19 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

ٹھنڈی کافی(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

بارہویں قسط

ٹھنڈی کافی

ہر جوانی نے ڈھلنا ہے…اور ہر زندہ نے مرنا ہے

شکیل احمد چوہان

بابا جمعہ اور اقبال نورانی مسجد سے عصر کی نماز پڑھ کر لوٹے ہی تھے۔ بلال بھی اُسی وقت بابا جمعہ کے موچی خانہ پر آن پہنچا۔
’’لو بلال صاحب بھی آ گئے…‘‘ بابا جمعہ نے بلال کو دیکھ کر کہا تھا۔
’’بابا جی ! آپ مجھے صاحب مت کہا کریں۔ ‘‘ بلال نے عرض کی۔
’’بابا جی تو مجھ جیسے نالائق کو بھی بالی چائے والے سے اقبال بیٹا بنا لیتے ہیں۔ ‘‘ اقبال نے مسکراتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔
’’بلال بھائی مزے کی بات بتاؤں؟ مجھے تو میری اماں اور بیوی بھی بالی ہی کہتی ہیں۔ بابا جی جب اقبال کہتے ہیں تو میری ہوا خراب ہو جاتی ہے۔ ‘‘ تینوں نے مل کر ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
’’بلال صاحب، میری بات غور سے سنو۔
اس نام سے بہت بلند…
اس کا…
اقبال ہے …اور اس سے بھی بلند…
بلال کا اقبال ہے…
ادب کا تقاضا یہ ہے …کہ نام کے ساتھ …صاحب لگایا جائے کسی بھی نام کو معتبر اس کے پیچھے کی شخصیت بناتی ہے …
اس نام کے پیچھے حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت ہے جو اس کو بھی معتبر بنا دیتی ہے …
نام بلال کے پیچھے بہت بڑی…عظیم شخصیت ہے…حضرت سیدنا بلال حبشیؓ…

یہ سب کہتے ہوئے بابا جمعہ کے الفاظ سے عقیدت کی خوشبو آ رہی تھی اور اَشک ان کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔
بابا جمعہ نے اپنے کندھے سے سفید صافہ اُتار کر اپنے دونوں نین صاف کیے، چہرہ اور سفید ڈاڑھی بھی صاف کی جو اشکوں سے بھیگ چکی تھی۔
’’سچی بات تو یہ ہے …بلال صاحب…صرف بلال…کہنے سے …ڈر لگتا ہے … کہیں نام کی بے ادبی نہ ہوجائے… اقبال بیٹا اور بلال صاحب…! اپنے ناموں کی لاج رکھنا…بڑی شخصیت سے نام بڑا بنتا ہے…بڑے نام سے شخصیت بڑی نہیں بنتی…‘‘
’’میں آپ کے لیے چائے اور بسکٹ بھیجتا ہوں۔‘‘ اقبال چائے والے نے گفتگو کا رخ بدلنے کی کوشش کی کیونکہ بابا جمعہ کی آنکھوں سے آنسو مون سون کی بارش کی طرح برس رہے تھے۔
’’بابا جی…! چائے آنے تک میں نماز پڑھ لوں۔‘‘ بلال نے مسجد کی طرف جانے سے پہلے کہا۔

بلال اپنی نانی کے کمرے میں داخل ہوا جو اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔ بلال نے نانی کو سلام کیا اور ان کی خیریت دریافت کی ۔
’’آج کوئی نہیں ہے …آپ کے پاس…؟‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’جمال تو آج دوپہر کو امریکا چلا گیا۔ تمہاری مامی اور شعیب کا کوئی پتا نہیں اور نوشی توشی تو  دوپہر سے ہی جدھر تمہارا سکول ہے …‘‘
’’جوہر ٹاؤن …‘‘بلال نے بات آگے بڑھائی ۔
’’ہاں… جوہر ٹاؤن میں ان کے کپڑوں کی نمائش ہے۔ وہاں کوئی بڑا سا ہال ہے۔ کیا نام ہے اس کا …؟‘‘
’’ایکسپو سنٹر…‘‘ بلا ل نے بتایا۔
’’ہاں …ہاں وہی ایکسپو سنٹر ۔ ادھر ہی… صبح سے گئی ہوئی ہیں…ر ات دس بجے تک آئیں گی۔ بلال بیٹا…! کیا ٹائم ہوا ہے…؟ ‘‘
