پاگل خانہ
مقبول جہانگیر
(حصہ دوم)
(بونی)
وہ بیس بائیس سال کی نوجوان اور صحتمند لڑکی تھی۔ اُس کا لباس بھی عمدہ اَور ستھرا تھا اور چہرے کے نقش و نگار سے یہ جاننا کچھ دشوار نہ تھا کہ وہ خاصی خوبصورت لڑکیوں میں گنی جاتی ہو گی۔
رینالڈس اور فاسٹر دونوں کئی منٹ تک اُسے دیکھتے رہے، مگر بُونی نے اُن کی طرف توجہ نہ دی۔ آخر رینالڈس نے آہستہ سے کہا:
’’بُونی! ذرا دَیکھو، کون تم سے ملنے آیا ہے۔‘‘
بُونی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بدستور سامنے دیوار پر نگاہیں جمائے ہوئے تھی۔ رینالڈس نے اِس مرتبہ ذرا زور سے اُسے پکارا:
’’بُونی! ڈاکٹر جان فاسٹر تمہیں دیکھنے آئے ہیں۔ کیا تم اِن سے بات نہیں کرو گی؟‘‘
’’چلے جاؤ یہاں سے۔‘‘ اِس مرتبہ بُونی نے دیوار سے نگاہیں ہٹائے بغیر تلخ لہجے میں جواب دیا۔ ’’مَیں کسی ڈاکٹر جان فاسٹر کو نہیں جانتی۔‘‘
رینالڈس نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی ہی تھی کہ فاسٹر نے اُسے روک دیا۔
’’ٹھہرو! مَیں خود بُونی سے بات کروں گا، بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم کمرے سے باہر چلے جاؤ۔ میرا خیال ہے بُونی کو تمہاری یہاں موجودگی پسند نہیں۔‘‘
میکس رینالڈس نے بےنیازی سے اپنے شانے اچکائے اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ اُس کے جانے کے بعد فاسٹر نے آہستہ سے کہا:
’’بُونی! دیکھو مَیں نے اُسے یہاں سے نکال دیا ہے۔ یہ موقع پھر نہ ملے گا۔ تم مجھے اپنے بارے میں بتاؤ۔‘‘
’’چلے جاؤ ۔‘‘ بُونی نے اب گردن گھما کر فاسٹر کو گھورا۔ ’’مجھے کسی کو اَپنے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘
فاسٹر نے ایک کرسی اٹھائی اور کھڑکی کے قریب رکھ کر بیٹھ گیا۔ بُونی اب بھی اُسے گھور رَہی تھی۔ اُس کے ہونٹ غصّے سے لرز رَہے تھے۔
’’مَیں تمہارا زیادہ وَقت نہیں لوں گا۔‘‘ فاسٹر نے کہنا شروع کیا۔ ’’مختصر الفاظ میں مجھے بتاؤ کہ اِن کم بختوں نے تمہیں یہاں کیوں قید کر رکھا ہے۔ ممکن ہے مَیں تمہیں کوئی اچھا مشورہ دَے سکوں یا ایسی تدبیر بتا دوں کہ تم یہاں سے نکل سکو۔‘‘
’’ہر شخص مجھ سے یہی کہتا ہے۔‘‘ بُونی غرّائی۔ ’’مَیں کس کس کو اَپنی کہانی سناؤں۔ کوئی میری کہانی نہیں سنتا۔ کسی کو میری بات پر یقین نہیں آتا۔‘‘
’’گھبراؤ مت بُونی۔ تم مجھے اپنی کہانی سناؤ۔ سارے واقعات۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ پر یقین کروں گا۔‘‘
بُونی کے لال بھبھوکا چہرے کا رنگ ہلکا پڑنے لگا۔ اُس نے فاسٹر کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’کیا تم واقعی میری باتوں پر یقین کرو گے؟‘‘
’’ضرور کروں گا۔ آخر یقین نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ فاسٹر کا لہجہ بےحد نرم اور ہمدردانہ تھا۔
’’سنو بُونی! مَیں ایک ڈاکٹر ہوں اور میرا فرض ہے کہ اپنے مریضوں کو صحیح اور مناسب مشورہ دُوں۔ یہی میرے پیشے کا تقاضا ہے۔
مجھے تم سے کوئی دشمنی نہیں۔ اِس لیے مجھ پر اعتماد کرو۔ مجھے اپنا دوست جان کر سب کچھ بتا دو۔‘‘
بُونی گردن جھکا کر گہری سوچ میں کھو گئی۔ فاسٹر نے اُسے چھیڑنا مناسب نہ سمجھا۔ چند لمحے بعد بُونی نے گردن اٹھائی، فاسٹر کی طرف دیکھا اور کہنا شروع کیا:
’’سنو ڈاکٹر! مجھے اِس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ میری کہانی پر تم یقین کرتے ہو یا نہیں کرتے۔ البتہ یہ جان لو کہ یہ کہانی سو فی صد سچی ہے۔ مَیں پھر کہتی ہوں کہ اِسے جھوٹ نہ سمجھنا۔ یہ قطعی سچ ہے مگر کوئی اِس پر یقین نہیں کرتا۔ سبھی مجھ کو جھٹلاتے ہیں۔‘‘
’’مَیں ہرگز نہیں جھٹلاؤں گا۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’تب ٹھیک ہے۔ مَیں تمہیں بتاتی ہوں۔ مَیں نے پولیس والوں کو بھی بارہا یہ کہانی سنائی اور ڈاکٹروں کو بھی لیکن اِسے کوئی سچ نہیں سمجھتا ۔ سب مجھی کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ اِس معاملے میں میرا ذرّہ برابر بھی قصور نہیں۔
جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا، دراصل وُہ حالات ہی بےحد غیرمعمولی تھے۔ کوئی بھی اُنھیں سمجھنے بُوجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن مجھے کچھ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ شاید تم اِن واقعات کو سمجھنے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘
یہ کہہ کر بُونی چپ ہو گئی۔ فاسٹر منتظر رہا کہ وہ سلسلۂ کلام پھر شروع کر دے گی۔ دفعتاً بُونی نے فاسٹر سے پوچھا:
’’کیا تم شیطانی طاقتوں پر یقین رکھتے ہو؟ یہ طاقتیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور اُن کے کارنامے حیرت انگیز ہیں۔‘‘
فاسٹر نے نفی میں گردن ہلائی۔ ’’مَیں ایک ڈاکٹر ہوں اور شیطانی طاقتوں پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘
’’بس تو پھر تم بھی میری کہانی پر یقین نہیں کرو گے۔‘‘ بُونی نے منہ بنا کر بیزاری سے کہا۔
’’میری کہانی اُنہی لوگوں کی سمجھ میں آ سکتی ہے جو شیطانی قوتوں کے وجود سے آگاہ ہیں۔ مَیں نے خود اُن طاقتوں کو کام کرتے دیکھا ہے اور اَگر تم دیکھ لو، تو تم بھی اُن پر ایمان لے آؤ گے۔‘‘
’’دیکھو نوجوان لڑکی! اِس بحث میں مت پڑو۔ پہلے اپنی کہانی مجھے سناؤ۔ اُس کے بعد ہی مَیں اپنی رائے کا اظہار کر سکوں گا۔ فی الحال مجھ سے یہ توقع نہ رکھو کہ تمہاری طرح مَیں بھی شیطانی طاقتوں پر ایمان لاؤں۔ البتہ اِس امر کا مَیں تمہیں پورا پورا یقین دلاتا ہوں کہ جو کچھ تم کہو گی، اُسے سچ جانوں گا۔‘‘
بُونی نے گہرا سانس لیا۔ ’’معلوم ہوتا ہے تم میری جان نہیں چھوڑو گے۔ ٹھیک ہے، سُن لو ….. یہ بالکل ایسی ہی دوپہر تھی جیسی آج ہے ۔ مَیں نے یہ معلوم کرنے کے لیے والٹر کو فون کیا تھا کہ جو چیز اُسے لانی تھی، وہ لے آیا ہے یا نہیں۔ فون پر مَیں نے محسوس کیا کہ والٹر خاصا پریشان اور بدحواس ہے۔ اِس کے بعد …..‘‘
’’ذرا رُکو۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ والٹر کون تھا؟‘‘
بُونی خوش دلی سے مسکرائی۔ ’’والٹر میرا محبوب تھا۔‘‘
’’اور وُہ کون سی چیز تھی جو وُہ لانے والا تھا؟‘‘ فاسٹر نے دوسرا سوال کیا۔
’’وہ ایک ڈیپ فریزر تھا۔‘‘
’’بہت خوب۔ تو تم نے اپنے محبوب والٹر سے پوچھا کہ وہ ڈیپ فریزر لایا ہے یا نہیں۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’اب بتاؤ کہ جب تم نے اُسے فون کیا، تو اُس وقت تم کہاں تھیں؟‘‘
’’مَیں اپنے اپارٹمنٹ میں تھی۔‘‘
’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم اور وَالٹر اکٹھے نہیں رہتے تھے؟‘‘
’’وہ اَپنی بیوی رُتھ کے ساتھ رہتا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مَیں سمجھ گیا۔ اب مہربانی کر کے آگے چلو۔‘‘
’’جیسا کہ مَیں نے کہا ٹیلی فون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے والٹر خاصا بدحواس اور پریشان تھا۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ اتنا بدحواس ہونے کی ضرورت نہیں۔ فریزر آ چکا ہے، تو اُسے تہ خانے میں لگوا دَو۔ اِس کے بعد بقیہ کام پلان کے مطابق انجام دینا زیادہ مشکل نہیں۔‘‘
’’یہ پلان کیا تھا؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔
بُونی نے اُس کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’والٹر اِس لیے پریشان تھا کہ پلان میں کہیں گڑبڑ نہ ہو جائے۔ اُس کی خواہش تھی کہ آخری فریضہ انجام دینے سے پہلے وہ مجھ سے مل لے، لیکن مَیں نے والٹر کو سمجھایا کہ میرا اِس موقع پر آنا بےسود ہو گا۔
اِس طرح خواہ مخواہ پلان کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں تاخیر ہو جائے گی۔ اِس کے علاوہ رُتھ بھی تو گھر پہنچنے ہی والی تھی۔
اور پھر وہی ہوا۔ جب ہم دونوں فون پر باتیں کر رہے تھے، تو والٹر نے اپنی بیوی کی کار کے انجن کی آواز سن لی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ فاسٹر نے بےصبری سے پوچھا۔ ’’والٹر کی بیوی آ گئی ۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
اور تب بُونی نے وہ لرزہ خیز واقعہ تفصیل سے سنایا جس میں بقول بُونی، وہ موجود نہ تھی۔ تاہم اُس نے تمام جزئیات کے ساتھ جس انداز میں یہ واقعہ سنایا، وہ سُن کر فاسٹر کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ خود بھی اُس موقع پر بنفسِ نفیس موجود تھا۔
والٹر نہایت وجیہہ اور حسین و جمیل تیس برس کا نوجوان تھا۔ بُونی سے فون پر گفتگو کرنے کے بعد اُس نے اطمینان سے کریڈل پر ریسیور رَکھا اور کمرے کے دوسرے گوشے میں رکھی ہوئی ایک الماری کھولی۔
الماری میں شراب کی بوتلیں بھری ہوئی تھیں۔ والٹر نے اُن میں سے برانڈی کی بوتل نکالی اور اَلماری بند کر دی۔ مکان کے بیرونی حصّے سے کسی کار کے انجن کی آواز آ رہی تھی۔
چند ثانیے بعد انجن کی آواز بند ہو گئی، پھر کار کا دروازہ کھلا اور بند ہوا۔ یہ آواز بھی والٹر نے سنی۔ اُس کے بعد اُس کے کانوں میں قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔
والٹر نے جلدی سے شیشے کا گلاس برانڈی سے پُر کیا اور ایک ہی سانس میں اُسے خالی کر دیا۔
بعدازاں اُس نے دوبارہ گلاس بھرا، پھر مکان کا فرنٹ دَروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے گلاس منہ سے لگایا اور اُسے بھی خالی کر دیا۔
’’ڈارلنگ! کہاں ہو تم؟‘‘ اُس کی بیوی رُتھ اُسے آوازیں دے رہی تھی۔
والٹر نے ہلکی آواز میں رُتھ کو جواب دے کر بتایا کہ وہ کہاں ہے۔ رُتھ کمرے میں آ گئی۔ اُس کی عمر والٹر کے برابر تھی۔
وہ خوبصورت عورت تھی۔ اُس کے ہاتھ میں پرس کے سوا کچھ نہ تھا۔ اُس نے والٹر کی طرف دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں پوچھا:
’’تم آج جلدی واپس آ گئے؟‘‘ وہ گہری نظروں سے اپنے شوہر کا جائزہ لے رہی تھی۔
’’واپس نہیں آیا، بلکہ یوں کہو کہ سرے سے شہر کی طرف گیا ہی نہیں۔‘‘ والٹر نے اُس سے آنکھ ملائے بغیر جواب دیا اور برانڈی کا تیسرا گلاس پُر کرنے لگا۔
رُتھ نے چٹختی ہوئی آواز میں کہا ’’تم شراب پینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی اور وَالٹر کی طرف دیکھنے لگی۔
والٹر جانتا تھا کہ وہ ناراض ہو گی، لیکن اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ رُتھ کی ناراضی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے۔
وہ زیادہ دَیر والٹر سے خفا نہ رہ سکتی تھی، اِس لیے کہ اُسے اپنے شوہر سے بڑی محبت تھی۔
والٹر نے اُس کی طرف دیکھے بغیر کہا ’’تم بھی پیو گی؟ کہو تو ایک گلاس تمہارے لیے بھی بنا دوں۔‘‘
’’ہاں، ہاں، ضرور!‘‘ رُتھ نے کہا۔ ’’آج سردی بھی زیادہ ہے اور مَیں خاصی تھکی ہوئی ہوں۔‘‘
والٹر نے گلاس بھر کر رُتھ کو دیا، پھر پوچھا۔ ’’تمہاری کلاس کیسی جا رہی ہے؟‘‘
’’بہت دلچسپ اور عجیب، حیرت انگیز۔‘‘ رُتھ نے جواب دیا۔
’’پروفیسر کالنگا نہایت باکمال آدمی ہے۔ اپنے فن میں ماہر ۔روحوں کو بلانا، تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ بہت جلد اِس فن میں مجھے بھی ماہر بنا دے گا۔‘‘
’’اِس کا مطلب ہے کہ وہ وَاقعی جادوگر ہے۔‘‘ والٹر نے کہا۔ ’’مَیں نے سنا تھا کہ وہ اَفریقا کا بہت بڑا جادوگر ہے۔ گویا یہ سچ ہے۔‘‘
’’بالکل سچ! اُس کے پاس جادو ہے۔‘‘ رُتھ نے بتایا۔
’’لیکن تمہیں یہ بےہودہ فن سیکھنے کا شوق کیوں ہو گیا؟‘‘ والٹر نے پوچھا۔ ’’مَیں اِسے پسند نہیں کرتا اور نہ تمہارے اُس منحوس پروفیسر کالنگا کی شکل دیکھنا مجھے گوارا ہے۔ چونکہ تم افریقا میں کچھ عرصہ رہ چکی ہو جہاں تمہارا باپ کسی کالونی کا گورنر جنرل تھا۔
اِس لیے تمہیں آج بھی افریقیوں سے دلچسپی ہے، مگر مَیں اِن باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب فراڈ ہے ۔ کوئی جادو وَادو نہیں ہوتا۔ سب پیسے بٹورنے کا دھندا ہے۔‘‘
رُتھ بےاختیار ہنس پڑی۔ اُس نے گلاس تپائی پر رکھتے ہوئے کہا:
’’تم مانو یا نہ مانو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا بڑی پُراسرار ہے۔ اِس میں بےشمار قوتیں ایسے کام کر رہی ہیں جن کی انسانی عقل ابھی تک توجیہہ نہیں کر سکی۔
اب اُن قوتوں کا علم اور اُن سے رابطہ بجائے خود ایک زبردست سائنس ہے۔ یہ قوتیں اپنے کرشموں میں سائنس سے بدرجہا آگے اور بہتر ہیں۔
سائنس میں نقص پایا جا سکتا ہے، لیکن اُن قوتوں میں کہیں نقص نہیں۔ اُنھیں جو کام سونپا جائے، یہ اُسے پوری طرح سرانجام دیتی ہیں۔‘‘
والٹر نے قہقہہ لگایا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے، تم بڑی آسانی سے جادو ٹونے میں پی ایچ ڈی کر سکتی ہو۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے، تم دیکھے بغیر نہیں مانو گے۔ اِس نئی سائنس کا ایک ہلکا سا مظاہرہ مجھے کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’ضرور، ضرور۔‘‘ والٹر نے دوسرا قہقہہ لگایا اور دَفعتاً اُس کی نظر رُتھ کے دائیں ہاتھ پر گئی۔
اُس کی کلائی میں ایک سنہری کنگن چمک رہا تھا۔ والٹر نے کنگن غور سے دیکھا۔
یہ دراصل کسی دھات کا بنا ہوا سنہری سانپ تھا جسے کنگن کی شکل میں ڈھالا گیا تھا۔ والٹر نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:
’’یہ کہاں سے لیا تم نے؟ شاید پروفیسر کالنگا کا عطیہ ہے؟‘‘
’’ہاں، تم نے صحیح اندازہ لگایا۔‘‘ رُتھ نے کنگن پر نگاہ ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
’’اِس کا نام آوانگا ہے۔ افریقی زبان میں آوانگا سانپوں کے بادشاہ کو کہتے ہیں۔ آوانگا کے بارے میں پروفیسر کالنگا کا کہنا ہے کہ جس شخص کے قبضے میں یہ سانپ ہو، اُسے دنیا کی کوئی طاقت ضرر نہیں پہنچا سکتی۔
یہ سانپ دراصل زندگی کی علامت ہے اور اِس کنگن پر اُس کے اثرات ہیں۔ اِسے خود پروفیسر کالنگا نے بنایا ہے۔
اُس کا بیان ہے کہ جب تک یہ کنگن میرے قبضے میں ہے، یہ میری حفاظت کرے گا ۔ اُن تمام شیطانی قوتوں سے مجھے بچائے رکھے گا جو کبھی میرے در پے آزار ہو سکتی ہیں۔‘‘
والٹر کا چہرہ یک لخت بےحد سنجیدہ ہو گیا۔ وہ نہایت غور سے سنہری کنگن کا جائزہ لیتا رہا۔ آخر اُس نے کہا:
’’مگر تمہاری زندگی کو تو کسی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ تم ایسی فضول اور بےہودہ باتوں میں کیوں وقت ضائع کر رہی ہو؟
مجھے یقین ہے یہ افریقی بدمعاش جس کا نام کالنگا ہے، لوگوں کو بےوقوف بنا رہا ہے۔ سچ بتاؤ، اُس نے یہ کنگن تمہارے ہاتھ کتنے کا بیچا ہے؟‘‘
’’اُس نے مجھ سے اِس کی کوئی قیمت نہیں لی۔‘‘ رُتھ کا لہجہ بھی ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔
’’پروفیسر نے چند دن پہلے مجھے بتایا تھا کہ میری زندگی کو ایک عورت کی طرف سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ وہ میری جان لینے کے در پے ہے۔‘‘
والٹر نے شراب کا گلاس تپائی پر رکھ دیا۔ اُس کا دایاں ہاتھ کپکپا رہا تھا۔ اُس نے رُتھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
’’اِس بات سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ وہ عورت کون ہو سکتی ہے؟ کیا اُس احمق کالے پروفیسر نے تمہیں اُس کا نام نہیں بتایا؟‘‘
’’بتایا ہے۔‘‘ رُتھ نے آہستہ سے کہا۔ ’’پروفیسر نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘
’’بہت خوب۔ مہربانی کر کے مجھے بھی اُس عورت کے نام سے آگاہ کرو جو تمہاری جان کے درپے ہے۔‘‘
’’اگر تم سننا ہی چاہتے ہو، تو سنو۔‘‘ رُتھ نے کہا۔ ’’اُس کا نام ہے بُونی۔‘‘
والٹر نے آہ بھری اور کھسک کر اَپنی بیوی کے اور قریب ہو گیا۔ اُس نے رتھ کا ہاتھ گرم جوشی سے دباتے ہوئے کہا:
’’مَیں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ تم بُونی ہی کا نام لو گی۔ یقین کرو، یہ معاملہ قطعی ختم ہو چکا ہے۔ بُونی سے اب میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ مَیں قسم کھاتا ہوں۔‘‘
’’کاش! مَیں تمہاری قسموں پر اعتبار کر سکتی۔‘‘ رُتھ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’شاید تم بھول گئے کہ ابھی پچھلے مہینے ہی تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تم الگ ہونے کے خواہش مند ہو اَور مجھ سے طلاق لینا چاہتے ہو۔ اَب تم کہتے ہو کہ بُونی سے تمہارا کوئی تعلق نہیں رہا۔ مَیں کس بات کو سچ جانوں؟‘‘
’’دونوں باتیں سچ ہیں۔‘‘ والٹر نے جواب دیا۔ ’’ایک ماہ پہلے تک واقعی مَیں بُونی کے عشق میں اندھا ہو رہا تھا، مگر اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔
مجھے اُس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔ وہ اَچھی عورت نہیں ۔ تم اُس سے بدرجہا بہتر ہو۔ مَیں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ خدا کے لیے رُتھ مجھ پر بھروسا کرو۔‘‘
اِن الفاظ کے ساتھ ہی والٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اُس کی آواز بھرّا گئی۔ رُتھ پر والٹر کے آنسوؤں کا فوری اثر ہوا۔ اُس نے کہا:
’’ٹھیک ہے۔ مَیں تم پر بھروسا کرتی ہوں۔ والٹر! یقین کرو آئندہ ہمارے درمیان اِس قسم کی کوئی تلخی پیدا نہ ہو گی۔‘‘
’’بالکل، بالکل! مَیں وعدہ کرتا ہوں تمہیں کوئی دکھ نہ دوں گا۔‘‘
’’مَیں جانتی ہوں والٹر کہ اِن دنوں تم بیکار ہو۔‘‘ رُتھ نے کہنا شروع کیا۔
’’تمہارے اخراجات بھی مجھی کو اُٹھانے پڑتے ہیں۔ مَیں یہ سمجھتی ہوں کہ تم اچھے شوہر ثابت نہیں ہوئے۔ تم نے ہمیشہ خودغرضی اور ذاتی مفاد کا مظاہرہ کیا ہے۔
تم نے میری خواہشیں پامال کی ہیں، مگر مَیں سچے دل سے تمہیں معاف کرتی ہوں۔ یہ اِس لیے کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ اپنی اِن تمام خامیوں کے باوجود تم خوبصورت ہو ، اور خوبصورت آدمی میری کمزوری ہے۔ مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘
’’مَیں بھی تم سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ والٹر نے کہا۔ پھر وہ دونوں مسلسل شراب پیتے رہے۔
والٹر نے زبردستی رُتھ کو ایک گلاس اور پلایا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد معاً والٹر نے رُتھ سے کہا،
’’ارے ہاں! ایک بات تو مَیں تمہیں بتانا بھول ہی گیا ۔ ایک چیز مَیں تمہارے لیے خرید کر لایا ہوں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ رُتھ نے خوش ہو کر کہا۔ ’’کیا چیز ہے وہ؟ مجھے تو کہیں دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
’’آؤ، تمہیں دکھاؤں۔‘‘ والٹر نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر صوفے سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو گی، تو خوش ہو جاؤ گی۔‘‘
والٹر نے محسوس کیا کہ ضرورت سے زیادہ پی لینے کے باعث رُتھ کے قدم قابو میں نہیں، اور یہی وہ چاہتا تھا کہ رُتھ کسی قسم کی مزاحمت کے قابل نہ رہے۔‘‘
’’کوئی چیز تم میرے لیے لائے ہو؟‘‘ رُتھ نے پوچھا۔ اُسے حیرت ہو رہی تھی کہ آخر وہ چیز کیا ہو گی۔ والٹر نے ہنس کر کہا:
’’ذرا صبر تو کرو۔ مَیں اپنے منہ سے کیا بتاؤں۔ تم خود ہی دیکھ لو گی۔ بس میرے ساتھ ساتھ چلی آؤ۔‘‘
والٹر اُسے سہارا دَیتا ہوا ڈرائنگ روم سے باورچی خانے میں لے گیا۔ رُتھ نے باورچی خانے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا:
’’مجھے تو یہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جو تم میرے لیے لے کر آئے ہو۔
اب جلدی سے خود ہی بتا دو نا، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
والٹر نے قہقہہ لگایا۔ ’’مَیں پہلے ہی جانتا تھا کہ تم بےصبر ہو جاؤ گی، مگر مَیں تمہیں نہیں بتاؤں گا، ورنہ سارا مزا کِرکِرا ہو جائے گا۔‘‘
’’یہاں تو مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ رُتھ نے پھر کہا اور وَالٹر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا
’’وہ چیز یہاں نہیں ہے۔‘‘
’’پھر کہاں ہے؟‘‘ رُتھ نے حیرت سے پوچھا۔ اِس سوال پر والٹر پھر ہنسا اور کہنے لگا
’’وہ چیز نیچے ہے۔ تہ خانے میں۔‘‘
’’تہ خانے میں؟‘‘ اِس مرتبہ رُتھ بھی زور سے ہنسی۔
۔ ’’کیا ہو سکتا ہے یہ؟ شاید تم کوئی چوہےدان لائے ہو۔ اب مَیں سمجھی ۔ وہاں اِن دنوں چوہے کثرت سے ہیں، اِس لیے یقیناً تم چوہےدان ہی لے کر آئے ہو گے۔ کیا مَیں ٹھیک کہتی ہوں؟‘‘
’’خواہ مخواہ تُکے نہ لگاؤ۔ بس ابھی خود دَیکھ لینا۔‘‘ والٹر نے کہا۔
اب وہ تہ خانے کو جانے والی سیڑھیوں کے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ والٹر نے دروازہ کھولا اور رُتھ کو آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ تہ خانے کی سیڑھیاں تنگ تھیں اور کسی قد تاریک۔ رُتھ جب سیڑھیاں اتر رہی تھی، تو والٹر نے سیڑھیوں میں لگا ہوا بلب روشن کر دیا۔ اِس کے بعد خود بھی اترنے لگا۔ تہ خانے میں بھی ایک چھوٹا سا ہلکی طاقت کا بلب جل رہا تھا۔ آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے رُتھ نے تہ خانے پر نگاہ ڈالی۔ اُس میں پرانے اخباروں اور رسالوں کے ڈھیر پڑے تھے۔ شراب کی بوتلوں کے خالی کریٹ، ٹین کے بےشمار ڈبے اور گتّے کے کارٹن بھی بڑی تعداد میں اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ رُتھ کے پیچھے کھڑے ہوئے والٹر نے کہا: ’’رک کیوں گئیں؟ آگے بڑھو۔‘‘
رُتھ نے گردن گھما کر والٹر کو دیکھا اور کہا ’’آگے بڑھوں؟ لیکن کہاں؟‘‘
’’ارے بھئی وہاں۔‘‘ والٹر نے انگلی سے تہ خانے کے پرلے گوشے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ وہ چیز مَیں نے وہیں رکھوا دِی ہے۔‘‘
رُتھ نے بڑھ کر تہ خانے میں قدم رکھا اور آہستہ آہستہ اُس گوشے کی طرف گئی۔ حیرت سے اُس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
سفید رنگ کا ، بالکل نیا ، انتہائی خوبصورت، بہت بڑا ڈیپ فریزر وَہاں رکھا تھا۔
’’فریزر ؟‘‘ رُتھ نے خوش ہو کر کہا۔
’’معلوم ہوتا ہے تمہیں پسند آیا؟‘‘ والٹر اب بھی اُس کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔
’’ہاں، بہت خوبصورت چیز ہے یہ۔‘‘ رُتھ نے جلدی سے فریزیز کا ڈھکنا اٹھا کر اُس کے اندر جھانکا۔ فریزر کے اندر سے یخ بستہ ہوا کا جھونکا برآمد ہوا۔ رُتھ گھبرا کر پیچھے ہٹی اور اُس نے آہستہ سے ڈھکنا بند کرتے ہوئے کہا:
’’یہ تو کام کر رہا ہے۔یہ تم نے بہت اچھا کیا کہ فریزر خرید لائے۔ ہمیں اِس کی واقعی بڑی ضرورت تھی۔‘‘
رُتھ نے جب یہ بات کہی، اُس وقت والٹر وہاں نہ تھا۔ وہ کچھ فاصلے پر ….. کاٹھ کباڑ کے پیچھے کوئی چیز ہاتھ سے ٹٹول کر تلاش کر رہا تھا اور پھر ….. وہ چیز اُس کے ہاتھ میں آ گئی۔ رُتھ برابر اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔
’’تم نے تو مجھے حیران ہی کر دیا والٹر!‘‘
’’ہاں! ….. اور اب تم ایک اور چیز دیکھ کر مزید حیران ہو جاؤ گی۔‘‘ والٹر کا لہجہ خوفناک حد تک سنجیدہ تھا۔
’’اچھا!‘‘ رُتھ، والٹر کی طرف مڑی۔ ’’بھلا وہ کیا چیز ہے؟‘‘
’’یہ ہے۔‘‘ والٹر نے گوشت کاٹنے کی ایک لمبی، نئی، چمکدار چھری رُتھ کی آنکھوں کے سامنے لہرائی اور پھر تہ خانے میں رُتھ کی ہولناک چیخیں گونجنے لگیں ….. لیکن یہ چیخیں آہستہ آہستہ مدھم پڑتی گئیں اور چند لمحوں بعد والٹر کے قدموں میں رُتھ کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی۔
والٹر بری طرح ہانپ رہا تھا۔ رُتھ کی گردن پر چھری کا آخری وار کر کے اُس نے گردن قریباً تن سے جدا کر دی تھی۔ اُس روز پہلی بار وَالٹر کو اَپنے بازوؤں کی حیرت انگیز قوت کا احساس ہوا۔ رُتھ کی آنکھیں حلقوں سے باہر ابل آئی تھیں اور اُس کا خوبصورت چہرہ بےحد بھیانک لگ رہا تھا۔
