30 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

sheher-do-qissa| شہر دو قصہ

کھنڈر میں چراغاں

کم و بیش پینتالیس برس کا ساتھ تھا۔ نصف صدی ہی کہیے۔ بیوی کے انتقال کے بعد بشارت بہت دن کھوئے کھوئے سے، گُم صُم رہے۔ جیسے انہوں نے کچھ گم نہ کیا ہو، خود گم ہو گئے ہوں۔

جوان بیٹوں  نے میت لحد میں اتاری، اس وقت بھی وہ صبر و ضبط کی تصویر بنے، تازہ کھدی ہوئی مٹی کے ڈھیر پر خاموش کھڑے دیکھا کیے۔ ابھی ان کے بٹوے میں مرحومہ کے ہاتھ کی رکھی ہوئے الائچیاں باقی تھیں،اور ڈیپ فریزر میں اس کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کی تہیں لگی تھیں۔

کروشیے کی جو ٹوپی وہ اس وقت پہنے ہوئے تھے وہ اس جنتی بی بی نے چاند رات کو دو بجے مکمل کی تھی تا کہ وہ صبح اسے پہن کر عید کی نماز پڑھ سکیں۔

سب مٹھی بھر بھر کے مٹی ڈال چکے اور قبر گلاب کے پھولوں سے ڈھک گئی تو انھوں نے مرحومہ کے ہاتھ کے لگائے ہوئے موتیا کی چند کلیاں جن کے کھلنے میں ابھی ایک پہر باقی تھا، کُرتے کی جیب سے نکال کر انگارہ پھولوں پر بکھیر دیں۔ پھر خالی خالی نظروں سے اپنا مٹی میں سنا ہوا ہاتھ دیکھنے لگے۔

اچانک ایک ایسا سانحہ ہو جائے تو کچھ عرصے تک تو یقین ہی نہیں آتا کہ زندگی بھر کا ساتھی یوں آناً فاناً بچھڑ سکتا ہے۔

نہیں۔ اگر وہ سب کچھ خواب تھا تو پھر یہ بھی خواب ہی ہو گا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی یہیں کسی دروازے سے مسکراتی ہوئی آ نکلے گی۔ رات کے سناٹے میں کبھی کبھی تو قدموں کی مانوس آہٹ اور چوڑیوں کی کھنک تک صاف سنائی دیتی۔ اور وہ چونک پڑتے کہ کہیں آنکھ تو نہیں جھپک گئی تھی۔ کسی نے ان کی آنکھیں نم نہیں دیکھیں۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے ان کے صبر و استقامت کی داد دی۔ پھر اچانک ایک واشگاف لمحہ آیا کہ یکلخت یقین آ گیا۔  پھر سارے پندار پشتے اور سارے آنسو بند اور تمام صبر فصیلیں ایک ساتھ ڈھے گئیں۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔

لیکن ہر رنج رفتنی ہے اور ہر عیش گزشتنی۔ جیسے اور دن گزر جاتے ہیں یہ دن بھی گزر گئے۔ قدرت نے بقول لاروش فو کو کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا۔

رفتہ رفتہ صدمے کی جگہ رنج اور رنج کی جگہ اداس تنہائی نے لے لی۔ میں جب میامی سے کراچی پہنچا تو وہ اسی دور سے گزر رہے تھے۔ بے حد اداس۔ بے حد تنہا۔ بظاہر وہ اتنے تنہا نہیں تھے جتنا محسوس کرتے تھے، مگر آدمی اتنا ہی تنہا ہو تا ہے، جتنا محسوس کرتا ہے۔

تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے، آئینے کو مقابل پاتا ہے۔ اسی لیے وہ تنہائی یعنی اپنی ہی صحبت سے گریز کرتا اور ڈرتا ہے۔ تنہا آدمی کی سوچ اس کی انگلی پکڑ کے کشاں کشاں ہر چھوڑی ہوئی شاہراہ، ایک ایک پگڈنڈی، گلی کوچے اور چوراہے پر لے جاتی ہے۔ جہاں جہاں راستے بدلے تھے اب وہاں کھڑے ہو کر انسان پر منکشف ہوتا ہے کہ درحقیقت راستے نہیں بدلے انسان خود بدل جاتا ہے۔ سڑک کہیں نہیں جاتی۔ وہ تو وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ راہ کبھی گم نہیں ہوتی۔ راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں۔

پیری میں، پرانی ضرب المثل کے مطابق، صد عیب ہوں یا نہ ہوں، ایک عیب ضرور ہے جو سو عیبوں پر بھاری ہے۔ اور وہ ہے ناسٹلجیا۔ بڑھاپے میں آدمی آگے یعنی اپنی منزلِ نا مقصود و نا گزیر کی جانب بڑھنے کے بجائے الٹے پیروں اس طرف جاتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔

پیری میں ماضی اپنی تمام مہلک رعنائیوں کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ بوڑھا اور تنہا آدمی ایک ایسے کھنڈر میں رہتا ہے جہاں بھری دوپہر میں چراغاں ہوتا ہے اور جب روشنیاں بجھا کے سونے کا وقت آتا ہے تو یادوں کے فانوس جگمگ جگمگ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کی روشنی تیز ہوتی ہے، کھنڈر کی دراڑیں، جالے اور ڈھنڈار پن اتنے ہی زیادہ اجاگر ہوتے جاتے ہیں۔

سو ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔

ماضی تمنائی اور برزخِ گم گشتہ

کراچی میں اللہ نے انہیں اتنا دیا کہ خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اپنے مالوف و متروکہ دیار کانپور جانے کی انھیں کبھی خواہش نہیں ہوئی۔ مگر اس سانحے کے بعد یکبارگی ایک ہوک سی اٹھی اور انہیں کانپور کی یاد بے تحاشا ستانے لگی۔ اس سے پہلے ماضی نے ان کے وجود پر یوں پنجے گاڑ کر قبضہ نہیں جمایا تھا۔ حال سے گریزاں، حاضر و موجود سے منحرف، مستقبل سے مستغنیٰ۔ اب وہ صرف ماضی میں جی رہے تھے۔ حال میں کوئی خاص خرابی نہیں تھی۔ بجز اس کے کہ بوڑھے آدمی کے حال کی سب سے بڑی خرابی اس کا ماضی ہوتا ہے جو بھلائے نہیں بھولتا۔

اک عمر سے ہوں لذتِ نسیاں سے بھی محروم

ہر واقعے، بلکہ ساری زندگی کی فلم الٹی چلنے لگی۔ جٹا دھاری برگد کرودھ میں آ کر، پھننگ کے بل اپنی بھجنگ جٹائیں اور پاتال جڑیں آسمان کی طرف کر کے سیس آسن میں الٹا کھڑا ہو گیا۔ پینتیس برس بعد انہوں نے اپنے برذخِ گم گشتہ کانپور جانے کا فیصلہ کیا۔

وہ گلیاں، بازار، محلے، آنگن، چارپائی تلے ادھورے چھڑکاؤ سے رات گئے تک جوان پنڈے کی طرح سلگتی چھتیں۔ وہ دوانی خواہشیں جو رات کو خواب بن بن کے آئیں اور وہ خواب جو دن میں سچ مچ خواہش بن جاتے۔ سب ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔ حد یہ کہ وہ اسکول بھی جنت کا ٹکڑا معلوم ہونے لگا، جس سے بھاگنے میں اتنا مزہ آتا تھا۔

سب مزوں، سب یادوں نے یکبارگی یورش کر دی۔ دوستوں سے چرچرائی چارپائیاں اور ہری بھری نبولیوں سے لدے پھندے نیم کی چھاؤں، آموں کے بور اور مہوے کی مہکار سے بوجھل پروا، املی پر گدرائے ہوئے کتارے اور انہیں للچائی نظروں سے دیکھتی لڑکیاں اور انہیں ویسی ہی نظروں سے دیکھتے ہوئے لڑکے،

ہرنوں سے بھرے جنگل، چھرے سے زخمی ہو کر دو تین سو فٹ کی بلندی سے گد سے گرتی ہوئی مرغابی، خس کی ٹٹیاں، سنگھاڑوں سے پٹے تالاب، گلے سے پھسلتا مخمل فالودہ، مولسری کے گجرے، گرمیوں کی دوپہر میں جامن کے گھنے پتوں میں چھپے ہوئے گرگٹ کی لپلپاتی مہین زبان،

اپنے چوکنے کانوں کو ہوا کے رخ کے ساتھ ٹیون کیے ٹیلے پر تنہا کھڑا ہوا بارہ سنگھا، امڈ گھمڈ جوانی اور پہلے پیار کی گھٹا ٹوپ اداسی، وہ صندل باہیں جو سوتے جاگتے تکیہ تصور تھیں، تازہ کلف لگے دوپٹے کی کراری مہک، دھوم مچاتے دوست۔ ماضی کے کوہِ ندا سے ایسے بلاوے، ایسی صدائیں آنے لگیں کہ

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

وہ اب بچے نہیں رہے تھے، ہمارا مطلب ہے ستر سے متجاوز تھے، لیکن انہیں ایک لحظے کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ تمام رنگین اور رومینٹک چیزیں، جنہیں مرزا عبدالودود بیگ آلاتِ کشاد رزی کی مناسبت سے ” عہد شباب کے آلاتِ خلاف ورزی ” کہتے ہیں۔ جنہیں یاد کر کر کے وہ سو سو decibel کی آہیں بھرنے لگے تھے، پاکستان میں نہ صرف بافراط بلکہ کہیں بہتر کوالٹی کی دستیاب تھیں۔ ہاں صرف ایک شے پاکستان میں مفقود تھی۔ اور وہ تھی ان کی جوانی۔ سو وہ بعد تلاشِ بسیار و بے سود کانپور میں بھی نہ ملی۔