’’جی 9 بجنے والے ہیں۔ ‘‘بلال نے بتایا۔
’’جوان بچیاں ہیں…ماں کو کوئی فکر ہی نہیں۔‘‘ نانی خفگی سے بولی۔
’’آپ نے کھانا کھایا؟‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا …! زینب ابھی کھانا کھلا کر گئی ہے …بتا رہی تھی کہ تیرا اسکول بڑی ترقی پر جا رہا ہے۔ اب تو ڈیفنس کے بچے بھی تیرے اسکول میں جاتے ہیں۔ ‘‘
نانی نے اس کے گالوں پر پیار کیا جو  نیچے کارپٹ پر کُشن رکھ کے پیروں کی مالش کر رہا تھا۔
’’بیٹا…! تجھے دیکھتی ہوں تو بڑا دکھ ہوتا ہے۔ کتنی مصیبتیں دیکھی ہیں تُو  نے اس چھوٹی سی عمر میں۔
8 ماہ کا تھا تو تیرا باپ گزر گیا۔ 8سال کا ہوا تو تیری ماں چلی گئی تجھے چھوڑ کر …اتنے بڑے غم چھوٹی سی عمر میں…‘‘ نانی اضطراب سے بولیں۔
’’نانو…! آپ کو پتا ہے …جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 6 سال تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہؓ اور ایک خادمہ ام ایمنؓ کے ساتھ مکہ سے مدینہ آئے۔ اپنے والد حضرت عبداللہؓ کی قبر کی زیارت کے لیے …ایک ماہ مدینہ میں قیام کے بعد واپسی مکہ کی طرف سفر کرتے ہوئے ابواء کے مقام پر آپﷺ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہؓ کا انتقال ہو گیا…
آج بھی ابواء کی وادی میں جائیں تو خوف آتا ہے۔ سیاہ خشک پہاڑ، دُور دُور تک آبادی کا نام و نشان نہیں۔ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں، سوچیں چودہ سو سال پہلے وہاں کیا ہو گا…؟ ایسی جگہ پر ایک چھے سال کے بچے کی ماں اُسے چھوڑ کر چلی جائے… ‘‘
بلال یہ باتیں بیان کرتے ہوئے ایسے کھو گیا جیسے ابواء کی وادی دیکھ رہا ہو اور نانی بلال کو دیکھ رہی تھیں۔ ’’ انتقال کے وقت حضرت آمنہؓ کے آخری الفاظ تھے:
’’ بیٹا ہر جوانی نے ڈھلنا ہے…اور ہر زندہ نے مرنا ہے…‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہؓ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
نانو…! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے لیے مدینہ سے مکہ کا سفر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رستے کا انتخاب کیا … ابواء کے مقام پر پہنچ کر اپنی والدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کی۔
اُس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر بہت روئے تھے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی بڑے اور اُن کے غم بھی بڑے۔ ہم چھوٹے ہیں اور ہمارے غم بھی چھوٹے ہی ہیں۔ نانی نے اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان بلال کا چہرہ لیا اور ماتھا چوم لیا۔
’’کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تو میرا نانا ہے اور میں تیری دوتری (نواسی) ہوں۔ جب تو ایسی باتیں کرتا ہے تو بہشتی تیرا نانا یاد آ جاتا ہے …وہ بھی بڑا سیانا بندہ تھا۔ پریا پنچایت والا، پورے ضلع نارووال میں اس کی دھوم تھی…کوٹ فتح گڑھ میں بہت بڑا ڈیرہ تھا بہشتی کا۔
پر تیرے مامے (ماموں) نے بیڑہ غرق کر دیا۔ ڈیرہ زمین سب کچھ بیچ دیا۔ مشہور تھا چوہدری ارشاد رندھاوا کا ڈیرہ دُور دُور سے لوگ فیصلہ کروانے آتے تیرے نانے سے …‘‘
