سلسلے وار ناول
بلال صاحب
آٹھویں قسط
دو گناہ
شکیل احمد چوہان
اگلے دن اتوار تھا۔ بلال صبح نو بجے گھر سے چلا گیا اور اس کا موبائل بھی آف تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً پچھلے دس سال سے جاری تھا۔ وہ ہر سنڈے 9 بجے کے آس پاس گھر سے چلا جاتا اور مغرب کی نماز کے بعد واپس آتا۔ ہاں عصر کے بعد اس کا نمبر ضرور On ہو جاتا۔ جب وہ بابا جمعہ کے پاس ہوتا۔ اس سے پہلے وہ کہاں ہوتا، کیا کرتا، کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔
اگر کسی نے پوچھا بھی تو اس کا جواب ہوتا میں بتانا نہیں چاہتا۔ اس کی نانی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جاتا ہے۔
کئی سال پہلے اس نے بابا جمعہ سے سنا تھا۔ آقا کریمؐ کی ایک حدیث کا مفہوم :
’’میرا امتی ہر گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے، ایک جھوٹ نہیں بول سکتا اور دوسرا دھوکا نہیں دے سکتا۔ ‘‘
یہ بات اس کے ذہن میں نقش ہو گئی تھی ۔ وہ ان دونوں باتوں سے بچنے کی کوشش کرتا تھا۔
اسی دن عصر کے بعد وہ بابا جمعہ کے پاس نالے کے اُوپر آلتی پالتی مار کر اخبار پڑھ رہا تھا۔ بابا جمعہ جوتا پالش کرنے میں مصروف تھے ۔
ایک آدمی انتہائی پریشان، عمر پچاس کے آس پاس ہو گی، شیو بڑھی ہوئی گرم چادر کندھوں پر اور پیروں میں پشاوری کالی چپل پہنے ہوئے آیا۔
’’بابا جی مجھے تعویذ دے دیں یا پھر کوئی وظیفہ بتا دیں۔ میں تو برباد ہو گیا۔ جو بھی کام کرتا ہوں بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ ہر طرف سے بری خبر ہی ملتی ہے۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کروں تو کیا کروں۔
دوسری بار میرا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ بڑے بیٹے کو مسقط بھیجا تھا۔ وہ وہاں فارغ بیٹھا ہے۔۔ کوئی پیسہ نہ کوئی دھیلا بھیجتا ہے۔ ‘‘
اس نے ایک ہی ساتھ اپنی دکھ بھری رُوداد سنا دی۔ بابا جمعہ نے پالش کرنا چھوڑ دی۔ اس کی ساری بات توجہ سے سنی پھر بولے :
’’بیٹھ جاؤ محمد طفیل…! بلال بیٹا طفیل صاحب کو پانی پلاؤ۔ ‘‘
بلال اٹھ کھڑا ہوا اور بجلی کے کھمبے کے ساتھ پڑے ہوئے پانی کے گھڑے سے ایک پیالہ پانی محمد طفیل کو دیا۔ طفیل ایک ہی سانس میں غٹاغٹ سارا پانی پی گیا۔ جیسے پریشانی کی آگ بجھا رہا ہو۔
’’اب بتاؤ کیا ہوا ہے…؟ ‘‘بابا جمعہ نے طفیل سے سوال کیا۔
’’ہونا کیا ہے؟ مقدر ماڑے/ آپ کو تو پتا ہے پوری زندگی ریلوے کی ملازمت کی۔ ریٹائرمنٹ سے جو پیسہ ملا تھا، اس سے دونوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کر دیے۔ پھر خالی ہاتھ۔
ریلوے کوارٹر خالی کرنا پڑا … گاؤں میں 5 ایکڑ زمین تھی۔ وہ بیچ کر ایک چار مرلے کا گھر لیا۔ بڑے بیٹے کو باہر بھیجا۔ جو پیسے بچ گئے، اس سے کپڑے کی دکان بنائی۔
پندرہ دن بعد دکان میں چوری ہو گئی۔ سارا مال چور لے گئے۔ کپڑے کی ایک لیر (کپڑے کا چھوٹا پیس) بھی نہیں چھوڑی ظالموں نے…
چھوٹا بیٹا شیف ہے۔ کہنے لگا، ابا ریسٹورنٹ بناتے ہیں۔ مکان گروی رکھ کر بینک سے لون لیا۔ کام تو اچھا چل پڑا تھا مگر میری قسمت پھر جل گئی۔ ریسٹورنٹ میں آگ لگ گئی۔ سب کچھ جل کر سوا (راکھ) ہو گیا …
اب عمارت کا مالک مرمت کے لیے پیسے مانگتا ہے …میں کہاں سے دوں؟ ‘‘
محمد طفیل نے گھائل سپاہی کی طرح ساری داستان بیان کر دی اور خود گردن جھکائے کسی کرامت کا انتظار کر رہا تھا۔ اُسے اُمید تھی کہ بابا جمعہ کوئی پھونک ماریں گے، تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بابا جمعہ بول پڑے:
’’بلال صاحب…! طفیل صاحب کو چائے پلاؤ۔‘‘
’’جی ابھی فون کرتا ہوں۔ ‘‘ بلال نے عقیدت سے جواب دیا ۔ بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف متوجہ ہوئے اور حلیمی سے بولے :
’’دیکھو بھئی…محمد طفیل سچ بولنا اور سچ سننا دونوں ہی مشکل کام ہیں۔ ‘‘
’’آج ہم دونوں سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے … کچھ غلطیاں تو تم سے بھی سرزد ہوئی ہیں۔ ‘‘
’’وہ کیا بابا جی؟‘‘ محمد طفیل نے حیرت سے پوچھا۔
’’گاؤں کی زمین کس کی تھی؟ ‘‘
’’ابا جی بہشتی کی۔ ‘‘
’’کتنے بہن بھائی ہو تم سب ؟‘‘ بابا جمعہ نے پھر پوچھا۔
’’میں ہوں اور تین چھوٹی بہنیں ہیں ۔ ‘‘محمد طفیل نے بتایا۔
’’کیا زمین بیچ کر بہنوں کا حصہ دیا…؟‘‘ بابا جمعہ نے سیدھا سوال کیا۔
’’کیسا حصہ جی …؟ بابا جی آپ بھی کمال کرتے ہیں…اب بھی ان کا حصہ باقی ہے …میں نے ابا جی کے مرنے کے بعد اُن کو پالا۔ ان کی شادیاں کیں۔ اُن کی ہر خوشی غم میں پہنچتا ہوں۔ آپ اب بھی حصے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ محمد طفیل نے بے رخی سے جواب دیا۔
بابا جمعہ مسکرائے جیسے انہوں نے محمد طفیل کی تلخی اور بے رخی دیکھی ہی نہ ہو۔
’’میٹرک میں پڑھتا تھا، جب ابا جی فوت ہو گئے۔ محنت مزدوری کر کے خود پڑھا، بہنوں کو بھی پڑھایا۔ ایک باپ کی طرح فرض نبھایا ہے میں نے۔ بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کر دیا میں نے۔ ‘‘
’’مگر ان کا حق تو نہیں دیا۔ محمد طفیل ! یہ تمہارا فرض تھا۔ فرض کا اجر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ دے سکتا ہے۔ فرض تو تم نے احسن طریقہ سے ادا کر دیا مگر وراثت میں جو حق اللہ تعالیٰ نے بہنوں کا رکھا ہے، وہ ادا نہیں کیا۔ جو تم پر اپنی بہنوں کا قرض ہے … اور دوسرا گناہ جو تم کر بیٹھے وہ یہ کہ سود پر قرض لے لیا۔ میرا ماننا ہے… اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سب سے سخت الفاظ سود کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔
یہ دو گناہ تم سے سرزد ہو گئے۔ پہلا بہنوں کا حصہ نہیں دیا اور دوسرا سود پر قرض لے لیا۔ ‘‘
بابا جمعہ کے جملے سننے کے بعد محمد طفیل بھڑک اٹھا۔ چائے کاکپ سائیڈ پر رکھا اور غصے سے بولا:
’’یہ جو اس ملک کے سیاست دان ہیں۔ آج تک کسی کا بھی حق ادا کیا انہوں نے … ؟ بینکوں سے اربوں کے قرضے لیے اور کبھی ادا نہیں کیے۔ عوام کو روٹی میسر نہیں اور ان کے کتے بسکٹ کھاتے ہیں۔ ان کی تو اللہ پکڑ نہیں کرتا…مجھ غریب سے انجانے میں دو گناہ ہو گئے اور مجھے اتنی بڑی سزا دے دی۔ ‘‘
بابا جمعہ نے ٹھنڈی سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھا پھر بولے :
’’اللہ کا شکر ہے کہ تم گناہ کو گناہ سمجھتے ہو۔ رہی بات اس ملک کے سیاسی لوگوں کی، تو وہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق نہیں دیتا۔ تم سچے دل سے توبہ کرو اور سب سے پہلے سود کے پیسے واپس کرو۔ بہنوں کے حق ادا کرنے کی نیت کرو محنت کرو۔ خرچے کم اور کام زیادہ کرو، پھر دیکھو کیسے برکت نازل ہوتی ہے۔ ‘‘
محمد طفیل عاجزی سے بول پڑا:
’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر کیسے …؟ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں …بہنیں الگ ناراض ہیں۔ اُن سے ادھار کیسے مانگوں؟ دوسرے رشتہ دار سب مشکل سے دال روٹی کھا رہے ہیں۔ دس لاکھ تو بینک کا ہی ہے ۔ دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے بھی پیسے چاہئیں۔‘‘
محمد طفیل شکستگی سے سب کچھ بیان کر رہا تھا۔ بلال ساری گفتگو کے دوران خاموش رہا۔ بابا جمعہ سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ بابا جمعہ نے اجازت دی۔ بلال بابا جمعہ کی طرف آنکھوں کی زبان سے دیکھ رہا تھا۔ بابا جمعہ نے آنکھیں بند کر کے جواب دیا اور اثبات میں سر کو جنبش دی۔
’’آپ کل تشریف لے آئیں۔ اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ بلال نے طفیل سے کہا۔
’’محمد طفیل تم کل آؤ۔‘‘ بابا جمعہ نے حکم صادر کیا۔
(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)
۞۞۞۞