Home تعلیم و تربیت بچے Special kids| آنکھوں کا تارا

Special kids| آنکھوں کا تارا

0
1307

سب کو آتا نہیں دنیا کو سجا کر جینا۔۔۔
زندگی کیا ہے،محبت کی زباں سے سُنیے

عافیہ مقبول جہانگیر

special kids
#shanurdu

ساتھ والے گھر سے پھر جھگڑے اور بحث کی آوازیں آ رہی تھیں اور میرا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔ اُن آوازوں سے نہیں بلکہ موضوع بحث کی وجہ سے۔ آج بھی حسبِ معمول میاں بیوی کا موضوع سخن وہ ننھا آٹھ سالہ ولید تھا جو کبھی اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا ہوا کرتا تھا۔

پانچ سال تک وہ گھر بھر کا لاڈلا رہا مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت آشکارا ہوتی گئی کہ وہ ٹھیک سے بول نہیں پاتا۔ اُسے الفاظ کی ادائیگی میں دقت کا سامنا تھا اور نہ ہی اس کا ذہن عام بچوں کی طرح نشوونماپا رہا تھا۔ ماں باپ کی اُمیدوں پر اوس پڑ گئی اور آہستہ آہستہ وہ اُن تمام ناز نخروں سے محروم کر دیا گیا جن پہ اُس کا حق تھا۔

اب وہ کسی ان چاہی چیز کی طرح گھر کے ایک کونے میں گند سے سنا ہوا پڑا رہتا۔ وہ اپنے ماں باپ کی منت مرادوں سے مانگی دعا کا وہ ثمر تھا جو اُنہیں اِس روپ میں قبول ہی نہ تھا۔ گویا اُنہیں بس کھیلنے کے لیے ایک کھلونا چاہیے تھا اور جب وہ مطلب کا نہ ملا تو کسی کونے میں ڈال دیا۔

اُنھوں نے ایک ایسے بچے کی دعا کی تھی جو قابلیت و ذہانت کے جھنڈے گاڑ کر اُن کاسر غرور سے خاندان میں اُونچا کر سکتا ہو مگر اللہ کو اُن کی آزمائش مقصود تھی۔ لیکن صد افسوس وہ والدین اُس آزمائش پر پورے نہیں اُتر سکے اور بہت جلد ولید سے بیزار ہوتے گئے۔ انھیں وہ ایک اضافی بوجھ لگا کرتا جسے وہ ایک دوسرے کے کندھوں پر لاد دینا چاہتے تھے۔ اب اُن کی تمام تر توجہ کا محور ان کی دوسری اولاد تھی۔ وہ اپنے پہلے لاڈلے کو فراموش کر بیٹھے تھے۔

اولاد کی چاہت انسان کی فطری خواہش ہے لیکن قرآن مجید نے سورۃ الانفال آیت نمبر ۲۷میں مال کے ساتھ ساتھ اولاد کو بھی فتنہ قرار دیا ہے۔ یعنی یہ انسان کے لیے آزمائش اوراس کی محبت کا امتحان ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شعور اور اپنی ضروریات کی تکمیل میں وہ شاید تمام جانداروں سے زیادہ محتاج اورکمزور ہوتا ہے۔ ہرروز اس کے وجود میں نشوونما کا عمل جاری رہتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی کے در وا ہوتے جاتے ہیں۔لیکن کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو شعور کی منزل تک پہنچ ہی نہیں پاتے اور ان کی ذہنی نشوونما کا عمل کچھ خاص عوامل کی وجہ سے ایک جگہ ٹھہر سا جاتا ہے، یا بہت سستی سے پروان چڑھتا ہے اور ہمارا ظالم معاشرہ بہت بے دردی سے انہیں عام صحت مند انسانوں یا بچوں کی فہرست سے منہا کر کے ’’ذہنی معذور ‘(retarded child) کا نام دے دیتا ہے۔ یعنی ایسے بچے جو عام صحت مند بچوں کی نسبت کم شعور رکھتے ہوں اور اپنے روزمرہ کے کام کرنے کی صلاحیت دوسروں کی نسبت سُست یا کم ہو۔