بلال یہ ساری باتیں پہلے سے جانتا تھا مگر پھر بھی نانی کے احترام میں سن رہا تھا ۔
’’تیری مامی لگا لگایا بوٹا پٹ لیائی، لاہور میں فیکٹری لگاتے ہیں، زمین بیچ دو اگر تیرا نانا زندہ ہوتا تو ایسا تھوڑے ہی ہونے دیتا…
میں نے اور تیری ماں  نے بہت سمجھایا مگر تیرا ماما شروع ہی سے لائی لگ تھا … ہاں تیری ماں سیانی تھی۔ جبھی تو تیرے باپ جیسے ہیرے سے شادی کی۔ میں نے تو بڑی مخالفت کی تھی کہ ہم جٹ اور لڑکا ملک ہے پر تیرا نانا آڑے آ گیا…اپنی مرضی کی ، اس کا فیصلہ ٹھیک تھا…تیرے مامے کا رشتہ میں نے کیا تھا۔
بڑا شوق تھا مجھے جمال کے لیے شہری ووہٹی (بہو) لانے کا۔ چوہدری صاحب نے بڑا سمجھایا کہ جہاں آرا کڑی بڑی تیز ہے اور منڈا تیرا لائی لگ ہے، مگر میں نے ایک نہیں سنی…‘‘
نانی نے پرانی باتوں کا صندوق کھول لیا تھا۔ بلال نے بات بدلی :
’’آپ کو لطیفہ سناتا ہوں …پاگل خانے میں دو پاگل تھے۔ دونوں کی بڑی دوستی تھی…مگر دونوں ببلی ببلی بول کر ہر وقت روتے رہتے …کسی نے ڈاکٹر سے پوچھا یہ دونوں ببلی کو یاد کر کے کیوں روتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے بتایا :
’’پہلا جو ہے اس کی ببلی سے شادی نہیں ہوئی وہ اس کی یاد میں روتا ہے…دوسرا جو ہے اس کی اسی ببلی سے شادی ہو گئی وہ اسے یاد کر کے روتا ہے…‘‘
نانی ہنس پڑیں۔ بلال نے انہیں کرسی سے اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ کمبل ان پر ڈالتے ہوئے کہنے لگا :
’’صبح ان شاء اللہ بات ہو گی …اب آپ سو جائیں۔ ‘‘

’’میں نے کہا تھا کہ وہ نہیں آئے گا مگر تم تو…بس…بلال…بلال…کی رٹ … ہماری زندگی کا اتنا بڑا دن تھا آج۔ ‘‘
نوشی نے Red کلر کی Honda Civic کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ DJ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور توشی آگے بیٹھی ہوئی تھی۔ گاڑی کلمہ چوک سے ڈیفنس کی طرف جا رہی تھی۔ دس بجے رات کو سردی کی وجہ سے ٹریفک قدرے کم تھی اور توشی آج واقعی غصے میں تھی۔
’’شادی کر لو اس سے…بھئی نہیں کرنی اس سے شادی…جو شخص آپ کی خوشی میں شریک نہیں ہو سکتا… مائی فٹ…کتنا پازیٹو رسپانس ملا ہم کو۔ اب دیکھنا تم… میں سب کو Beat کرجاؤں گی۔‘‘ نوشی ایک دفعہ پھر بھڑکی۔ گیٹ پر ہارن کی آواز سے سکیورٹی گارڈ نے جھٹ پٹ گیٹ کھول دیا۔
پورچ میں گاڑی پارک ہوئی۔ نوشی پائوں پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جاتے ہوئے اس نے بلال کے کمرے کی طرف نظر اٹھائی۔ بلال ٹیرس پر کھڑا ہاتھ میں کافی کا مگ لیے ان کو دیکھ رہا تھا۔
توشی دیر سے گاڑی سے اُتری۔ وہ سارے راستے گم سم تھی۔ اب بھی وہ قدرے تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس نے گاڑی کی ونڈ سکرین سے بلال کو کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا۔ وہ بلال کو بغیر دیکھے چلی گئی۔ بلال نے بھی اسے اس وقت بلانا بہتر نہیں سمجھا ۔ ہاں البتہ DJ کو جاتے ہوئے آواز دی۔
’’آج چار سال میں پہلی بار نوشی آپی کو آپ کے نہ آنے پر غصہ آ رہا تھا۔ ‘‘ DJبلال کو بتا رہا تھا۔