والٹر چند ثانیے وہاں کھڑا ہانپتا اور رُتھ کی لاش دیکھتا رہا۔ پھر اُس کے لبوں پر نہایت سفّاکانہ ….. کامیابی سے بھرپور ….. مسکراہٹ آپ ہی آپ پھیل گئی۔
اُس کا خیال تھا کہ رُتھ کو ہلاک کرنے میں خاصی جدوجہد سے کام لینا پڑے گا ….. مگر وہ تو اِس آسانی سے ڈھیر ہو گئی جیسے قصاب کسی گائے کو ذبح کر ڈالتا ہے۔
اگرچہ رتھ کا کام تمام ہو چکا تھا اور اُس کی شہ رگ بھی کٹ چکی تھی، تاہم والٹر نے اپنے اطمینان کے لیے کہ شاید اُس میں زندگی کی ابھی کوئی رمق باقی ہو، جھک کر اُس کی نبض دیکھی۔ نبض ساکت تھی۔
اُس نے رُتھ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دل کی دھڑکن کا جائزہ لیا۔ والٹر نے پوری طرح مطمئن ہو کر خون آلود چھری ایک طرف رکھی اور بھاری تیز دھار وَالا چاپڑ اُٹھا لیا۔ یہ بھی اُس نے گتے کے ایک ڈبے میں پہلے ہی سے چھپا کر رکھ دیا تھا۔
بقیہ کام اُس نے چاپڑ کی مدد سے بہت جلدی سرانجام دے لیا۔ آدھ گھنٹے کے اندر اَندر وَالٹر نے کسی ماہر قصاب کی طرح اپنی بیوی کا بدن گوشت کے چھوٹے بڑے لوتھڑوں، پارچوں اور ہڈیوں کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
اِس کام میں اگرچہ وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں نہا گیا، لیکن کام ختم ہونے کے بعد اُسے روحانی طور پر جیسے سکون ملا۔ یہ اُس کے لیے عجیب و غریب تجربہ تھا۔
ہاتھوں اور پیروں کی بڑی بڑی ہڈیاں چاپڑ سے توڑتے ہوئے اُسے خاصا لطف آیا تھا۔ اپنی زبردست محنت کا نتیجہ گوشت کے ایک ڈھیر کی صورت میں جب اُس کے سامنے آیا، تو وہ آپ ہی آپ قہقہہ مار کر ہنسا اور بولا:
’’بےوقوف عورت۔ اب بول، کہاں گیا تیرا وُہ غرور اَور کدھر گیا وہ تیرا اَفریقی پروفیسر؟‘‘
والٹر نے پلاسٹک کے لفافوں کا ایک بنڈل ڈیپ فریزر کے پیچھے سے برآمد کیا۔ اُن لفافوں میں اُس نے گوشت بھر بھر کر فریزر میں ڈالنا شروع کیا۔
اُسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آخری لفافے کے ساتھ ہی گوشت کا ڈھیر بھی ختم ہو چکا ہے۔ فریزر کا ڈھکنا بند کر کے والٹر نے تہ خانے کا جائزہ لیا۔ اُس کے اردگرد خون ہی خون اور ہڈیوں کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔
اُس کے کپڑے بھی خون میں بھیگ چکے تھے۔ دو مرتبہ اُس کا پاؤں فرش پر پھیلے ہوئے اُس خون کے باعث پھسلا اور وُہ اَوندھے منہ گرتے گرتے بچا۔
تہ خانے کے فرش سے خون صاف کرنا سخت مشکل مرحلہ تھا اور وَالٹر بہرحال یہ کام سرانجام دینے پر مجبور تھا۔ وہ چاہتا تھا اگر کوئی شخص تہ خانے میں آ بھی جائے، تو اُسے قطعی یہ اندازہ نہ ہو سکے کہ یہاں قتل کی کوئی واردات ہو چکی ہے۔
والٹر کو ایک بار پھر ضروری سامان کے لیے تہ خانے سے باہر اوپر جانا تھا، چنانچہ وہ رُتھ کے پھیلے ہوئے خون میں پھسلنے کے خوف سے بچتا بچاتا جب سیڑھیوں کی طرف چلا، تو معاً ایک چیز دیکھ کر اُس کا اُٹھا ہوا قدم وہیں رک گیا۔ وہ چند لمحے خوف زدہ نظروں سے اُس چیز کو گھورتا رہا۔
یہ وہی سنہری کنگن تھا جو رُتھ اپنی کلائی میں پہنے ہوئی تھی اور جس پر ایک ننھا سا سانپ پھن پھیلائے جھوم رہا تھا۔ والٹر نے بڑھ کر یہ کنگن اٹھا لیا۔
اُسے یوں لگا جیسے درد کی ایک ہلکی سی ٹِیس اُس کی ہتھیلی سے اٹھی اور بازو کے آخری سرے تک چلی گئی ہو۔ اُس نے اپنا ہاتھ جھٹکا۔ پہلے خیال آیا شاید یہ اِس کنگن کا مقناطیسی اثر ہے، لیکن پھر احساس ہوا کہ یہ ممکن نہیں۔
چونکہ وہ دَیر تک ایک انسانی لاش کو گوشت کے پارچوں اور چھوٹی چھوٹی ہڈیوں میں تبدیل کرنے کا سخت کام کرتا رہا ہے، اِس لیے دائیں ہاتھ کے اعصاب تھک گئے ہیں۔
کنگن اُس نے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈالنے کا ارادہ کیا۔ مگر پھر رک گیا۔ کچھ سوچ کر وہ آپ ہی آپ ہنسا۔
’’جہاں کنگن والی ہے، اُس کی چیز بھی وہیں ہونی چاہیے۔ اخلاق کا تقاضا تو یہی ہے۔‘‘ یہ سوچ کر اُس نے ڈیپ فریزر کا ڈھکنا اٹھایا اور کنگن بھی اندر ڈال دیا۔
باورچی خانے میں جا کر والٹر نے گیس کا چولہا جلایا اور ٹین کے ایک کنستر میں پانی گرم کیا۔ پانی گرم کر کے بالٹی میں بھرا، ایک جھاڑو اَور صابن کی ٹکیہ ہاتھ میں لے لی۔
تہ خانے میں جا کر اُس نے صابن مَل مل کر گرم پانی سے فرش دھونا شروع کیا۔ تہ خانے کا فرش سیمنٹ سے بنایا گیا تھا، چنانچہ والٹر کو جما ہوا خون گرم پانی اور صابن کے ذریعے صاف کرنے میں خاصی دقت نہ ہوئی۔
پانی اور خون کا یہ مکسچر وہ اِحتیاط سے ڈرین میں بہاتا گیا یہاں تک کہ فرش بالکل صاف ستھرا ہو گیا اور خون کا ہلکا سا داغ دھبّا یا نشان بھی باقی نہ رہا۔
والٹر نے فرش کے بعد تہ خانے کا اچھی طرح معائنہ کیا۔ وہ کوئی ایسا سراغ چھوڑنا ہی نہ چاہتا تھا جس سے معلوم ہو کہ یہ تہ خانہ ’’بوچڑ خانے‘‘ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔
احتیاط سے کام لیتے ہوئے والٹر نے ایسے تمام ردّی اخباروں کے ڈھیر اور گتیّ کے ڈبوں کو بھی اچھی طرح دیکھا بھالا جن پر خون کے داغ دھبّے لگنے کا خدشہ تھا۔ ایک دو ڈبے ایسے نکلے جنہیں والٹر نے الگ رکھ دیا۔ ’’اِنھیں جلا کر راکھ کر دینا ہی بہتر ہو گا۔‘‘ اُس نے سوچا۔
تہہ خانے کی صفائی کے کٹھن اور سخت تھکا دینے والے کام سے فارغ ہو کر والٹر نے اپنے کپڑوں اور جسم کی صفائی پر توجہ دی۔ اُس کا شاندار سوٹ اِس خونیں کارروائی کے دوران میں برباد ہو چکا تھا۔
اُسے صاف کرنا اُس کے لیے محال تھا اور نہ وہ یہ خطرہ مول لے سکتا تھا کہ سوٹ کسی ڈرائی کلینر کے حوالے کرے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ فی الحال وہ یہ سوٹ کہیں چھپا دے گا اور موقع ملتے ہی خود اُسے ڈرائی کلین کرنے کی کوشش کرے گا۔
جسمانی صفائی کے لیے اُس نے ایک بار پھر پانی گرم کیا اور اَچھی طرح نہایا۔ اُس نے کسی ماہرِ فن قاتل اور مجرم کی طرح اپنے ناخنوں کی صفائی پر خاص توجہ دی۔ اُسے احساس تھا کہ ناخنوں کے اندر اَگر ذرا بھی خون جما رہ گیا، تو یہ اُس کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
اُس نے نہ صرف ناخن صاف کیے، بلکہ اُنھیں کتر بھی دیا۔ نہا دھو کر اور نیا لباس پہن کر وہ اِطمینان اور مسرّت کے جذبات سے لبریز سیٹی پر ایک مشہور گانے کی دھن بجاتا ہوا، ڈرائنگ روم میں گیا اور اَپنی محبوبہ بُونی کے ٹیلی فون کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
بُونی کے فلیٹ میں فون کی گھنٹی بجی۔ وہ بےچینی سے اِسی گھنٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ اُس نے جھپٹ کر ریسیور اُٹھایا اور کان سے لگا لیا۔
’’ہاں ….. ہاں ….. مَیں بول رہی ہوں۔‘‘ اُس نے چپکے سے ماؤتھ پیس میں کہا۔ ’’کہو کیسا رہا؟‘‘
’’سب کام تسلی بخش طریقے سے ختم ہو گیا۔‘‘ والٹر کی آواز آئی۔ ’’ذرا بھی دقت نہیں ہوئی۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے۔‘‘ بُونی نے کہا۔ ’’یہ بتاؤ تم تو ٹھیک ہو نا؟‘‘
’’بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے یہ کام کرنے میں چند منٹ سے زیادہ نہیں لگے ….. البتہ …..‘‘
’’اوہو، ایسی باتیں فون پر نہیں کی جاتیں۔‘‘ بُونی نے والٹر کا جملہ کاٹ دیا۔
’’معافی چاہتا ہوں ….. مَیں ذرا کچھ زیادہ ہی خوش ہوں۔‘‘ والٹر نے ہنس کر کہا۔ ’’اب یہ بتاؤ تم میرے پاس کتنی دیر میں پہنچ رہی ہو؟‘‘
’’بس مَیں نے اپنا ضروری سامان باندھ لیا ہے۔ مجھے تمہارے پاس آنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں لگے گا۔‘‘
’’بہت خوب ….. اِدھر مَیں بھی تیار ہی ہوں۔‘‘ والٹر نے کہا۔ ’’بہرحال تم جس قدر جلد آؤ، اتنا ہی اچھا ہے۔ سنو، اب مَیں یہاں ….. اِس مکان میں زیادہ دَیر ٹھہرنا نہیں چاہتا۔ میری بات تم سمجھ رہی ہو نا؟‘‘
’’ہاں، ہاں! خوب سمجھ رہی ہوں۔‘‘ بُونی نے جواب دیا۔ ’’تم جانتے ہی ہو، تم سے زیادہ مجھے جلدی ہے، لیکن ….. مَیں ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ ہم رُتھ کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں، تو بہتر ہے۔‘‘
’’کیا احمقانہ بات کرتی ہو تم!‘‘ والٹر نے جھلّا کر کہا۔ ’’خود ہی مجھے منع کیا کہ فون پر ایسی باتیں نہیں کی جاتیں، اور اَب …..‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے ….. مگر تم میری پوری بات تو سن لو …..‘‘ بُونی نے اصرار کیا۔ ’’اگر ہم اپنے سامان کے ساتھ فریزر کو بھی رکھ لیں، تو کیا حرج ہے؟ ہو سکتا ہے ہمارے جانے کے بعد اگر کسی نہ تہ خانے میں جھانک لیا اور فریزر کھول کر دیکھا، تب …..‘‘
’’اِس کا کوئی امکان فی الحال نہیں۔‘‘ والٹر نے دبے دبے جوش سے کہا۔ ’’یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ اور پھر یہ تو سوچو کہ اتنا بھاری فریزر ہم کہاں کہاں اٹھائے پھریں گے۔‘‘
’’تم میری بات ہی نہیں سمجھ رہے ہو ….. میرا مطلب یہ تھا کہ رُتھ کو مکان میں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہو گا ….. ہم اُسے فریزر سے نکال کر ساتھ لے لیں اور اَیئرپورٹ جاتے ہوئے راستے ہی میں کہیں پھینک جائیں ….. رات کا وقت ہو گا ….. کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ فریزر میں اُس کا پایا جانا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
’’اچھا! اب یہ بحث بند ….. مَیں فون بند کر رہا ہوں۔‘‘ والٹر نے اُکتا کر کہا۔ ’’تم خواہ مخواہ وَقت ضائع کر رہی ہو۔ بس تم جلدی سے یہاں آ جاؤ۔‘‘
’’وہ تو مَیں آ ہی رہی ہوں، لیکن بہتر تھا کہ ….. بہرحال مَیں اپنی کار تمہارے مکان کے عقب میں کھڑی کروں گی ….. تم باورچی خانے کا دروازہ کھلا رکھنا، تاکہ مجھے دستک نہ دینی پڑے۔‘‘ بُونی نے اُسے ہدایات دیں۔ ’’اچھا، خدا حافظ۔‘‘
والٹر نے جب فون بند کیا، تو کسی اَن جانے خوف سے اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پہلی بار اُسے اپنے بھیانک جرم کا احساس ہوا۔
یہ بےوقوف بُونی اب اُسے پٹیاں پڑھانے چلی ہے ….. کہتی ہے فریزر اَپنے ساتھ لے چلو ….. اگر رُتھ کو اَپنے ساتھ ہی لے جانا تھا، تو اتنا قیمتی فریزر خریدنے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟
وہ سیدھا ڈرائنگ روم میں گیا۔ الماری کھول کر برانڈی کی ایک اور بوتل نکالی۔ اُس کا کاک کھولا اور گلاس میں انڈیلنے کی زحمت گوارا کیے بغیر بوتل منہ سے لگا کر ایک ہی سانس میں نصف خالی کر دی۔
’’بُونی! کیا تمہیں پورا پورا یقین ہے کہ والٹر سے فون پر تمہاری یہی بات چیت ہوئی تھی جو تم نے بیان کی؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔ ’’کوئی چیز رہ تو نہیں گئی؟‘‘
بُونی نے غصّے سے بَل کھا کر فاسٹر کو گھورا۔ ’’گویا تمہیں یہ شک ہے کہ مَیں کوئی بات بھول گئی ہوں یا دانستہ چھپا رہی ہوں۔‘‘
’’نہیں، نہیں! میرا مقصد تم پر شک شبہ ہرگز نہیں ‘‘ فاسٹر نے گھبراتے ہوئے کہا۔
’’مَیں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ رُتھ کو قتل کرنے کے بعد والٹر نے فون پر جو باتیں کیں، اُن میں کوئی ایسی تو نہیں رہ گئی جو تم غیرشعوری طور پر بھول گئی ہو۔‘‘
’’مَیں کچھ نہیں بھول سکتی ہوں۔‘‘ بُونی نے پُرعزم آواز میں کہا۔
’’اور تم یہ بھی یقین سے کہہ سکتی ہو کہ جب یہ واردات ہوئی، تو تم والٹر کے مکان میں موجود نہ تھیں؟‘‘ فاسٹر نے دوسرا سوال کیا۔
’’ہاں! مَیں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ مَیں وہاں ہرگز موجود نہ تھی۔ یہ سب کچھ بعد میں مجھے والٹر نے فون پر بتایا۔‘‘
ڈاکٹر فاسٹر نے گہرا سانس لیا۔ ’’یعنی اِس واردات کی یہ تمام جزئیات بھی تمہیں والٹر نے فون پر بتائیں؟‘‘
بُونی نے جواب دینے میں کچھ تامّل کیا، پھر کہنے لگی ’’والٹر نے مجھے اتنی تفصیلات نہیں بتائی تھیں، لیکن مَیں اپنے طور پر جانتی تھی کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔‘‘
’’یہ بھی تو ممکن ہے کہ جب تم والٹر سے فون پر گفتگو کے بعد اُس مکان پر گئیں، تب یہ تفصیلات اُس نے تمہیں بتائی ہوں۔‘‘
بُونی خاموش رہی۔ آخر اُس نے کہا:
’’میرا خیال ہے اِس بحث سے پہلے تمہیں پوری کہانی سُن لینی چاہیے۔ تم کیسے احمق ڈاکٹر ہو جو اَدُھورے واقعات سے ایک نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہو۔
مجھے تو تم بھی اچھے خاصے پاگل نظر آتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسی اور ڈاکٹر فاسٹر نے رومال سے اپنا چہرہ پونچھا۔
’’مَیں سمجھ رہا تھا کہ شاید تمہاری کہانی ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اُس نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہاں! بتاؤ کہ آگے کیا ہوا تھا؟‘‘
’’پہلے تم مجھ سے معذرت کرو۔‘‘ بُونی نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔
’’اور یہ وعدہ بھی کرنا پڑے گا کہ جب تک مَیں ساری کہانی سنا نہیں دیتی، تم اینڈے بینڈے سوال نہیں کرو گے اور نہ غلط سلط نتائج اخذ کرنے کی طرف توجہ دو گے۔‘‘
’’مَیں معذرت کرتا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے وعدہ کیا۔ بُونی خوش ہو گئی۔ تھوڑی دیر تک وہ دِیوار کو گھورتی رہی اور پھر اُس نے کہانی جہاں سے چھوڑی تھی، اُس سے آگے شروع کی۔
فاسٹر کے ذہن میں اُس کی جو تصویر بن رہی تھی، وہ کچھ یوں تھی۔
اپنی بیوی کے گوشت اور ہڈیوں کا ڈھیر پلاسٹک کے لفافوں میں ڈیپ فریزر کے اندر بند کرنے کے بعد تہ خانے کی صفائی کے کام نے والٹر کو جسمانی اور ذہنی طور پر سخت تھکا دیا تھا، چنانچہ نہا دھو کر اور نیا لباس پہن کر اُس نے سب سے پہلے بُونی کو فون کیا۔
پھر یہ سوچ کر کہ بُونی کے آنے میں کچھ دیر ہے، کیوں نہ یہ تھکن دور کر لی جائے۔
اُس نے شراب کی بوتلوں سے بھری الماری میں سے اپنی پسند کی بوتل نکالی اور مسلسل پیتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد اُس کے اعصاب پُرسکون ہو گئے۔
اُسے محسوس ہونے لگا کہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ وہ آپ ہی آپ مستقبل کے حسین اور شاندار تصوّر میں کھو کر مسکراتا رہا۔
دفعتاً اُس کے کانوں میں ایک ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص بیرونی دروازہ تھپتھپا رہا ہو۔ وہ چونک پڑا۔
اُس نے سمجھا شاید بُونی آ گئی ہے، مگر دروازہ کھلا تھا۔
بُونی کو دروازہ تھپتھپانے کی ضرورت نہ تھی۔ والٹر نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر مے نوشی میں مشغول ہو گیا۔ یکایک وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔
اِس مرتبہ یہ اتنی واضح اور نمایاں تھی کہ وہ صوفے پر بیٹھا بیٹھا اچھل پڑا۔
ضرور کوئی شخص مکان میں موجود ہے۔ اِس تصوّر ہی سے والٹر کا کلیجہ بیٹھ گیا۔
اُس نے گلاس تپائی پر رکھ دیا اور کان اُسی آواز کی طرف لگا دیے جو باورچی خانے کی جانب سے آئی تھی۔
حددرجہ دہشت زدہ ہو کر اُس نے باورچی خانے کی طرف نظر جما دی ۔
تیسری بار بھی اُس نے وہی آواز سنی۔ اب شک و شبہے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔
وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’یہ کون بدمعاش مکان میں آن گھسا؟‘‘ اُس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
لیکن کوشش کے باوجود باورچی خانے کی طرف یک لخت قدم نہ بڑھا سکا۔
سارے مکان میں خوفناک سناٹا طاری تھا۔ والٹر کچھ دیر صوفے کے قریب کھڑا چوتھی مرتبہ یہ پُراسرار آواز سننے کی کوشش کر رہا تھا۔
اِس حالت میں کھڑے کھڑے دس منٹ گزر گئے، وہ آواز سنائی نہ دی۔
تب وہ کچھ مطمئن ہوا۔ شاید یہ میرا وَہم ہی ہے۔مَیں غالباً ضرورت سے زیادہ پی گیا ہوں۔
اُس نے خود کو تسلّی دی اور تپائی پر رکھا ہوا گلاس غیرشعوری طور پر پھر اٹھا لیا، مگر جونہی اُس نے گلاس اپنے ہونٹوں سے لگایا، وہ آواز پھر آئی۔
اِس کے فوراً بعد اُسے یوں لگا جیسے کوئی شے زور سے گری ہو۔ اُس کا دایاں ہاتھ کپکپایا اور گلاس اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ یقیناً اِس مرتبہ یہ آواز باورچی خانے سے نہیں، نیچے تہ خانے سے ابھری تھی۔
اِس احساس کے ساتھ ہی والٹر کی ٹانگیں بھی کانپنے لگیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی شخص تہ خانے میں چھپا ہوا ہے۔
عین ممکن ہے اُس نے ساری کارروائی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہو۔ اگر یہ بات ہے، تو والٹر کا ذہن ماؤف ہو گیا۔
معاً باورچی خانے کا دروازہ تھرتھرایا۔ یہ پہلے کھلا تھا، پھر والٹر کے دیکھتے ہی دیکھتے اِس زور سے بند ہوا جیسے کسی نادیدہ ہاتھ نے اُسے بند کیا ہو۔
والٹر آنکھیں پھاڑے یہ ہوش رُبا تماشا دیکھ رہا تھا۔ چند لمحے بعد دروازہ پھر کھل گیا اور یوں لگا جیسے کوئی چیز باورچی خانے کے ننگے فرش پر لڑھک رہی ہو۔
اِس اثنا میں والٹر کی تمام حسیّات اچھی طرح بیدار ہو چکی تھیں اور شراب کا نشہ بھی ہرن ہو گیا تھا، تاہم اُس میں اپنی جگہ سے جنبش کرنے کی ہمت نہ تھی۔
اور پھر اس نے وہ چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لی۔ یہ گولا تھا۔
اُس کی جسامت انسانی کھوپڑی کے برابر ہو گی۔ والٹر پلک جھپکائے بغیر پتھر کا بت بنا ہوا اُسے لڑھکتے دیکھ رہا تھا۔ وہ پہلے شراب کی بوتلوں سے بھری الماری کی طرف گیا پھر پلٹ کر اُدھر آیا جدھر والٹر کھڑا تھا۔
ایک ہولناک چیخ مار کر وہ پیچھے ہٹا اور صوفے کے بازو سے ٹکرا کر اَوندھے منہ فرش پر گر پڑا۔ اُس کے حلق سے مسلسل چیخیں نکل رہی تھیں۔ یکایک وہ چپ ہو گیا۔
اُس نے گردن گھما کر دیکھا کہ وہ پُراسرار شے پلاسٹک کے لفافے میں لپٹی ہوئی ہے اور اِس طرح کمرے کے فرش پر حرکت کر رہی ہے جیسے وہ زِندہ ہو ۔
والٹر نے جھپٹ کر لکڑی کی تپائی اٹھائی اور پوری قوت سے اُس پر دے ماری۔ تپائی دیوار سے ٹکرائی اور دو ٹکڑے ہو گئی اور پھر اگلے ہی لمحے وہ گول گول متحرک شے وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔
والٹر پاگلوں کی طرح منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے اپنے اردگرد دَیکھ رہا تھا۔ اُس نے کئی بار پلکیں جھپکیں اور گردن جھٹکی، لیکن وہ متحرک گولا غائب ہو چکا تھا۔
ایک ثانیے کے لیے اُسے خیال آیا کہ اُس کے اعصاب عجیب و غریب کھیل، کھیل رہے۔ اُس کی آنکھیں فریبِ نظر کا شکار ہو چکی ہیں۔
اُس کی نظروں کے سامنے تپائی ٹوٹی پڑی تھی اور فرش پر گرا ہوا شیشے کا گلاس اور شراب کی بوتل بھی کرچیوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔
وہ ہانپتے ہوئے اٹھا اور دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ خدا کی پناہ!۔ وہ کیا چیز تھی ؟ اُس نے ذہن پر زور دَے کر یاد کرنا چاہا۔ اِس کے ساتھ ہی اُس کی جیسے حرکتِ قلب بند ہونے لگی ہو۔
’’نہیں ….. !‘‘ وہ ہسٹریائی انداز میں چلّایا۔ ’’ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘
اُسے احساس ہوا کہ وہ گول گول متحرّک شے دراصل رُتھ کا کٹا ہوا سر تھا جسے اُس نے چُورا چُورا کرنے کے بجائے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کر فریزر میں پھینک دیا تھا۔
اِس سے آگے وہ کچھ اور نہ سوچ پایا۔ اُس کے ذہن کی طنابیں ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں اور جسم کا خون کھنچ کر چہرے پر جمع ہو گیا تھا۔
والٹر نے جو کچھ دیکھا تھا، اُسے جھٹلانے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا اور وُہ یہ کہ وہ تہہ خانے میں جائے اور فریزر کا ڈھکنا اٹھا کر دیکھے کہ رُتھ کا کٹا ہوا سر اُس میں موجود ہے یا نہیں۔
اگر سر ڈیپ فریزر میں پایا گیا، تو اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ محض فریبِ نظر کا شکار ہوا ہے لیکن دوسری صورت میں یعنی رُتھ کا سر فریزر میں موجود نہ ہوا، تب؟
اِس خیال ہی نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دیے اور تہہ خانے میں جانا اُس کے لیے دنیا کا دشوار ترین مرحلہ ہو گیا۔
خاصی دیر اُس کے دل و دماغ میں کشمکش برپا رہی، تاہم وہ ہمت کر کے اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا باورچی خانے کی طرف چلا۔ باورچی خانے کا دروازہ ابھی تک کھلا تھا۔
اُس نے خوف زدہ نگاہوں سے باورچی خانے میں جھانکا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید رُتھ کا کٹا ہوا سر وہیں چھپا ہو گا، لیکن وہاں کچھ نہ تھا۔
اُسے خاصا حوصلہ ملا، مگر دوسرے ہی لمحے اُس کی ٹانگیں پھر کانپنے لگیں۔
باورچی خانے سے تہ خانے کی طرف جانے والے راستے پر تازہ تازہ خون کی ایک پتلی لمبی سی لکیر صاف نظر آ رہی تھی اور یہ اِس حقیقت کی علامت تھی کہ کوئی خون آلود چیز اُس طرف لڑھکتی ہوئی ضرور گئی ہے۔
وہ ابھی اِس خونیں لکیر کو گھور ہی رہا تھا کہ وہی آواز پھر اُبھری جو اُس نے پہلی بار سنی تھی۔ والٹر نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ تہ خانے کا دروازہ کھلا تھا۔ حالانکہ صفائی کرنے کے بعد اوپر آتے ہوئے یہ دروازہ اُس نے خود بند کیا تھا۔ یہ دروازہ کس نے کھولا؟
ضرور کوئی شخص وہاں گیا ہے اور یہ ساری حرکتیں اُس کی ہیں۔ والٹر کا خون جو تھوڑی دیر پہلے سرد پڑا ہوا تھا، ایکاایکی اِس تصوّر سے گرم ہونے لگا کہ کوئی چالاک شخص اُسے احمق بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ لپک کر تہہ خانے کے دروازے پر گیا اور سیڑھیاں اترنے سے پہلے اُس نے زور سے کہا:
’’کون ہے اندر؟‘‘
کوئی جواب نہ آیا۔ والٹر کو پھر تشویش ہونے لگی۔ اُس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور آواز میں کپکپاہٹ اُسے خود محسوس ہو رہی تھی۔
’’کون ہے اندر؟‘‘ اِس مرتبہ اُس کی آواز بلند ہونے کے بجائے گُھٹی گُھٹی سی تھی۔ ’’جو کوئی بھی اندر چھپا ہے، فوراً باہر آ جائے، ورنہ مَیں گولی چلا دوں گا۔‘‘
اِس مرتبہ جواب میں اُس نے تہ خانے کے اندر عجیب سی ہلچل کی آواز سنی۔ اگرچہ بےحد مدھّم تھی، تاہم اُس کے کانوں تک پہنچ ہی گئی۔
یوں لگا جیسے کوئی شے آہستہ سے سیڑھیوں سے لڑھکتی ہوئی نیچے جا رہی ہو ۔
اس نے دھڑکتے دل سے تہ خانے کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور چند ثانیے بعد دوسری پر، پھر وہ تیسری سیڑھی اترا اَور اُس کے بعد چوتھی …..
اُس پُراسرار شے کے حرکت کرنے کی مدھّم مدھّم آواز اب بھی اُسے صاف سنائی دیتی تھی۔
والٹر نے جونہی تہہ خانے کی آخری سیڑھی پر پاؤں رکھا، یہ آواز تھم گئی۔ تہہ خانے میں گھپ اندھیرا تھا۔ والٹر کو کچھ نظر نہ آیا۔ اُسے یاد آیا کہ واپسی میں وہ بلب بھی بجھا کر آیا تھا۔ اُس نے اندھیرے میں کپکپاتی انگلیوں سے بلب کا بٹن تلاش کرنا چاہا، مگر ناکام رہا۔
وہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور دِیوار پر اندھوں کی طرح بٹن ٹٹولنے لگا۔ دفعتاً اُس کی انگلیوں نے بٹن چھو لیا اور پھر تہ خانے میں روشنی ہو گئی۔
والٹر کی جان میں جان آئی۔ البتہ خوف کی وہ کیفیت جو اُس پر ہر لمحہ حاوی ہو رہی تھی، اُس میں کوئی کمی واقع نہ ہو سکی۔
دہشت زدہ نظروں سے اُس نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ ہر شے اپنی جگہ موجود تھی اور وہاں قطعاً ایسے آثار نہ تھے کہ یہاں کوئی آیا ہے۔
اُس نے بڑی مشکل سے تہ خانے میں قدم رکھا اور پھر اُس کے کانوں میں ٹین کے ڈبوں اور گتّے کے کارٹنوں کے کھڑکھڑانے کی آواز آئی۔
ضرور کوئی شخص اُن کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور اَیسا نہ ہو کہ وہ ایک دم اُس پر ہلّہ بول دے، اِس لیے والٹر کا دوسرا بڑھا ہوا قدم واپس اپنی جگہ آ گیا۔
’’مَیں آخری بار وَارننگ دیتا ہوں کہ جو کوئی بھی تہ خانے میں چھپا ہوا ہے، باہر آ جائے۔‘‘
والٹر نے آواز لگائی، مگر اُسے اِس آواز پر خود ہی شرم آ گئی۔ یہ آواز اُس کی اپنی تو نہ تھی …..
یہ ایسے شخص کی آواز تھی جو خوف سے تھرتھر کانپ رہا ہو۔ والٹر کی اِس پکار کا کوئی جواب نہ آیا۔
البتہ ڈبوں کی کھڑکھڑاہٹ تھم گئی۔
اس نے چند لمحے اپنا پُھولا ہوا سانس درست کرنے میں لگائے اور پھر دوسرا قدم بڑھایا۔
تہ خانے میں اب موت کی سی خاموشی طاری تھی اور وَالٹر صرف اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز ہی سن رہا تھا۔ اُس نے تیسرا قدم بڑھانے سے پیشتر کچھ سننے کے لیے کان لگائے، مگر وہاں فی الواقع کوئی ہلکی سی آواز بھی نہ تھی۔
معاً اُس کے زُدو حِس کانوں میں ایک ہلکی ،گونج دار،سیٹی نما مسلسل آواز آئی۔ وہ چوکنّا ہو گیا۔ بےشک یہ آواز تہ خانے سے اُبھر رہی تھی۔
اس نے مشکوک نظروں سے ہر چیز کا جائزہ لیا اور آخر میں اُس کی نگاہیں ڈیپ فریزر پر جا کر رک گئیں۔
یہ پُراسرار آواز اُسی ڈیپ فریزیر کی طرف سے آ رہی تھی۔
والٹر نے دوبارہ اِطمینان کا سانس لیا۔ ڈیپ فریزر کی موٹر چل رہی تھی اور یہ اُسی کی آواز تھی۔
اُس نے دھلے ہوئے فرش کا جائزہ لیا۔ فرش خشک ہو چکا تھا اور اُس پر کسی قسم کے داغ دھبے کا نشان نہ تھا۔ تہ خانے میں ڈیپ فریزر کی آواز مسلسل گونج رہی تھی اور وَالٹر محسوس کر رہا تھا کہ یہ آواز لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جا رہی ہے حتیٰ کہ اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
یہ آواز اس کی کھوپڑی میں جیسے سوراخ کیے دے رہی تھی۔ اُس کی نگاہیں اب ڈیپ فریزر پر جمی ہوئی تھیں جس کا ڈھکنا آہستہ آہستہ ، اوپر اُٹھ رہا تھا۔
والٹر کے بدن کا خون جیسے نُچڑ گیا تھا۔ اُسے ہر لحظہ اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رَہا تھا۔ اُس کی نظریں ڈیپ فریزر پر جمی تھیں اور ڈیپ فریزر کا ڈھکنا خود بخود اُٹھتے ہوئے اُس نے دیکھا تھا۔
بےشک یہ فریبِ نظر ہرگز نہیں تھا۔ تہ خانے میں سیٹی کی طرح گونجنے والی آواز اب والٹر کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔
اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا تھا، لیکن کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ اُس کا چہرہ پسینے میں بھیگ چکا تھا۔ دل اِس طرح دھک دھک کر رہا تھا جیسے ابھی اچھل کر سینے سے باہر آن پڑے گا۔
پھر اُس کا جسم خشک پتّے کی مانند تھرتھر کانپنے لگا۔ اُس نے مڑ کر تہہ خانے سے بھاگنا چاہا، مگر تہہ خانے کے فرش نے اُس کے پاؤں جکڑ لیے تھے۔
کوئی انجانی، اَن دیکھی قوت اُسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ تہہ خانے میں اٹھنے والی آواز اب ایک ہولناک ….. مسلسل ….. چیخ میں بدل گئی۔ اِس آواز نے والٹر کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیت ختم کر ڈالی تھی۔ یہ آواز ہر صورت میں رکنی چاہیے۔
اپنے بدن کی رہی سہی قوت جمع کر کے اُس نے ڈیپ فریزر کی طر ف قدم بڑھا دیا۔
آواز یقیناً اُسی کے اندر سے آ رہی تھی اور اُسے ختم کرنے کا یہی طریقہ تھا کہ ڈیپ فریزر کا کنکشن منقطع کر دیا جائے اور پھر اُس نے دوبارہ دَیکھا کہ ڈیپ فریزر کا ڈھکنا تھرتھرا کر اُوپر اٹھ رہا ہے …..
لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ اُسے خوب یاد تھا کہ رُتھ کی لاش کے ٹکڑے پلاسٹک کے لفافوں میں بند کر کے اُس نے فریزر میں ڈالے تھے اور بعدازاں فریزر کا ڈھکنا بند کر کے اُسے مقفل کر دیا تھا
پھر یہ کیسے کھل گیا۔ والٹر کے پاس اِس سوال کا جواب نہ تھا۔
اُس نے گردن کو زوردار جھٹکا دیا اور یہ طے کر کے خود کو تسلّی دینا چاہی کہ شاید وہ اِسے لاک کرنا بھول گیا ہو گا اور فریزر کی اندرونی ہوا کے دباؤ سے اِس کا ڈھکنا کھل گیا ہے۔
اپنے اِس تصوّر سے اُسے کچھ اطمینان ہوا۔ مزید تین چار قدم بڑھا کر وہ فریزر کے نزدیک پہنچ گیا اور یہ دیکھ کر اُسے واقعی خوف آمیز تعجب ہوا کہ فریزر کا ڈھکنا تھوڑا سا کھلا ہوا ہے ۔
یہ بھیانک آواز جس نے اُس کے اعصاب ریزہ رَیزہ کر دیے تھے، اُسی کے اندر سے اُٹھ رہی تھی۔ کسی نامعلوم اور اِنتہائی شدید جذبے سے مغلوب ہو کر والٹر نے اُٹھے ہوئے ڈھکنے میں سے فریزر کے اندر جھانکا۔ پہلی نظر میں اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔
اُس نے ہاتھ آگے کر کے فریزر کا ڈھکنا قدرے اوپر اٹھایا اور گردن جھکا کر اُس کے اندر غور سے دیکھا۔ یکایک اُس کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور وُہ اُچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔
فریزر کے اندر سے ایک انسانی ہاتھ نے والٹر کو پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ والٹر بری طرح ہانپ رہا تھا۔
اُس نے کھلی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک انسانی ہاتھ ….. اُس کی بیوی رُتھ کا ….. حرکت کرتا ہوا فریزر سے باہر آ رہا تھا۔
والٹر نے پاگلوں کی طرح چلّاتے ہوئے فریزر کا ڈھکنا بند کرنا چاہا، لیکن بجلی کی طرح تڑپ کر اُس ہاتھ نے والٹر کی گردن دبوچ لی۔
پنجے کی انگلیوں کے لمبے لمبے تراشیدہ، نوکیلے ناخن اس کی گردن میں سوئیوں کی طرح گھستے جا رہے تھے اور گردن سے خون کی پتلی پتلی دھاریں فواروں کی طرح اچھل رہی تھیں۔
والٹر مجنونانہ جدوجہد کر کے خود کو اُس پنجے سے چھڑانے کے لیے زور لگا رہا تھا، مگر پنجے کی گرفت لمحہ بہ لمحہ مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اُس کی آنکھیں اپنے حلقوں سے باہر ابل رہی ہیں، سانس رک گیا ہے اور اُس کا سینہ حبسِ دم سے بس شق ہونے ہی والا ہے۔
چند ثانیے قبل اُس کے حلق سے جو گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں، وہ اَب مدھم غرّاہٹوں میں بدل چکی تھیں اور اُس کی تمام قوتِ مدافعت دم توڑ رہی تھی۔
اُس نے خود کو اِس پُراسرار خونیں پنجے کی گرفت سے آزاد کرانے کی آخری کوشش کی، مگر یہ کوشش بھی ناکام رہی۔
اسے یوں لگا جیسے اُس کی شہ رگ کٹ گئی ہے۔ اپنے ہی بدن سے نکلے ہوئے گرم گرم خون کے چھینٹے اُس کے منہ پر پڑ رہے تھے۔
اُس نے منہ کھول کر آخری سانس لینا چاہا، لیکن یہ کوشش بھی رائیگاں گئی۔
رُتھ کا پنجہ آہستہ آہستہ اُسے فریزر کے اندر کھینچ رہا تھا۔
فریزر کا ڈھکنا آپ ہی آپ پورا کھل گیا اور وَالٹر ایک تنکے کی طرح کھنچتا ہوا فریزر کے اندر سما رہا تھا۔
پہلے اُس کا سر فریزر میں گیا، پھر سینہ، اُس کے بعد نچلا دھڑ اور آخر میں دونوں ٹانگیں جو بری طرح تھرتھرا رَہی تھیں۔
والٹر کو مرنے سے پہلے جو بات یاد آئی، وہ یہ تھی کہ جس ہاتھ نے اُسے پکڑ کر فریزر میں گھسیٹا تھا، اُس ہاتھ کی کلائی میں سنہری کنگن پڑا تھا جس کی شکل ایک سانپ کی سی تھی۔
’’مَیں نے اپنی زندگی میں اِس سے زیادہ حیرت خیز کہانی نہیں سنی۔‘‘
ڈاکٹر فاسٹر نے مسکراتے ہوئے بُونی سے کہا۔
اگرچہ وہ مسکرا رَہا تھا لیکن اپنے دل میں فاسٹر کو بخوبی احساس تھا کہ اُس کی یہ مسکراہٹ محض ظاہرداری ہے۔
وہ بُونی پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اُسے اِس ہولناک داستان سے ذرا ڈر نہیں لگا۔ یہ اور بات کہ اِس دوران میں شدید سردی کے باوجود ڈاکٹر فاسٹر کی کمر پسینے میں بھیگ چکی تھی۔
اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ڈیپ فریزر کے اندر وَالٹر نہیں گیا، بلکہ وہ خود اِس حادثے سے دوچار ہوا ہے۔ بُونی اُسے نفرت آمیز نگاہوں سے گھور رَہی تھی۔
اُسے فاسٹر کا یہ جملہ پسند نہیں آیا تھا، تاہم وہ چپ رہی۔ تھوڑی دیر بعد فاسٹر نے کہا:
’’اب مَیں کہہ سکتا ہوں کہ پولیس نے تمہاری کہانی پر یقین کیوں نہیں کیا ہو گا۔ پولیس والے سائنٹیفک لوگ ہوتے ہیں۔ وہ مافوق الفطرت واقعات پر یقین نہیں رکھتے۔
اُن کی سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ ایک کٹا ہوا زنانہ ہاتھ ….. والٹر جیسے قوّی ہیکل مرد کو گھسیٹ کر ڈیپ فریزر میں کیسے لے جا سکتا ہے۔‘‘
بُونی نے یہ تبصرہ جیسے سنا ہی نہیں۔ وہ مسلسل اپنے سامنے دیوار پر کوئی غیرمرئی چیز دیکھ رہی تھی۔
’’بہرحال مَیں تمہارا ممنون ہوں کہ تم نے یہ تمام واقعات مجھے تفصیل سے بتائے۔‘‘ فاسٹر بولتا رہا۔
’’میرا خیال ہے پولیس والے بھی اپنی جگہ سچے ہیں، اگر اُنھوں نے اِن محیّرالعقول واقعات پر یقین نہیں کیا، تو اِس میں اُن بےچاروں کا کوئی قصور نہیں۔
وہ کہتے ہوں گے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ….. تاہم مَیں تمہیں جھٹلانا نہیں چاہتا، اِس لیے کہ مَیں ایک نفسیاتی معالج ہوں اور جانتا ہوں کہ بعض لوگ واقعات کو ایک خاص نظر سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
میرا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں جو واقعہ یا حادثہ جس شکل میں رونما ہوا ہو، اُسے اُسی طرح بیان کر دیا جائے۔ ہر واقعے کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور جو اَفراد اُس سے متعلق ہوتے ہیں۔
اُن کی ایک خاص ذہنی کیفیت ہوتی ہے جس کے زیرِاثر وہ اُسے اپنی نگاہ سے دیکھتے اور اَپنے ذہن سے سوچتے ہیں۔ یہ نہایت مشکل اور کٹھن معاملہ ہے۔ ظاہر ہے اِسے پولیس والے نہیں جان سکتے۔‘‘
بُونی اب بھی خاموش رہی۔ اُس کے اِس رویّے سے ڈاکٹر کو یہ اندازہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئی کہ وہ اُس کی باتیں سن ہی نہیں رہی۔
فاسٹر نے مضطرب ہو کر شانے اچکائے اور اَپنے عقب میں کھڑے رینالڈس کو بےبسی سے دیکھا۔ رینالڈس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ ابھر رہی تھی۔ اُس نے کہا:
’’ڈاکٹر فاسٹر! ابھی آپ نے مکمل کہانی نہیں سنی ….. بہتر یہ ہے کہ بُونی کو اَپنی کہانی پایۂ تکمیل تک پہنچا لینے دیجیے۔‘‘
فاسٹر کے چہرے پر پشیمانی کی علامات نمودار ہوئیں۔ اُس نے کھسیانے لہجے میں کہا:
’’اچھا! ابھی کہانی کا کچھ حصّہ باقی ہے؟ مَیں تو سمجھ رہا تھا کہ …..‘‘ اُس نے جملہ نامکمل چھوڑ کر بُونی کی طرف دیکھا اور قدرے گردن آگے بڑھا کر معذرت خواہانہ آواز میں کہنے لگا
’’معاف کرنا ….. مَیں نے وعدہ خلافی کی اور تمہیں درمیان میں ٹوک دیا۔مہربانی کر کے آگے بیان کرو، کیا ہوا؟ مَیں ہمہ تن گوش ہوں اور وَعدہ کرتا ہوں کہ اختتام تک نہیں بولوں گا۔‘‘
بُونی نے جیسے فاسٹر کی بات سنی ہی نہیں۔ پتھر کے بےجان بت کی طرح وہ بےحس و حرکت بیٹھی دیوار کو تکتی رہی۔ فاسٹر نہایت صبر سے انتظار کر رہا تھا۔ دو تین منٹ انتظار کرنے کے بعد بھی جب بُونی نے فاسٹر کی طرف توجہ نہ دی، تو وہ کہنے لگا:
’’سنو لڑکی! اگر تم خاموش ہی رہنا چاہتی ہو، تو مَیں تمہیں بولنے پر مجبور نہیں کروں گا۔ تم نے ابتدا میں مجھے یقین دلایا تھا کہ اِس کہانی کی صداقت کا ’ثبوت‘ بھی تمہارے پاس موجود ہے۔
تم یہ ثبوت دے سکو، تو اَچھی بات ہے۔ پھر مَیں تمہیں یہاں سے نکال کر باہر لے جانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ مَیں پولیس کو بتا سکوں گا کہ تمہاری کہانی سچی ہے۔‘‘
بُونی کے بےحس و حرکت بدن میں جان پڑ گئی۔ اُس نے اپنی پلکیں جلدی جلدی جھپکیں، گہری آہ بھری اور بولی:
’’مَیں نے یہ کب کہا ہے کہ تم مجھے یہاں سے نکال کر کہیں لے جاؤ؟ مجھے اِس بات کی بھی پروا نہیں کہ پولیس والے کیا سوچتے ہیں اور ڈاکٹروں کی میرے بارے میں کیا رائے ہے۔
میرے نزدیک یہ سب لوگ ایک جیسے ہیں ۔مَیں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھے جھوٹا نہ سمجھو۔ تم مجھے اچھے آدمی نظر آتے ہو۔‘‘
بُونی نے اپنی کار مکان کے پچھلے حصّے کی طرف کھڑی کی۔ سامنے ہی دروازہ نظر آ رہا تھا۔ یہ دروازہ وَالٹر کے مکان کے عقبی حصّے میں بنا ہوا تھا۔
بُونی نے کار کی بڑی بتیاں بجھا دیں اور اِنجن بند کر دیا۔ وہ فوراً ہی کار سے نیچے نہیں اتری، بلکہ محتاط نظروں سے گرد و پیش کا جائزہ لیتی رہی۔ وہاں کوئی ذی روح نہ تھا۔
اُس نے آہستہ سے کار کا دروازہ کھولا اور باہر نکل آئی۔ ایک بار پھر اُس نے اردگرد دَیکھا اور مطمئن ہو کر دروازے کی طرف بڑھی۔ دروازہ مقفّل نہیں تھا۔
اُس نے انگلی کی مدد سے دروازے کو دھکیلا، دروازہ کوئی آہٹ پیدا کیے بغیر کھل گیا۔ بُونی نے دروازے میں قدم رکھا اور آہستہ سے مڑ کر دروازہ بند کر دیا۔
اُس نے خود کو ایک پتلی سی تاریک راہداری میں پایا۔ وہاں رُک کر اُس نے مکان کے اندر کوئی آواز، کوئی آہٹ سننے کی کوشش کی، مگر بےسود۔
مکان کے اندر سنّاٹا تھا۔ دو تین قدم آگے بڑھ کر اُس نے مدھم آواز میں والٹر کو نام لے کر پکارا۔ کوئی جواب نہ آیا۔
بُونی نے چند لمحے توقّف کے بعد ذرا زور سے آواز دی۔ ’’والٹر، کہاں ہو تم؟‘‘
اُسے اِس مرتبہ بھی کوئی جواب نہ ملا۔ راہداری طے کر کے وہ باورچی خانے میں داخل ہوئی۔ باورچی خانے کا دروازہ بھی چوپٹ کھلا تھا۔ اُس نے بڑھ کر باورچی خانے میں جھانکا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔
لحظہ بہ لحظہ اُس کی حیرت اور تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک مرتبہ پھر اُس نے والٹر کو آواز دی، مگر اُس کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا۔
بُونی کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ وہ وَہیں رک کر سوچنے لگی کہ والٹر کہاں گیا۔ کیا وہ مکان میں موجود نہیں؟ ہو سکتا ہے وہ رُتھ کی لاش کسی نامعلوم سبب سے ٹھکانے لگانے کہیں گیا ہو۔
ممکن ہے اُس نے اِس مقصد کے لیے ڈیپ فریزر کو اِستعمال کرنا مناسب نہ جانا ہو، مگر اُسے بہرحال بُونی کی آمد تک تو مکان کے اندر موجود رَہنا چاہیے تھا۔
اُن کے مابین یہی طے ہوا تھا۔ پھر والٹر کہاں غارت ہو گیا؟ بُونی کو اب اُس پر غصّہ آنے لگا۔
دفعتاً اُس کی نگاہ تہ خانے کو جانے والی سیڑھیوں پر پڑی۔ ہلکی سی مسکراہٹ آپ ہی آپ اُس کے لبوں پر آ گئی۔ اُس نے اطمینان کا گہرا سانس لیا۔
والٹر یقیناً تہ خانے میں ہو گا، اِس لیے بُونی کی آواز اُس کے کانوں تک نہیں پہنچ پائی۔ بُونی نے تہہ خانے کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا، مگر فوراً ہی قدم پیچھے ہٹا لیا۔
نہ جانے کیوں اُسے تہ خانے میں جاتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اُس نے دل میں کہا اگر والٹر نے رُتھ کو ٹھکانے لگا کر لاش فریزر میں بند کر دی ہے، تو اب وہ وہاں نہیں ہو گا۔
وہ مکان ہی میں کہیں ہے۔ دوبارہ باورچی خانے کی طرف آتے ہوئے اُس نے پھر آواز دی۔
والٹر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کاش! بُونی کو اندازہ ہوتا کہ والٹر اُس وقت جواب دینے کی پوزیشن ہی میں نہ تھا۔
بُونی غصّے سے بھنّاتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ اُسے یقین تھا کہ والٹر وہیں شراب کے نشے میں دھت، بےسُدھ پڑا خرّاٹے لے رہا ہو گا، لیکن یہ دیکھ کر اُس کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب اُس نے ڈرائنگ روم بالکل خالی پایا۔ وہ وہاں بھی نہ تھا۔
یکایک بُونی کی نگاہ ڈرائنگ روم کے فرش پر پڑی۔ لکڑی کی ایک ٹوٹی ہوئی تپائی مشروبات کی الماری کے قریب پڑی تھی اور قالین پر شیشے کے گلاس اور مشروب کی بوتل کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔
بُونی چند لمحے آنکھیں پھاڑے اُن کرچیوں کو تکتی رہی، پھر اُس نے بڑھ کر کمرے کا گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ ضرور یہاں دھینگامشتی ہوئی ہے۔
پھر اُس نے جھک کر قالین پر انگلی جمائی۔ بوتل سے گرے ہوئے مشروب کا گیلا داغ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ بُونی کی انگلی جب مشروب کی نمی سے تر ہوئی، تو اُس نے اپنی انگلی سونگھی ۔
اُسے یقین ہو گیا کہ والٹر یہاں بیٹھ کر برانڈی پیتا رہا ہے، لیکن وہ کدھر گیا؟ اور یہ تپائی کس نے توڑی؟ ممکن ہے رُتھ کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی ہو۔
ابھی وہ وَہیں کھڑی اِن پُراسرار حالات پر غور کرنے اور اِنھیں سلجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اُس کے کانوں میں باورچی خانے کی طرف سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی ہلکی سی چیز نیچے گری ہو۔ بُونی چونک کر اُدھر دیکھنے لگی۔
اُسے احساس ہوا کہ اب تک والٹر تہ خانے ہی میں تھا اور اَب وہ یقیناً باورچی خانے میں آیا ہے۔
بُونی ڈرائنگ روم سے نکل کر باورچی خانے کی جانب چلی اور وَہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُس نے والٹر کو آواز دے کر بتانا چاہا کہ وہ آ چکی ہے۔
لیکن باورچی خانہ تو پہلے کی طرح خالی پڑا تھا۔ والٹر وہاں نہیں تھا۔ بُونی پریشان ہو کر باورچی خانے کے کونوں کھدروں میں یوں جھانکنے لگی جیسے والٹر کو نہیں، کسی چوہے کو ڈھونڈ رہی ہو۔ اُسے یاد آیا کہ جو آواز اُس نے چند لمحے پہلے سنی تھی، اُس میں کوئی دھوکا نہیں ہو سکتا تھا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ والٹر ضرور تہ خانے ہی میں ہے۔ بُونی نے ایک بار پھر نیچے کی طرف جانے والی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ سیڑھیوں میں روشنی ہو رہی تھی۔
تہ خانے کے دروازے کے اوپر ننھا سا بلب جل رہا تھا۔ دفعتاً اُس نے دوبارہ پھر ویسی ہی آواز سنی۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی شخص وہاں موجود ہے اور چیزیں اِدھر سے اُدھر کر رہا ہے۔ اُن آوازوں میں گتّے کے ڈبّوں کو سرکائے جانے کی آواز نمایاں تھی۔
’’ کہاں ہو تم؟ مَیں آوازیں دیتے دیتے تھک گئی ہوں اور تم جواب ہی نہیں دیتے۔‘‘
بُونی نے دروازے پر کھڑے کھڑے زور سے کہا۔
کوئی جواب نہ ملا۔ بُونی نے چند سیکنڈ انتظار کیا۔ ایک بار پھر تہ خانے میں سے کاغذوں کے ہٹائے جانے کی آواز آئی۔
’’ بُونی بےصبری سے چلّائی۔ ’’یہ کیا بےہودہ مذاق ہے۔ اگر تم تہ خانے میں ہو، تو بولتے کیوں نہیں؟‘‘
بُونی کی چیختی ہوئی آواز تہ خانے میں گونجی اور ختم ہو گئی۔ والٹر نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ بُونی کو اُس کے اِس رویّے پر غصّے کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی۔
ایسے نازک موقع پر ایسا بھیانک مذاق؟اُسے والٹر سے یہ امید ہرگز نہ تھی۔
بلاشبہ اس کی عادت مذاق کرنے کی تھی، لیکن ایسا بھی کیا مذاق جس سے دوسرا ہلکان ہو جائے۔
ابھی بُونی نے تہ خانے کا دروازہ عبور کر کے اندر قدم نہیں رکھا تھا کہ اُس کے کانوں میں ایک نرالی آواز آئی۔ ہلکی سی گونج، مسلسل آواز ۔ سیٹی کی طرح ۔ ایک ہی انداز میں۔
رفتہ رفتہ یہ آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ بُونی کو مزید حیرت ہوئی۔ شاید اِس آواز کی وجہ سے والٹر اُس کی پکار نہیں سن پایا۔ ضرور یہی بات ہے۔
بُونی نے تہ خانے کا دروازہ جلدی سے کھول دیا۔ اندر سے انسانی خون کی سی بساند اُس کے نتھنوں میں گھس گئی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ پہلی نظر میں اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔
تہ خانے میں اندھیرا تھا اور اَگرچہ باہر سیڑھیوں میں بلب روشن تھا، تاہم اُس کی روشنی چاروں گوشوں تک برابر نہیں پہنچ رہی تھی۔ آپ ہی آپ کسی اَن جانے جذبے کے تحت اُس پر خوف کی کیفیت طاری ہونے لگی۔ اُس نے اِس خوف سے نجات پانے کے لیے پھر زور سے والٹر کو آواز دی۔
’’ دیکھو مَیں آ گئی ہوں۔ اب یہ مذاق ختم کرو۔ مَیں سمجھتی ہوں تم کسی ڈبے کے پیچھے چھپے ہوئے ہو؟‘‘
جس وقت یہ جملہ بُونی کے منہ سے نکلا، اُسی وقت تہ خانے کے پرلے گوشے سے کسی کاغذ کے پھڑپھڑانے اور سرسرانے کی سی آواز آئی۔ بُونی کچھ اور آگے بڑھی۔
اُسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ والٹر تہ خانے میں چھپا ہوا ہے اور دَانستہ اُسے پریشان کر رہا ہے، لیکن بُونی کو یہ مذاق قطعی پسند نہیں آیا تھا۔
تہ خانے کے درمیان پہنچ کر وہ غیرشعوری طور پر رُک گئی۔ وہ پُراسرار گونج دار آواز اتنی تیز ہو گئی تھی کہ بُونی نے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
اُسے احساس ہوا کہ یہ آواز ڈیپ فریزر کی مشین میں سے اٹھ رہی ہے اور ضرور اِس میں کوئی خرابی پیدا ہو چکی ہے، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ والٹر اِس عالم میں بھی مذاق پر تُلا ہوا تھا۔
کیا اُس کے کانوں تک یہ بھیانک آواز نہیں پہنچ رہی تھی؟
بُونی کو ہمیشہ والٹر کی اِنہی حرکتوں پر طیش آیا کرتا تھا۔ یہ مانا کہ وہ بےحد جی دار اَور نڈر شخص ہے، لیکن جی داری کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ وہ ایک عورت ، اپنی محبوبہ کو یوں پریشان کرے۔
’’ اگر تم نے میری بات کا جواب نہ دیا، تو مَیں واپس چلی جاؤں گی۔‘‘
بُونی نے بلند آواز میں اُسے متنبہ کیا۔ ’’ہمارے پاس وقت بالکل نہیں ہے ۔ ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ پہلے ہی خاصا وقت ضائع ہو چکا ہے۔
مجھے پتا چل چکا ہے کہ تم یہیں کہیں چھپے ہوئے ہو۔ چلو، اب سامنے آ جاؤ ۔
دیکھو، ڈیپ فریزر میں سے کیسی آواز پیدا ہو رہی ہے۔ مہربانی کر کے اِس کا کنکشن کاٹ دو۔
یہ آواز میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ تم سن رہے ہو نا ۔‘‘
بُونی کی اِس لمبی تقریر کا بھی والٹر نے کوئی جواب نہ دیا۔ معاً بُونی کو اِحساس ہوا کہ شاید والٹر تہ خانے میں نہیں۔
ممکن ہے وہ کسی فوری ضرورت کے پیشِ نظر مکان سے باہر چلا گیا ہو اور والٹر کی غیرحاضری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کوئی اجنبی، چور اُچکّا مکان میں گھس آیا ہو۔
یہ خیال آتے ہی بُونی کے بدن پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ چور کے پاس کوئی خطرناک ہتھیار ہو اَور وُہ اَچانک حملہ کر دے۔
بُونی نے واپس اوپر جانا ہی بہتر سمجھا۔ وہ اُلٹے قدموں تہ خانے سے نکلنے لگی۔ یکایک کچھ فاصلے پر، تہ خانے کے ایک تاریک گوشے میں پھر کھڑبڑ کی سی آواز اُبھری۔
یقیناً وہاں کوئی چھپا ہوا تھا۔ دہشت سے بُونی کی گھگھی بندھ گئی۔ اُس کے پاؤں من من بھر وزنی ہو گئے۔
بلکہ اُسے ایسا لگا جیسے ٹانگوں میں جان ہی نہیں رہی اور وُہ مزید ایک انچ بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
بُونی نے تہ خانے کے اُس گوشے کی طرف نظریں جما کر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ گتیّ کے اَن گنت ڈبوں اور رَدّی اخباروں کے اونچے سے ڈھیر کے پیچھے کون ہے، لیکن اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
تہ خانے میں کسی پُراسرار طریق پر تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔
دفعتاً اُس کی نگاہیں فرش پر پڑی ہوئی ایک چمک دار چیز سے ٹکرائیں۔ پھر اُس نے دیکھا کہ ایک کے بجائے یہ دو چیزیں ہیں۔
اُنھیں دیکھ کر بُونی کا کلیجہ اُچھل کر حلق میں آ گیا اور دِل کی حرکت جیسے بند ہونے لگی۔
اُن میں سے ایک چیز لمبی تیز دھار وَالی چمکیلی چھری تھی اور دُوسرا وَزنی، لوہے کا بنا ہوا اَور اِنتہائی تیز دھار وَالا چاپڑ۔ برقی سرعت سے بُونی کے ذہن میں اِن دونوں چیزوں کی تہہ خانے میں موجودگی کا راز آ گیا۔
اُسے خیال آیا کہ والٹر نے اِنھی دونوں چیزوں کے ذریعے رُتھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈیپ فریزر میں بند کیا ہو گا۔ وہ چند ثانیے اپنی جگہ دم بخود، حواس باختہ کھڑی کانپتی رہی۔
پھر اُس کی نظریں غیرشعوری طور پر ڈیپ فریزر کا جائزہ لینے لگیں۔ ڈیپ فریزر اُس سے کوئی بارہ فٹ کے فاصلے پر تہ خانے کی مغربی اور شمالی دیوار سے ملحقہ گوشے میں پڑا تھا۔
تاریکی میں اُس کا سفید روغن بھی چمکتا نظر آتا تھا۔ بُونی نے دیکھا کہ فریزر کا ڈھکنا کسی قدر کھلا ہوا ہے۔
اُسے والٹر کی بےپروائی اور حماقت پر سخت تاؤ آنے لگا۔ یہ کیا احمق آدمی ہے۔ چھری اور چاپڑ یہیں چھوڑ گیا اور فریزر کا ڈھکنا بھی اچھی طرح بند نہیں کیا۔
چند لمحے پہلے بُونی پر خوف اور دہشت کی جو لہر گزری تھی، وہ اَب شدید ترین غصّے اور نفرت میں بدل رہی تھی۔ اُس نے بڑھ کر بھاری چاپڑ اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا۔
والٹر سے تو وہ بعد میں نمٹے گی، پہلے اُس چور سے دو دو ہاتھ کر لیے جائیں جو تہ خانے میں چھپا ہوا ہے اور بُونی کو یقین ہو چلا تھا کہ کوئی اور ذی روح بھی اُس کے سوا، تہہ خانے میں موجود ہے۔
لیکن جو شے بُونی کے نازک اعصاب پارہ پارہ کیے ڈالتی تھی، وہ تہ خانے میں گونجنے والی آواز تھی۔ یہ آواز ہر قیمت پر بند ہونی چاہیے۔
یہاں پھر اُسے والٹر پر طیش آیا کہ فریزر خریدتے وقت اُس نے اِس کا معائنہ اچھی طرح نہیں کیا اور کمپنی نے ناقص فریزر اُس کے حوالے کر دیا جس کے چلنے کا شور ناقابلِ برداشت ہے۔
تاریکی کچھ اور بڑھ گئی۔ بُونی کے دل میں شدت سے اِس خواہش نے سر اٹھایا کہ تہ خانے سے باہر جانے سے پہلے وہ ڈیپ فریزر میں جھانک کر دیکھے کہ والٹر کی بیوی کس عالم میں ہے،
اگر فریزر وَاقعی صحیح کام کر رہا ہے، تو اَب تک اُس کے لوتھڑے جم کر برف ہو گئے ہوں گے۔
اُس نے آہستہ سے فریزر کی طرف قدم بڑھایا ۔ چاپڑ اُس کے ہاتھ میں تھا۔ تہ خانے کے اُسی گوشے میں پھر کھڑبڑ سی ہوئی تھی۔ اُس کا اُٹھا ہوا دُوسرا پاؤں اِس آواز کے ساتھ وہیں رک گیا۔
’’ کیا تم فریزر کے پیچھے چھپے ہوئے ہو؟‘‘ غیر اختیاری طور پر بُونی کے منہ سے یہ جملہ نہایت نحیف آواز میں نکل گیا۔
حالانکہ اُسے خوب اندازہ تھا کہ والٹر تہ خانے میں نہیں۔ والٹر وہاں ہوتا، تو اب تک ضرور بول پڑتا۔
عین اُسی لمحے تہہ خانے میں ایک زوردار دَھماکا سا ہوا۔ بُونی مارے خوف کے اچھل پڑی اور اُس کے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔
اُس نے دیکھا کہ فریزر کا اُٹھا ہوا بھاری ڈھکنا آپ ہی آپ زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گیا تھا۔
ایک ثانیے کے اندر اَندر بُونی کو یہ احساس بھی ہوا کہ فریزر کا ڈھکنا اِس طرح بند ہوا تھا جیسے کسی نادیدہ طاقت نے اُسے بند کیا ہو۔ بُونی نے ہمت سے کام لے کر فریزر کی طرف رُکا ہوا، دوسرا قدم بھی بڑھا دیا۔
کوئی اَنجانی، اَن دیکھی قوت اُسے فریزر کی طرف دھکیل رہی تھی۔
بُونی نے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا چاپڑ فضا میں یوں اٹھایا جیسے وہ وَقت ضائع کیے بغیر نادیدہ حملہ آور پر دے مارے گی، مگر وہاں اُسے کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اب وہ فریزر سے صرف پانچ چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اُس کی نگاہیں فریزر کے بند ہونے والے سفید، چمک دار اَور پالش کیے ہوئے بڑے سے ڈھکنے پر جمی تھیں۔
معاً اُس کی کنپٹیوں میں خون تیزی سے گردش کرنے لگا ۔ وہ پتھر کے مجسمے کی مانند بےحس و حرکت ہو گئی۔ فریزر کا ڈھکنا خود ہی آہستہ سےدوبارہ کھل رہا تھا۔
اِس میں کسی فریبِ نظر یا غلط فہمی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ بُونی اپنی دونوں آنکھوں سے فریزر کے اِس ڈھکنے کو کھلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اُسے ایک لحظے کے لیے یوں لگا جیسے فریزر کا ڈھکنا بُونی کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کر رہا ہو۔
ڈیپ فریزر کے بالکل قریب پہنچ کر بُونی نے اُس کے اندرونی حصّے میں جھانکا اور ایک دم اُسے چکر سا آیا۔ اُس نے ایک ناقابلِ فراموش منظر دیکھا تھا۔
وہ غش کھا کر گرنے ہی والی تھی کہ کسی اَن دیکھی طاقت نے اُسے سہارا دِیا۔ وہ پھٹی پھٹی اور پتھرائی آنکھوں سے ڈیپ فریزر کے اندر پڑی چیز کو تَک رہی تھی۔
اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن حقیقت کو جھٹلانا بھی اُس کے اختیار میں نہ تھا۔
والٹر فریزر کے اندر موجود تھا۔ اُس کی کچلی ہوئی لاش ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ بُونی نے ایک نظر ہی میں دیکھ لیا تھا کہ والٹر کی ہڈیاں، پسلیاں اور بدن کا تمام گوشت مسل کر رکھ دیا گیا ہے۔
وہ اَپنی جسامت سے کہیں چھوٹا اور مختصر نظر آتا تھا۔ سب سے بھیانک اُس کا چہرہ تھا۔ بری طرح نُچا ہوا۔
والٹر کے چہرے پر ناخنوں کے گہرے نشان تھے۔
اُن نشانوں پر خون جما ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں ….. خدا کی پناہ ۔
اُس کی آنکھیں حلقوں سے نکل آئی تھیں۔ بُونی نے یہ بھی دیکھا کہ والٹر کی گردن پر انگلیوں کے نمایاں نشان بھی موجود ہیں۔
اُس کی شہ رگ کٹی ہوئی تھی اور جمے ہوئے خون کے بڑے بڑے لوتھڑے گردن سے لے کر سینے تک پھیلے ہوئے تھے۔
بُونی کے حلق سے انتہائی کرب ناک چیخ برآمد ہوئی۔ اُس کے سارے بدن پر لرزہ طاری تھا۔ چاپڑ ابھی تک اُس کے ہاتھ میں تھا۔
یکایک اُس کے عقب میں ایسی آواز پیدا ہوئی، جیسے کوئی جاندار شے حرکت کر رہی ہو۔
بُونی نے پلٹ کر دیکھا۔ وہاں کچھ نہ تھا، مگر اُسی لمحے فریزر کا کھلا ہوا ڈھکنا دھماکے سے خود بخود بند ہو گیا۔
بُونی کو یوں لگا جیسے کسی نے اُس کے سر پر ہتھوڑا دے مارا ہو ۔
اور پھر ….. تہ خانے میں بُونی کی ہولناک چیخیں گونجنے لگیں، لیکن یہ چیخیں سننے والا وہاں بُونی کے سوا اَور کوئی نہ تھا۔
اُس نے اِس مرتبہ دیکھا کہ تہ خانے میں اترنے والی سیڑھیوں میں سے آخری زینے کے پاس ایک گول گول چیز حرکت کر رہی ہے۔
یہ چیز جسامت میں ایک انسانی کھوپڑی کے برابر اور باریک پولیتھن میں لپٹی ہوئی تھی۔ آخری زینے کے قریب وہ اِدھر اُدھر فرش پر آہستہ آہستہ حرکت کرتی رہی۔
پھر بُونی کی طرف بڑھنے لگی۔ بُونی نے تہ خانے سے بھاگنے کے لیے سیڑھیوں کا رُخ کیا، لیکن پُراسرار گول گول شے ہر بار اُس کا راستہ روک لیتی۔
بُونی ہسٹریائی انداز میں مسلسل چیخ رہی تھی۔ اتنے میں تہ خانے کے ایک اور تاریک گوشے سے کسی شے کے حرکت کرنے کی نمایاں آواز اُس کے کانوں تک آئی۔ اُس نے پلٹ کر دیکھا۔
باریک پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ایک اور چیز حرکت کرتی ہوئی اُس کی طرف آ رہی تھی، لیکن یہ چیز گول ہونے کے بجائے لمبوتری سی تھی۔
بُونی نے دیکھا کہ یہ ایک کٹا ہوا پاؤں ہے۔ اس کی پانچوں انگلیاں پلاسٹک کے لفافے سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ یہ کٹا ہوا پاؤں آہستہ آہستہ تہ خانے کے فرش پر آپ ہی آپ چلتا ہوا اُس کے قریب آ رہا تھا۔
بےاختیار چیخیں مارتی ہوئی، بُونی اُس پاؤں سے بچنے کے لیے ایک جانب ہٹی، مگر دوسرے ہی لمحے وہاں بھی گتیّ کے ڈبے کے پیچھے سے پلاسٹک میں لپٹی ہوئی تیسری شے نمودار ہوئی۔
یہ ایک کٹا ہوا لمبا سفید زنانہ بازو تھا۔ ہاتھ سے خون ابھی تک ٹپک رہا تھا اور پنجے کی دو اُنگلیاں غائب تھیں۔ یہ ہاتھ دفعتاً سانپ کی طرح اچھل کر بُونی کو پکڑنے کے لیے فضا میں بلند ہوا۔
اُسے سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔
اُس نے کٹے ہوئے ہاتھ کی انگلیوں کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ انگلیوں کے نوکیلے، لمبے ناخن اُس کا ایک رخسار چھیل دینے میں کامیاب ہو گئے۔
خون کی پتلی سی دھار بُونی کے رخسار سے بہ نکلی اور وُہ ہولناک چیخ مارتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بھاگی، لیکن کٹے ہوئے ہاتھ نے اُس کا راستہ روکا اور کٹے ہوئے پاؤں نے اُس کا تعاقب کیا۔
بُونی لڑکھڑا کر دھڑام سے تہ خانے کے فرش پر گری، مگر فوراً ہی اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی۔ اِس دوران میں پنجے نے اُس کا ایک ٹخنہ جکڑ لیا تھا۔
’’مدد، بچاؤ ۔‘ بُونی مسلسل چیخ رہی تھی۔ ٹخنے پر کٹے ہوئے زنانہ پنجے کی گرفت ہر لحظہ مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔
وہ دوبارہ فرش پر گری اور پھر یک لخت فرش پر لوہے کی کوئی چیز ٹکرائی اور چنگاریاں سی اٹھیں۔
یہ اُس آہنی چاپڑ سے اُٹھی تھیں جو اَبھی تک بُونی کے ہاتھ میں تھا ۔
جب وہ نیچے گری، تو چاپڑ فرش سے ٹکرایا تھا۔ اُس نے جھپٹ کر چاپڑ کو اُٹھانا چاہا۔ وہ تو ہاتھ نہ آیا، البتہ وہیں پڑی ہوئی چھری اُس کے ہاتھ میں آ گئی۔
اُس نے دیوانہ وار اُس چھری سے کٹے ہوئے پنجے پر حملہ کر دیا۔ پہلی ضرب پڑتے ہی کٹا ہوا ہاتھ تلملایا۔ اُس میں سے خون کا فوّارہ پھوٹا، لیکن اُس نے بُونی کا ٹخنہ ابھی تک نہیں چھوڑا تھا۔
بُونی نے توقّف کیے بغیر دوسری مرتبہ چھری ماری۔ یہ ضرب پہلی ضرب سے بھی زیادہ سخت تھی۔ یکایک کٹے ہوئے پنجے نے اُس کا ٹخنہ چھوڑ دیا اور فرش پر آہستہ آہستہ رینگتا ہوا پیچھے ہٹنے لگا۔
ہٹتے ہٹتے چند سیکنڈ میں وہ تہ خانے کے تاریک گوشے میں پہنچ کر غائب ہو گیا۔
بُونی بری طرح ہانپتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک بار پھر سیڑھیوں کی طرف لپکی۔
اِس سے پہلے کہ وہ پہلے پائیدان پر قدم رکھے، تہ خانے میں سے ایک اور ہاتھ نمودار ہوا اَور اُس پر لپکا۔ بُونی نے چھری گھمائی، بڑھتا ہوا ہاتھ یک لخت تھم گیا۔
بُونی نے دیکھا کہ اُس کی کلائی میں ایک سنہرا کنگن پڑا ہوا ہے۔ کنگن ایک ننھے سے سانپ کی شکل کا تھا۔ خوف سے بُونی کا بند بند کانپنے لگا اور چھری اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر چھن سے پختہ فرش پر گری۔
چھری گرتے ہی کنگن والا ہاتھ دوبارہ بُونی پر حملہ آور ہوا اَور اِس مرتبہ وہ خود کو بچا نہ سکی۔ اُس ہاتھ کے لمبے نوکیلے ناخن اُس کے چہرے پر گڑ گئے۔
اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے چہرے پر باریک سوئیاں چبھوئی جا رہی ہیں۔ پورا حلق کھول کر وہ چلّاتی رہی۔ تہ خانے میں اُس کی چیخیں گونجتی رہیں ۔ یہاں تک کہ خاموشی چھا گئی۔
٭٭
ڈاکٹر فاسٹر دہشت زدہ ہو کر بُونی کی طرف تَک رہا تھا۔ اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے اُس نے بُونی سے اِس دوران کوئی سوال نہیں کیا۔ بُونی کا چہرہ یہ داستان سناتے ہوئے بھی زرد ہو گیا اور اُس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے جھلملا رہے تھے۔ فاسٹر نے دیکھا کہ بُونی کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا ہے۔
دو تین منٹ خاموش رہنے کے بعد بُونی نے آہستہ سے کہا:
’’اگلی صبح اُنھوں نے مجھے تہ خانے کی سیڑھیوں کے پاس بےہوش پڑے پایا۔‘‘
فاسٹر نے محسوس کیا کہ اب بُونی کا لہجہ خشک اور کسی قسم کے جذبات کے اثر سے خالی تھا۔ فاسٹر پھر بھی کچھ نہ بولا، بلکہ منتظر رہا کہ آگے بُونی کیا کہتی ہے اور بُونی نے صرف اتنا کہا:
’’پولیس والوں نے مجھ سے کہا کہ مَیں نے والٹر کو قتل کر دیا ہے۔‘‘
’’جبکہ تم نے والٹر کو قتل نہیں کیا، بلکہ والٹر نے اپنی بیوی رُتھ کو قتل کیا تھا۔‘‘ فاسٹر نے آہستہ سے کہا۔
بُونی نے فاسٹر کی جانب پسندیدہ نظروں سے دیکھ کر اثبات میں گردن ہلائی۔
’’مگر سوال یہ ہے کہ ….. پولیس نے آخر تم پر یہ الزام کس بنیاد پر عائد کیا کہ والٹر کو تمہی نے قتل کیا ہے۔‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔
’’وہ کہتے تھے کہ موقعٔ واردات پر صرف مَیں ہی پائی گئی تھی۔‘‘ بُونی نے جواب دیا۔ ’’میرے علاوہ وَہاں کوئی نہ تھا۔‘‘
’’مَیں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘ فاسٹر نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’’کیا پولیس والوں نے ڈیپ فریزر کھول کر نہیں دیکھا؟ اُس میں اُنھیں رُتھ کی لاش کے ٹکڑے نہیں ملے؟‘‘
بُونی معنی خیز انداز میں مسکرائی جیسے فاسٹر کی جہالت اور بےوقوفی پر مسکرا رَہی ہو۔ پھر وہ بولی:
’’یہی تو مصیبت ہے ۔ ڈیپ فریزر اُنھوں نے کھول کر دیکھا تھا ۔ اُس میں رُتھ کی لاش کے ٹکڑے موجود نہیں تھے۔
فریزر اُن ٹکڑوں سے بالکل خالی تھ۔میرا مطلب یہ ہے کہ اُس میں رُتھ کے بجائے والٹر کی لاش پڑی تھی۔‘‘
فاسٹر بھونچکا ہو کر بُونی کی صورت تکنے لگا۔ آخر اُس نے ہکلاتے ہوئے کہا:
’’پھر سوال یہ ہے کہ رُتھ کی لاش کہاں گئی؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم ۔ مَیں نے رُتھ کو مارا، نہ اُس کی لاش کے ٹکڑے کر کے اُنھیں فریزر میں بھرا ۔
اور نہ والٹر کو قتل کیا۔
مَیں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے فریزر میں رُتھ کی لاش کے ٹکڑے دیکھے تھے۔
پھر رُتھ کے کٹے ہوئے سر، کٹے ہوئے ہاتھوں اور کٹے ہوئے پاؤں نے مجھ پر حملہ کیا۔‘‘
فاسٹر نے گہرا سانس لیا اور آپ ہی آپ اثبات میں گردن ہلائی۔ بُونی کہہ رہی تھی:
’’پولیس والوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا ….. آج تک کوئی حقیقت واضح نہیں کی ۔ بس وہ یہی رَٹ لگاتے رہے کہ مَیں نے والٹر کو قتل کر کے اُس کی لاش ڈیپ فریزر میں بند کی تھی۔‘‘
’’یہ بات وہ اِس لیے کہتے تھے کہ فریزر میں سے پولیس کو صرف والٹر کی لاش ملی اور رُتھ کی لاش کہیں نہیں پائی گئی۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
بُونی نے اِس اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی اور چپ رہی۔ چند ثانیے بعد فاسٹر نے کہا:
’’بُونی! میری بات سنو اور خوب سوچ سمجھ کر جواب دینا۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ والٹر کی بیوی رُتھ کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہ ہو؟
یہ محض ایک تصوّراتی اور تخیلی پیکر ہے جو تمہارے ذہن نے اپنے بچاؤ کے لیے تراش لیا؟‘‘
فاسٹر کو خوف تھا کہ اِس بات پر بُونی بپھر جائے گی، مگر خلافِ توقع بُونی نے کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ صرف اتنا کہا:
’’مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ تم خواہ مخواہ میرا وَقت برباد کرو گے ۔ تمہیں اِس کہانی پر یقین نہیں آئے گا۔‘‘
’’دیکھو بُونی ….. اِس میں خفا ہونے کی بات نہیں۔‘‘ فاسٹر نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بھلا یہ تو سوچو کہ مجھے تمہاری کہانی پر یقین نہ کرنے سے کون سا نفع ہو گا؟
اِس کے علاوہ یہ بھی تو دیکھو کہ میری تم سے کوئی عداوت نہیں۔
مَیں صرف ایک ڈاکٹر ہوں اور تمہارا معالج ہونے کے ناطے مجھ پر یہ اخلاقی اور قانونی فرض عاید ہوتا ہے کہ مَیں تمہاری مدد کسی نفع نقصان کے لالچ سے بلند ہو کر کروں۔
مَیں ہر اُس کہانی پر یقین کرنے کے لیے تیار ہوں جو منطقی اور وَاقعاتی سچائی کے اعتبار سے میرے ذہن کو قابلِ قبول ہو۔ تم خود سوچو کہ بقول تمہارے رُتھ کی لاش کے ٹکڑے ڈیپ فریزر میں موجود تھے۔
تم نے یہ ٹکڑے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
پھر تم ہی کہتی ہو کہ یہ ٹکڑے ڈیپ فریزر میں سے غائب ہو گئے۔ آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسانی لاش یوں فضا میں تحلیل ہو جائے کہ پولیس کو بسیار کوشش کے باوجود اِس کا سراغ ہی نہ ملے؟
یہاں مجھے بھی پولیس والوں کی رائے کا ساتھ دینا پڑے گا۔
والٹر جس انداز میں مارا گیا یا قتل ہوا اَور اُس کی لاش ڈیپ فریزر میں جس طرح پائی گئی، اُس سے یہی پتا چلتا ہے کہ اُس کے قتل میں تمہارا ہاتھ تھا۔
تم خود اَپنی زبان سے اقرار کرتی ہو کہ تم موقعٔ واردات پر پائی گئیں۔
اِس کے علاوہ تم نے یہ سارے واقعات تمام تر جزئیات کے ساتھ جس تفصیل سے بیان کیے ہیں، وہ کوئی ایسا فرد ہی بیان کر سکتا ہے جو یہ سارے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا ہو۔
رُتھ کی لاش کے ٹکڑے اگر دستیاب ہو جاتے، تو یہ یقین کر لینے کی معقول وجہ معلوم تھی کہ اُسے والٹر نے قتل کیا،
مگر رُتھ کے بجائے پولیس کو والٹر کی لاش ڈیپ فریزر میں ملتی ہے اور تہ خانے میں تم پائی جاتی ہو ۔
آخر تم اپنے بچاؤ میں کون سی قوی دلیل پیش کر سکتی ہو؟‘‘
’’مَیں نہیں کر سکتی۔‘‘ بُونی نے بیزار ہو کر کہا۔
’’ایسا کرنا محض وقت ضائع کرنا ہے۔ ویسے میرے پاس ایک قوی دلیل موجود ہے۔‘‘
’’ہاں! وہ تو تم نے ابتدا میں کہا تھا کہ تم جو کچھ کہو گی، اُس کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت بھی تمہارے پاس ہے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’وہ ثبوت دو۔‘‘
بُونی بےپروائی سے منہ پرے کر کے دیوار کو گھورتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ دِل ہی دل میں کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔
فاسٹر نے اُس کی سوچوں میں مداخلت نہیں کی۔ تھوڑی دیر بعد بُونی نے آہستہ آہستہ اپنا پورا چہرہ پہلی بار فاسٹر کی طرف پھیر دیا۔
بُونی کے دونوں رخساروں پر زخموں کی گہری لکیریں کھنچی ہوئی تھیں۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ زخم نوکیلے ناخنوں کا نتیجہ ہیں۔ ایک نشان تو منہ کے کنارے سے دائیں کان کی لَو تک چلا گیا تھا۔
’’بولو! اب بھی یقین کرو گے یا نہیں؟‘‘ بُونی نے فاسٹر سے پوچھا۔ ’’یہ نشان مَیں نے اپنے آپ نہیں لگائے ہیں۔‘‘
فاسٹر سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ اُس نے نگاہیں جھکا لیں۔ بلاشبہ کوئی بھی عورت بہ ہوش و حواس اپنا حسین و جمیل چہرہ یوں نہیں بگاڑ سکتی تھی۔
فاسٹر نے ہمدردانہ انداز میں بُونی کو دیکھا۔ پھر کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’ٹھیک ہے۔ اِس معاملے پر بعد میں غور کیا جائے گا۔ مَیں پھر تمہارے پاس آؤں گا ۔
یقین کرو تمہارے لیے مَیں جو کچھ کر سکتا ہوں، اُس سے دریغ نہیں کروں گا۔
مجھے احساس ہے کہ تم نہایت کٹھن مراحل سے دوچار ہو، تاہم کوئی نہ کوئی اچھا راستہ نکل ہی آئے گا۔
اب مَیں اجازت چاہتا ہوں ….. مجھے بعض دوسرے مریضوں ….. میرا مطلب ہے چند اَور اَفراد سے بھی ملنا ہے۔‘‘
بُونی نے گردن کے اشارے سے فاسٹر کو جانے کی اجازت دی اور جب وہ دَروازے کی طرف چلا، تو اُس نے اپنے عقب میں بُونی کے ہلکے سے قہقہے کی آواز بھی سنی، وہ کہہ رہی تھی:
’’خبردار ….. تہ خانوں سے دور ہی رہنا۔‘‘
بُونی کے کمرے سے باہر آن کر فاسٹر نے رینالڈس سے کہا:
’’بےحد پُراسرار اَور اَنوکھی داستان اِس لڑکی نے سنائی۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ صحیح کہہ رہی ہے؟‘‘
رینالڈس نے دروازہ اِحتیاط سے مقفل کرتے ہوئے مسکرا کر کہا:
’’ڈاکٹر! معذرت خواہ ہوں، مَیں آپ کے اِس سوال کا فی الحال کوئی جواب نہیں دے سکتا۔‘‘
’’جواب دے نہیں سکتا یا دینا نہیں چاہتا؟‘‘ فاسٹر نے پھر سوال کیا۔
جواب دے تو سکتا ہوں، مگر یہ موقع ایسا نہیں۔‘‘ رینالڈس کا لہجہ اِس مرتبہ سنجیدہ تھا۔ ’’آپ کا اصل کام ڈاکٹر سٹار کو پہچاننا ہے جب آپ اِس کام سے فارغ ہو جائیں گے، تب مَیں آپ کے ہر سوال کا جواب اپنی قیمتی معلومات کے ساتھ عرض کروں گا۔ اُس سے پہلے ہرگز نہیں۔ مجھے ہدایات یہی دی گئی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مَیں تمہاری مجبوری سمجھ رہا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے غور سے رینالڈس کا چہرہ دَیکھتے ہوئے کہا۔ شاید وہ رِینالڈس کے چہرے کے تاثرات سے اپنے سوال کا جواب جاننے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن رینالڈس کا چہرہ کسی قسم کے تاثر سے خالی تھا۔
فاسٹر نے محسوس کیا کہ وہ نہایت باکمال اور منجھا ہوا اَداکار ہے اور اُس کے منہ سے کچھ اگلوانا محال ہو گا۔ اُس نے جیسے رینالڈس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا:
’’بُونی کی حیرت انگیز داستان سن کر مَیں یہی سمجھ سکا ہوں کہ والٹر کی بیوی رُتھ کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ بُونی نے یہ کردار اَپنے ذہن سے تخلیق کیا۔
اِسے ہم اُس کی لاشعوری کوشش بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے مجرم اپنے ذہنی تحفظ اور شخصیت کے بچاؤ کے لیے فرضی وجود تخلیق کر لیا کرتے ہیں۔
بُونی اور وَالٹر کے مابین تعلقات قائم تھے۔ کسی نامعلوم سبب سے بُونی اور وَالٹر میں جھگڑا ہوا۔ بُونی نے والٹر کو قتل کر دیا اور لاش ڈیپ فریزر میں ٹھونس دی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خود وَالٹر کا جی بُونی سے اچاٹ ہو گیا ہو اَور اُس نے اپنے طور پر بُونی کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام بنایا ہو۔
بہرحال وہ اَپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پایا جبکہ بُونی اُسے مار ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
رینالڈس پھر مسکرایا اور کہنے لگا ’’شاید آپ کا اندازہ دُرست ہو مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ بُونی کے چہرے پر زخموں کے نشان کیسے آئے؟‘‘
’’یہ تو نہایت آسان بات ہے۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’والٹر اور بُونی کے مابین ہاتھاپائی ہوئی ہو گی اور وَالٹر نے بُونی کا چہرہ نوچا۔‘‘
رینالڈس اِس جواب پر حقارت آمیز انداز میں ہنسا اور بولا ’’بہت خوب، لیکن آخر میں بُونی جیسی نرم و نازک لڑکی، والٹر جیسے قوی ہیکل نوجوان پر قابو پا کر اُسے قتل کر دینے میں کامیاب ہو گئی۔
نہ صرف کامیاب بلکہ بُونی نے والٹر کی دو سو پونڈ وزنی لاش اٹھا کر فریزر میں بھی آسانی سے ٹھونس دی؟‘‘
فاسٹر خفیف دکھائی دینے لگا۔
’’مَیں یہ کب کہہ رہا ہوں کہ بُونی کی داستان سُن کر جو نتائج مَیں نے اخذ کیے، وہ سو فی صد درست ہیں؟
یہ محض امکانات ہیں جن کی طرف مَیں نے اشارہ کیا ہے۔ یہاں عورت مرد یا جوان نوجوان کا مسئلہ نہیں، جوش و غضب اور اِشتعال کا معاملہ ہے۔
ایک کمزور اَور نحیف فرد بھی مشتعل ہو کر حیرت انگیز قوتوں کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو عام حالات میں اُس سے ممکن نہیں ہوتا۔
بہرکیف، ڈیپ فریزر کی تہ خانے میں موجودگی بہت پیچیدہ مسئلہ ہے اور مَیں اِس پر حیران ہو رہا ہوں کہ …..‘‘
اُس نے یہ سوچ کر یک لخت جملہ نامکمل چھوڑ دیا کہ جب رینالڈس اُسے کچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہے، تو وہ اَپنے خیالات سے اُسے کیوں آگاہ کرے۔
رینالڈس نے بھی کچھ پوچھنے یا بحث کرنے سے گریز کیا اور چپ چاپ وہ دونوں کاریڈور میں چلتے رہے۔
فاسٹر دل میں کہہ رہا تھا کہ اُسے بُونی سے اُس کے ماضی کے بارے میں بھی کئی باتیں پوچھنی چاہئیے تھیں۔
ہو سکتا ہے کہ بُونی کا باپ ہی افریقا کی کسی نوآبادی میں انگلستان کی طرف سے گورنر جنرل کے فرائض سرانجام دیتا ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بُونی نے افریقا ہی میں آوانگا یا ووڈو جادو کے بارے میں کچھ سنا ہو۔
یہ خیالات وقتی طور پر ذہن سے جھٹک کر فاسٹر نے رینالڈس سے پوچھا:
’’اب تم میری ملاقات کس سے کرا رَہے ہو؟‘‘
’’ایسے شخص سے جو اَپنے آپ کو بُرونو کے نام سے پکارتا ہے۔‘‘ رینالڈس نے مختصر سا جواب دیا۔
(جاری ہے) پڑھیئے برونو کی حیرت انگیز کہانی حصہ سوئم میں
https://shanurdu.com/pagal-khana-part3-bruno/