ذہنی یا جسمانی معذوری کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ موروثی، جنیاتی یا پھر پیدائش کے بعد مناسب دیکھ بھال نہ ہونا، وقت پہ ویکسینیشن نہ کروانا، کوئی حادثہ جس میں دماغ کو نقصان پہنچا ہو یا جسمانی چوٹ اور اس کے علاوہ کوئی ذہنی صدمہ بھی اس کی  وجہ ہو سکتا ہے۔

یہاں مجھے وہ ماں بھی یاد آ رہی ہے جس نے اپنی بچی کی خاطر دنیا تیاگ دی تھی۔ نیلم سے میں تب ہسپتال میں ملی جب میں سائنا سائٹس کے علاج کے لیے وہاں داخل تھی۔ سترہ اٹھارہ سال کی ایک پیاری لڑکی بولنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت کھو چکی تھی۔ وہ پیدائشی طور پر ایسی نہیں تھی بلکہ اُس کی یہ حالت اس صدمے کی وجہ سے ہوئی جو اُسے سولہ سال کی عمر میں مِلا اور جسے وہ برداشت  نہ کرپائی۔گھر والوں کی لاڈلی نیلم کی منگنی اپنے ماموں زاد سے طے تھی۔ لیکن اچانک گردن توڑ بخار نے اُسے آ لیا۔ جب بیماری لمبی ہوتی گئی تو اس کے منگیتر نے بجائے حوصلہ اور ساتھ دینے کے، یہ رشتہ ہی ختم کر دیا۔

نیلم کی اس رشتے سے جذباتی وابستگی ہو چکی تھی۔ اس کا ذہنیہ حقیقت قبول نہ کر پایا۔ منگنی کا ختم ہو جانا اس کے معصوم جذبات پر آخری کاری وار ثابت ہوا اور وہ بولنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھی۔ اس کے دماغ اور جسم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا اور ایک شام وہ میری آنکھوں کے سامنے ہمیشہ کی نیند سو گئی۔ اُس خاتون نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ جب تک سب ٹھیک تھا ،تب تک سب اپنے تھے۔ لیکن جب سے بچی کی یہ حالت ہوئی اور وہ چلتی پھرتی گڑیا سے جیتی جاگتی لاش بنی ہے، سب اُس سے بیزار اور لاتعلق ہو چکے۔

سب کو یہی خوف لاحق ہے کہ کہیں اُنہیں مالی مدد نہ کرنی پڑ جائے۔ نیلم کے دوسری بہن بھائی جو شادی شدہ تھے اُس سے  نہیں ملتے تھے کہ کہیں معذور بہن کو سنبھالنا نہ پڑ جائے۔ کاش اُس کی جذباتی ٹوٹ پھوٹ اور بیماری کے وقت اپنوں نے اسے بھرپور محبت اور توجہ دی ہوتی تو شاید اس کی بیماری اتنا طول نہ پکڑتی ، اور وہ ٹھیک ہو جاتی۔

 اگر اس بچی کو اپنوں کی محبت اور ساتھ ملتا تو وہ بھی منیبہ مزاری کی طرح زندگی کے مصائب اور حالات کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے، آج کسی مقام پر ہوتی۔ منیبہ مزاری نام ہے عزم و ہمت اور حوصلے کا۔ اُس نے ایک ٹریفک حادثے میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوا دیں اور اُس کی ریڑھ کی ہڈی بھی بُری طرح متاثر ہوئی لیکن اُس با عزم خاتون  نے اپنے آپ کو صرف وہیل چیئر کے ہی حوالے نہیں کیا بلکہ لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنے کا فیصلہ کیا کہ معذوری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قابلِ رحم ہیں۔ پھر انہوں نے مصوری کا آغاز کیا اور آج وہ نہ صرف ایک کامیاب مصورہ بلکہ ایک گلوکارہ، مقررہ اور ایک معروف سماجی کارکن کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ وہ پہلی پاکستانی ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے خیر سگالی کی سفیر مقرر کیا۔ وہ ذہنی معذور نہ سہی لیکن بہرحال معذور تو ہیں۔

پولیو کی شکار شازیہ کی یوں تو عمر بیس سال تھی لیکن اُس کا ذہنی ارتقاء آٹھ سال پہ رُکا ہوا تھا۔ پانچ سال کی عمر میں اُس پر پولیو  نے حملہ کیا اور یوں اُس کی زندگی وہیل چیئر کے سہارے گزرنے لگی۔ وہ نہ تو چل سکتی تھی نہ ہی ہاتھوں کو ٹھیک سے استعمال میں لا سکتی تھی۔ اُس کے باقی بہن بھائی کبھی اُس سے جذباتی طور پر وابستہ نہیں ہو سکے کیونکہ اُس کی ماں اپنے باقی ــــ’’صحت مند‘‘ بچوں کو زیادہ وقت دیا کرتی تھی۔وہ جانتی تھی کہ اُس کے مستقبل اور بڑھاپے کا سہارا وہ ڈوبٹے ہیں جو ذہنی و جسمانی طور پر صحتمند ہیں، جبکہ شازیہ سِوائے ایک بوجھ اور اضافی ذمہ داری کے، اور کچھ نہیں۔

اسی سوچ نے ایک ’ماں‘ کو خود غرض بنا دیا اور وہ شازیہ کے ساتھ انصاف نہ کرپائی۔ اُسے صبح رفع حاجت اور ناشتے  وغیرہ سے فراغت کے بعد گھر کے علیحدہ اور کم استعمال ہونے والے کونے میں بٹھا دیا جاتا۔ اُس کے ہاتھوں میں اتنی صلاحیت تھی نہ سکت کہ وہ اپنی وہیل چیئر کو خود چلا کر کہیں آ جا سکے۔ یوں وہ لڑکی پولیو کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے رُخی و تنہائی کا بھی شکار ہوئی۔اس پہ طرّہ یہ کہ ماں اپنے سسرال کے ناپسندیدہ رشتہ داروں کی تمام برائیاں اور ہر ایک کی غیبت کا ’’فرض‘‘ اُس معصوم کے سامنے کھلم کھلا ادا کیا کرتی۔ شاید اُسے اطمینان تھا کہ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ بھی پڑھیے

https://shanurdu.com/world-health-organization/

وہ نہیں جانتی تھی کہ وہی سب باتیں اُس کے ذہن کو پراگندہ کر رہی ہیں ، اُلجھا رہی ہیں۔ وہ بچی دوہرے ذہن کا شکار ہوتی گئی۔ ایک طرف وہ ماں کو ہر ایک کی بُرائی کرتے دیکھتی اور دوسری طرف جب کوئی رشتہ دار آتا تو ماں کا ایک الگ ہی روپ دیکھنے کو ملتا اور وہ بچی چونکہ منافقت نہیں جانتی تھی لہٰذا اپنی ماں کے کہے الفاظ، مہمانوں کے سامنے من وعن دہرا دیتی۔ جس پر ماں خجل ہو کر اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے آئیں بائیں شائیں کرتی ، اُسے ڈانٹتی اور بعض اوقات ہاتھ اُٹھانے سے بھی گریز نہ کرتی۔

 کیوںایسے بچوں کو معاشرے کے دوسرے عام بچوں سے الگ رکھ کر ان کے ساتھ گھریلو اور معاشرتی سطح پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے؟ زندگی کے ہر مقام پر انہیں کم تر اور بے کارسمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایسے بچے حقیقتاً زیادہ توجہ اورمحبت کے حقدار ہوتے ہیں۔ آپ ان سے خواہ کیسا ہی رویہ کیوں نہ اختیار کریں، یہ آپ کو کبھی بھی دُکھی نہیں کریں گے، نہ ہی دل توڑیں گے بلکہ ہمیشہ آپ کو ہنستے مسکراتے اور گرم جوشی سے ہی ملیں گے، کیونکہ۔۔!!

یہ پتھر دل نہیں ہوتے یا یوں کہہ لیں کہ ایسے بچے(manipulative) یعنی اتنے حسابی کتابی نہیں ہوتے کہ کسی کو تکلیف پہنچانے یا دل دکھانے کی منصوبہ بندی کر سکیں یا بدلے کے جذبات رکھتے ہوں ۔یہ ننھے،انوکھے معصوم پھول تو صرف محبت کرنا اور محبت پانا جانتے ہیں۔ ان کو باقی دوسرے نارمل بچوں سے الگ رکھنا یا سمجھنا بالکل غلط رویہ ہے۔ان کو وہ تمام سہولیات دینا جن میں توجہ، وقت ،محبت اور خلوص شامل ہیں ،ان کا بنیادی حق ہے۔

لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان بچوں کے ساتھ گھر کے باقی افراد کی طرح سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان کو سب کے ساتھ مل کر بیٹھنے، بات کرنے یا اپنا آپ ثابت کرنے کے مواقع سِرے سے دیے ہی نہیں جاتے۔ اور میں نے اس سلوک کی شروعات اکثر کچھ ایسے والدین ہی کی طرف سے ہوتے دیکھی، جنہوں نے نہ صرف انہیں بوجھ سمجھا بلکہ اپنی باقی ’’نارمل‘‘ اولادوں کو بھی اُن سے الگ رہنے کی ترغیب دی۔

شاید ان کے نزدیک گھر میں ایسے بچے کی موجودگی معاشرے میں شرم کا باعث ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی اس آزمائش پر پُورا اترنے کی بجائے، اسے ایک بوجھ اور اپنے لیے کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں ، سر پر سوار کیے جانے والے عذاب کے سِوا اور کچھ نہیں سمجھتے۔بعض والدین کو میں نے باقاعدہ بچے کو براہِ راست کوستے ہوئے بھی دیکھا کہ ــ اللہ جانے ہم سے کون سا گناہ ہو گیا جو تم ہمارے گھر پیدا ہو گئے‘‘۔

ذرا سوچئیے! ایسے میں اُس معصوم، بے ضرر، خاموش بچے کے نازک سے دل واحساسات پر کیا گزرتی ہو گی؟ کیا وہ اپنی مرضی اور خوشی سے ایسا بن کر اس دنیا میں آیا؟ ہاں!یہ شاید ممکن ہو کہ اس کی اس حالت کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہو سکتا ہے آپ ہوں، ہو سکتا ہے وہ نہیں آپ اس کے گناہ گار ہوں۔ ہمارے پڑوس میں ایک خاتون رہائش پذیر تھیں۔ پولیو کی ٹیم نے ان کے دروازے پر دستک دی اور درخواست کی کہ اپنے دو سالہ بچے کو باہر لائیں تاکہ اُسے قطرے پلائے جا سکیں۔

اس خاتون نے وہ ہنگامہ بپا کیا کہ اللہ کی پناہ۔ اس کا موقف تھا کہ وہ ہرگز ایسے قطرے اپنے بچے کو نہیں پلوائے گی کیونکہ ان قطروں کو پینے سے بچے کا پیٹ خراب ہو جاتا ہے۔ ٹیم نے اس خاتون کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں ،بچہ معذور ہو سکتا ہے۔ مگر خاتون کا کہنا تھا کہ میرا بچہ ہے جو مرضی ہو میں ذمہ دار ہوں آپ لوگ مجھے مجبور نہیں کر سکتے ۔ یہ کہہ کر خاتون نے دروازہ کھٹاک سے بند کر دیا۔

ان کی تربیت و پرورش پر تھوڑی سی محنت اور محبت انہیں معاشرے کا ایک بہترین اور کارآمد فرد بنا سکتی ہے۔ایسے بہت سے ہُنر اور تعلیمی سرگرمیاں موجود ہیں، جن کی مدد سے یہ بچے ذہنی یا جسمانی کمی کے باوجود ایک اچھی، کامیاب اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ نیزبہت سی ایسی دلچسپیاں اورعادات ہیں جو ان بچوں کو سکھائی جا سکتی ہیں۔

چھوٹے چھوٹے جملے سکھائیں:

آپ  نے غور کیا ہو گا کہ جو بچے زیادہ تیزی سے بول نہیں سکتے یا چل پھر نہیں سکتے، ایسے بچوں میں ایک خداداد صلاحیت ذہانت ہوتی ہے۔ اللہ ایک کمی کو ہمیشہ کسی ایک خوبی سے پُورا کرتا ہے۔ ایسے ذہین بچوں کو آپ چھوٹی چھوٹی سورتیں، یا آیتیں سکھا سکتے ہیں۔ آپ خود اُٹھتے بیٹھتے بچے کے سامنے الحمداللہ، سبحان اللہ، بسم اللہ ،اللہُ اکبر جیسے کلمات دہرائیں گے تو بچہ اُوٹ پٹانگ باتیں نہیں سیکھے گا۔

بچے کو سب کے ساتھ بٹھائیں:

صبح سویرے بچے کو نہلا دھُلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنائیں اور سب کے ساتھ بٹھائیں۔ اس طرح بچہ خود کو گھر کا جزو اہم سمجھے گا اور یوں اس کی شخصیت بکھرے گی نہیں۔ کیونکہ اپنوں کا نہ ہونا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا ان کا ہو کے بھی نہ ہونا۔

باقی بچوں کو اس کے ساتھ گھل مل کر رہنا سکھائیں:

گھر کے دوسرے نارمل بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ بھی اس گھر کا اور اپنے بہن بھائیوں کا اٹوٹ حصہ ہے اور سب کی ذمہ داری ہے۔ ایک وقت مخصوص کریں جس میں تمام بچے ایک ساتھ مل بیٹھیں اور کھائیں پیئیں۔کسی ایک بڑے اور سمجھدار بچے کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ اس بچے کو ساتھ کھلانا پلانا اپنا فرض سمجھے۔ یاد رہے جب تک آپ اپنے اُس انوکھے لاڈلے کو اہمیت نہیں دیں گے اور دوسروں کو احساس نہیں دلائیں گے تب تک کوئی خود سے احساس نہیں کرے گا۔

کتابی رحجان پیدا کریں:

اُسے کتابوں سے محبت کرنا سکھائیں اور کوشش کریں کہ وہ اپنا وقت کتابوں کے ساتھ گزارے نا کہ بیکار بیٹھ کر اداسی کا شکار ہو۔ آپ خود بھی کچھ وقت نکال کر اس کے ساتھ بات کریں۔ اگر وہ زیادہ بول نہیں سکتا تو بھی آپ اس سے گفتگو کرنا کم نہ کریں۔

اُس سے ملنے والوں پر نظر رکھیں:

اس کا صاف مطلب بس یہ ہے کہ آپ مکمل دھیان رکھیں کہ آپ کا لاڈلا کسی کے بُرے رویے کا شکار تو نہیں؟کہیں گھر آنے والے مہمان ہمدردی یا محبت جتانے کی آڑ میں اس کا دل تو نہیں دُکھا رہے۔ کہیں اُسے ترحم بھری نظروں سے چھلنی تو نہیں کیا جا رہا؟ اگر ایسا ہے تو آپ ایسے لوگوں سے اسے دُور رکھیں اور صرف اُن لوگوں سے ملنے دیں جو واقعی اُس سے محبت کرتے ہوں اور جن کے ساتھ بچہ خوش رہتا ہو۔

اُسے اپنے کام خود کرنے دیں:

ایسے کاموں کو ذہن میں رکھیں جو وہ خود کر سکتا ہو، اور پھر اُس کے سامنے یوں ظاہر کریں کہ جیسے آپ وہ کام نہیں کر پا رہے اور آپ کو اس کی مدد چاہیے۔ آپ یقین کریں کہ اس ذرا سی بات پہ اسے اپنی بے حد اہمیت محسوس ہو گی اور اس میں خود اعتمادی آئے گی۔

عزتِ نفس کا خیال رکھیں:

اکثر ایسے بچوں کے بہن بھائی عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود اُس سے تُو تکار کرتے ،نام لیتے یا بدتمیزی سے مخاطب کرتے ہیں۔ دوسرے بچوں کو سختی سے عادت ڈالیں کہ وہ اُس سے تمیز اور ادب سے بات کریں اور ’آپ ‘کہہ کر مخاطب ہوں تاکہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔

 ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے سے آپ اُسے معاشرے میں وہ مقام دے سکتے ہیں جن کے وہ حقدار ہیں۔ اُس کو بار بار احساس نہ دلائیں کہ وہ آپ سب کا محتاج ہے بلکہ اُسے محبت کے ساتھ ساتھ اہمیت بھی دیں کہ نجانے کب وہ ’’انوکھا‘‘ لاڈلا آپ سے ہمیشہ کے لیے خفا ہو کر آنکھیں موند لے ۔تب آپ شاید خود کو معاف نہ کر پائیں۔

NO COMMENTS