’’کافی بناؤں تمہارے لیے؟ ‘‘ بلال نے پوچھا۔
کہانی میں یہ ٹوئسٹ DJ کو کنفیوژ کر رہا تھا۔ DJ نے ہاتھ اپنی ٹھوڑی پر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا :
’’کافی نہیں…ابھی تو کھانا بھی نہیں کھایا ۔ نوشی آپی کو آپ کے نہ آنے پر غصہ کیوں آ رہا تھا۔‘‘ اس نے خود کو مخاطب کیا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔
’’جاؤ تم جا کر کھانا کھاؤ۔‘‘ بلال نے DJ کو کہا۔
’’پیاز گوشت ملے گا۔ میرا مطلب ہے تھوڑا سالن ہو گا۔‘‘ DJندیدی آنکھوں سے پوچھ رہا تھا۔ بلال مسکرایا اور جواب دیا۔
’’جمعہ کو عصر کے بعد آ جانا۔‘‘
بدھ، جمعرات اور جمعہ DJ نے انگلیوں کے پوروں پر حساب لگایا اور چلا گیا۔ نوشی اپنے ٹیرس سے بلال کے کمرے کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے DJ کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اپنے ہاتھوں میں موجود iphone 5 سے DJ کو فون ملادیا۔
’’میرے کمرے میں آؤ۔‘‘ DJنوشی کے سامنے پیش ہو گیا ۔
’’کیا پوچھ رہا تھا…؟ ‘‘ نوشی نے تفتیشی نگاہوں کے ساتھ تیکھے لہجے میں پوچھا۔
’’کون جی…‘‘ DJ بند آنکھوں سے سوال کر رہا تھا جیسے بچہ نیند سے جاگا ہو۔
’’جہاں سے آئے ہو ابھی ابھی۔ ‘‘
’’بلال صاحب …وہ جی کہہ رہے تھے …پیاز گوشت جمعہ والے دن عصر کے بعد آ کر لے جانا…‘‘
’’بس…اور کچھ نہیں کہا اس نے …‘‘نوشی نے حیرت سے پوچھا ۔
’’کہتے کہاں ہیں وہ کچھ…وہ تو بس سنتے رہتے ہیں…‘‘ DJغنودگی کے عالم میں بول رہا تھا۔
توشی ان کی گفتگو کے دوران باتھ روم سے نکل آئی تھی۔ اب اس کا موڈ ٹھیک تھا بلکہ وہ اب نوشی کی بے قراری انجوائے کر رہی تھی۔
’’پیاز گوشت…پیاز گوشت…‘‘نوشی خود سے مخاطب تھی۔
’’کیوں اتنی ہائپر ہو رہی ہو…؟ ‘‘توشی اس کی طرف دیکھ کر بولی پھر DJ کو کہا :
’’DJ تم جاکر آرام کرو…‘‘ DJ تھکے ہوئے جسم کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
’’مگر وہ آیا کیوں نہیں…؟ ‘‘نوشی ابھی تک وہی پہاڑا پڑھ رہی تھی ۔
’’ تم سے اس نے کون سا پرامس کیا تھا…؟ ویسے یہ سارے Symptom محبت ہی ظاہر کر رہے ہیں‘‘
’’اور یہ پیاز گوشت کی کیا کہانی ہے؟ ‘‘ نوشی اپنی دھن میں مگن تھی ۔ توشی اب تک نوشی کو ڈریسنگ ٹیبل کے مرر میں سے دیکھ رہی تھی… اٹھی اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر ہلایا۔
’’ڈفر…! یہ مس بی ہیو چھوڑو۔ مجھے پتا ہے تمہاری فیلنگز ہرٹ ہوئی ہیں …جاؤ میرا بچہ فریش ہوجاؤ…میں پیزا آڈر کرتی ہوں …جاؤ شاباش…‘‘نوشی واش روم میں چلی گئی اور توشی نے فون پر پیزا آرڈر کر دیا۔ آدھ گھنٹہ بعد وہ دونوں بہنیں پیزا کھا رہی تھیں۔
’’ویسے یہ پیاز گوشت کیا چیز ہے؟ ‘‘ نوشی کی سوئی وہیں پھنسی ہوئی تھی ۔
’’او…او…اُف، یہ پیاز گوشت پچھلے دو گھنٹے سے میرے کان پک گئے ہیں سن سن کر…یہ ایک افغانی ڈش ہے،‘‘
’’مگر کیسے…؟ DJ کہہ رہا تھا … وہ پکاتا ہے…‘‘ نوشی اُلجھن کا شکار تھی۔
’’تم ڈارلنگ پہلے یہ فنش کرو، میں تفصیل سے سب کچھ بتاتی ہوں …‘‘ توشی پیزے کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔ دونوں بہنیں کھانے سے فارغ ہو چکی تھیں۔
’’بتاؤ …اب بتاؤ…‘‘نوشی پھر سے بول پڑی۔
’’یہ جو بلال صاحب آپ کے منگیتر ہیں نا۔ یہ بھی الگ سیمپل ہیں۔ جب یہ خود پڑھتے تھے تو سارا پاکستان گھوم چکے تھے۔ اب یہ 4 سال سے اسکول چلا رہے ہیں تو سارا مڈل ایسٹ دیکھ لیا ہے۔ کھانا کھانے کے شوقین ہیں اور بنانے کے بھی۔
جمعہ والے دن پیاز گوشت پکاتے ہیں۔ سب کو کھلاتے ہیں اور مغرب سے پہلے کسی کے لیے لے کر جاتے ہیں۔ کہاں جاتے ہیں؟ کسی کو پتا نہیں… پچھلے تین سال سے رمضان میں عمرہ کے لیے جا رہے ہیں، دس دن عمرے کے لیے اور باقی پندرہ دن دوسرے مڈل ایسٹ کے ممالک گھومتے ہیں۔ مصر، عمان، امارات، کویت، بحرین اور ترکی بھی جناب دیکھ چکے ہیں اور آپ سے یعنی میری بہن سے بہت محبت کرتے ہیں۔ تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتا ہے۔ بے شمار لڑکیاں مرتی ہیں بلال صاحب پر مگر وہ مسٹر تم پر فدا ہیں۔ ‘‘
’’چلو چلیں اس کے کمرے میں…‘‘ نوشی نے توشی کو ہاتھ سے کھینچتے ہوئے کہا۔
’’پاگل ہو۔ ٹائم تو دیکھو۔‘‘ توشی نے ہاتھ چھڑایا اور وال کلاک کی طرف اشارہ کیا۔
’’بارہ ہی تو بجے ہیں۔ ‘‘ نوشی نے معصومیت سے جواب دیا۔
’’تمہارے ویسے بھی بارہ بج گئے ہیں۔‘‘ توشی اسٹائل سے بولی۔
’’نوشی جی … وہ صاحب سردی، گرمی دس بجے سو جاتے ہیں۔ آج تو ہماری وجہ سے جاگ رہے تھے… مسٹر بلال کو صبح تہجد کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔ پھر گھنٹہ قرآن پاک پڑھتے ہیں، اس کے بعد نماز سے فارغ ہو کر جاگنگ کے لیے پھر پودوں کو پانی، پرندوں کو دانہ، اس کے بعد گرم پانی سے نہاتے ہیں پھر ناشتا، جانے سے پہلے دادو کے پاس بیٹھ کر اُن کا حال چال پوچھ کر اسکول جاتے ہیں۔ ‘‘
’’تم بڑی خبر رکھتی ہو اس کی۔ ‘‘نوشی ابرو چڑھا کر بولی۔
’’میرے پاس تو اس کی صرف خبر ہے۔ اس کے پاس تمہارا سارا حساب کتاب موجود ہے۔ کہتا ہے محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا حساب بھی رکھتے ہیں… کبھی اس کے دیے ہوئے گفٹس کھول کر دیکھنا۔ نوشی جی مجھے تو نیند آ رہی ہے، میں سونے لگی ہوں۔ ‘‘ توشی نے کمبل اوپر لیا اور بیڈ پر ڈھیر ہو گئی ۔
آج توشی نیند کی آغوش میں تھی اور نوشی بے قرار اور اس کے کانوں میں توشی کے الفاظ گونج رہے تھے :
’’محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں … ‘‘ توشی کی دوسری صدا گونجی :
’ ’اسے تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتا ہے۔‘‘
’’وہ تم پر فدا ہے…فدا ہے۔‘‘
12 بجے سے صبح 4 بجے تک کا سفر توشی کے جملوں میں ختم ہو گیا۔ موبائل پر ٹائم دیکھا۔ 4 بجے  تھے۔ وہ ٹیرس پر گئی۔ بلال کے کمرے کی لائٹ On تھی۔ بلال نے جائے نماز سمیٹ کر دیوان کے بازو پر رکھا۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور گرم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے، اس نے قرآنِ پاک کے شیلف پر رکھے چودہ نسخوں میں سے ایک اٹھایا اور باآواز بلند تلاوت کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔
’’آجائیں خان صاحب…! دروازہ کھلا ہے۔ ‘‘ بلال نے بغیر دیکھے صدا لگا دی۔ اس کی نظریں قرآنِ پاک پر تھیں۔ آہستہ سے دروازہ کھلا۔ کسی کے قریب آنے کی آواز بڑھ گئی۔ بلال نے نظریں اٹھا کر دیکھا، سامنے ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس نوشی کھڑی تھی۔ اس کی آوارہ لٹیں رخساروں کو چوم رہی تھیں۔  آنکھیں سرخ  مگر زبان خاموش تھی۔ وہ بت بنی بلال کے سامنے کھڑی تھی ۔
بلال نے اسے دیکھا تو سب سے پہلے قرآنِ پاک کو عقیدت اور احترام سے شیلف پر رکھا، اس کے بعد اپنی گرم چادر اتار کر نوشی کے اوپر ڈال دی مگر اس کے جسم کو چھوئے بغیر۔ کالی گرم چادر میں لپٹی ہوئی نوشی ایسے لگ رہی تھی جیسے ہیرا کوئلے کی کان میں چمک رہا ہو۔
’’آپ بیٹھ جائو ‘‘بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کیا اور گیس ہیٹر کو جلایا پھر کچن کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سائیڈ ٹیبل پر کافی کے دو مگ اور بسکٹ موجود تھے۔
’’کافی پیو۔‘‘ بلال نے مگ نوشی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا تھا۔ کافی بالکل ویسی تھی جو نوشی کو پسند تھی۔ چینی، دودھ زیادہ اور کافی کم مگر دوسرا مگ مختلف تھا۔ دودھ کم اور بغیر چینی کے۔
نوشی نے کافی کا سپ لیا۔ وہی ذائقہ جو اس کو پسند تھا …اس کے کانوں میں آواز آئی:
’’ اسے تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا علم ہے۔‘‘
بلال نے بسکٹ اس کے آگے کیے۔ نوشی نے بغیر دیکھے بسکٹ منہ میں ڈالا اس کی زبان نے ٹیسٹ اس کے دماغ کو میسج کیا۔ یہ تو وہی ہے جو مجھے پسند ہے۔ اس نے دائیں ہاتھ میں بسکٹ کے آدھے پیس کو دیکھا۔ بالکل وہی تھا۔
نوشی نے اس دوران پہلی بار بلال کو آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ بہت غور سے دور…آنکھوں میں اندر بہت اندر تک۔
’’تم آئے کیوں نہیں…؟‘‘ اس نے نینوں کی زبان سے پوچھا۔ آج زندگی میں پہلی بار نوشی نے نینوں سے زبان کا کام لیا مگر بلال اس زبان میں ڈگری ہولڈر تھا۔
’’آپ نے بلایا ہی نہیں تھا۔‘‘ بلال نے آنکھوں سے جواب دیا۔
’’تمہیں کیسے پتا مجھے یہ بسکٹ اور کافی پسند ہے؟ ‘‘
’’بس پتا ہے …میرے پاس تو یہ بسکٹ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ Expire Date ہونے سے پہلے پرانے والے کھا لیتا ہوں اور نئے لے آتا ہوں۔ ‘‘
’’تمہیں اتنا یقین تھا میرے آنے کا؟ ‘‘نوشی کے نینوں نے پوچھا۔
’’ہاں بالکل۔ ‘‘ بلال کی آنکھوں  نے جواب دیا۔
’’اور کیا جانتے ہو میرے بارے میں؟ ‘‘
’’آپ سے زیادہ …بہت زیادہ …سب سے زیادہ …‘‘ فجر کی اذان کی صدا گونجی۔ دونوں طرف کے نینوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ بلال کی کافی ٹیبل پر پڑی پڑی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ نوشی کا مگ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس نے ٹھنڈی کافی کا سپ لگایا اور بسکٹ کا آدھا پیس منہ میں ڈالا اور وہاں سے چلی گئی۔ تہجد کے بعد فجر کی نماز تک قرآن مجید پڑھتا۔ فجر کی نماز کے بعد وہ جاگنگ کے لیے چلا جاتا ۔

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles