16 C
Lahore
Saturday, December 7, 2024

Book Store

خوشبو کا سفر

ارم ناز

سن1528ء

چہار سو خاموشی کا عالم ۔۔۔
محل کے در و دیوار دن بھر کے ہنگاموں کے بعد اب ساکت و جامد ہیں کہ یکایک ایک رعب در آواز محل کے سناٹے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے۔
’’کنیز حاضر ہو‘‘۔۔
اگلے ہی لمحے پردے کی اوٹ سے کنیز نمودار ہوئی اور کورنش بجا لاتے ہوئے بولی۔
’’حکم ظل الہی‘‘!
جہانگیر مخمور آواز میں بولا:
’’آج ہم بہت خوش ہیں، مملکت کے طول و عرض میں عالی شان جشن و دعوت کا اہتمام کیا جائے، وزرا و امرا کو اس دعوت پر مدعو کرو اور
تمام غربا و فقرا میں کھانا تقسیم کرو، کوئی بھی خالی دامن نہ جائے۔

آج ہم اپنی منظورِ نظر نورِ جہاں کو پاکر خود کو آسماں کی بلندیوں پر محسوس کر رہے ہیں۔
اس لیے ہماری شادی کی خوشی میں شادیانے بجائے جائیں، خوشیاں منائی جائیں اور محل کے ذرے ذرے کو آراستہ وپیراستہ کیا جائے‘‘۔
’’حکم کی تعمیل ہو گی عالی جاہ‘‘،کنیز جیسے ہی رخصت ہوئی۔
نور جہاں نے مسکراتے ہوئے جہانگیر کے اس اقدام کو سراہا۔

اگلے دن محل کا کونا کونا نئی نویلی دلہن کی طرح چم چما رہا تھا۔ محل کے اندرونی حصے کو مشعلوں اور قندیلوں سے روشن کیا گیا تھا ۔
بیرونی باغیچے رنگا رنگ پھولوں سے اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے۔
تمام حوض گلاب کی پتیوں سے بھرے ہوئے، باغیچے کے چاروں جانب خوشبو بکھیر رہے تھے۔
کنیزیں اور ہرکارے زرق برق لباس میں ادھر سے ادھر کاموں میں مصروف تھے۔
ہر سو شادیانوں کی آواز سنائی دے رہی تھی اور دعوت کے لیے باورچی طرح طرح کے کھانے پکانے میں مصروف تھے۔
سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوے بکھیر رہا تھا۔
نور جہاں انتظامات اور سجاوٹ دیکھنے کے لیے باغیچے میں ٹہل رہی تھی۔
اچانک اس کی نظر گلاب کی پتیوں سے بھرے حوض پر پڑی۔

سورج کی روشنی نے  پانی کوتمتما دیا تھا۔
گلاب کی پتیوں پر کچھ قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
نور جہاں نے جب چند قطرے ہتھیلی پر ڈالے تو وہ چکنائی جیسے تھے۔

ملکہ کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے حوض میں چکنائی پھینکی ہو ۔
اس نے ہتھیلی پر تیل کے قطرے کو ڈال کر مسلا تو اس میں سے گلاب کی انتہائی تیز خوشبو محسوس ہوئی جو اس نے فوراً کپڑوں پر مل لی۔
اس طرح گلاب کی خوشبو کشید کرنے کا طریقہ عمل ملکہ نور جہاں نے دریافت کیا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ کچھ عرصہ بعد اختلافات کی بنا پر جب نور جہاں کو جلا وطن کیا گیا تو اس نے لاہور میں رہنا پسند کیا کیونکہ وہ باغوں میں گھرا ہوا تھا،
اس طرح وہ خوشبو بنانے کے اپنے اس شوق کی تسکین کرسکتی تھی۔

اللہ تعالیٰ کی خالقیت کا ظہور یوں تو زمین و آسماں کے ذرے ذرے سے ہوتا ہے لیکن دلکش و رنگ برنگے پھول اور پودے اپنے خالق کی خوبصورتی کا مظہر ہیں۔
یہ پھول نہ صرف ماحول کی خوشنمائی و خوبصورتی کا باعث ہیں
بلکہ ان کی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر کے طراوٹ بخشتی ہے۔
اس لیے خوشبو کوئی بھی ہو ہر ذی نفس کو بے حد پسند ہوتی ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارے دین اسلام میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔

مشک ایک خوشبو ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔
ہمارے نبی ﷺ خوشبو کو بہت پسند کرتے تھے،
جب بھی کوئی آپ ﷺ کے پاس خوشبو تحفے کے طور پر بھیجتا تو آپ ﷺ اسے رد نہ کرتے
نیزح ضور ﷺ نے خوشبو کو بہترین تحفے کا درجہ بھی عطا کیا تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے جمعہ اور عیدین کے موقع پر خوشبو لگانے کا حکم دیا اور آپ ﷺ کو عود، کستوری اور ریحان نامی خوشبویات بہت پسند تھیں۔
خوشبو کو صفائی اور پاکیزگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
اس لیے عام طور پر ہمارے ہاں دو طرح کی خوشبوئیں استعمال کی جاتی ہیں، ایک عطر اور دوسرا پرفیوم۔


عطر
لفظ’’ عطار‘‘ یا ’’عطر‘‘ فارسی زبان کے لفظ ’’اتر‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’خوشبو‘‘ ہے۔ عطر دراصل تیل ہوتا ہے
جسے مختلف نباتاتی ذرائع جیسے پھول، پودوں اوردرختوں کی لکڑی یا چھال سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پرفیوم
پرفیوم لاطینی زبان کے لفظ ’’پرفیومیری‘‘ سے اخذ شدہ ہے
جس کا مطلب ’’دھواں‘‘ ہے ۔
پرفیوم خوشبودار تیلوں، خوشبو والے مرکبات، مخلل اور خوشبو کو دیرپا قائم رکھنے والے کیمیکلز کا مجموعہ ہوتا ہے۔

Rectangular glass perfume bottle with dry green and yellow leaves on white background

خوشبو کی تاریخ

خوشبو کا سفر بہت پرانا ہے، خوشبو بنانے کے فن کا ّآغاز ، قدیم میسوپوٹیمیا ، مصر ، وادی سندھ کی تہذیب یا شاید قدیم چین سے ہوا،
بعد میں اسے رومیوں اور عربوں نے مزید نکھار بخشا ۔قدیم تہذیبوں بابل و نینوا، اور یونان کی داستانوں میں بھی خوشبو کا ذکر موجود ہے۔
تاریخ میں دو صدی قبل مسیح سب سے پہلی ریکارڈ شدہ کیمیادان ’ٹپوتی‘ کا ذکر موجود ہے
جو پھولوں،درختوں اور دیگر جڑی بوٹیوں کو کشید کر کے عطر بنایا کرتی تھی۔

تین صدیاں قبل مسیح قدیم وادئ سندھ میں بھی خوشبو بنانے کا فن موجود تھا
نیز چار صدی قبل مسیح مصر میں بھی للی کے پھولوں کو کشید کر کے ان سے خوشبو بنائی جاتی تھی۔
ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی کہ مصر میں سب سے پہلے عطر فرعون کی ایک بیوی عابدہ نے بنائے۔


نویں صدی میں عرب کیمادان الکندی نے ایک کتاب لکھی جس میں پھولوں اور دیگر جڑی بوٹیوں سے عطر بنانے کی سو سے زائد تراکیب موجود تھیں۔
اس کے بعد ایرانی کیمیا دان ابنِ سینا نے پھولوں سے تیل کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا جوا ب بھی رائج ہے۔
یورپ میں خوشبو کا فن 1221 میں پہنچا جب اٹلی کے دو راہبوں نے ملکہ الزبتھ کے کہنے پر ایک پرفیوم تیار کیا جو خوشبودار تیل اور الکحل پر مشتمل تھا۔
یہ پرفیوم ’’ہنگری واٹر‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس کے بعد یہ سلسلہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ دور میں بھی رائج ہے۔


مسلمانوں میں تو خوشبو کو طہارت کے بعد ترو تازگی کو برقرار رکھنے کے لیے لگایا جاتا تھا لیکن سولہویں اور سترویں صدی، یورپ میں پرفیوم کا استعمال اس لیے شروع ہوا کیونکہ وہ طہارت اور صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے۔
سال ہا سال بغیر نہائے گزار دیتے یوں جسمانی بدبو کے باعث انہیں پرفیوم لگانا پڑتا تھا۔

