جھوٹ آج کی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت اور ہر موڑ پر کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ گویا اسے جینے کے لیے سانس اور آکسیجن جیسی اہمیت حاصل ہو چکی۔
اسے اپنانے والے لوگ بہت سی وجوہ کی بنا پر اپنی زندگیاں اسی کے سہارے گزارتے ہیں۔ کچھ مجبوری، کچھ منافقت اور کچھ عادتاً یا شغلاً، لیکن کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ یہ ایک نفسیاتی بیماری بھی ہے
عافیہ مقبول جہانگیر
شاہد ایم اے پاس ہے جو #نوکری حاصل کرنے کی #جدوجہد میں دن رات ایک کر رہا ہے۔ وہ #انٹرویو کے لیے جاتا ہے۔ وہاں اس سے کہا جاتا ہے کہ صرف ایم اے کی ڈگری کافی نہیں۔
اسے #کمپیوٹر اور #جدید #سافٹ #وئیرز کا #استعمال بھی آنا چاہیے جو اس کی #سی وی میں درج نہیں۔ شاہد اب کیا کرے گا…؟؟
وہ گھبرا جاتا ہے اور نوکری کی اشد #ضرورت کے پیشِ
نظر اچانک بول پڑتا ہے کہ وہ کمپیوٹر جانتا ہے لیکن #غلطی سے سی وی میں لکھنا بھول گیا۔ وہ دل میں منصوبہ بندی کرتا ہے کہ اگر اسے نوکری مل جائے تو وہ فوری طور پر شام کی کسی #اکیڈمی میں داخلہ لے کر ایک مہینے میں کچھ سافٹ وئیرز اور جدید کمپیوٹر #پروگرام سیکھ لے گا تاکہ اس #جھوٹ کو #سچ بنا سکے اور حلال رزق کمائے۔ شاہد کے اس روپ کو ہم مثبت سوچ کا حامل انسان کہہ سکتے ہیں جس نے بے شک جھوٹ بولا مگر اسے اس کا پورا احساس بھی تھا اور سچ کرنے کا عزم بھی۔
دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ شاہد جانتا ہے اسے کمپیوٹر پر کوئی مہارت نہیں نہ ہی وہ ایسا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن یہاں اگر وہ اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے تو اسے شرمندگی اٹھانا پڑے گی اور اس نے خود پر پڑھے لکھے، سمجھدار اور قابل انسان کا جو نقلی خول چڑھا رکھا ہے اس کی قلعی کھل جائے گی۔
جن دوستوں میں اس نے بڑھکیں ماری تھیں کہ نوکری حاصل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، وہ تمام شوخیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور خود کو شاطر، چالاک اور ہوشیار دکھانے والا شاہد اپنی خود ساختہ بناوٹ اور دکھاوے کی شخصیت گنوا بیٹھے گا۔ لہٰذا وہ باس کو فوراً جواب دیتا ہے کہ اس کے لیے کمپیوٹر استعمال کرنا کوئی مسٔلہ نہیں۔
(وہ اسی وقت سوچ لیتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی اپنی چرب زبانی اور خوشامد کا ہتھیار استعمال کر کے کسی کولیگ سے اپنے حصے کا کام کروا لے گا)۔ وہ ہر جگہ جھوٹے اخلاص، مطلب پرستی، خوش اخلاقی، چرب زبانی اور خوشامد کی بدولت ایسے ہی اپنے کام دوسروں سے کروانے کا عادی ہے۔
جھوٹے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔
پہلے جواب میں شاہد کہہ سکتا تھا کہ وہ کمپیوٹر نہیں جانتا مگر جلد سیکھ لے گا لیکن شاید غربت، مالی مسائل اور دیگر ضروریاتِ زندگی نے اسے یہ خطرہ مول لینے سے روکے رکھا کہ کیا پتہ اس کی درخواست مسترد کر دی جائے۔
وہ یہ رسک اُٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے اس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
دوسرے جواب میں شاہد کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو جانتے ہیں کہ کب اور کہاں اپنی جھوٹی اور مکار زبان دانی سے وہ اپنا مطلب پورا کر سکتے اور جھوٹ کو پائیدان بنا کر دوسروں پر اپنی کامیاب زندگی کا رعب جھاڑ سکتے ہیں۔
