صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
شدتِ آرزو
05/07/2013
کالم لکھنے بیٹھا تو بجلی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔
مسلسل دو گھنٹے چلتے رہنے کے بعد یو پی ایس بھی جواب دے چکا تھا۔
ہم نے تو چند روز قبل ہی یہ مژدہ سنا تھا کہ حکومت نے آئی پی پی ایز کو سرکلر ڈیٹ کا نصف حصہ ادا کر دیا ہے
اور لوڈ شیڈنگ میں تین چار گھنٹوں کی کمی آ جائے گی ٗ مگر حقیقت یہ ہے کہ
روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی طرح عام آدمی کی گرمی سے بلبلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔
اِس کے علاوہ جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بل جب اگلے ماہ آئیں گے ٗ تو عید کی ’’سہمی ہوئی‘‘ خوشیاں خاکستر کر ڈالیں گے۔
میں نے سانس لینے میں کچھ دشواری محسوس کی تو کھڑکی سے باہر دیکھا ٗ ایک پتا بھی نہیں ہل رہا تھا
شاید اِسی کو موسمِ حبس کہتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ابھی نئی حکومتیں جنہیں اقتدار میں آئے
ایک ماہ بھی نہیں ہوا ٗ اﷲ تعالیٰ اُنہیں سیاسی حبس کے موسم سے محفوظ رکھے۔
سندھ اور پنجاب کے سوا مرکز ٗ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں نئی حکومتیں آئی ہیں
جو تبدیلی کی زبردست خواہش سے مخمور ہیں ٗ مگر اُنہیں ورثے میں ذمے داریوں اور چیلنجوں کا
ایک آتش کدہ ملا ہے جس کے شعلے لحظہ بہ لحظہ بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ کرپشن کے شعلے
دہشت گردی کے شعلے ٗ بدانتظامی اور بدامنی کے شعلے اور چھپی ہوئی خواہشات کے شعلے۔
اِن بھڑکتے اور دہکتے شعلوں پر قابو پانے کے لیے تازہ دم حکمران غیر معمولی اقدامات کرتے اور
نت نئے تجربات آزماتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ فوری طور پر بڑے بڑے نتائج حاصل کرنے کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔
اِس کڑے وقت میں اُنہیں سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ اُن کی سیاسی ٹیم زیادہ تر
نیم تجربے کار یا اگلے وقتوں کے افراد پر مشتمل ہے جواپنی پسند اور ناپسند کے قیدی ہیں۔
اُنہیں جناب ذوالفقار چیمہ جیسے اولوالعزم ٗ دیانت دار اور نہایت قابل افسروں کی قدر کرنی چاہیے
جنہوں نے دو ماہ کی قلیل مدت میں ادارے کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے۔
اندھیروں کو چیر کر اُجالوں کے نگر آباد کرنا یقینا آج کی اہم ترین ضرورت ہے ٗ
مگر اِس مقصد میں کامیابی کی کلید غیر ضروری اُچھل کود اور غیر فطری اقدامات کے بجائے
اعتدال اور توازن کی راہ اختیار کرنے میں ہے۔ ہمارے بیشتر سیاست دان انتخابی فتوحات سے سرفراز ہوتے ہی
آپے سے باہر ہونے لگتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات اِس اعتبار سے بڑے منفرد ثابت ہوئے کہ
اِن میں بلوچستان کی قومیت پرست جماعتوں نے قومی دھارے میں آنے کی انتہائی سنجیدہ کوشش کی
اور پورے ملک میں ووٹر بہت بڑی تعداد میں والہانہ طور پر باہر نکلے تھے۔
اِن عام انتخابات میںجہاں مسلم لیگ نون ایک وفاقی جماعت کے طور پر اُبھری ہے اور اُسے
سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں ٗ وہاں جناب عمران خاں کی قیادت میں تحریکِ انصاف نے حیرت انگیز
کامیابیاں حاصل کیں اور اُسے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے
جہاں وہ اپنے انقلابی منشور کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ اِن واقعات کے پہلو میں ایم کیو ایم
کے قائد الطاف بھائی نے خبردار کیا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے جبکہ
اپنے بیان کے مطابق وہ خود برطانوی قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں ٗ مگر وہ مسٹر بھٹو
مرحوم کی طرح مقدمہ سنجیدگی سے لڑنے کے بجائے ایک سیاسی طوفان اُٹھانا چاہتے ہیں۔
ہمارے حکمران خونخوار حالات کی پشت پر سوار ہونے کے باوجود چشمِ زدن میں زیادہ سے زیادہ
معاشی ٗ انتظامی اور سیاسی فتوحات حاصل کر لینا چاہتے ہیں ٗ حالانکہ اُنہیں تدبر ٗ تحمل اور