فرانس کی آخری ملکہ’’ میری انٹیونیٹی ‘‘دیکھنے میںانتہائی حسین و جمیل نظر آتی تھی لیکن اس کے جسم سے شدید بدبو آتی تھی اور وجہ تھی کہ وہ مہینوں نہیں نہاتی تھی۔ کپڑے بھی کبھی کبھار بدلتی تھی۔
سال میں ایک بار اگر نہاتی تو اس کا نہانا بھی ایک رسم ہوتا تھا۔  چند دن بعد پھر اس سے بدبو آنا شروع ہو جاتی تھی۔ اس لیے وہ بدبو کم کرنے کے لیے مختلف خوشبوئیں استعمال کرتی تھی۔
اسی طرح اسپین کی ملکہ ازابیل اول کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زندگی میں دو بار نہائی تھی ایک بار جب وہ پیدا ہوئی اور دوسری دفعہ جب اس کی شادی ہوئی۔
ملکہ الزبتھ اول نے زندگی میں شادی نہیں کی اور چند بار ہی نہائی اور اس کا کہنا تھا کہ میں مہینے میں ایک بار بھی تب نہاتی ہوں جب میری مرضی ہو ورنہ نہیں۔
اس لیے ان خوشبوئوں کا شکریہ جنہوں نے ان پریوں جیسی خوبصورت اور نازک اندام نظر آنے والی ملکائوں کے بدبو دار پہلوئوں کو چھپائے رکھا۔


عطر اور پرفیوم کے اجزا
عطر:عطر بنانے میں تو صرف چند اجزا استعمال ہوتے ہیں۔
اول وہ قدرتی چیز جس کا عطر تیار کرنا ہو مثال کے طور پر پھول کی پتیاں، جڑی بوٹیاں
یا پھر خوشبودار درختوں کی لکڑی وغیرہ۔ ان اشیاء کو گرم پانی میں مناسب درجہ حرات کے بعد خوشبودار تیل کی صورت میں کشید کیا جاتا ہے۔
خالص عطر بہت تیز ہوتا ہے اور عام طور پر طبیعت میں بھاری پن پیدا کرتا ہے۔
عطر کے حوالے سے ہندوستان کا شہر قنوّج بہت مشہور ہے
وہاں صدیوں سے عطریات بنانے کا کام ایک صنعت کی صورت میں جاری و ساری ہے۔

ہند کا اصلی عودِہندی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی تعریف شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ نے گلستاں و بوستاں میں بھی کی ہے۔
اس کے علاوہ چنبیلی، گلاب، کستوری، حنا،ریحان، خس، عنبر، مشک اور صندل کے عطر بھی کافی پسند کیے جاتے ہیں۔


پرفیوم: اسے بنانے کے بنیادی تین اجزا ہیں؛
یہ آئل، پانی اور الکحل۔پرفیوم آئل پھولوں، پودوں اور جانوروں وغیرہ سے کشید کیا جاتا ہے۔
الکحل میں، ایتھال الکحل اور خالص صاف پانی اس لیے استعمال ہوتا کیونکہ یہ خوشبو کو پھیلانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
پرفیوم میں پرفیوم آئل کی کم یا زیادہ آمیزش اس کی خوشبو کو دیر تک قائم رکھنے میں اہم ہوتی مزید برآں بلحاظ پرفیوم آئل، اس کی چار اقسام ہیں۔
۱۔ پرفیوم؛اس میں ۱۵ سے ۲۰فیصد پرفیوم آئل ہوتا ہے ،
جس کی وجہ سے اس کی خوشبوجسم پر چھ گھنٹے اور کپڑوں پر چوبیس گھنٹے تک قائم رہتی ہے۔
۲۔Eau de parfum

؛یوں تو ہر پرفیوم میں پانی شامل ہوتا ہے
لیکن اس پرفیوم میں خاص طور پر لفظ  ہے یعنی اس میں پانی کی مقدار زیادہ جس کی وجہ سے اس کی خوشبو زیادہ دیر پا نہیں ہوگی۔
۳۔Eau de toilette

؛اس میں خالص پرفیوم آئل صرف ۵ سے ۱۵ فیصد تک ہوتا نیز اس کی خوشبو صرف دو گھنٹے تک قائم رہتی ہے۔
۴۔Eau de cologne

؛ ایک ہلکی قسم کی خوشبو ہے۔
اس میں۲سے ۴ فیصد پرفیوم آئل کو الکحل اور پانی سے تیار کیا جاتا جس کی خوشبو صرف دو گھنٹے تک برقرار رہتی ہے۔
خوشبو کے ذرائع
خوشبو ، جو عطر اور پرفیوم میں استعمال ہوتی، مختلف ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔
ان میں اتنے اجزا اور اتنی اقسام کے پھول و پودے ہوتے جو کسی ایک ملک میںیکساں طور پر موجود نہیں ہوتے۔

اس لیے بیسیوں اقسام کے پھولوں ، ان کی پتیوں اور دیگر اجزا کو درآمد کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر بہترین قسم کی خوشبو تیار ہوتی ہے۔
ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
۔پودوں سے
خوشبو کی اس صنعت میں پودوں کو متنوع اقسام کے آئلز اور مہک والے مرکبات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے پودے کے مختلف حصوں جیسے، پتے، پھول، پھل، چھال اور لکڑی وغیرہ سے تیل کشید کیا جاتا ہے، جسے پرفیوم اور عطر بنانے میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔
چھال؛ عام طور پر دارچینی، ساسافراس، سافرولی کی چھال کو خوشبو کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔


پھول؛ خوشبو بنانے کے لیے بے شمار پھولوں کی اقسام کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ان میں سے بعض اتنی قیمتی ہیں کہ ان کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی، تب کہیں جا کے مطلوبہ مہک حاصل ہوتی ہے۔
پھولوں میں سرِفہرست گلاب، چنبیلی، لونگ، فرنگی پانی، چھوئی موئی، سٹرس، ونیلا اور نرگس وغیرہ شامل ہیں۔
پھل؛ پھلوں میں سیب، اسٹابری، چیریز، گریپ فروٹ، لیموں اور مالٹے وغیرہ کی خوشبوا ستعمال ہوتی ہے۔
پتے؛ پتوں میں لیوینڈر، نیازبو،سٹرس اور روزمیری کے پتے بہت ہی اچھی خوشبو رکھتے ہیں
نیز بھوسے اور ٹماٹر کے پتوں کا بھی استعمال ہوتا ہے۔
بیج؛ ان میںکوکو، دھنیا، گاجر،سیاہ زیرہ،جائفل، الائچی اور سونف وغیرہ شامل ہیں۔
لکڑی؛ اس میں صندل، صنوبر، عود، اور پائن کی خشک لکڑی شامل ہے۔
۔جانوروں سے
جانوروں کے مختلف اعضا سے بھی خوشبو کشید کی جاتی ہے۔
ان میں سے بعض اتنے قیمتی اور مشقت سے حاصل ہوتے ہیں کہ اس کے لیے جان کی بازی بھی لگانی پڑ جاتی ہے۔
ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
عنبر
عنبر جو پرفیوم اور عطر دونوں میں استعمال ہوتا، شارک مچھلی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جب شارک مچھلی زخمی ہوتی ہے
تو ان زخموں کو بھرنے کے لیے ایک خودکار نظام کے تحت مادہ خارج کرتی جسے عنبر کہتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عنبر سمندر کی تہ میں اگنے والا ایک پودا ہے
جسے مچھلیاں کھا لیتی ہیں اور پھر سمندر کی سطح پر آ کر اگل دیتی ہیں ۔
کاسٹوریم؛ یہ پیلے رنگ کا ایک مادہ ہے جو نر اور مادہ اود بلائو کی تھیلیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
سیوٹ ؛ بھی ایک طرح کی خوشبو ہے جو ٹھوس پیلے یا برائون رنگ کی ہوتی اور نیولوں کی طرح کے جانوروں کی خوشبودار تھیلیوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
امکسٹوریم ؛ یہ خرگوش کی طرح کے ایک جانور کی چربی سے تیار کیا جاتا ہے۔
مشک؛ یہ قیمتی اور اعلی ترین خوشبو ہے جو نر ہرن سے حاصل ہوتی ہے۔
ہرن کی ناف کے قریب ایک تھیلی ہوتی جس میں یہ جمع ہوتا رہتا ہے۔
مشک والے ہرن کی خوشبو دور سے ہی فضا کو معطر کر دیتی ہے۔حضرت علیؓ نے اپنے کلام نہج البلاغہ میں بھی مشک کی تعریف کی ہے۔
پرفیوم کی اقسام
پرفیومز کی خوشبو کے لحاظ سے بھی بہت سی اقسام مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں۔
یہ آٹھ قسمیں درج ذیل ہیں، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ کونسی خوشبو خریدنی ہے۔
۔سٹریس
اس طرح کے پرفیوم مالٹے اور لیموں وغیرہ سے کشید کر کے بنائے جاتے ہیں جو کھٹی اور بھینی سی خوشبو کے حامل ہوتے ہیں۔
یہ خوشبوئیں تازگی اور زندہ دلی کا تاثر قائم کرتی ہیں۔یہ خوشبوئیں دن کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔
۔پھولوں والی
یہ مختلف قسم کے پھولوں کے امتزاج سے بنائی جاتی ہیں۔
ایسی خوشبوئیں میٹھی اور ہلکی سی ہوتی ہیں۔
نوجوان لڑکیوں کے لیے ایسی خوشبوئیں بہت مسحورکن ہوتی ہیں۔ اس لیے آپ بھی جلدی سے اپنے لیے فلورل پرفیومز خرید لیں۔
۔پھلوں والی
یہ پھل دار خوشبوئیں بہت تازگی قائم کرتی ہیں۔ان میں سیب، آڑو، بیری، آم اور دیگر پھلوں کی خوشبو کو ملا کر اور الگ الگ بھی بنایا جاتا ہے۔
۔سبز پتوں والی
یہ سبز خوشبو والے پتوں اور گھاس سے تیار کی جاتی۔
اگر آپ اداس اور پریشان ہوں تو اس کو لگائیں ، یہ سبز رنگ کی طرح آپ کو بھی فوراً تازہ دم کر دیتی ہیں۔
۔سمندری
یہ دورِجدید کی ایجاد کردہ خوشبو ہے۔ اس خوشبو کو بنانے میں بہت سے قدرتی اور مصنوعی مرکبات استعمال کیے جاتے ہیں،
جیسے سمندر کی ہوا کی مہک، پہاڑوں کی خوشبو وغیرہ۔ اس قسم میں پانی کے استعمال اور احساس کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
اگر آپ نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہے تو یہ بہترین چوائس ہے۔
۔اوریئٹل
اس قسم کے پرفیومز جذباتی اور رومانی انداز لیے ہوئے ہوتے ہیں اور زیادہ تر جانوروں سے حاصل کی گئی خوشبو جیسے عنبر اور مشک سے بنائے جاتے ہیں۔
۔اسپائسی
یہ پرفیومز میٹھے اور مسالےدار تاثر لیے ہوتے ہیں۔
اس میں عام طور پر دار چینی، الائچی، ادرک، کالی مرچ اور لونگ وغیرہ کی خوشبو نمایاں ہوتی ہے۔
اگر آپ اپنے بچوں کے استا د کے ساتھ میٹنگ یادفتر کے کسی ساتھی سے ملنے جا رہے تو اسے ضرور لگا کر جائیں۔
۔ووڈی
یہ جنگلاتی درختوں کی چھال اور لکڑی سے بنتی ہے۔
ان میں صندل،صنوبر،عود اور دوسری خوشبودار لکڑیوں کی خوشبو نمایاں ہوتی ہے۔
اصل اور نقل کی پہچان
خوشبو ہر خاص و عام کو پسند ہوتی ہے کیونکہ اس سے انسان کی شخصیت میں نکھار آ کر وہ جاذبِ نظر بن جاتا ہے۔
ہر کوئی آپ سے ملنے اور بات کرنے میںخوشی محسوس کرتا ہے۔
اس لیے نقالوں سے ہوشیار ہو کر ہمیشہ اصلی پرفیوم اور عطر خریدیں۔ خوشبو کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتا آپ درج ذیل باتوں سے لگا سکتے ہیں۔
۱۔پیکنگ
پرفیوم خریدتے وقت اس کی پیکنگ پر دھیان دیں۔ نقلی پرفیوم کی بوتل پر ایک تو الفاظ کے سپیلنگ عموماً غلط لکھے ہوتے نیز اس کا پیکنگ پیپر بھی بہت ٹائٹ نہیں ہو گا
بلکہ کھلا سا ہو گا۔
اصلی پرفیوم کا پیکنگ پیپر سفید رنگ کا ہوتا اور بوتل کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھنے کے لیے اندر گتا بھی لگا ہوتا ہے ۔
۲۔شیشی
اصلی پرفیوم اور عطر کی بوتل بھاری ،انتہائی خوبصورت اور نفاست سے تراشی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کو کاپی کرنا بہت مشکل ہوتا۔
اگر ان کی نقل تیار بھی کی گئی ہو تو وہ بہت بدنما ، ہلکی اور بھدی سی ہو گی، جو اس کے نقلی ہونے کو ظاہر کرے گی۔