یہ بچے کتنے بوڑھے ہیں، یہ بوڑھے کتنے بچے ہیں

انھوں نے اپنے نارتھ ناظم آباد والے گھر کے سامنے مولسری کا درخت لگانے کو تو لگا لیا، لیکن یادوں کی مولسری کی بھینی بھینی مہک، بچپن اور چھب چھاؤں کچھ اور ہی تھی۔ اب وہ انواع و اقسام کے پھول کہاں کہ ہر پھول سے اپنی ہی خوشبو آئے۔ ان پر بھی وہ مقام آیا جو بڑھاپے کے پہلے شب خون کے بعد ہر شخص پر آتا ہے، جب دفعتاً اس کا جی بچپن کی دنیا کی ایک جھلک۔ آخری جھلک۔ دیکھنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔ لیکن اسے کہ علم نہیں ہوتا کہ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کوئی غیبی ہاتھ چپکے سے سو گنی طاقت کا magnifier (محدب عدسہ) رکھ دیتا ہے۔

دانا کبھی اس شیشے کو ہٹا کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے ہٹتے ہی ہر چیز خود اپنا miniature (تصغیر) معلوم ہونے لگتی ہے۔ کل کے دیو بالکل بالشتیے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر آدمی اپنے بچپن کے locale (جائے ورود و واردات) سے عرصہ دراز تک دور رہا ہے تو اسے ایک نظر آخری بار دیکھنے کے لیے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ لیکن وہ جاتا ہے۔

وہ منظر اسے ایک طلسمی مقناطیس کی مانند کھنچتا ہے اور وہ کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ طفلِ طلسمات پر جہاں دیدہ آنکھ پڑ جائے تو سارے طلسم ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہروپ نگر کی ساری پریاں اُڑ جاتی ہیں اور شیش محل پر کالک پت جاتی ہے۔ اور اس جگہ تو اب مقدس خوشبوؤں کا دھواں ہی دھواں ہے۔ یہاں جو کام دیو کی دہکتی دھنک کمان ہوا کرتی تھی وہ کیا ہوئی؟

یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے ؟

وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی؟

آدمی کو کسی طرح اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ رُوپ سُروپ کیا ہوا؟ وہ چہکار مہکار کہاں گئی؟ نہیں۔ یہ تو وہ اوراق مصور کوچے اور بازار نہیں جہاں ہر چیز اچنبھا لگتی تھی۔ یہ ہر چیز، ہر چہرے کو کیا ہو گیا؟

جس گھڑی یہ طلسم ٹوٹتا ہے، ماضی تمنائی کی خواب سرا ڈھے جاتی ہے۔ پھر اس شخص کا شمار نہ بچوں میں ہوتا ہے، نہ بوڑھوں میں۔ جب یہ مقام آتا ہے تو آنکھیں یکایک ” کلر بلائینڈ ” ہو جاتی ہیں۔ پھر انسان کو سامنے ناچتے مور کے صرف پیر دکھائی دیتے ہیں اور وہ انہیں دیکھ دیکھ کے روتا ہے، ہر سُو بے رنگی اور بے دلی کا راج ہوتا ہے۔

بے حلاوت اس کی دنیا اور مذبذب اس کا دیں

جس شہر میں بھی رہنا، اُکتائے ہوئے رہنا

سو اس طفل بزرگ نے کانپور جا کر بہت گریہ کیا۔ پینتیس برس تک تو اس پر رویا کیے کہ ہائے، ایسی جنت چھوڑ کر کراچی کیوں آ گئے۔ اب اس پر روئے کہ لاحول ولا قوۃ اس سے پہلے ہی چھوڑ کی کیوں نہ آ گئے۔ خواہ مخواہ عمر عزیز کی ایک تہائی صدی غلط بات پر رونے میں گنوا دی۔ رونا ہی ضروری تھا تو اس کے لیے 365 معقول وجوہات موجود تھیں، اس لیے کہ سال میں اتنی ہی مایوسیاں ہوتی ہیں۔ اپنی ” ڈریم لینڈ ” کا چپہ چپہ چھان مارا، لیکن

وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی، وہ رنگ نہ لوٹ کے پھر آیا

پینتیس برس پرانا ناسٹلجیا یکایک ٹوٹا تو ہر جگہ اجاڑ اور ہر شے کھنڈر نظر آئی۔ حد یہ کہ جس مگر مچھ بھرے دریا میں کہ جس کا اور نہ چھور، وہ فلک بوس برگد کی پھننگ سے بے خطر چھلانگ لگا دیا کرتے تھے، اب اسے جا کر پاس سے دیکھا تو ایک مینڈک بھر برساتی نالا نکلا۔ اور وہ جبر جنگ برگد تو نرا بونسائی پیڑ لگ رہا تھا۔

ماضی کے دشتِ بازگشت میں وہ اپنے ہمزاد کا خیمہ زنگار گوں نہ پہچان پائے۔

۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles