طوطا اور طوائف
شکیل احمد چوہان
بعض انسان آزاد ہو کر بھی قید کاٹ رہے ہو تے ہیں ۔ میں نے ساری زندگی قید کاٹی آج میں آزاد ہو کر بھی قید میں ہوں۔ میرے پنجرے کا دروازہ میری طوائف نے فجر کے بعد ہی کھول دیا تھا۔
پچیس سال اپنی طوائف کے سا تھ گزارنے کے بعد اب میں جاؤں بھی تو کہاں؟ میں کشمیری طو طا ہوں۔ لوگ مجھے الیگزینڈر اور را اور بھی کہتے ہیں ۔
میری نسل کے طوطوں کی او سط عمر 20۔ سے 30 سال ہے۔ میں انسا نوں کی زبا ن بول لیتا ہوں۔ ایک بار میری طوائف نے مجھ سے پو چھا
’’پتا ہے طوطوں کو قید کیوں کرتے ہیں …؟‘‘
میں نے سوال کیا
’’کیوں …؟‘‘
وہ کہنے لگی
تم انسانوں جیسی باتیں جو کرتے ہو۔ تمھیں آزاد کر کے میں کس سے دل کی با تیں کروں گی…؟ میرے پاس توسب دل بہلانے ہی آ تے ہیں۔ تمھارے سوا میری کو ئی سُنتا ہی نہیں
میری لمبا ئی 25 انچ ہے اور وزن 250 گر ام ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے…؟ میں اپنی لمبائی اور وزن کیوں بتانے بیٹھ گیا ہوں۔ وہ اس لیے کہ میں نے اپنی طوائف کے کوٹھے پر قد میں بہت چھوٹے اور وزن کے بہت ہلکے انسان دیکھے ہیں۔
طوائف کے اس 12 بائی 18 کے کمرے کو اب کوٹھا کہنا بھی مناسب نہیں ہے ۔ کوٹھے پر تو وہ میرے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ اُس وقت طوائف کا جوبن اپنے عروج پر تھا۔
میری طوائف بڑی چٹخوری تھی۔ مجھے بھی تب کھانے میں قندھاری انار ملا کر تے تھے۔ اُن دنوں وہ آ ئے روز میرے کھیلنے کے لیے پنجرے میں نئے نئے کھلونے رکھتی کیوں کہ مرد دن رات اُس کے جسم سے کھیل رہے تھے۔
میں ایک نر طوطا ہوں مگر نر ذات کا مادہ ذات کے ساتھ گھناؤنا کھیل دیکھ دیکھ کر مجھے تو نر ہو نے سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔
پندرہ سال میں ہی میری طوائف کو ست رنگی کوٹھے کی سیڑھیوں سے اُتر کر تاریک کمرے کی سیڑھیاں چڑھنی پڑ گئیں۔ اب اکثر اُس کے پاس پیسے ختم ہو جا تے ہیں۔ پھر وہ داتا صا حب جا کر لنگر کھا آتی اور میرے لیے بھی کہیں نہ کہیں سے گلے سٹرے امرود اُٹھا لاتی۔
میں ڈھائی سال کا تھا جب میری ہری گردن پر کالے رنگ کا ایک دائرہ بن گیا۔ اب میں اسے غلامی کا پٹا کہتا ہوں۔ میں اپنے سامنے پلنگ پر لیٹی ہوئی طوائف کو غور سے دیکھ رہا ہوں۔ اُ س کی سفید گردن پر تو کوئی کالا دائرہ نہیں بنا، پھر وہ کیوں نہ اپنی گردن سے ساری زندگی مرد کی غلامی کا پٹا اُ تار سکی۔
شاید وہ اُ تارنا ہی نہیں چا ہتی تھی۔ جس طرح میں نے پنجرے میں ہی ہوش سنبھالا، اُسی طر ح اُس نے ایک کوٹھے پر آنکھ کھو لی۔
مجھے پنجرے میں میرے حصے کا رزق ملتا رہا اور اُ سے کوٹھے پر۔ اُ س نے کبھی تدبیر کا آلہ استعمال نہیں کیا اور میں قید کو ہی اپنی تقدیر سمجھ بیٹھا تھا۔
اُس نے ساری زندگی ہاتھوں کے بجائے اپنے جسم سے رزق کمایا اور میں نے اپنے پروں کی جگہ زبان کا کھٹیا کھایا۔
کہاں ہو میری جان، صبح سے نظر نہیں آئی
میں پلنگ سے اُڑ کر روشن دان میں جا بیٹھا۔ پان سگریٹ والا طوائف کا مستقل گاہک کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے میری طوائف کے بے جان جسم کو پلنگ پر پڑے ہوئے دیکھا تو چلاتا ہوا کمرے سے نکل گیا
’’نادرہ مر گئی‘‘
نادرہ کو زندگی سے رہائی مل گئی اور مجھے پنجرے سے۔
…٭…