اسی طرح اصلی پرفیوم کی اسپرے والی نوزل بھی چھوٹی ہوتی ہے ۔ اس سےا سپرے پھوار کی صورت میں ہوتا
جبکہ نقلی والی بوتل کا نوزل بڑا نیز اسپرے بھی دھار کی طرح ہوتا ہے۔
۳۔رنگ
اصلی عطر اور پرفیوم کا رنگ تیز، چبھتا ہوا نہیں بلکہ مدھم سا ہوتا ہے،
جبکہ نقلی ہمیشہ بھڑکتے ہوئے رنگوں کے ہوتے ہیں۔
۴۔پرفیوم کی خوشبو
کسی بھی پر فیوم کی خوشبو جانچےمیں تقریباً پانچ منٹ لگتے ہیں ۔ ایسا اس لیے ہوتا کیوکہ خوشبو پھیلنے کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ جب آپ اسپرے کرتے توپہلا جھونکا تھوڑا تیز اور چھبتا ہوا محسوس ہوتا پھر بتدریج ہلکا اور مزید ہلکا ہو کر خوشبو کا پتا دیتا ہے۔

جو خوشبو کچھ دیر بعد آئے وہی اس پرفیوم کی پہچان ہوتی ہے،
کیونکہ پر فیوم کو پھیلنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔
نقلی پرفیوم میں خوشبو ایک دم تیز سی آتی اور فوراً ہی ختم ہوجاتی اور ٹھہرتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی ہے۔
۵۔بار کوڈ اور سیریل نمبر
جب بھی پرفیوم خریدیں تو تسلی کر لیں کہ آیا اس پر بار کوڈ اور سیریل نمبر موجود ہے یا نہیں؟ اور اگر موجود ہے تو کیا ڈبے پر موجود سیریل نمبر بوتل پر لکھے گئی نمبر سے مماثلت رکھتا ہے کہ نہیں؟ اصلی پرفیوم پر تحریر شدہ سیریل نمبر بوتل اور ڈبے پر یکساں ہوگا۔
۶۔مارکیٹ قیمت
جس بھی برینڈ کا پرفیوم خریدنے نکلیں،
اس کی قیمت اور دیگر خصوصیات کے بارے میں معلومات کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل کر لیں۔
اگر کوئی بھی برینڈڈ پرفیوم آپ کو انتہائی کم قیمت میں بیچے تو مان لیں کہ وہ نقلی ہی ہو گا۔
ایسے دھوکے عموماً آن لائن خریداری کے وقت دئیے جاتے ہیں۔ اس لیے ہوشیار رہیں۔
خوشبو لگانے کا طریقہ
خوب صورت لباس اور آرائش و زیبائش کی طرح خوشبو لگانے کا بھی ایک خاص طریقہ ہوتا ہے، اگر آپ اس مخصوص انداز میں پرفیوم یا عطر لگائیں گے
تو اس کا اثر دیرپا بھی ہوگا اور دوسروں کو بھی تازگی کا احساس دلائے گا۔
۔دن اور رات کا پرفیوم
سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آپ کس وقت پرفیوم لگا رہے اور کونسا لگا رہے؟
کیونکہ دن اور رات کا پرفیوم الگ ہوتا، جو اس کی خوشبو کے دیرپا ہونے میں معاون ہوتا ہے۔
پرفیوم کی بوتل پر اس بارے میں لکھا ہوتا کہ وہ دن کی ہے یا رات کی
اور اگر نہ بھی لکھا ہو تو دن کی پرفیوم کا رنگ ہلکا پیلا یا مالٹے رنگ کا ہوتا
جو بہار یعنی دن کو ظاہر کرتا۔ رات کے پرفیوم کا رنگ گہرا نیلا، سرخ یا جامنی ہوتا ہے۔

رات کے پرفیوم کی خوشبو جلدی ختم ہو جاتی ہے جبکہ دن کی خوشبو دن چڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے وقت دیکھ کر خوشبو کا انتخاب کریں۔
۔گرم حصوں پر لگائیں
پرفیوم ہو یا عطر اسے جسم کے ان حصوں پر لگائیں جو گرم رہتے ہیں،
جہاں خون کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے جیسے، نبض،
کان کی لو کے پیچھے،
گردن،
ناف،،
گھٹنوں کے پیچھے اور کہنیوں وغیرہ پر،
ماہرین کے مطابق کیونکہ یہ حصے ہر وقت گرم رہتے جس کی وجہ سے خوشبو کا اثر بھی دیر تک رہتا ہے۔
۔نہانے کے بعد
ہماری جلد پر پرخوشبو اس وقت زیادہ جذب ہوتی جب وہ صاف اور گرم ہو۔
اس لیے اگر آپ نہانے کے بعد پرفیوم یا عطر لگائیں گے تو اس کی خوشبو زیادہ دیر تک قائم رہے گی
نیز ہمیشہ ہلکی خوشبو والا صابن اور شیمپو استعمال کریں تاکہ پرفیوم اور ان کی خوشبو ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہوں۔
۔خشک جلد پر لگائیں
نہانے کے بعد خوشبو لگانے سے پہلے جلد کو خشک کرلیں کیونکہ اگر جلد خشک نہیں ہوگی تو خوشبو کوئی بھی ہو، فوراً اڑ جائے گی۔
۔لوشن لگائیں
پرفیوم سے پہلے جسم پر یا تو لوشن لگا لیں یا پھر پٹرولیم جیلی، جلد جتنی نرم و ملائم ہو گی خوشبو کا تاثر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
عطر سے پہلے اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ عطر خود بھی تیل کی مانند ہی ہوتا ہے۔
۔بالوں پر اسپرے کریں
جس طرح شیمپو اور صابن کی خوشبو بالوں میں لمبے عرصے تک رہتی ہے،
اسی طرح اگر بالوں پر پرفیوم اسپرے کریں گے تو اس کی خوشبو مسحور کن تاثر دے گی۔
اس کے لیے کنگھی یا برش پر اسپرے کریں یا عطر مل کر اسے بالوں میں پھیریں۔
خوشبو لگانے میں کی جانے والی غلطیاں
آپ پرفیوم لگائیں یا عطر بہت سے لوگ جنہیں زیادہ معلومات نہیں وہ ان کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں،
ذیل میں ہم آپ کی اس سلسلے میں مدد کیے دیتے ہیں۔
۔رگڑیں مت
عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پرفیوم ہو یا عطر اسے لگانے کے بعد رگڑا جاتا ہے تاکہ خوشبو اچھی طرح لگ جائے،
حالانکہ یہ غلط ہے جب بھی مہکنے والی اشیاکو رگڑتے ہیں تو اس سے ان کے مالیکیول ٹوٹ جاتے ہیں یوںخوشبو جلدی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے زور زور سے رگڑنے سے گریز کریں۔
۔ ہوا میں اسپرے مت کریں
بعض لوگ خوشبو خصوصاً پرفیوم کو ہوا میں اسپرے کرتے اور پھر اس کے نیچے کھڑے ہوجاتے یا اس فضا میں چلتے ہیں۔
ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح خوشبو مکمل طور پر ان کے جسم اور کپڑوں کو لگ جائے گی حالانکہ ایسا کرنے سے وہ صرف خوشبو ہی ضائع کرتے ہیں۔
۔دھوپ اور گرمی سے بچائیں
پرفیوم کو دھوپ اور گرمی سے بچا کر سرد اور تاریک جگہ پر رکھیں ۔
گرمی پرفیوم کے کیمیکلز کو تبدیل کر دیتی جو نہ صرف خوشبو بلکہ رنگت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
اسے ادویات کے ساتھ رکھنا بھی اثر ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
۔اسپرےکریں مگر دور سے
اسپرے ہمیشہ جسم سے پانچ سات انچ کی دوری سے کریں،
اگر اسپرے کرنے سے آپ کا جسم گیلا ہو تو اس کا مطلب آپ نے بوتل بہت قریب سے پکڑی ہے۔
اسپرے کی صرف پھوار آپ کے جسم پر پڑنی چاہیے۔
۔پرفیوم صرف جسم پر
کوشش کریں کہ پرفیوم کپڑے اور زیورات پہننےسے پہلے لگائیں۔
بعض ایسی اقسام کے پرفیوم اور عطر وغیرہ ہوتے جو کپڑوں اور جیولری پر نشانات چھوڑ دیتے ہیں
نیز ان کی وجہ سے زیورات کی رنگت اور چمک دمک بھی ماند پڑ جاتی ہے، اس لیے احتیاط کریں۔
۔کم ہی کافی ہے
وہ پرفیوم جن کی خوشبو تیز ہوتی ان کو صرف ایک یا دو بار ہی لگائیں
اگر آپ بہت زیادہ لگائیں گے تو اس سے سر درد شروع ہوجائے گا۔
اس لیے بعض دفعہ کم ہی کافی ہوتا ہے۔
خوشبو کے فوائد
خوشبو لگانے کے بہت سے فوائد ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں۔
۔مزاج اچھا کرتی
خوشبو لگانے کا بنیادی فائدہ ہے کہ یہ آپ کے مزاج پر اثر انداز ہو کر اسے خوشگوار بنا دیتی ہے
نیز اس سے آپ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ہر خوشبو کا اپنا ہی ایک مزاج ہوتا،
اس لیے جس بھی تقریب میں جائیں ،اس کے مطابق لگائی گئی خوشبو سب کو آپ کا دیوانہ بنا دے گی۔
۔پر اعتماد بناتی
جس طرح اچھے کپڑے انسان کو پر اعتماد بناتے،
اسی طرح جب آپ کو یقین ہو کہ جسم سے بدبو نہیں آرہی
اور مسحورکن مہک آپ میں چار سو سمائے ہوئے ہےتو آپ کا اعتماد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
۔پرکشش بناتی
اگر آپ نے انتہائی دلفریب خوشبو لگائی ہو گی تو آپ جہاں سے بھی گزریں گے لوگ ،
اس خوشبو کو محسوس کر کے، آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔
۔اچھی صحت میں معاون
اگر آپ کے سر میں درد ہو، پریشان ہوں یا پھر مایوسی و شدید ڈپریشن کا شکار ہوں تو اچھی خوشبو تنائو کو ختم کر کے آپ کو پرسکون کر دیتی ہے۔
اسے Aromatherapyیا خوشبو کی تھراپی کا نام دیا جاتا ہے۔
۔پرسکون نیند
اگر رات کو اچھی نیند نہ آتی ہو اور آپ بےخوابی کا شکار ہوں توعطر یا پرفیوم لگا لیں۔
ان میں ایسے آئل ہوتے جو دماغ کو پرسکون کر کے آپ کو میٹھی نیند سلا دیتے ہیں۔


خوشبو کے بارے میں دلچسپ حقائق
ضعطر قدیم مصریوں کے لیے خاص طور پر اہم تھے۔ خیال کیا جاتا تھا کہ خوشبو سورج دیوتا ’’را‘‘ کے پسینے کی بوندیں ہیں۔
خوشبوؤں سے بھرے کمرے میں سے گزرنا ان کے لیے ایسا تھا
جیسے اپنے خدا کے ہم قدم چلنا۔
ضچودہویں صدی یورپ میں ایک پادری نے ’’ہنگری واٹر‘‘ کے نام سے پرفیوم تیار کیا تھا،
جو نہ صرف لگانے، نہانے بلکہ پینے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
دنیا میں سبھی انسانوں کی ناک ہوتی ہے لیکن خوشبو کی دنیا میں ، وہ لوگ جو خوشبوجانچتے ہیں صرف انہیں (noses)یعنی ’’ناک رکھنےوالے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ وہ لوگ جن کی سونگھنے کی حس باقی لوگوں سے تیز ہوتی ان کی باقاعدہ طور پر اسکولوں میں تربیت کی جاتی ہے۔

خوشبو بنانے والی جو کمپنیاں ان کی خدمات حاصل کرتیں وہ ان کی ناک کی انشورنس بھی کرواتی ہیں
کیونکہ وہ سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ عطر یا پرفیوم میں فلاں فلاں اجزا شامل ہیں۔
ایسے افراد کی ناک بہت حساس ہوتی ہے۔
یہ لوگ جلد ہی سینے کے امراض اور حساسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ضپھولوں اور پھلوں کی خوشبو کے بارے میں تو آپ نے سنا ہو گا لیکن 2008 میں امریکا میں برگر کنگ نے ایک ایسی پرفیوم متعارف کروائی تھی
جس سے گرلڈ گوشت کی خوشبو آتی تھی۔ اس خوشبو کی مقبولیت کے بعد انہوں نے باربی کیو پرفیوم بھی لانچ کیا تھا۔
ضمارچ 2019 میں ’’دی اسپرٹ آف دبئی‘‘ نے ’’شمکھ‘‘ نامی ایک پرفیوم متعارف کروایا
جس کی قیمت پاکستانی روپوں میں اٹھارہ کروڑ ہے ۔
یہ خوشبو نہ صرف اعلی ترین ہے بلکہ اس کی شیشی بھی تین ہزار پانچ سو اکہتر ہیرے، پکھراج، موتی، اٹھارہ قیراط سونے اور خالص چاندی سے بنی ہے،
نیز اس کا اسپرے ریموٹ کنٹرول سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
پرفیوم یا عطر کا استعمال یوں تو قدیم انسانی تہذیبوں سے ہو رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آگئی ہے۔
پہلے ایک خوشبو گھر کے سارے افراد استعمال کرتے تھے مگر اب جدید تحقیق نے ثابت کیا کہ ہر انسان کو اپنی شخصیت کے مطابق پرفیوم یا عطر لگانا چاہیے۔
آپ کی ذات سے میل کھاتی ایک دلفریب خوشبو نہ صرف آپ کو مسحورکن احساس دلائے گی بلکہ آپ کو دوسروں کی نظر میں ممتاز بھی کر دے گی پھر سبھی آپ کو کہیں گے

؎تیری خوشبو سے معطر ہے زمانہ سارا
کیسے ممکن ہے وہ خوشبو بھی گلابوں میں ملے

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles