سختی سے بہتر نرمی
روزمرّہ زندگی میں مثل روشنی راہِ حق دکھانے والے سدا بہار واقعات
طالب ہاشمی
ایک دفعہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیا۔ عبادؔ نام کے ایک صاحب بھوک سے مجبور ہو کر ایک باغ میں گھُس گئے اور کچھ پھل توڑ کر کھائے اور کچھ اپنے پاس رکھ لیے۔ اتنے میں باغ کا مالک آ گیا۔ اس نے ان کو پکڑ کر مارا اور پھر ان کا کُرتا اتروا لیا۔
عبادؔ شکایت لے کر رسولِ پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باغ کا مالک بھی ان کے ساتھ ہی آیا۔ اس نے آپﷺ کو بتایا کہ عبادؔ نے مجھ سے پوچھے بغیر میرے باغ سے پھل توڑے اس لیے میں نے اس کو یہ سزا دی۔
رسولِ پاکﷺ نے فرمایا:…
’’یہ جاہل تھا۔ تمہیں چاہیے تھا کہ اسے نرمی اور محبت سے سمجھاتے، بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتے۔‘‘
پھر آپﷺ نے عبادؔ کا کُرتا واپس دلوایا اور انھیں بہت سا غلہ اپنے پاس سے دیا۔
مل کر کام کرنا
رسولِ پاک ﷺ نے مکّہ سے ہجرت فرمائی تو پہلے مدینہ منورہ کے قریب ایک بستی قُباء میں چند دن قیام فرمایا اور اسی دوران میں وہاں ایک مسجد بنوائی۔ پھر آپﷺ خاص شہر مدینہ میں تشریف لے گئے تو کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی ایک مسجد بنوائی۔ پہلی مسجد کو ’’مسجدِ قُباء‘‘ اور دوسری کو ’’مسجدِ نبوی‘‘ کہتے ہیں۔ جس وقت یہ مسجدیں بن رہی تھیں تو رسولِ پاکﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ مل کر گارا اور اینٹیں ڈھوتے تھے… وہ بہتیرا عرض کرتے:…
’’اے اللہ کے رسولﷺ! آپ رہنے دیجیے۔ ہم خود یہ کام کر لیں گے۔‘‘
لیکن آپﷺ فرماتے:…
’’نہیں! میں تمہارے ساتھ مل کر اس کام میں پورا حصہ لوں گا۔‘‘
اسی طرح ہجرت کے پانچویں سال خندق کی لڑائی پیش آئی تو آپﷺ صحابہؓ کے ساتھ مل کر خندق کھودتے تھے۔ یہ بڑی لمبی چوڑی خندق تھی اور پتھریلی زمین میں اسے کھودنا بڑا مشکل کام تھا لیکن آپﷺ اور آپﷺ کے پیارے ساتھیوں نے دن رات سخت محنت کر کے چند دن میں یہ خندق تیار کر لی۔ یوں حملہ کرنے والے کافر شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے۔
یہ خندق کھودتے ہوئے آپﷺ کا جسم مبارک گردو غبار سے اَٹ جاتا اور آپﷺ بہت تھک جاتے لیکن اس حال میں بھی آپﷺ کام جاری رکھتے۔ صحابہؓ بار بار عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ یہ کام نہ کریں اور آرام سے بیٹھیں لیکن آپ فرماتے:
’’نہیں، میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا اور تمہارے ساتھ مل کر خندق کھودوں گا۔‘‘
مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے
رسول پاکﷺ بَدر کی لڑائی کے لیے روانہ ہوئے تو مسلمانوں کے پاس سواری کے اونٹ بہت کم تھے۔ ہر تین آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا۔ اس پر وہ تینوں باری باری چڑھتے اُترتے تھے۔ رسولِ پاکﷺ بھی اپنی باری پر اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر اُتر کر پیدل چلنے والوں کے ساتھ شریک ہو جاتے۔ آپﷺ کے پیارے ساتھیوں نے عرض کیا:…
’’اے اللہ کے رسولﷺ آپ اونٹ پر تشریف رکھیں۔ پیدل چلنے کی تکلیف نہ کریں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:…
’’میں تم سے کم پیدل نہیں چل سکتا اور نہ مجھے تم سے کم ثواب کی ضرورت ہے۔‘‘
