Home معاشرت اخلاقی نشے کی لت

نشے کی لت

0
780

اے جذبہ دِل گر میں چاہوں

آپ کی محبت اور انتھک محنت ہی اسے واپس لا سکتی ہے

عافیہ مقبول جہانگیر

عامر خوبصورت، جوان اور اچھے گھرانے کا لڑکا ہے۔ ماں باپ نے بہت پیار محبت سے اسے پال پوس کے بڑا کیا، بہترین اداروں میں تعلیم دلوائی اور امیدباندھی کہ وہ  بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے گا۔ بہنوں کے سروں پر ہاتھ رکھے گا، ان کا مان بنے گا مگر ان کے تمام خواب اس وقت چکناچور ہو گئے جب انھیں پتا چلا کہ ان کی امیدوں اور دعائوں کا مرکز ان کا اکلوتا بیٹا #نشے جیسی #لعنت کا شکار ہو چکا۔

والدین کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان سے کوتاہی کہاں، کب، کس وقت ہوئی۔ ان کی #پرورش و #تربیت میں کہاں کمی رہ گئی۔

انھوں نے تو بہت سینت سینت کر اپنی اولاد کو پالا تھا، مکمل #بھروسہ کیا تھا، اعتماد اور پیار دیا تھا۔ دوستوں کی طرح بچوں کو بھرپور وقت دیا تھا۔ پھر یہ کیا ہو گیا۔

وہ #ناامیدی اور #مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔ وہی #لاڈلا بیٹا یکدم نکما، بُرا اور #آوارہ لگنے لگا۔ بہنوں نے #طنز و تعریض کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔

ماں نے #واویلا مچا کر اٹھتے بیٹھتے اسے کوسنا شروع کر دیا، باپ نے اپنی #محبت اور پرورش جتا جتا کر عامر کا گھر میں رہنا محال کر دیا۔

جب اسے نشے کی #لت نہیں تھی، یا یوں کہہ لیجیے کہ جب ماں باپ کو پتا نہیں تھا۔ تب تک سب ٹھیک تھا۔ اس وقت شاید ان کی #غلطی نہ رہی ہو جب وہ اس لعنت کا #شکار ہوا ہو گا۔ مگر اب۔۔۔۔۔؟ اب یقینا وہ غلطی کر رہے تھے۔

کیا اس طرح کے #رویے اختیار کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کیا وہ #نشہ چھوڑ دے گا؟ کیا سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا؟ نہیں۔۔۔۔۔ شاید نہیں۔ اب ان کو پہلے سے بھی زیادہ #محنت کرنا ہو گی۔

ایک بار پھر اس کی انگلی تھام کر اسے سیدھا راستہ دکھانا ہو گا، نہ صرف دکھانا ہو گا بلکہ قدم قدم پر اس کا سہارا، امید اور #زندگی بن کر اس کے ساتھ چلنا بھی ہو گا۔ لیکن کیسے؟

بہت کم ایسے #باہمت #والدین ہوتے ہیں جو اپنی #اولاد کو بھٹک جانے پر دوبارہ #سہارا دے کر زندگی کی طرف واپس لا پاتے ہیں۔ ورنہ عموماً وہی کچھ ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔

جب اولاد بھٹک جائے تو اس وقت والدین کو مزید ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت #حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

جوش، طعنوں اور غصیلے جملوں، کاٹ دار نظروں سے، ایک نشے کی لت کا شکار #نوجوان کبھی صحت مند زندگی کی طرف لوٹنا تو دور، بلکہ اور زیادہ اس #دلدل میں دھنسنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔

نشے کی عادت کیسے پڑتی ہے؟

نشے کی عادت زیادہ تر آہستہ آہستہ پڑتی ہے۔ نشہ کرنے والے کو شروع میں یہ پورا یقین ہوتا ہے کہ وہ صرف وقتی طور پر نشہ کر رہا ہے اور کبھی بھی اس کا عادی نہیں ہو گا. پھر اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ کب اور کیسے وہ اس #زہر کا اتنا عادی ہو گیا کہ پھر عام #روزمرہ کے کام کرنے بھی دوبھر ہو جاتے ہیں۔

نشے کا عادی انسان نشے کے بغیر کچھ نہیں کر پاتا، یا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

نشے کی #شروعات کی ایک وجہ بُرے دوستوں کی #صحبت بھی ہوتی ہے۔ یہیں سے نشے کی دعوت ملتی ہے اور #مذاق مذاق میں #اکسایا جاتا ہے۔

شروع شروع میں کی جانے والی یہ #تفریح بعد میں #مجبوری بن کر صرف نشے کے #عادی ہی نہیں، اس کے پورے خاندان کی #تباہی و #بربادی کی وجہ بن جاتی ہے۔

نشے کا انتخاب اور اثرات

نشے کا شکار بننے والا فرد اپنی ’’ڈیمانڈ‘‘ یا ضرورت کے حساب سے نشے کا آغاز کرتا ہے۔ جب آہستہ آہستہ ہلکی قسم کا نشہ بے اثر ہونے لگتا ہے تو نشے کے عادی افراد تیز سے تیز تر نشے کی تلاش میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھنا ان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔

ایک وقت آتا ہے کہ خود ان کے لیے یہ نشہ #عذاب بن جاتا ہے اور وہ خود کو #بےبسی کی آخری سیڑھی پر کھڑا محسوس کرتے ہیں، مگر تب ان کو نہ سہارا ملتا ہے نہ رشتوں کی محبت اور خلوص، کہ جس کی مدد سے وہ اس #جان لیوا دلدل سے باہر آ سکیں۔#

رشتہ دار ہی نہیں #سگے #بہن #بھائی یہاں تک کہ اکثر #ماں #باپ بھی انھیں #تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔

  لائی ہے کہاں مجھ کو #طبیعت کی #دورنگی#

    دنیا کا #طلبگار بھی دنیا سے #خفا بھی#

کیا نشہ ایک بیماری ہے یا عادت؟

یہ صحیح ہے کہ نشہ شروع میں ایک #عادت کے طور پر ہی کیا جاتا ہے لیکن بعد میں اس کے اثرات ایک جان لیوا #مرض سے کم نہیں ہوتے۔#

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ نوجوانوں کو #درست #سمت کی طرف واپس لانے اور دوبارہ سے ایک پرمسرت خوشیوں بھری زندگی دینے کے لیے اس کا علاج مستقل مزاجی کے ساتھ ایک بیماری سمجھ کر ہی کروانا چاہیے۔

بہت سے والدین #علاج کو #اہمیت نہیں دیتے اور نشے کے عادی بچے سے کہیں زیادہ خود مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ناقابل #اصلاح اور ناقابل علاج مرض ہوتا ہے۔

کچھ والدین اور گھر والے #بدنامی کے ڈر سے علاج کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے۔ ان کے لیے یہ بات #باعثِ شرم ہوتی ہے کہ ان کا #بیٹا یا #بیٹی نشے کے مریض بن چکے۔ لوگ کیا کہیں گے۔

ہماری #عزت #خاک میں مل جائے گی جیسی سوچیں انھیں ایسے #اقدامات کرنے سے روکے رکھتی ہیں جن سے ان کا نشے کا عادی ان کا اپنا پیارا شاید زندگی کی رونقوں کی طرف #واپس پلٹ سکتا ہے۔

وہ #گھریلو #ٹوٹکوں اور #حربوں سے ہی اس کا علاج کرنے کی #کوشش میں لگے رہتے ہیں جیسے کہ #وعدے لینا، اپنی #قسمیں دینا، #غصہ کرنا، 3مارپیٹ کرنا، #سزائیں دینا، گھر میں کسی کمرے میں بند کر دینا۔ اس کی #بنیادی #ضروریات بھی روک کر اسے جیسے سزا دینا، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ایسا رویہ اسے نشے کے اور قریب کرتا جائے گا۔

ایک تو وہ پہلے ہی اس لعنت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، اور اگر اس کی رہی سہی زندگی کو بھی کوسوں اور لعن طعن کی نذر کر دیا گیا تو پھر شاید مریض اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔

کیا مریض علاج کے لیے تعاون کرتے ہیں؟

عموماً نشے کا مریض آسانی سے علاج پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے گا۔ بالفرض وہ ٹھیک ہو بھی گیا تو دوبارہ اسے یہ #معاشرہ ایک باعزت #شہری کے طور پر کبھی قبول نہیں کرے گا۔

اسے دوبارہ نہ تو کہیں #نوکری ملے گی نا محبت۔ اس کا #داغدار ماضی ہمیشہ اس کی متوقع خوشیوں اور کامیابیوں کی راہ میں آڑے آتا رہے گا۔ سو وہ علاج نہ کروا کر ہی اپنی باقی ماندہ زندگی یونہی #سسک سسک کر گزارنے پر #آمادہ نظر آتا ہے۔

لیکن کچھ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہوتا ہے اور وہ اس دلدل سے باہر آنے کے لیے ہر ممکن ہاتھ پیر مار رہے ہوتے ہیں، انھیں بس کسی کی مدد، کسی کی محبت اور امید بھری نظروں اور دلاسے کی شدت سے ضرورت ہوتی ہے۔

کسی #کندھے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے سہارے وہ اس لعنت کی دلدل سے باہر آ سکیں۔ ایسے میں اپنے عزیز ہی منہ موڑ لیں تو وہ بالکل ہی ناامید ہو کر رہ جاتا ہے۔

لہٰذا بہت ضروری ہے کہ ایسے نوجوانوں کو دوبارہ زندگی کی طرف لایا جائے مگر بے حد #مستقل مزاجی، حوصلے اور #حسن سلوک کا #مظاہرہ کرکے انھیں یقین دلایا جائے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور ہمیں ان کی آج بھی #ضرورت ہے۔

اصلاح کے طریقے اور رویے

جب آپ ایسے مریض کی اصلاح کا #بیڑا اٹھا لیتے ہیں تو اسے #طریقے اور #سلیقے سے #پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔

بعض والدین یا گھر کے افراد، یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کا پیارا، ان کا اپنا، اس بیماری سے #نجات پا لے، اور ایک #نارمل انسان کی طرح زندگی جیے، مگر وہ علاج کے دوران اپنے #تلخ رویوں پر اکثر #قابو نہیں پا سکتے اور نتیجتاً پچھلی ساری محنت #رائیگاں ہو جاتی ہے۔

ذرا سی #اشتعال انگیزی اور #بےصبرا پن، لہجے کی #کڑواہٹ اور #درشتی، مریض کو پھر سے پہلی #سیڑھی پر لا کھڑا کرتی ہے۔ لہٰذا دوران اصلاح یا علاج کبھی بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔  اصلاحی رویے ہمیشہ غم و غصہ اور مارکٹائی سے پاک ہوتے ہیں۔

مریض کے ساتھ بحث و مباحثہ سے گریز کریں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جب ایک عام صحت مند انسان آسانی سے اپنی غلطی نہیں مانتا تو یہ تو پھر ایک بے بس مریض ہے۔ جو اپنی اس بیماری کے باعث ضدی، ڈھیٹ اور جھوٹ بولنے پر مجبور ہے۔

ہماری سب سے بڑی #کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ ہم علاج تو ایک مریض کا کر رہے ہوتے ہیں مگر ہماری اس سے امیدیں اور توقعات ایسی ہی وابستہ ہوتی ہیں جیسے کسی عام نارمل صحت مند انسان سے ہوں۔

ہم ایک طرف اسے مریض بھی کہہ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف یہ آس بھی لگائے رکھتے ہیں کہ وہ بالکل ویسا ہی ری ایکٹ کرے جیسا ہم چاہتے ہیں۔ جیسا کسی صحت مند ذہنی صلاحیت والے انسان کو ہونا چاہیے۔

لہٰذا اگر کبھی آپ ایسے کسی اپنے پیارے عزیز یا مریض کا علاج یا اصلاح کر رہے ہیں اور آپ کامیاب نہیں ہو پا رہے تو مریض کے رویوں سے زیادہ آپ سب سے پہلے اپنے رویے #جانچ لیں، کہ## کہیں آپ بھی تو #غلط نہیں۔۔۔۔۔؟

اگر اصلاح اور علاج کے تمام اہم تقاضے صحیح طرح سے پورے کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مریض پوری طرح سے صحت یاب نہ ہو اور ایک دن وہ بغیر نشہ کے #جینا سیکھ جاتا ہے اور بعض اوقات پہلے سے زیادہ #بہتر انداز میں نئے سِرے سے زندگی گزارتا ہے۔

ایسے بہت سے لوگ ہیں جنھیں پہلے مایوسی کے #اندھیرے نگل گئے اور انھوں نے نشہ شروع کیا مگر جب #مناسب اور #بروقت اصلاح اور علاج ملا، توجہ ملی تو نہ صرف انھوں نے نشہ چھوڑا، بلکہ جیسی زندگی وہ نشے سے پہلے گزارتے تھے اس سے کہیں زیادہ بہتر اچھی کامیاب زندگی گزارنے لگے۔

بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت

نشہ کی بیماری عام بیماری سے بہت الگ، اور بہت #خطرناک بیماری ہے۔

لہٰذا اس کے علاج کے لیے ایک باقاعدہ #مضبوط #منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف منصوبہ بندی ہی نہیں، اس کو نبھانے کے لیے مستقل مزاجی، صبر اور حوصلے کی بھی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔

اس #نکتے کو سمجھنے والا ہی #فائدے میں رہتا ہے اور جب وہ اپنے #پیارے کو واپسی زندگی کی طرف لوٹتے دیکھتا ہے تب ہی صحیح معنوں میں کامیابی اس کے قدم #چومتی ہے۔

NO COMMENTS