھلی سیٹ پر۔ اس بار صبا میرے پیچھے بیٹھی تھی جس کا ہاتھ مسلسل میری کمر پر ناخن گاڑھے ہوا تھا۔
گھر پہنچ کر رکشہ سے سامان نکالتے صبا نے جان بوجھ کر دوبار میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھامجھے سارا دن اور تمام راستے صبا کی خود سپردگی نے پریشان کر رکھا تھا ۔میں نے جواباً کوئی بھی ایسی حرکت نہ کی جس سے اسے کوئی میری طرف سے ہمت افزا جواب ملتا ۔ سیڑھیوں کے قریب سامان رکھتے میں نے صبا کو مخاطب کیا۔
اس نے بڑی بڑی آنکھیں گھما کر میری طرف دیکھا او راستفہامیہ انداز میں سر ہلا یا۔ میں نے ہمت کر کے اسے کہا کہ
’’میں رات کو سیڑھیوں میں آپ کا انتظار کرونگا ۔‘‘
’’کوشش کرونگی ‘‘کہتے اس نے سامان والی باسکٹ اٹھائی اور اوپر جانے کیلئے آگے بڑھ گئی۔
جب سارے گھر والے سو گئے تو میں چپکے سے اُٹھا اور باہر دالان میں آگیا یہاں سے سیڑھیاں اوپر تک دکھائی دیتی تھیں۔
صبا جانے کب سے کھڑی تھی یا شائد وہ بھی اوپر والے حصہ سے مجھے دیکھنے کیلئے موجود ہو۔ اسے میں نے نیچے آتے دیکھا تو میں بھی دبے پائوں سیڑھیوں کی طرف چل پڑا وہ درمیان میں پہنچ کر سیڑھی پر بیٹھ گئی میں اس کے قریب آکر رُک گیا۔
’’بولو کیوں بلایا تھا مجھے؟‘‘ صبا نے میرا ہاتھ پکڑتے پوچھا۔
’’بس یونہی ‘‘میں نے آہستہ آواز میں اس کی بات کا جواب دیا۔
’’آپ کو میں کیسی لگی ہوں؟‘‘۔ صباکے لہجے میں تیکھا پن صاف محسوس ہو رہا تھا۔
’’بہت پیاری‘‘۔ میں نے اپنے دل کی بات اس پر عیا ں کر دی۔
’’مجھ سے دوستی کرو گے؟‘‘ صبانے مجھے کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’صبا! تم یہاں چند دنوں کیلئے آرہی ہو اور پھر کبھی نہ لوٹ کر آنے کیلئے واپس چلی جائو گی میرے اندر کی بے یقینی میرے ہونٹوں پر آگئی۔
’’اسی لئے تو روایتی ہتھکنڈوں سے گریز کر رہی ہوں‘‘ صبا نے سر میرے کندھے پر رکھتے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں مجھے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔
جب تک ہم دونوں اندھیرے میں بیٹھے رہے بس اپنے آپ کی خبر نہیں تھی پھر صبا اوپر اور میں نیچے آگیا۔ کب وقت گزرا پتہ ہی نہیں چلا اور صبا انڈیاواپس چلی گئی۔ اس کا تو مجھے علم نہیں تھا مگر میری سوچیں ، میراآرام جاتے ہوئے وہ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
گھر سے کام پر جاتا اور ان جگہوں پر سارا دن گزار دتیا جہاں جہاں صبا کیساتھ گھوما پھرا تھایا اسٹیشن پر جا بیٹھتا اور خالی پڑے امیگریشن کے ٹیبلوں کو دیکھتا رہتا جہاں صبا ان لوگوں کے ہمراہ بھارت واپس جانے کیلئے چیکنگ کروانے میں مصروف تھی۔ ایک دو بار بھارت جانے والی گاڑی میں مسافروں کا جائزہ لیتا رہا۔ میرے
دل میں اُبھرنے والا خیال گو کہ بڑا ہی خطرناک تھا مگر میں نے اسے عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیاتھا۔ ہفتہ میں دو بار ٹرین پاکستان سے بھارت جاتی تھی۔ قلی کا یونیفارم ، سرخ پگڑی بمعہ اَپر کے مجھے اسٹیشن کے گودام میں پڑی مل گئی تھی جس کو میں نے قا بو کر رکھا تھا۔ اسے میں نے شاپر میں ڈالا اور گھر سے اسٹیشن جانے کیلئے نکل پڑا۔
اسٹیشن کے اس حصہ کی طرف آکر میں رُک گیا جہاں بھارت جانیوالوں کی آمدورفت شروع تھی ۔ کافی دیر تک میں اس بات کا جائزہ لیتا رہاکہ قلی حضرات کس طرح سواریوں کا سامان اندر لے کر جارہے تھے اور کس طرح ان کو ڈبوں میںسوار کرواتے۔ آخری بار میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور واش روم میں جاکر اپنے لباس کے اوپر قلی کی یونیفارم پہنی اور دھڑکتے دل کیساتھ چلتا ہوا وہ جنگلا کراس کر گیا جو بھارت جانیوالے مسافروں کیلئے مخصوص تھا۔کسی نے مجھ پر کوئی توجہ نہ دی او رمیں چلتا ہوا امیگریشن اوکے والے مسافروں کے پاس آرُکا۔
تمام سرکاری اہلکار اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے اور میں نے کلیئرنس اوکے ہونیوالی ایک فیملی کا سامان اٹھایا ۔میرا طریقہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے کہ قلی کرتے ہیں بڑی بے باکی سے ٹرین کی طرف چل پڑا ۔وہ تین چار لوگ تھے ایک مرد اور تین خواتین جو میرے پیچھے چل رہے تھے ۔اصل میں ان کا سامان اٹھا کر میں ٹرین کے اندر داخل ہونا چاہتا تھا ۔ ایک ڈبہ میں داخل ہوکر میں نے سامان اندر رکھا اور بغیر کوئی پیسہ لئے میں دوسری جانب جانے والے راستہ سے اگلے ڈبہ میں آگیا۔ مسافروں کا رش تھا اس لئے کسی نے مجھ پر کوئی توجہ نہ دی میرا ٹارگٹ وہ مال بردار ی والا ڈبہ تھاجس میں بڑے بڑے بنڈل رکھے ہوئے تھے۔ شائد کوئی ایسی پروڈکٹ جو پاکستان سے بھارت بھیجی جا رہی تھی۔ بوگی کے باہر دو تین ریلوے ملازم کا غذات کی جانچ پڑتال میں لگے ہوئے تھے میں نے وہ ڈبہ چھوڑ دیا اور نیچے اُتر کر اس بوگی میں چڑھ گیا جس میں بڑے بڑے بنڈل اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے۔
بنڈلوں کے درمیان سے راستہ بناتے میں بوگی کے آخری حصہ میں پہنچ گیا کچھ دیر سانس درست کرنے کے بعد میں نے دونوں بنڈل آپس میں جوڑ دیئے اور جلدی سے قلی والی یونیفارم اُتار کر اسے کونے میں گھسیڑ دیا۔
باہر سے مجھے دیکھے جانے کا کوئی خدشہ نہیں تھا بس انتظار تھا تو بوگی کے دونوں دروازوں کے بند ہونے کا ،میرے دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔آخر کار وہ وقت بھی آپہنچاجب باہر سے سامان والی بوگی کے کھلے دروازے بند ہونے کی آواز آئی ۔ کھانے کیلئے میں نے بسکٹ اور پانی کی چھوٹی بوتلیں قلی یونیفارم کوٹ کی بڑی بڑی جیبوں میں رکھ چھوڑی تھیں بُرے وقت کیلئے کہ جانے کب گاڑی امرتسر پہنچے گی۔
باہر دو چار بار وِسل ہوئی اور ٹرین رینگنے لگی۔مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں بھارت کی طرف چل پڑا ہوں
صبا کی بے پناہ محبت کا مارا ہوا، انجام سے بے خبر۔ کوئی آدھا گھنٹہ ٹرین چلی اور پھر اس کے رُکنے کی آوازآنے لگی۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا جب گاڑی رُک گئی تو میں کافی دیر تک بے حس و حرکت اپنی جگہ پر دبکارہا۔مسافروں کے چڑھنے اُترنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ مال برداری والی بوگی کے پاس کوئی نہیں آیا تھا۔ میں نے ہمت کر کے اپنی جگہ چھوڑی اور رینگتا ہوا بوگی کے دروازے پر پہنچ گیا ۔درز سے آنکھ لگا کر باہر کا منظر دیکھا۔ اسٹیشن پر اٹاری کا بورڈ لگاہوا تھا۔
میں نے انڈیا آنے سے پیشتر بہت سی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ اس سے آگے امرتسر آئے گا اور پھر بسوں میں صبا کے شہر انبالہ کا سفر شروع ہو گا۔ فون نمبر وہ جاتے ہوئے مجھے دے گئی تھی جو میں نے سنبھال کر رکھا تھا۔ اسٹیٹ بنک کے باہر بیٹھے ایک منی چینجر سے میں نے تھوڑی سی کرنسی بھی حاصل کر لی تھی تاکہ آگے چل کر کام آئے گی۔کوئی گھنٹہ بھر ٹرین رُکی رہی اور پھر اگلے سفر پر روانہ ہو گئی۔
یہ سفر بھی جلد ختم ہو گیا اور گاڑی شور شرابے میں آرُکی ۔میں نے جو چھپنے کیلئے بنڈل منتخب کئے تھے وہ دونوں جانب کے دروازوں کے قریب ہی تھے۔ باہر کا منظر مجھے لاہور اسٹیشن جیسا لگا۔ گاڑی کے مسافروں کی بھاگ دوڑ شروع تھی۔ میرا دِل مارے خوف کے بیٹھاجا رہا تھاکہ آگے کیا ہو گا؟ اس سے بے خبر دونوں دروازوں سے تانک جھانک میں مصروف تھا کہ ٹرین آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔
اسی رفتار سے آگے بڑھتی ہوئی گھوم کر دوسرے ٹریک پر آرُکہ شائد مال برداری والی بوگیاں کاٹ کر ان کو الگ کیا جا رہا تھا۔ میں چونکنے انداز میں آنیوالے وقت کیلئے تیار تھا کافی دیر بعد ٹرین کے انجن کی آواز دور ہوتی جا رہی تھی۔
اب باہر خاموشی کا راج تھا۔ میں نے دونوں دروازوں میں سے جھانک کر باہر کا جائزہ لیا۔ دونوں جانب مال برداری کی بوگیاں لائنوں میں اِدھر اُدھر کھڑی تھیں اور بھارتی قلی ان میں سے لوڈ اَن لوڈ کر رہے تھے۔
مجھے یقین ہو گیا کہ اب میرے والی بوگی کا مال بھی اُترے گا مگر شام ہو گئی میرے والی بوگی کی طرف کوئی نہ آیا میرے پاس پانی اور بسکٹ بھی برائے نام رہ گئے تھے۔ اس حصہ میں لائٹ کے خاطر خواہ انتظام ہونے کی وجہ سے مجھے باہر کا سارا منظر صاف صاف دکھائی دے رہا تھا اور میں ہر طرح کیلئے تیار دروازہ کھنے کا منتظر تھا۔
پھر مجھے لگا جیسے میرے والی بوگی کے باہر دو چار لوگ باتیں کر رہے ہیں ان کے پاس ٹارچ تھی جو بوگی کے باہر لگے ٹیگ پر کچھ پڑھ کر کاغذات میں اندراج کر تے جا رہے تھے۔کافی دیر کی پڑتال کے بعد بابو چلا
گیا اور بوگی سے مال اُتارنے والا عملہ باہر لگے ارل کو ہتھوڑے کی مدد سے کھولنے میں لگ گیا ۔ میں نے جو جگہ چھپنے کیلئے بنائی وہ دروازے کے ساتھ ہی تھی جیسے دروازہ کھلتا میں اس کی اوٹ میں آجاتا۔
جیسے ہی دروزاہ باہر سے اندر کیجانب کھلا میں اس کے پیچھے ہو گیا۔دو اندر آگئے اور ایک شاید ریڑھی لینے دوسری طرف چلا گیا یہی موقع تھا میرے پاس ان دونوں کی پشت میری طرف تھی اور میں وقت ضائع کئے بغیر اپنی جگہ سے رینگتا ہوا نکلا اور تیزی سے بوگی کے باہر کود گیا۔
آس پاس کوئی نہیں تھا میں تقریباً بھاگتا ہوا اِدھر اُدھر کھڑے ڈبوں کی آڑ میں ہوتا ہوا اسٹیشن کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ویسا ہی سب کچھ تھا جیسا ہمارے ملک میں اسٹیشنوں پر ہوتا ہے ۔ لوگوں کا ہجوم ، ہنگامہ اور بھاگ دوڑ سب اپنے آپ میں اُلجھے ہوئے۔ پلیٹ فارم پر آکرایک چائے والے سٹال کے پاس آکھڑا ہوا۔ چائے اور کیک رس کیلئے پچاس کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا ، بقایا پیسے اور چائے والا کوزہ اور دو کیک رس سٹال والے نے میر ی طرف بڑھا دیئے۔میں چلتا ہوا خالی بینچ پر آن بیٹھا۔ چائے پینے کے ساتھ ساتھ میں چاروں جانب کاجائزہ بھی لے رہا تھا میرے بیٹھے بیٹھے تین گاڑیاں آئیں اور آگے بڑھ گئیں۔
جب میری حالت سنبھلی تو میں بڑے اعتماد سے چلتا ہوا اسٹیشن کا صدر دروازہ پار کر آیا۔ چاروں جانب سکھوں کا راج ،دوکانوں پر ، رکشوں پر، ٹیکسیوں پر غرض یہ کہ ہر طرف سکھ ہی سکھ گو کہ میرے جیسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی مگر رنگ برنگی پگڑیوں نے امرتسر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رکھے تھے۔
مجھے پبلک کال آفس کی تلاش تھی میں فون کر کے صباکو بتانا چاہتا تھا کہ میں اسے ملنے کیلئے پاکستان سے بغیر پاسپورٹ ویزہ بھارت پہنچ گیا ہوں۔ ایک جگہ پی سی او کا بورڈ دیکھ کر میں رُک گیا ۔ جیب سے صبا کا دیا فون نمبر نکالتے پی سی او کے مالک سے کال ملانے کا کہا ۔ دوسری طرف گھنٹی بجی اور کسی مرد نے ہیلو کیا۔ میں نے اپنا نام بتاتے صبا سے بات کرنے کا کہا۔
’’میں صبا کا والد بول رہا ہوں‘‘ آپ کدھر ہو؟
’’انکل جی میں امرتسر ہوں۔‘‘
’’اچھا رکو ،میں بات کرواتا ہوں‘‘۔ پھر صبا کے والد نے اسے آواز دیکر بلایا۔
’’آئی ابو جی!‘‘
صبا کی آواز فون پر سنائی دی جو شائد کسی دوسرے کمرے میں تھی پھر وہ فون کے قریب آگئی۔
’’بیٹا پاکستان سے اشرف ہے۔میرا مطلب وہ یہاں بھارت سے بول رہا ہے ‘‘۔ صبا کے والد کی آواز
فون پر سنائی دے رہی تھی۔ پھر صبا کی آواز آئی ’’جی۔۔۔۔۔‘‘
’’میں اشرف۔ ‘‘میں نے صبا کی آواز سن کر اسے بتایا۔
’’اکیلے ہو یا کوئی اور بھی ساتھ آیا ہے ‘‘اس نے بے صبری سے پوچھا۔
’’نہیں میں اکیلا ہی ہوں۔ مجھے بتائو میں کسیے انبالہ پہنچوں۔‘‘؟
’’بس ٹرمینل پر جائو جو بھی انبالہ کی بس تیار ملے اس پر سوار ہو جانا جب انبالہ پہنچ جائو تو اِدھر ہی رُک کر فون کرنا کوئی آپ کوگھر لے آئے گا۔ ‘‘دوسری طرف سے صبا نے مجھے گائیڈ کیا اور فون بند ہو گیا۔
بس ٹرمینل پہنچ کر انبالہ جانے کیلئے ٹکٹ لیا اور بس میں سوار ہو گیا۔
بھارت آکر مجھے یہ احساس تک نہ رہا کہ میں نے اتنا بڑا جرم کیا ہے اگر یہاں تھا تو رسم و رواج اور پہناوے کا فرق ورنہ یہاں پر بھی سب کچھ ایک جیسا تھا ۔ انبالہ پہنچ کر پھر صبا کو فون کیا تو اس نے کہا کہ ’’اِسی پی سی او کے باہر انتظار کرو میرے ابو تمہیں لینے آجاتے ہیں پھر اس نے پوچھا کہ تم نے کون سے رنگ کا لباس پہنا ہو اہے ؟‘‘
میں نے بتایا کہ برائون پینٹ اور گرے کلر کی چیک دار شرٹ۔
’’ٹھیک ہے تم انتظار کرو‘‘ کہتے صبا نے فون کاٹ دیا۔زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور ایک موٹر سائیکل سوار آدمی میرے پاس آکر رُکا۔
’’اشرف؟‘‘
’’جی انکل!پاکستان سے‘‘ میں نے سعادتمندی سے جواب دیا۔
بیٹھو ،صبا کے والدصاحب نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا تو انہوں نے موٹر سائیکل آگے بڑھائی ۔ کئی بازاروں اور گلیوں سے ہوتے ہوئے انہوں نے ایک گھر کے آگے موٹر سائیکل روکتے ہارن بجایا ۔ دروازہ کھولنے والی صبا خود تھی جس کی آنکھوں میں میرے لئے گلرنگ زاویئے لہرا رہے تھے ۔
آئو بیٹا !صبا کے والد صاحب نے موٹر سائیکل اندر لے جاتے مجھے اند ر آنے کا کہا۔
گھر کے سارے لوگوں نے بڑی عزت سے مجھے خوش آمدید کہا صبا کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی پھر چائے وغیرہ لگ گئی اس دوران پاکستان کی باتیں ہوتی رہیں ۔
’’ آپ کا سامان؟‘‘ صبا کے بڑے بھائی احمد نے مجھے مخاطب کیا۔
میں نے جو کہانی ذہن میں پہلے سے رکھ چھوڑی تھی وہی دہرائی کہ ٹرین میں اِدھر اُدھر ہو گیا ۔ بہت تلاش کیا مگر ملانہیں ۔
’’چلو خیر آپ کا اور میرا سائز ایک ہی لگتا ہے ‘‘۔ احمد نے مسکراتے ہوئے مجھے تسلی دی۔ رات گئے تک سبھی گھر والے میرے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر کھانے سے فارغ ہو کر مجھے احمد اوپر اپنے کمرے میں لے آیا ۔پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی ۔
صبح صبا کے جھنجھوڑنے پر جاگا۔جناب اُٹھ جائیں سورج سر پر آگیا ہے ۔ میں نے اُٹھتے ہی احمد کے بسترکی طرف دیکھا تو جھٹ صبا نے چہک کر بتایا کہ وہ ڈیری ڈیوٹی پر صبح و سویرے ابو جان کے ساتھ چلا جاتا ہے ۔
’’آپ کا یہاں ڈیری فارم ہے؟ ۔
’’ نہیں۔ہم سرکار کو دودھ کی سپلائی کرتے ہیں ۔اِدھر اُدھر سے لوگ لگے ہوئے ہیں ہمیں دودھ فروخت کرنے والے۔ ‘‘
باقی، میرا مطلب بچے؟۔میں نے پوچھا۔
’’سمرا کالج، دونوںچھوٹے بہن بھائی اسکول ‘‘۔صبا بتا کر مجھے لپٹ گئی۔
کچھ پل ہم دونوں ایک دوسرے میں کھوئے رہے اور پھر وہ الگ ہوکر مخاطب ہوئی ۔’’ احمد کا سوٹ آپ کیلئے واش روم میں رکھا ہے اگر کمر کا معاملہ ہو تو بیلٹ بھی ساتھ پینٹ کے ۔یہ والا سوٹ میں دھو کر پریس کردونگی ‘‘کہتے وہ نیچے جانے کیلئے کمرے سے نکل گئی۔
کافی دیر تک میں نہاتا رہا پھر تیار ہو کر کمرے میں آگیا۔ نیچے سے صبا کی آوازآئی کہ ناشتہ کیلئے آجائوں۔ میںنیچے جانے کیلئے کمرے سے باہر نکل آیا۔ صبا کی والدہ نے میرے سلام کا جواب بڑے پیار سے دیا اور ناشتہ کی ٹیبل پر وہ بھی صبا کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ناشتہ کے ساتھ ساتھ باتیں بھی ہو تی رہیں۔
صبا کے گھر رہتے تیسرا روز ہو چکا تھا اس دوران دو بار مجھے رمضان بھائی کی بیگم کی بڑی بہن کے ہاں بھی جانے کا اتفاق ہوا ۔ انہوں نے فون کر کے میرے بارے میں گھر والوں کو آگاہ کر دیاتھا کہ میں ان کے پاس ہوں کوئی فکر نہ کریں۔ یہ سن کر میری جان نکل گئی کہ میرے گھروالوں کو میرا پتہ چل گیا ہے ۔
کبھی احمد کے ساتھ اور کبھی صبا اور بچوں کے ہمراہ انبالہ کے سیر سپاٹے کرتے یہ بھول گیا کہ میں نے صبا کی چاہت کے جنون میںغیر قانونی طو رپر سرحد عبور کی ہے۔
جب ان لوگوں کو علم ہوا کہ میں چوری چھپے پاکستان سے بھارت آیا ہوں تو ان کے طوطے اُڑ گئے مجھ سے صبا بھی نالاں ہو گئی کہ اگر یہاں کسی کو پتہ چل گیا کہ تم بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے ہمارے ہاں رہ رہے ہو تو
ہمارے لئے قیامت کھڑی ہو جائے گی۔ لہٰذا تم فوراً یہاں سے چلے جائو اس نے روتے ہوئے مجھے گھر جانے کا حکم سنا دیا۔
میں نے جس کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے اپنا وطن چھوڑا وہی مجھے جانے کا کہہ رہی تھی۔ میں نے وہی لباس پہنا اور سب کوالوداع کہتا میں صبا کے گھر سے نکل آیا۔ میرے لئے واپس جانے کا کوئی اور راستہ تو نہیں تھا کیونکہ میں نے سارا نظام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاتھا اس لئے واہگہ کی طرف جانے کا سوچا اور بس میں سوار ہو گیا۔
میں نے سُن رکھا تھا کہ واہگہ اور لاہور کا درمیانی راستہ کسی نہ کسی جگہ سے چند قدموں کا فاصلہ رہ جاتا تھا۔ کوئی ویلج تھا انڈیا کا جہاں کیلئے بس سے دو چار سواریاں اُتریں ساتھ میں مَیں نے بھی اپنی سیٹ کو خیر آباد کہہ دیا اور بس آگے بڑھ گئی۔
وہ توسب اپنی اپنی راہ پر ہو گئے میں اُدھر ہی کھڑا پاکستان کی سمت کا اندازہ لگاتا رہا کیونکہ میں کئی بار اپنی حدود میں بیٹھ کر واہگہ بارڈر پرچم اُترائی دیکھ چکا تھا پھر میں نے وہ راستہ اختیار کیا جو گھنے درختوں کی طرف جاتا تھا ۔دِن کا اُجالا ہونے کی وجہ سے مجھے سفر کرنے میں کوئی دِقت نہیں ہو رہی تھی ۔
کھیتوں میں لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے میں ان سے بچتا ہوا اس مقام پر آگیا جہاں تار کی باڑ لگی ہوئی تھی ۔ دونوں جانب درختوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا میں نے سوچ لیا تھا کہ کسی ایسے درخت کے ذریعے اُدھر چھلانگ لگا دوں گا جو دوسری طرف جھکا ہو گا۔پھر آگے بڑھتے مجھے میرا مطلوبہ درخت مل گیا۔
سفیدے کا بڑا سا درخت جس کے اوپر پہنچ کر میں چھلانگ لگاتے اپنی حدودمیں جا گرتا۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر میں نے اپنے اللہ کو یاد کیا اور درخت کے اوپر چڑھنے لگا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں تاروں سے اوپر ہوں تو میں نے جمپ بھرتے چھلانگ لگا دی جس جگہ میں گرا تھا وہاں کیچڑ پھیلا ہوا تھا شائد اس جگہ بارش کا رُکا پانی ہو گا۔ معمولی چوٹ آئی میں وقت ضائع کئے بغیر اُٹھا اور جس طرف منہ اُٹھا بھاگنا شروع کر دیا۔ میں باڑ دار حصہ سے کافی دور نکل آیا تھا ۔ ایک جگہ بیٹھ کر سانس درست کرتا رہا پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔
درختوں کے بیچ و بیچ چل رہا تھا کہ یکدم بہت سی آوازیں اُبھریں ۔
’’رُ ک جائو ۔کوئی حرکت کی تو بھون دیئے جائوگے۔‘‘
میرے سامنے میرے وطن کے رکھوالے اسلحہ تانے کھڑے تھے۔ مجھے د بوچ کر میری تلاشی لی گئی۔ تھوڑی سی بھارتی کرنسی کے سوا انہیں کچھ نہ ملا میرے بازو پشت پر باندھ دیئے گئے ۔ میری تفتیش فوج کے آفیسر
کرتے رہے میں نے ساری کہانی ان کو سنا دی ۔
ہفتہ بھر میری کہی داستان اور گھر بار کی نشاندہی بارے اَتا پتہ کرنے کے بعد جب ان کو یقین ہو گیا کہ میں نہ اسمگلر اور نہ وطن دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں تو پھر مجھے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ دو ہفتوں تک ہر طرح کا ریمانڈ کاٹا پھر سرحد پار کرنے کے جرم میں چالان کر تے جیل بھیج دیا ۔
بتاتے ہوئے اشرف نے میری طرف دیکھا۔
’’ہاں ٹھیک ہے ‘‘۔میں نے اُٹھتے اس سے ہاتھ ملایا اور جیل کی ملاقاتی بائونڈری سے نکل کر چل پڑا۔
٭٭٭٭٭