جھوٹ بولنے کی یہ قسم ہی ’نفسیاتی بیماری‘ کہلاتی ہے۔ اس میں مبتلا شخص ایک ایسی زندگی جی رہا ہوتا ہے جس میں وہ دوسروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اسے عجیب طمانیت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
ایسے لوگ حقیقت کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سچ کو تسلیم کرنا ان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ پھر چاہے وہ سچ خود سے متعلق ہو یا کسی اور وجہ سے۔
دوسروں سے جھوٹ بولنا اور خود سے جھوٹ بولنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اپنے آپ سے جھوٹ بولنے والا انسان خوش فہمیوں میں مبتلا رہتا اور خوشامد سننا پسند کرتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جھوٹی خوشامد کو آکسیجن کی طرح سمجھتے اور واہمے یا گمان کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ دن اگر ان کی تعریف نہ کی جائے تو انھیں گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے اور یہ چڑچڑے پن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کی تعریف کرنے میں حد سے زیادہ بخیل ہوتے ہیں۔ انھیں صرف اپنے بارے میں ( صرف تعریفی کلمات) سُننا پسند ہوتا ہے۔
جھوٹ بولنے والے افراد معاشرے کے لیے بیماری ہیں جبکہ جھوٹ سننے والے معاشرتی، ذہنی اور نفسیاتی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کمزوریاں اور خامیاں اچھی طرح جاننے کے باوجود خود کو ذہین اور مقابل کو کمتر سمجھتے ہیں۔ خودفریبی کی یہ کیفیت آجکل بہت عام ہے۔
جس نے خود ستائشی رویوں جنم دیا ہے۔ خوش فہمی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آپ نے جہاں حقیقت پسندانہ بات کہی، خوش فہم افراد آپ سے دور ہوجائیں گے یا قطع تعلق کر لیں گے۔
اس خوف سے اکثر لوگ ان کے سامنے سچ کہنے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ سچ سننے کے بعد ان کا رد عمل بہت بھیانک ہو سکتا ہے اور بعض اوقات خطرناک بھی۔
خوبصورت زندگی، من پسند دنیا اور سب کچھ حاصل کر لینے کی خواہش انسان کو بہت سے چہرے بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ اپنی شناخت بھول کر دہری زندگی جینے لگتا ہے۔
موقع محل اور حالات کے پیشِ نظر ہر لمحہ چہرہ بدلنا اس کی عادت بن جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ انھی ان گنت چہروں اور روپ کے ساتھ زندگی گزارنے کا محتاج ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک روپ کو چھپانے کے لیے دوسرا روپ بالکل اسی طرح ناگزیر ہے جیسے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے آپ کو سو مزید جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کی جیب میں بیک وقت کئی ماسک رکھے ہوں، جنہیں وہ موقع و محل کے اعتبار سے بدل لیتا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیکسپیئر نے اس دنیا کو اسٹیج کہا۔ جہاں انسان کو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک مختلف کردار نبھانے پڑتے ہیں۔
شیکسپیئر حقیقی کردار نگاری کی بات کرتا ہے جبکہ اس کے ڈراموں کے کردار بہروپیوں کے ستائے ہوتے ہیں جو خول کے پیچھے چھپے ہوئے اصلی چہرے نہ پہچان سکے اور تباہ ہو گئے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آخر انسان کو روپ بدلنے کی ضرورت کیونکر پیش آتی ہے؟ درحقیقت اس سوال کے پس پردہ انسانی فطرت کی بدصورتی اور کچھ سنگین المیے پوشیدہ ہوتے ہیں۔
Dissociative Identity Disorder
نفسیات کی رو سے ایسے رویوں کو Dissociative Identity Disorder
افتراقی شناخت کا مرض کہتے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق اس بیماری سے مراد ایک سے زائد شعوری مراکز یا شخصیات کا اُبھر کر سامنے آنا ہے۔ اس بیماری میں انسان دو شعوری رویوں یا شخصیات کو اپنا لیتا ہے۔ یہ شخصیات ایک دوسرے سے مختلف و متضاد ہوتی ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی بنیادی شخصیت کے ساتھ ثانوی شخصیت بھی سائے کی طرح چلتی ہے۔ فرد پر جو بھی شخصیت حاوی ہو جائے، وہ پھر اسی مخصوص انداز، پسند ناپسند یا انفرادی حیثیت کے ڈھانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اس طرح اس کی فطرت میں بیک وقت کئی تضادات پیدا ہوجاتے ہیں۔
ایک ہی شخص کی ذات میں موجود مختلف شخصیات کے یہ ماسک اپنی جگہ مکمل اور مضبوط ہوتے ہیں۔
دہری شخصیت مختصر وقت کے ساتھ طویل دورانیے پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ اس پریشان کن بیماری کی تشخیص آسان نہیں کیونکہ اکثر رویوں کی بدصورتی، مزاج کے اُتار چڑھاؤ، بے جا تشویش، غصہ، جارحیت اور دہرے رویوں کو نفسیاتی امراض میں شامل نہیں کیا جاتا۔
وقت پر تشخیص ہوجائے اور بروقت علاج تو معاشرہ کئی برائیوں اور گھناؤنے جرائم سے نجات پا سکتا ہے۔ حادثے یا سانحے جب وقوع پذیر ہوں تو کچھ لوگ انھیں لاشعور میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ وہ انھیں دہرانے یا یاد کرنے سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ یوں یہ یادیں ذہن میں مزید پختہ ہو جاتی ہیں۔
جسم یا گھر کی صفائی کی طرح ذہن کے جالوںکو بھی صاف کرنا چاہیے۔ تلخ واقعات کا یہ کاٹھ کباڑ فطری توانائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اکثر اس طرح کی ذہنی بیماریاں بچپن کے تلخ واقعات سے وجود میں آتی ہیں۔
فی زمانہ جھوٹ زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے، جس کے ذریعے کامیابی کے کئی قلعے فتح کیے جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایسا شارٹ کٹ ہے جس پر چل کر ایک انسان قبل از وقت کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ جاتا یا پہنچنا چاہتا ہے۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق بعض لوگ اتنی ہی بار جھوٹ بولتے ہیں جتنی بار آئینہ دیکھتے ہیں۔ انھیں علمِ نفسیات کی رُو سے پیتھالوجیکل لائرز کہا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ کے میدان کے پرانے کھلاڑی ہوتے ہیں۔
ان کی صبح خوش فہم جھوٹ سے شروع ہو کر رات کے فریب پر ختم ہوتی ہے۔ ہر ایک کی زندگی کا الگ جھوٹ ہوتا ہے۔
ضروری نہیں کہ ہر بہروپیا کسی شدید ذہنی بیماری کا شکار ہو، مگر تمام منفی رویے، جھوٹ، بے ایمانی، منافقت، غیبت وغیرہ کسی ذہنی عارضے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
یہ بہروپیے معاشرتی صفوں میں ہر طرف اکثریت سے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ وقت اور حالات کا سکھایا ہوا ہنر ہے، جو لاقانونیت سے خوب پھلتا پھولتا ہے۔ قصاب، جعلی دواساز، ذخیرہ اندوز اور کئی دیگر پیشے ہیں، جو انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے۔ ان عارضی کامیابیوں کے پیچھے کئی المیے جنم لیتے ہیں اور معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔
دوغلے پن اور کثیر رخ شخصیت کے موضوع پر کئی دلچسپ کتابیں لکھی گئیں۔ جن میں دوستو وسکی کا ناول ’’دی ڈبل‘‘ شرلے جیکسن کا ناول ’’برڈز نیسٹ، رابرٹ سلور برگ کی کہانی ملٹی پلز، کے علاوہ اور بھی بے شمار ناول ہیں، جو انسانی رویوں کی الجھنوں کو عیاں کرتے ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں اس بیماری کے حامل کرداروں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں طور پر اُجاگر کیا گیا۔ ٹیلی ویژن فلم Sybil میں ایک عورت کی سولہ مختلف شخصیات کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ بہرکیف نفسیاتی موضوعات پر بنی اکثر فلمیں کہانی میں سنسنی پید اکرنے کی خاطر بیماری کو بڑھا چڑھا کر ہی پیش کرتی ہیں۔ وہ مکمل طور پر بیماری کا احاطہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
کرسٹوفر مارلو کا لافانی کردار ڈاکٹر فاسٹس بھی کچھ اسی فطرت کا مالک ہے جو دنیا فتح کرنے کی خاطر برائی سے ناتا جوڑ لیتا ہے۔ جبکہ عیش و عشرت کی زندگی کے خاتمے پر دائمی جہنم اس کا منتظر ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے بعد آگہی کا ایک لمحہ، اس کے ذہن پر دستک ضرور دیتا ہے کہ کاش اس نے برائی کا راستہ اختیار نہ کیا ہوتا۔ ایسا لمحہ ہم سب کی زندگی میں ضرور آتا ہے جب ہم احتساب کے آئینے کے سا منے آن کھڑے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات دیر ہو جانے پر پچھتاوے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
جھوٹ سے چھٹکارا پانے کی خواہش
نفسیاتی بیماری سے قطع نظر اگر ہم عمومی طور پر جھوٹ بولنے کی عادت یا بیماری کا جائزہ لیں ,تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جھوٹ سے نفرت کی خواہش بھی کئی لوگوں کے اندر موجود ہوتی ہے لیکن وہ اسے چھوڑتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے ، جو صرف دوسروں سے جھوٹ بولتے ہیں مگر انھیں چونکہ اس بات کا اچھی طرح ادراک اور احساس ہوتا ہے. اس لیے یہ خود فریب یا خوش فہم نہیں ہوتے۔
دوسرے لفظوں میں ان کا ضمیر ابھی زندہ ہوتا ہے اور موقع ملنے یا مناسب راہنمائی سے انھیں اس عادت سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔
جھوٹ کے فروغ میں معاشرے کا کردار
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صرف انھی لوگوں کو باعزت سمجھا جاتا اور بلند اہم مقام دیا جاتا ہے ,جو ہر طرح سے کامیاب، ذہین و فطین، لائق فائق اور کسی ہیرو جیسی خوبیوں کے مالک ہوں۔
عام انسان کا یہاں کوئی مول نہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے گھروں میں بھی والدین لائق، ذہین اور اول آنے والے بچے کو کم ذہین یا تیسری چوتھی پوزیشن لانے والے بچے کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے اور پیار کرتے ہیں۔
والدین کا یہ رویہ پھر رشتے داروں میں منتقل ہو جاتا ہے اور وہ بھی پھر اسی بچے کو اہمیت دیتے ہیں جو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے۔ نتیجتاً نظر انداز ہونے والا بچہ بہت سی دوسری صلاحیتوں کے ہوتے ہوئے بھی پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
شاید آپ کو بھارتی اداکار عامر خان کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو، جس نے کامیاب بزنس کے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ اس فلم کا موضوع ڈیلیکسیا کی بیماری سے متعلق تھا، جو اپنےآپ میں ایک اہم اور بڑا موضوع ہے۔
اس میں والدین اپنے چھوٹے بچے کی پڑھنے لکھنے کی بیماری کو سمجھنے کے بجائے ہر وقت اس کا تقابلہ اپنے بڑے بچے سے کرتے ہیں جو ہر جماعت میں سب میں اوّل یا نمایاں نمبر حاصل کرتا ہے۔ اس کے برعکس نظر انداز ہونے والےبچے کا رحجان مصوری میں زیادہ ہوتا ہے۔
اپنی بیماری یا خامی کو چھپانے کی خاطر وہ بچہ آئے روز سب سے جھوٹ بولتا ہے۔ یہ محض فلم نہیں ہماری آپ کی زندگی کی کہانی بھی ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارا سچ ہم سے وہ مقام نہ چھین لے جو ہم نے جھوٹ کا ملمع چاندی کے ورق کی طرح اپنی شخصیت پر چڑھا رکھا ہے۔
یوں جھوٹ بولنے کی عادت پہلے مجبوری، پھر ضرورت اور پھر عادت بن جاتی ہے۔
بچے جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟
جھوٹ سیکھنے کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ عمر کے ابتدائی تین سال تک بچہ بھانپ لیتا ہے کہ والدین آپس میں اور اس کے ساتھ مختلف باتوں اور مختلف مقامات جھوٹ بولتے ہیں۔
بچہ چھوٹی عمر میں ہی رشتوں کے درمیاں سانس لیتی منافقت کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، کیونکہ بچے والدین کا عکس کہلاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا تجزیہ ایک اور رُخ بھی پیش کرتا ہے۔ ان کے مطابق والدین اگر بچے پر غیرضروری سختی کریں تو بچے جھوٹ بولنے کے ماہر بن جاتے ہیں۔
مڈل سیکس یونیورسٹی سے وابستہ نفسیاتی معالج کے مطابق گھر کا ماحول بہت زیادہ جبر اور سختی پر مبنی ہو تو وہاں ایک ایسا ماحول بن جاتا ہے جہاں بچہ سچ بولنے کو غنیمت نہیں جانتا اور یوں کسی ماہر فنکار کی طرح غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔
ماہر نفسیات کے مطابق جس طرح تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے، عین اسی طرح بچوں کی دروغ گوئی میں والدین کا برابر ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ والدین کا زور و جبر انھیں اس جانب دھکیلتا ہے۔
ماہرین نے اس تجزیے کی حقیقت جانچنے کے لیے مغربی افریقا کے دو اسکولوں میں تجربات کیے جن میں ایک اسکول کا ماحول نرم اور دوسرے کا قدرے سخت تھا۔ اس میں بچوں کو کھلونے پھینک کر شور مچانے کے لیے کہا گیا۔
ماہرین اور بڑے خفیہ جگہ سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ جس اسکول کا ماحول قدرے نرم تھا وہاں کے بچوں نے شور مچانے کا اعتراف کیا جبکہ سخت ماحول میں بچوں کو سزا کا ڈر تھا لہٰذا وہاں فوری طور پر بچوں نے بڑی مہارت سے جھوٹ بولا۔
اسی تحقیق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ماہر نفسیات ایان لیزلے نے ’پیدائشی جھوٹے‘ نامی کتاب لکھی جس میں کہا گیا ہے کہ جن اسکولوں میں سزا دی جاتی ہے وہاں کے بچے ازخود مہارت سے جھوٹ بولنا سیکھ جاتے ہیں۔
اس طرح ننھے بچے منجھے ہوئے جھوٹے بن جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ماحول جتنا زیادہ سخت ہوگا بچے اتنے ہی بہترین جھوٹے بنتے چلے جائیں گے۔ والدین گھر کا ماحول ایسا بنا دیتے ہیں کہ
بچے کے پاس جھوٹ بولنے سے بہتر کوئی اور حکمتِ عملی نہیں ہوتی اور اس کی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔
جھوٹ زندگی کے پھیکے پن میں ذائقے کا تڑکا لگا دیتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بدمزہ کھانے کے ساتھ اچار، مربے اور سلاد رکھ دیں۔ گو کہ جھوٹ سدا بہار پودا ہے اور منافقتوں کے پھل میٹھے ہوتے ہیں، مگر اس مٹھاس میں چھپے زہر کا خمیازہ کئی نسلیں بھگتتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