میں بدلہ نہیں لیا کرتا
ایک دفعہ رسولِ پاکﷺ ایک لشکر کے ہمراہ نجد سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں دوپہر گزارنے کے لیے ایک ایسے مقام پر ڈیرہ لگایا جہاں بہت سے کانٹے دار درخت تھے۔ آپﷺ خود ایک کیکر کے نیچے اُترے۔ لشکر کے لوگ اِدھر اُدھر دوسرے درختوں کے نیچے چلے گئے۔ آپﷺ نے اپنی تلوار اُسی کیکر سے لٹکا دی۔ پھر لشکر کے سب سپاہی سو گئے کہ اچانک آپﷺ نے لشکر کے آدمیوں کو آواز دی۔ وہ اُٹھ کر دوڑے اور آپﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ گاؤں کا ایک آدمی آپﷺ کے پاس کھڑا ہے۔
آپ نے فرمایا:…
’’میں سو رہا تھا کہ اس شخص نے مُجھ پر تلوار کھینچی اور کہا کہ میرے ہاتھ سے تجھےکون بچا سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ۔ اس پر اُس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی اور میں نے اُٹھا لی۔ پھر اس سے کہا کہ اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ تو اس نے معافی مانگی اور کہا کہ مُجھ سے بھُول ہوئی میری جان بخش دیجیے۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔ میں نے اس کو معاف کر دیا ہے۔ جہاں چاہے چلا جائے۔
وہ شخص جب اپنی قوم میں واپس گیا تو کہنے لگا:… ’’میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں، جو سب سے بہتر انسان ہے۔‘‘
مدینہ منورہ کا ایک دولت مند آدمی، عبداللہ بن اُبی ظاہر میں تو مسلمان ہو گیا تھا لیکن دل میں رسولِ پاکﷺ کا سخت دشمن تھا۔ ایک دفعہ ایک سفر میں اس نے آپﷺ کے خلاف بہت بُری باتیں کیں۔ صحابہؓ نے آپﷺ سے درخواست کی کہ اس شخص کو قتل کرا دیں لیکن آپﷺ نے فرمایا، ’’نہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ اپنے کسی ساتھی کو قتل کرواؤں۔‘‘
عبداللہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبداللہؓ تھا۔ وہ بڑے پکے اور سچے مسلمان تھے۔ انھوں نے اپنے والد کو مدینے میں داخل ہونے سے روکنا چاہا تو آپﷺ نے انھیں حُکم دیا کہ اپنے باپ کا راستہ نہ روکو اور اسے شہر میں داخل ہونے دو۔
میں گھر نہیں جاؤں گا
ایک دفعہ فدک کے رئیس نے رسولِ پاکﷺ کی خدمت میں چار اونٹ غلہ سے لدوا کر بھیجے۔ آپﷺ کے حُکم کے مطابق حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے یہ غلہ بازار میں فروخت کر دیا۔ جو قیمت ملی، اس سے ایک یہودی کا قرض ادا کر دیا۔ پھر رسول پاکﷺ کو اطلاع دی کہ کچھ رقم بچ گئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:…
’’جب تک یہ رقم باقی ہے میں گھر نہیں جاؤں گا۔‘‘
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! کوئی مانگنے والا ہی نہیں ہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:…
’’کچھ بھی ہو، جب تک یہ رقم باقی رہے گی، میں گھر نہیں جاؤں گا۔‘‘
چنانچہ آپﷺ نے مسجد میں رات گزاری۔ دوسرے دن حضرت بلالؓ نے اطلاع دی کہ ’’یا رسول اللہﷺ! باقی رقم بھی تقسیم ہو گئی ہے۔‘‘
آپﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر تشریف لے گئے۔
بُرائی کا بدلہ بھلائی
ایک دفعہ ایک بدو رسولِ پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی آپﷺ کی چادر اس زور سے کھینچی کہ اس کا کنارہ آپﷺ کی گردن مبارک میں کھُب گیا جس سے آپﷺ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر وہ بڑی بدتمیزی سے بولا:
’’محمدﷺ! میرے یہ دو اونٹ ہیں۔ ان پر لادنے کے لیے مجھے مال سامان دو۔ تیرے پاس جو مال ہے وہ نہ تیرا نہ تیرے باپ کا۔‘‘
آپﷺ کے پیارے ساتھیوں کو اس کی باتیں بہت بُری معلوم ہوئیں اور انھوں نے ارادہ کیا کہ اس کو سزا دیں مگر آپﷺ نے انھیں روک دیا اور بڑی نرمی کے ساتھ فرمایا:
’’مال تو اللہ کا ہے میں اس کا بندہ ہوں۔‘‘
پھر آپﷺ نے بدو سے پوچھا: ’’تم نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے کیا تم اس پر ڈرتے نہیں ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں۔‘‘
آپﷺ نے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘
وہ بولا: ’’مجھے پورا یقین ہے کہ تم بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے۔‘‘
آپﷺ مسکرانے لگے اور اس کے اونٹوں پر کھجوریں اور جَو لدوا دیے۔
بکری کیسے پکائی گئی
ایک دفعہ رسولِ پاکﷺ اپنے چند پیارے ساتھیوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ آپﷺ نے پڑاؤ ڈالا۔ آپﷺ کے سامنے تجویز پیش کی گئی کہ کھانے کے لیے ایک بکری ذبح کی جائے۔ حضورﷺ نے فرمایا، ٹھیک ہے۔
ایک صحابی نے کہا، ’’میں بکری ذبح کروں گا۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’میں اس کی کھال اُتار دوں گا۔‘‘
تیسرے نے کہا، ’’میں اس کا گوشت بنا دوں گا۔‘‘
چوتھے نے کہا، ’’میں اسے پکاؤں گا۔‘‘
یہ سُن کر رسولِ پاکﷺ نے فرمایا:… ’’میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں چُن کر لاؤں گا۔‘‘
صحابہؓ نے عرض کیا:… ’’یا رسول اللہﷺ یہ کام بھی ہم خود کر لیں گے۔ آپﷺ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’بے شک یہ کام بھی تم خود کر سکتے ہو لیکن مجھےیہ پسند نہیں کہ میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں اور تم سارے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ اسے ناپسند فرماتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھے اور چاہے کہ ساتھی اس کے ساتھ خاص سلوک کریں۔‘‘
(اصلی) صَبر کون سا ہے؟
ایک دفعہ رسولِ پاکﷺ ایک تازہ بنی ہوئی قبر کے پاس سے گزرے۔ یہ کسی بچے کی قبر تھی۔ اس بچے کی ماں قبر کے قریب بیٹھ کر بہت واویلا کر رہی تھی۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا:
’’بی بی! صبر کرو۔‘‘
وہ آپﷺ کو پہچانتی نہیں تھی۔ خفا ہو کو بولی:…
’’جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں کیا معلوم کہ اس وقت مجھ پر کتنی بھاری مصیبت آن پڑی ہے۔ میرا تو غم سے کلیجہ پھٹا جا رہا ہے اور تم مجھے صبر کی تلقین کرتے ہو۔‘‘
آپﷺ نے اسے کچھ جواب نہ دیا اور خاموشی سے آگے بڑھ گئے۔ بعد میں کسی شخص نے اس خاتون کو بتایا کہ بی بی تم کو صبر کی تلقین کرنے والے رسول اللہﷺ تھے۔
یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوئی، رونا دھونا چھوڑ کر دوڑتی ہوئی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کے بعد عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپﷺ کو پہچانتی نہ تھی۔ میری گستاخی معاف فرما دیجیے۔‘‘
آپﷺ نے صرف اتنا فرمایا:
’’بی بی! حقیقی (اصلی) صبر وہی ہوتا ہے جو اُس وقت کیا جائے جب مصیبت بالکل تازہ ہو۔‘‘
محنت کی برکت
