افسانہ
نہ مَیں پوَن
(پتنگا)
نیلم احمد بشیر
مَیں اور میری ہمسائی آصفہ اکٹھی بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ اچانک بجلی چلی گئی۔
ایئرکنڈیشنڈ یخ بستہ کمرا یکدم سے یوں گرم ہونا شروع ہو گیا جیسے یاد دِلا رہا ہو کہ مت بھولو کہ اصلی گرمی بھی کہیں آس پاس ہی منڈلا رہی ہے۔ ذرا اُس کا بھی مزا چکھ کر دیکھو۔
’’چلو بازار سے سودا ہی لے آئیں۔‘‘ مَیں نے آصفہ سے کہا۔
چند ہی منٹوں میں ہم دونوں گاڑی میں سوار ہو کر گوشت، سبزی، درزی والے بازار کی طرف چل دیں۔
ابھی ہم شروع کی دکانوں تک ہی پہنچی تھیں کہ ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر رک گئیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘ ہم نے اِردگرد کھڑے لوگوں سے سوال کیا اور خود لوگوں کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے اُوپر کو دیکھنے لگیں۔
ایک میدان نما جگہ میں بجلی کا ایک اُونچا تکونی ٹاور کھڑا تھا جس کی جانب سب نظریں جمائے ہوئے تھے۔
اُس طرف دیکھتے ہی میرا خون رگوں میں جمنا شروع ہو گیا اور پورا جسم پسینے میں نہا گیا۔
وہاں ایک شخص بجلی کے کھمبے میں یوں پھنسا نظر آ رہا تھا جیسے مکڑی کے جال میں کوئی پتنگا ہو۔
’’چچ چچ ….. یہ کیا ہوا؟‘‘ آصفہ نے سوال کیا۔
’’وہ جی کرنٹ لگ گیا ہے ۔لائن مین تھا۔ اُوپر کام کر رہا تھا۔‘‘ آوازیں کانوں میں پڑنے لگیں۔
ہائے ہائے ۔میرے دل سے ہوک سی نکلی۔ افسوس یہ بےچارے کبھی کبھی اپنی ملازمت میں جان تک گنوا دَیتے ہیں۔ ہمیں اِس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
’’آپی! آپ تو اُس طرف نہ دیکھیں۔ آپ کی حساس طبیعت کا مجھے اچھی طرح پتا ہے، پھر رات بھر سو نہ سکیں گی، گولیاں پھانکیں گی …..‘‘
آصفہ نے مجھے پیار بھری ڈانٹ پلائی، مگر مَیں اُس وقت اتنی آزردہ تھی کہ اُس کی اِس بات پر مسکرا بھی نہ سکی۔
دیکھتے ہی دیکھتے واپڈا کی ایک لمبی سیڑھی والی گاڑی نیچے آ کر کھڑی ہو گئی ۔ ایک دوسرا لائن مین اپنے ساتھی کے تنِ مردہ کی طرف تیزی سے محتاط قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔
بےچارہ صبح سویرے گھر سے نہا دھو کر تیار ہو کر کام پہ نکلا ہو گا۔ بیوی نے اُسے رات کے سالن کے ساتھ پراٹھا بنا کر دیا ہو گا۔
رخصت کرتے وقت سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دو گھنٹے بعد وہ اِتنی اونچائی پر جا پہنچے گا کہ وہ اُس کی گرد تک کو نہ پا سکے گی۔ پتا نہیں اُس کے بچےا سکول جانے سے پہلے اُسے ملے بھی ہوں گے یا نہیں؟
۔ بجلی کے تار پہ چڑھتے سمے اُس نے کیا سوچا ہو گا؟ اب تو وہ ایک بےبس کاکروچ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
سوچوں کی بھنبھناہٹ سے میرا دماغ پھٹنے لگا۔ لاش جب گھر پہنچے گی، اُس کےگھر والے کتنے حیران ہو کر اُس کے چہرے کو دیکھیں گے، کیسے کیسے سینہ کُوٹیں گے، اپنے بال نوچیں گے ….. اُف ۔
کچھ بھی ہو واپڈا وَالے اُس کے گھر جا کر تعزیت کے ساتھ مالی امداد تو ضرور کریں گے۔
کل کے اخبار میں خبر آئے گی اور ساتھ ہی تصویر بھی چھپی ہو گی جس کے نیچے لکھا ہو گا …..
ایک واپڈا کے مہان افسر بیوہ کو چیک دے رہے ہیں۔ یتیم بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھ رہے ہیں ۔
ہونہہ یہ بےحس سرکاری افسر، بڑے بڑے اہل کار ۔ اُنھیں تو صرف اپنے نام کی پروجیکشن سے دلچسپی ہے اور کچھ نہیں۔
کسی انسان کی جان کے ضیاع کا بھلا اُنھیں کیا احساس؟ بےبسی تو اِس قوم کی نس نس میں سرایت کر چکی ہے ۔
توبہ بس اللہ ہی غریبوں کا والی وارث ہے، ورنہ ریاست تو بالکل ناکام ہو چکی ۔
ویسے بطور اِس معاشرے کے فرد، میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ مَیں اپنے حصّے کی ذمےداری اُٹھاؤں۔
اُس غریب کے بال بچوں کی حتی الوسع مدد کروں۔ آخر ہم سب اپنے اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہیں۔ مَیں سوچتی چلی گئی۔
’’آصفہ کیوں نہ مَیں اور تم اُس بجلی والے کے گھر جا کر اُس کے بیوی بچوں کو کچھ دے دلا ہی آئیں؟‘‘ مَیں نے اپنی ہمسائی سے مشورہ کیا۔
’’تو چلیں آج اور اَبھی چلتے ہیں۔ نیک کام میں دیر کیا۔‘‘ آصفہ نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
’’نہیں، آج نہیں، آج تو وہاں کہرام مچا ہو گا۔ ایک دو دِن میں آرام سے جاتے ہیں۔
جانے والا تو چلا ہی گیا ہے، رش کم ہو جائے، تو سکون سے بات ہو سکے گی۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔
’’اُس کے گھر کا تو ہمیں پتا ہی نہیں۔‘‘ آصفہ نے اہم نکتہ اٹھایا۔
’’بھئی واپڈا کے دفتر جا کے پتا کر لیں گے۔اب اتنی تکلیف تو ہمیں اُٹھانا ہی ہو گی نا۔‘‘
مَیں نے اُسے قائل کر لیا۔ ہم دونوں پھر اُوپر دیکھنے لگیں۔ تھوڑی ہی دیر میں بجلی والے کے بےجان جسم کو رسیوں سے باندھ کر ہولے ہولے نیچے اُتار لیا گیا۔
تماشا دیکھنے والوں میں جوش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ ہم دونوں نے وہاں سے چل دینے میں ہی عافیت سمجھی اور بےدلی سے سودا خریدنے میں مصروف ہو گئیں۔
تمام دن طبیعت مکدر رَہی۔ بار بار وُہ صبح والا نظارہ آنکھوں میں گھوم جاتا۔
یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اگلے روز اخبار میں نہ تو اُس کی کوئی خبر شائع ہوئی اور نہ ہی تصویر نظر آئی۔ ایک بجلی والا مر گیا، مگر اہم خبر نہ بن سکا۔
ایک دو دِن تک مجھے خیال آیا کہ ہم نے تو اُس کے گھر جانا تھا، مگر واپڈا کے دفتر کے چکر لگانے کے خوف سے ہم نے اُسے اگلے ہفتے پہ ٹال دیا ۔
یوں ایک کے بعد ایک دن گزرتا چلا گیا۔ ہم دونوں ٹھہریں انتہا کی مصروف، کبھی بینک میں بِل جمع کروانا، کبھی گاڑی کو ورکشاپ لے جانا ہے ۔
بس بھاگ دوڑ اور مصروفیت ہی زندگی ہو کے رہ گئی ہے آج کل۔ پھر یہ سوچ کر بھی مطمئن ہو جاتی ہوں کہ واپڈا والوں نے تو اُس کے گھر والوں کو کچھ نہ کچھ معاوضہ ضرور دِیا ہو گا۔
آخر اتنا بڑا قومی ادارہ اَیسی غفلت کا تو متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ اُن کی ذمےداری ہے بلکہ ساری قوم کی ذمےداری ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔
ہاتھ سے ہاتھ ملا کر زنجیر بن جائیں۔ اتحاد اَور اِعتماد سے اِس ملک کو بہتر بنائیں۔
آج اُس حادثے کو گزرے کئی ماہ ہو چکے ۔ آصفہ ٹھیک کہتی تھی مَیں اپنی حساس طبعی کی وجہ سے واقعی اُس افسوس ناک دن کو بھلا نہیں سکی ہوں۔
اپنی روزمرہ خریداری کے لیے جب بھی بازار جاتی ہوں، چاروناچار آنکھیں اُوپر کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ وہ بجلی والا مجھے وہیں ٹنگا نظر آتا ہے۔
دل میں ایک تیر سا جا لگتا ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ مَیں نظریں بچا کر جلدی جلدی گاڑی وہاں سے بھگا لے جاتی ہوں کہ ایک بےجان پتنگا مکڑی کے جال میں پھنسا مجھے تَک رہا ہوتا ہے ….. اور پوچھتا ہے تمہیں فرصت کب ملے گی؟