اعتدال کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھنا اور اہم عناصر کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ حکومتی اخراجات
کم کرنے کا جذبہ نہایت قابلِ قدر بھی ہے اور ہماری معاشی ضرورت بھی۔
اِسی طرح انتظامیہ میں اقربا پروری ٗ بدعنوانی اور ہمہ گیر کرپشن کا خاتمہ پاکستان کا امیج
بہتر بنانے کے لیے اب ناگزیر ہو چکا ہے ٗ مگر اِن بڑے اہداف تک پہنچنے کے لیے قانون کے معروف
طریقے اختیار کرنا اور بنیادی حقائق سامنے رکھنا ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ
آج ہمیں قومی یک جہتی کا ایک نہایت سنگین مسئلہ درپیش ہے جس پر قابو پانے کے لیے
ہمارا میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پچھلے دنوں لاہور سے بارہ صحافیوں کا ایک وفد بلوچستان گیا
اور جب وہ کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں سے ملا ٗ تو اُسے شدت سے احساس ہوا کہ وہ
قومی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں۔ اُنہیں صوبائی حکومت اہم تقریبات میں مدعو کرتی ہے نہ
اُنہیں پشاور ٗ اسلام آباد ٗ لاہور اور کراچی کے صحافیوں سے ملنے کے مواقع ملتے ہیں۔
پہلے قومی پالیسی کے تحت پی آئی ڈی وقفے وقفے سے پورے ملک سے ایڈیٹروں ٗ کالم نگاروں اور
صحافیوں کو مدعو کرتی رہتی اور یوں اُنہیں علاقائی حالات سے آگاہی اور قومی امور میں
یک سوئی حاصل کرنے کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ بلوچستان کے صحافیوں نے بتایا یہ سلسلہ ایک
مدت سے بند ہو چکا ہے اور وہ تنہائی کا شکارہیں۔ اِسی طرح صدر یا وزیر اعظم بیرونی دورے پر جاتے
تو اُن صحافیوں کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے جو سفر کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔
اِن دوروں سے اُن کے مشاہدے اور ویژن میں اضافہ ہوتا اور اخراجات اِس لیے بہت کم اُٹھتے کہ
خصوصی طیارے میں اُن کے لیے گنجائش موجود ہوتی۔ دورانِ سفر صحافیوں کو وزیر اعظم یا
صدر کے خیالات اور اُن کی ترجیحات کو ٹھیک طور پر سمجھنے اور اُن تک براہِ راست عوامی جذبات
اور مسائل پہنچانے کے اسباب پیدا ہوتے رہتے تھے۔ یوں گہرے تعلقات فروغ پاتے اور تعاون کے دائرے میں
وسعت اور گہرائی آتی رہتی تھی۔نئی پالیسی کے تحت اب صرف بڑے بڑے بزنس ہاؤسز کے نمائندے
ہی وزیر اعظم کے ساتھ بیرونی دورے پر جا سکیں گے جس کے نتیجے میں تعلقات کا دائرہ سکڑتا جائے گا۔
مجھے قوی امید ہے کہ صحافیوں کے دوست اور وزیر اعظم جناب نواز شریف کے حقیقی بہی خواہ
جناب پرویز رشید اِس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایک متوازن پالیسی کی تشکیل میں
حکیمانہ کردار ادا کریں گے۔ اُنہوں نے 12؍اکتوبر کے فوجی انقلاب کے بعد جس استقامت اور پامردی سے مظالم برداشت کیے اور اپنی جماعت سے وفاداری کا عہد جس وقار اور عزیمت سے نبھایا
وہ اُن کے عظمتِ کردار کی ایک روشن دلیل ہے۔ وزیرِ اطلاعات بن جانے کے بعد اُنہوں نے وزراء کالونی
میں منتقل ہو جانے کے بجائے پنجاب ہاؤس میں ایک سادہ سے کمرے پر قناعت کی ہے اور اپنے آپ کو
ہر نوع کے پروٹوکول سے آزاد کر لیا ہے۔ اُن کے پیکرِ خاکی میں رواں انقلابی روح گاہے گاہے
دھیمے اور سچے سُروں میں اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔ میری شدید آرزو ہے کہ وہ حکومت اور
میڈیا کے درمیان رشتے مستحکم کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں ٗ کیونکہ ہونے والی
بنیادی اصلاحات کی مؤثر درآمد کے لیے میڈیا کا تعاون غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
اِسی طرح وہ پی ٹی وی کو جونکوں سے نجات دلا کر اِسے ایک معتبر اور حقیقی معنوں میں
غیر جانب دار ادارہ بنانے کے لیے ضرور انقلابی قدم اُٹھائیں۔ اب تو اُن کی نگہداشت میں متعدد علمی
ادبی ٗ تحقیقی اور قومی ادارے بھی آ گئے ہیں جن کی صحت مند خطوط پر ارتقاء کا اہتمام کرنا
اور اہلِ قلم اور اہلِ دانش سے قوت حاصل کرنا ہو گی۔یہ وقت باہمی رابطوں میں زیادہ سے زیادہ
وسعت پیدا کرنے کا ہے اور اِس عظیم کام کے لیے چند کروڑمختص کر دینے سے نہایت اچھے اثرات برآمد ہوں گے۔