19 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

زندگی کا سبق(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

نویں قسط

زندگی کا سبق

شکیل احمد چوہان

بابا جمعہ قیام پاکستان کے تقریباً دو ماہ بعد والٹن کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے جب ان کا خاندان ضلع گوڑ گاؤں تحصیل فیروزپور جھرکہ سے ہجرت کر کے لاہور آیا تھا۔ بابا جمعہ کا پورا نام جمعہ خاں میواتی رکھا گیا۔ جمعہ کے دن ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے ان کا نام جمعہ رکھ دیا گیا۔
میواتی قوم سادہ لوگ تھے۔ دین سے بہت محبت کرنے والے سیدھے سچے مسلمان۔ ان کے بچوں کے نام ان کی سادگی کا ثبوت ہیں۔ 17 اکتوبر بروز جمعہ 1947 میں بابا جمعہ پیدا ہوئے۔
بابا جمعہ کے والد سفید خاں کو کماہاں گاؤں میں ایک گھر جو کسی سکھ سردار جی کا تھا، الاٹ ہو گیا۔ 2 ایکڑ زرعی زمین بھی ان کے حصے میں آئی۔ سفید خاں کا نام بھی ان کی رنگت کی وجہ سے رکھا گیا تھا جو کہ بہت سفید تھے، اپنی پیدائش کے وقت ان کی نیلی آنکھیں تھیں، یہی رنگت اور آنکھوں کی خوبصورتی بابا جمعہ کو اپنے باپ سے وراثت میں ملی۔
بابا جمعہ میٹرک تک پڑھ سکے۔ 1965ء میں انہوں نے میٹرک کیا، اسی سال ان کے والد سفید خاں انتقال کر گئے۔ دو چھوٹی بہنوں اور ماں کی ذمہ داری جمعہ خاں پر آ گئی۔ آگے پڑھنا چاہتے تھے مگر حالات نے اجازت نہیں دی۔ ان کا ایک دوست اندرون لاہور میں ہاتھ سے بنے جوتوں کے کارخانہ میں کام کرتا تھا۔
اسی نے بابا جمعہ کو بھی کام پر لگوا دیا۔ بہنوں کی شادیاں پہلے کیں بعد میں اپنی شادی کروائی مگر بابا جمعہ کو اولاد کی نعمت نہیں ملی۔ گھر کی گزر بسر اچھی ہو رہی تھی۔ ماں کی حج کرنے کی خواہش تھی ۔ اسے پورا کرنے کے لیے دو ایکڑ زرعی رقبہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بیچ دیا۔ پہلے بہنوں کا حصہ دیا، اس کے بعد حج کے پیسے دیے۔ 1980میں ماں اور بیوی کے ساتھ حج کر لیا۔
حج کے بعد والدہ کی طبیعت اکثر خراب رہتی۔ اندرون لاہور سے کام چھوڑ دیا اور چرڑ گاؤں کے رستے میں موچی خانہ بنا لیا جو پچھلے30 سال سے قائم ہے۔
1983 میں موچی بنے حالانکہ ذات کے موچی نہیں تھے۔ ہاتھ سے جوتے بنانا جانتے تھے۔ 18سال یہ کام کیا تھا۔ 1986میں والدہ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئیں۔ کبھی شکوہ شکایت زبان پر نہیں لائے ۔ سال پہلے 2012 میں بیوی نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور اب 2013ہے، یہ ہے بابا جمعہ کی کہانی۔
صفائی نصف ایمان ہے۔ کہتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ ہمیشہ سفید لباس زیب تن فرماتے  ۔ سفید کرتا اور پائجامہ، اپنے ہاتھ سے بنی چمڑے کی جوتی پہنتے۔ عطر لگاتے، آنکھوں میں سرمہ لگاتے۔ جب بھی وضو کرتے مسواک ضرور کرتے۔ سر پر سفید ٹوپی رکھتے۔ 66 سال کی عمر میں بھی بالکل فٹ تھے۔ بلال نے ایک دن پوچھا:
’’آپ کے پاس کپڑوں کے کتنے جوڑے ہیں؟‘‘