ایک دن کا ذکر ہے کہ مدینہ کے رہنے والے ایک شخص رسولِ پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے آپﷺ کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور کچھ مانگا۔
آپﷺ نے ان سے پوچھا: ’’کیا تمہارے پاس گھر میں کچھ نہیں؟‘‘
انھوں نے جواب دیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ ایک بچھونا ہے اور ایک پانی پینے کا پیالہ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔‘‘
اس پر وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر حضورﷺ کے سامنے رکھ دیں۔ آپﷺ نے دونوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہاں پر موجود اپنے پیارے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’ان دونوں چیزوں کو کون خریدے گا۔‘‘
ایک صحابی نے اُٹھ کر کہا، ’’یہ دونوں چیزیں میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔‘‘
اس پر آپﷺ نے دو یا تین بار فرمایا: ’’ایک درہم سے زیادہ کون ان کی قیمت دے گا؟‘‘
تب ایک دوسرے صحابی اُٹھے اور انھوں نے کہا، ’’میں ان کو دو درہم میں خریدنے پر تیار ہوں۔‘‘
آپﷺ نے دونوں چیزیں دو درہم لے کر انھیں دے دیں پھر آپﷺ نے یہ دو درہم مانگنے والے شخص کو دیے اور اُن سے فرمایا کہ ان میں سے ایک درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ انھوں نے ایسا ہی کیا اور حضورﷺ کے پاس کلہاڑی کا پھل خرید کر حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے اس پر اپنے دستِ مبارک سے لکڑی کا دستہ لگایا اور ان سے فرمایا کہ:
’’یہ کلہاڑی اور ایک رسی لے کر جنگل میں نکل جاؤ اور وہاں سے لکڑیاں کا ٹ کر شہر میں بیچا کرو۔ اب پندرہ دن تک ہمیں بالکل نظر نہ آنا۔‘‘
اُن صاحب نے ایسا ہی کیا اور ہر روز لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر شہر لاتے اور فروخت کر دیتے۔ پندرہ دن بعد وہ رسول پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو بتایا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ کام کر کے میں نے دس درہم کما لیے۔ ان میں سے کچھ کے کپڑے بنا لیے اور کچھ سے کھانے کی چیزیں خرید لیں۔
آپﷺ نے اُن سے فرمایا: ’’یہ اچھا ہے یا وہ اچھا تھا کہ قیامت کے دن چہرے پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا داغ لے کر اللہ کے سامنے جاتے۔ تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں سے کچھ مانگے۔ ایک وہ جس کو غریبی نے پیس دیا ہو (اس کے پاس کچھ کھانے کو ہو اور نہ پہننے کے لیے) دوسرا وہ جو قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہوا۔ تیسرا وہ خون کرنے والا جس نے خون بہا (وہ رقم یا مویشی جو قتل ہونے والے کے وارث اس کے خون کے بدلے میں لینا قبول کر یں) ادا کرنا ہو اور جس کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کی جان جاتی ہو۔‘‘
بدنصیب آدمی
ایک دن رسولِ پاکﷺ نے فرمایا:
’’وہ آدمی خوار ہو، ذلیل ہو، رُسوا ہو۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسولﷺ! کون؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا، ’’وہ بدنصیب جس کے بوڑھے ماں باپ، یا دونوں میں سے کوئی ایک ہی زندہ ہو پھر وہ (ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کر کے) جنت حاصل نہ کر لے۔‘‘