’’تین۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ان کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر پہنے ہوئے کپڑے بالٹی میں سرف ڈال کر بھگو دیتے اور گھر میں تہ بند اور کرتا پہن لیتے۔ دوسرے دونوں جوڑے استری ہوتے۔ صبح فجر سے پہلے ان کپڑوں کو نچوڑ کر سوکھنے کے لیے ڈال دیتے۔ جمعہ کی چھٹی کرتے اور ہر سال رمضان کا پورا مہینہ کبھی کام نہ کرتے۔
کھانے میں (کھچڑا) بہت پسند تھا۔ یہ میواتیوں کی خاص ڈش ہے۔ جو ان کی والدہ بناتی تھیں۔ والدہ کے بعد ان کی بیوی بھی اچھا بنا لیتی تھیں مگر والدہ جیسا نہیں۔ بیوی کے بعد وہ خود بنانے لگے۔
کھچڑا عربوں کے ہریسہ سے ملتا جلتا پکوان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہریسہ گندم یا جو کے ہم وزن گوشت میں بنتا ہے۔ کھچڑا میں بھی یہی چیزیں ڈالی جاتی ہیں مگر کچھ دالوں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ ہلدی اور پسی ہوئی سرخ مرچ ملائی جاتی ہے جب کہ ہریسہ میں صرف پسی ہوئی کالی مرچ اور نمک ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ سبزیوں میں کدو اور میتھی بہت پسند تھی۔
ان کی دونوں بہنیں کراچی رہتی تھیں۔ اپنے مکان کا حصہ بھی بہنوں کو ادا کر دیا تھا جو  اُن کا وراثت میں حق تھا۔ ہر سال رمضان میں ان سے ملنے جاتے۔
اقبال چائے والا، عمر 50 کے آس پاس ہو گی۔ اس کے ساتھ محبت کا رشتہ تھا اور اس سے بھی بڑھ کر بلال احمد کے ساتھ اکثر اقبال سے کہتے کہ اگر میرا بیٹا ہوتا تو بلال سے اچھا نہیں ہو سکتا تھا۔
عشاء کی اذان کے بعد بلال اپنے کمرے میں دیوان کے ساتھ اوپن کچن کے سامنے نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ جب توشی اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ بلال سفید شلوار قمیص میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
جیسے کوئی درویش سفید لباس پہنے ہوئے دریا کے کنارے اُونچے ٹیلے پر چودھویں رات کی چاندنی میں اپنے رب سے رازو نیاز میں مصروف ہو۔
توشی لائٹ بلوجینز اور سفید کرتا پہنے ہوئے کھلے کالے سیاہ بالوں کے ساتھ دبے پاؤں پیر کے آگے پیر رکھتے ہوئے، کہیں ماربل کے سینے پر پیر رکھتے ہوئے، ماربل کو تکلیف نہ پہنچے کمرے میں داخل ہوئی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بلال خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں مگن تھا جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ سے باتیں کر رہا ہو۔
اس کے ذہن میں حضرت علیؓ کے ایک قول کا مفہوم ہمیشہ سے نقش تھا:
’’جب میرا اللہ سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میرا جی چاہتا ہے کہ اللہ مجھ سے بات کرے تو میں قرآن پڑھتا ہوں۔ ‘‘
توشی کے آنے کا اسے احساس تک نہ ہوا اور وہ بھی خاموشی سے اس کے بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔
بلال نماز سے فارغ ہو کر لمبی دُعا میں مصروف ہو گیا۔ کھلے ہوئے ہاتھوں اور بند آنکھوں کے ساتھ مگر خاموشی سے۔
دُعا سے فارغ ہوا تو خاموشی کا سینہ چیر کر توشی کی دلفریب آواز بلال کے کانوں کے پردوں پر دستک دینے لگی :
’’کیوں مانگتے ہو اتنی لمبی لمبی دعائیں…؟‘‘ الفاظ اس کے ہونٹوں سے ایسے نکلے جیسے پھول سے خوشبو۔
’’اس لیے کہ کسی اور سے مانگنا نہ پڑے۔‘‘ بلال کا جواب شہد کی طرح میٹھا تھا۔
’’اور کیا مانگتے ہو اپنی دعاؤں میں؟ ‘‘ توشی کے کلیوں جیسے ہونٹ ایک دفعہ پھر کھلے۔
’’آقاﷺ کی امت کا اتحاد، اس ملک کی سلامتی اور خوش حالی اور اس گھر کی بھی …‘‘
’’بس؟‘‘ اس کا بس پاتال سے بھی گہرا تھا۔ توشی نے تفتیشی نگاہوں سے پوچھا۔
’’نہیں… اُن کے لیے بھی دعا مانگتا ہوں جو مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میرے ماں باپ۔ ‘‘ بلال نے عقیدت میں ڈوبی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
’’اور اپنے لیے کیا مانگتے ہو؟‘‘ توشی نے پھر لب کشائی کی۔
بلال توشی کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ توشی پہلے ہی سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ دونوں کے درمیان دو فٹ کا فاصلہ تھا۔
دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ایک دوسرے کی آنکھوں میں غوطہ زن تھے۔ بلال چہرہ شناس تھا۔ اس نے بغیر مشقت کے توشی کی آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھ لی اور وہ تحریر تھی محبت مگر توشی ابھی تک آنکھوں کے سمندر میں کھوج رہی تھی۔ وہ جس کی اُسے تلاش تھی۔
اُسے سب کچھ نظر آگیا۔ ایثار، قربانی، ہمدردی، دوستی، اخلاص مگر محبت کہیں نہیں تھی۔ وہ محبت جس کی تلاش میں اُس نے غوطہ لگایا تھا۔ اس کے دو نین لمبے سفر سے تھک ہار کر واپس آ چکے تھے۔ وہ بھی خالی ہاتھ، توشی نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنا سوال دہرایا :
’’اور اپنے لیے کیا مانگتے ہو …؟ میں نے پوچھا تھا۔ ‘‘ اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا۔
بلال توشی کے چہرے کو اپنی آنکھوں کے حصار میں لیے ہوئے تھا جیسے کوئی مصنف مشاہدہ کر رہا ہو، جیسے مشاہدے کے دوران دیکھنا ضروری ہے، بولنا نہیں۔
’’بلال احمد اپنے لیے دعا کرو اور اپنی محبت کو مانگ لو اس سے۔ ‘‘ توشی نے تالابوں کی طرح بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ مشورہ دیا۔ اب اس کا چہرہ بلال کی آنکھوں کے حصار سے آزاد ہو چکا تھا۔ بلال کے چہرے پر نادیدہ خوف والی مسکراہٹ تھی ۔
’’ایسی دعا مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کیونکہ وہ محبت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ محبت مانگنے کا نہیں ‘‘ بلال نفیس اور نپے تلے انداز میں بولا۔
دروازہ کھلا ہوا تھا پھر بھی دستک ہوئی۔ بلال نے کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی گردن ماہر یوگی کی طرح گھمائی اور پیچھے دیکھا۔ نوشی کھڑی ہوئی تھی۔ دائیں ہاتھ کو دروازے کے ساتھ لگائے بائیں ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھے ہوئے کہ کہیں کمر بل نہ کھا جائے۔
دونوں بہنوں کا  قد کاٹھ کمال کا ہے۔ رنگت دودھ کی طرح سفید چلتی تو ایسے جیسے افریقا کے جنگل میں دو ہرنیاں جا رہی ہوں۔
یہ دو ہرنیاں اب تک محفوظ ہیں۔ اس لیے کہ ان کی رفتار بہت تیز ہے۔
نوشی بھی توشی کی طرح Same لباس پہنے ہوئے تھی۔ وہی لائٹ بلوجینز اوپر سفید کرتا، بال کھلے ہوئے دونوں بہنیں ہمیشہ ایک جیسا لباس پہنتیں۔ موبائل ایک جیسے، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، گاڑی وہ ایک ہی استعمال کرتیں۔ ایک بیڈ پر سوتیں، کھانا ساتھ کھاتیں، دونوں میں بہت مشابہت تھی۔ حُلیے میں صرف ایک فرق تھا۔ نوشی کے لمبے بال مگر گولڈن کلر کے اس کے برعکس سیاہ کالے بال توشی کے تھے۔
دونوں کی عادتیں بھی مختلف تھیں۔ نوشی سخت طبیعت اور منہ پھٹ تھی، جب  توشی نرم طبیعت اور دید لحاظ کرنے والی۔ اس فرق کی وجہ ان کے والدین تھے۔
نوشی اپنی ماں کے قریب تھی اور توشی اپنے باپ کے قریب تھی۔
’’لو تمہاری محبت آ گئی …‘‘توشی نے تیکھے انداز میں بتایا۔
بلال گردن موڑے دیکھ رہا تھا، اسی انداز میں بولا :
’’آ جائیں…اندر آ جائیں۔‘‘اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ نوشی کے لیے وہ چمک جس کی تلاش میں توشی کے دو نین تھک کر ہلکان ہو گئے تھے۔
’’آپ دونوں کو سردی نہیں لگتی۔‘‘بلال نے نوشی کو دیکھ کرکہا۔
اب بلال کو کوئی بتائے، ایک جوانی کی تپش اوپر سے دولت کی گرمی، اس عمر میں سردی کم ہی لگتی ہے۔
’’دادو پوچھ رہی تھیں، آپ کے بارے میں، سو میں پتا کرنے آ گئی ۔ ‘‘ نوشی نے خود ہی صفائی پیش کر دی۔ بلال کرسی سے کھڑا ہو چکا تھا۔ نوشی اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعتماد سے کہا :
’’آپ بیٹھیں…‘‘نوشی دیوان پر اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی جیسے شہزادی دوسری سلطنت میں جا کر اپنے ناز و انداز دکھاتی ہے۔ وہ اپنی موٹی موٹی براؤن آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ وہ کافی سالوں بعد بلال کے روم میں آئی تھی ۔
“Different “So nice” “fantastic”نوشی نے گردن ہلاتے ہوئے چہرہ ارد گرد گھماتے ہوئے انگلش کے تین الفاظ بولے، اس کا ایکسنٹ کمال کا تھا۔
’’سارا دن آپ نظر نہیں آئے۔ ‘‘اُس نے آنکھوں کے براؤن ڈیلے گھما کر پوچھا۔ نوشی پچھلے چند دنوں سے بلال کی طرف متوجہ ہوئی تھی، اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ پچھلے دس سال سے ہر سنڈے نظر نہیں آتا۔
توشی جو کافی شانت بیٹھی تھی، مکئی کے دانے کی طرح کھل کھلا کر ہنس پڑی اور دل میں سوچا۔ میری بہن نے جھک ماری ہے اور ایک نظر بلال کی طرف دیکھا پھر دل میں کہنے لگی :
’’یہ جھلا اس سے محبت کرتا ہے جسے اس کی دس سال پرانی روٹین ہی کا پتا نہیں۔ ‘‘ توشی کو بلال کی کہی ہوئی ایک بات یاد آ گئی :
’’محبت کرنے والے تو محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں۔ ‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں جہاں آرا کے کمرے میں تھے ۔
بلال نے زیتون کے تیل والی شیشے کی بوتل پکڑی تو پتا چلا کہ نوشی نے پہلے ہی دادی کے پیروں اور ٹانگوں کی مالش کر دی ہے۔
کل کی طرح آج بھی وہ بلال کے آنے سے پہلے یہ سعادت حاصل کر چکی تھی۔ جہاں آرا آج بہت خوش تھیں کیونکہ نوشی پچھلے کچھ دنوں سے بلال میں کافی دلچسپی لے رہی تھی جو توشی کو عجیب لگ رہا تھا۔ شاید بُرا بھی۔ ساری خاموشی کو توشی کی آواز  نے توڑا۔
’’دادو…دادوجی…! یہ محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں…؟ ‘‘ توشی نے سیدھا سوال کیا۔
بلال کی طرف دیکھ کر۔ توشی کا سوال سن کر سب ہکا بکا رہ گئے …دادی نے اختصار سے جواب دیا:
’’بیٹا…میں… کیا جواب دوں…میں تو صرف پرائمری پاس اَن پڑھ ہوں۔ تم سب پڑھے لکھے ہو،
ہاں! بلال ضرور بتا سکتا ہے ‘‘
دادی بے شک پرائمری پاس دیہاتی خاتون تھیں مگر زمانہ شناس اور جوہری کی آنکھ رکھتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا یہ سوال کیوں ہوا ہے اور جواب کس سے مانگا گیا ہے؟ اِسی لیے جہاں آرا نے بلال سے پوچھا :
’’بلال بیٹا…! بتاؤمحبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟ ‘‘
’’محبت خود ہی اظہار ہے۔ خاموش محبت بھی مقرر کو مات دے دیتی ہے۔ محبت ماننے کا نام ہے…کسی کو ماننے…یا کسی کی ماننے …اور ماننے والا منزل پا لیتا ہے۔ ‘‘
بلال نے اطمینان اور سکون سے کسی دانشور کی طرح جواب دیا۔ اب باری نوشی کی تھی۔ وہ شرارتی لہجے میں کھنکتی آواز میں بول اٹھی :
’’محبت اور عشق میں کیا فرق ہے …؟‘‘
’’کیوں… خیریت تو ہے…؟‘‘ بلال نے پوچھا۔
نوشی کے چہرے پر پرکھتی مسکراہٹ تھی اور براؤن آنکھوں میں کالا کاجل غضب ڈھا رہا تھا۔ توشی جوں کی توں مجسمہ بنی دیکھ رہی تھی۔
’’بلال بیٹا جواب دو…‘‘جہاں آرا بیگم نے تفاخر سے ایک بوڑھی ملکہ کی طرح حکم صادر فرمایا۔
’’محبت میں آسانی ہے اور عشق میں کاوش …
محبت مسلسل عمل کا نام ہے … جب کہ آج کل ک اعشق، وقتی بخار ہے…محبت کم یا زیادہ نہیں ہوتی بس محبت ہوتی ہے …اس دور کا عشق کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ آج آپ کسی کے لیے جان دینے کو تیار ہوتے ہیں اور دو سال بعد اس کی جان لینے کو۔ ماں اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے عشق نہیں کرتی ۔ ماں کی محبت 6 سال کے چھوٹے بیٹے سے بھی اتنی ہوتی ہے جتنی 66 سال کے بڈھے بیٹے سے۔ نہ کم نہ زیادہ۔‘‘
’’آپ نے کبھی محبت یا عشق کیا ہے …؟‘‘نوشی نے جھپاک سے پوچھا۔
توشی نے یہ سن کر دل میں سوچا :
’’میری بہن بھی جھلی ہے …اس نے پھر بونگی مار دی۔‘‘
’’ہاں محبت کی ہے … اصل عشق بڑے لوگوں کا کام ہے … جیسے انبیائے کرام، صحابہ کرام، اولیاء اللہ… میرے جیسے چھوٹے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے وہ عشق کرنا۔ اصل عشق میں جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے۔ ‘‘ بلال نے سیدھا اور صاف جواب دیا۔
نوشی اور توشی دونوں کی آنکھوں میں چمک تھی اور جہاں آرا کا چہرہ کہکشاں کی طرح چمک اُٹھا تھا۔
توشی نے ایویں موضوع تبدیل کر دیا :
’’تم نے کافی دنوں سے کوئی شعر نہیں سنایا ، کیوں دادو …‘‘
بلال توشی کے چہرے پر لکھی ہوئی ساری تحریریں پڑھ چکا تھا اور شعر کی فرمائش بھی خوب سمجھتا تھا۔
پھر بھی اس نے گلزار صاحب کے چند اشعار سنا دیے :
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے
شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے
یہ صرف اشعار نہیں تھے۔ توشی کو پیغام تھا۔ زندگی کا سبق تھا۔

(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles