نہلے پہ دہلا
عمارہ جہان
بروک اسٹریٹ میں اس وقت بھی گہما گہمی تھی۔
حالانکہ وقت دن کے قاعدے سے نکلنا چاہتا تھا۔ سورج اپنے آخری مرحلے میں تھا۔
سڑک پر آہستہ سے چھڑی ہاتھ میں تھامے اس بوڑھے شخص نے مسکرا کر اِرد گرد دیکھا اور پھر چلنے لگا۔
وہ لنگڑا کے چل رہا تھا۔ اس کی دونوں ٹانگیں متوازن نہیں تھیں۔
وہ خاکی رنگ کے شرٹ اور ٹراوزر میں تھا۔
سر پہ براؤن ہیٹ پہنے، سفید گھنگریالے بال ہیٹ سے باہر نکل رہے تھے۔
چھڑی آہستہ سے گھماتے ہاتھ اس کی تیز طرار نظریں ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھیں۔
ڈھیلے ڈھالے لباس میں وہ آہستگی سے چل رہا تھا۔
تیز بلی جیسی نظریں اس ہجوم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
وہ جب ایک ٹانگ گھسیٹ کے چل رہا تھا کہیں ہلکا سا درد اُٹھ رہا تھا۔ اس دَرد کے پار سے ماضی جھانک رہا تھا۔
زندگی کے بارہ سال انتہائی غربت اور افلاس جیسی غلیظ بیماری میں گزارنے کے بعد اسے سمجھ آیا:
’’کہ ہر انسان اپنا مسیحا خود ہوتا ہے۔‘‘
وہ بروکن فیملی کا تھا۔ جسمانی بیماری کے ساتھ ذہنی اور ظاہری بیمار بھی تھا۔
جسمانی بیماری کو ٹھیک نہ کر سکتا تھا لیکن ظاہری بیماری غربت سے اس نے چھٹکارا پا ہی لیا۔
تنگ وتاریک ڈربے سے نکل کر وہ کہاں سے کہاں پہنچا تھا۔
سر جھٹک کر اس نے ماضی کو دفعان کیا۔ صبح کا سورج زمین کی سلامی کے بعد اب شام کے آنے پر منہ پھلائے پیلا ہوا جا رہا تھا۔
ڈوبتے سورج میں جبکہ گھروں کو لوٹنے کاوقت ہو گیا تھا۔
بروک اسٹریٹ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس نے چلتے چلتے آسمان کی طرف دیکھا۔
آج اس کا دن اچھا رہا تھا۔ کافی سارے شکار کرنے کے بعد وہ ایک اور شکار کرنا چاہتا تھا۔
اس کی نظریں تیزی سے اِرد گرد دیکھ رہی تھیں۔
’’آج اپنے شکار کے لیے نیا طریقہ کرنا پڑے گا۔‘‘
سوچتے ہوئے مکار چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ اُبھری۔
سامنے ایک نوجوان دونوں ہاتھ جیکٹ کی پاکٹ میں ڈالے بے فکری سے آ رہا تھا۔
بوڑھے نے اس شخص کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے تول رہا ہو۔
پھر چلتے چلتے وہ وہ تیزی سے مڑا اور نوجوان سے ایک دم ٹکڑا گیا۔
نوجوان گھبرا گیا۔
’’اوہ !میں معذرت خواہ ہوں جناب !‘‘
وہ یونہی جھکا رہا۔ چھڑی ہاتھ سے نکل کر دُور جا چکی تھی۔
نوجوان اس کے اُوپر جھکا۔ ہاتھ سے پکڑ کر اسے اُٹھانے کے بعد سہارا دے کر آگے چلنے لگا۔
وہ بوڑھا کچھ کہہ رہا تھا لیکن وہ نوجوان ہجوم میں شور کے باعث اس کی بات سننے سے قاصر رہا۔ بازار سے نکل کر آگے ایک خالی روڈ پر آ کے وہ بولا۔
’’جی جناب! آپ کیا کہہ رہے تھے ؟‘‘
متانت کے ساتھ مسکراتے ہوئے وہ ایک معقول نوجوان تھا۔
بوڑھے نے پہلے لمبی لمبی تھکن زدہ سانسیں لیں اور پھر کہا۔
’’میں تم سے کہہ رہا تھا کہ میری چھڑی وہاں رہ گئی ہے۔
مجھے اس کے بغیر چلنے میں دشواری ہوتی ہے۔‘‘
’’اب میں اپنے گھر تک کیسے جاؤں؟‘‘
بوڑھے کے انداز میں بے بسی تھی۔ عیاری کی لیپا پوتی میں چھپی بے بسی۔
’’جناب! میں آپ کو رہائش گاہ تک چھوڑ دوں گا۔‘‘
نوجوان تعظیماً جھکتے ہوئے بولا۔
اس نوجوان نے شرٹ کے اُوپر ایک سیاہ جیکٹ پہن رکھی تھی۔
مفلر گردن میں ڈالے وہ آہستگی سے مسکراتے ہوئے بات کر رہا تھا۔
معصوم چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ تھی، جو اس کے چہرے کوملیح بنا رہی تھی۔
مسکرانا جیسے اس کا شیوہ تھا۔
بات بات پر مسکراتا وہ بوڑھے ایک شریف بے ضرر مگر مالدار انسان لگا۔
’’ینگ بوائے! میں نہیں چاہتا کہ آپ زحمت کریں۔‘‘
بوڑھے نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ اس کے انداز میں بناوٹی متانت تھی۔
’’ارے نہیں جناب! میں معزز لوگوں کے کام آ کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔‘‘
وہ پھر مسکرایا۔
بوڑھے نے شاطرانہ انداز میں اس کا جائزہ لیا اور مسکرا دیا۔
’’پھر چلنا چاہئیں۔‘‘
نوجوان نے آگے بڑھ کے ان کی کمر پر ہاتھ رکھا۔ اب وہ آہستگی سے آگے جا رہا تھا۔
’’ینگ بوائے! آپ کا نام کیا ہے ؟‘‘
بوڑھا مصنوعی بردباری طاری کرتے ہوئے بولا۔
’’ویسے تو میرا نام سام ہے لیکن میں سکام کہلوانا پسند کرتا ہوں۔‘‘
وہ پھر دلکشی سے مسکرایا۔
’’اور آپ کا؟‘‘
’’مجھے گیبل کہتے ہیں، گیبل روتھ۔‘‘
اوہ! اس کے ہونٹ سیٹی کے انداز میں سکڑے۔
’’زبردست نام جناب۔‘‘
’’اور آپ کیا کرتے ہیں مسٹرسکام؟‘‘
بوڑھا اپنی طرف سے مہذب آنے کی خوشی میں ہلکان ہوا جا رہا تھا۔
’’ویسے آپ مالدار آدمی دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
بوڑھے کی عیارانہ نظریں اس کے تاثرات جانچ رہی تھیں۔
وہ ہنسا۔
’’آپ کو کیسے پتا میری دولت کا ؟‘‘
’’آپ کی جیکٹ سے ینگ مین‘‘!
بوڑھے نے خود کو سمجھدار ثابت کرنے کی ایک اور کوشش کی ،مگر اس کے لہجے سے رال ٹپک رہی تھی۔
وہ پھر ہنسا۔
’’جناب! آپ کی بات خاکسار کے متلعق صحیح ہے۔‘‘
’’اور آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’میں بھی امیر ہوں اگر میں نے جیکٹ پہنی ہوتی تو آپ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔‘‘
بوڑھے کے انداز میں کھوکھلی شان بے نیازی تھی۔ نوجوان قہقہہ لگا کر بولا۔
’’دلچسپ جناب!اچھا میں یہ آپ کو سیدھا چلائے جا رہا ہوں۔ زرا اپنے راستے کی نشاندہی تو کریں۔‘‘
نوجوان رُک کر بولا۔
’’وہ آگے جو بلڈنگ کے ساتھ اسٹریٹ نظر آ رہی ہے۔
سڑک کے اس طرف اس کے اندر بائیں طرف میرا غریب خانہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جناب!‘‘
سفر پھر شروع ہوا۔ بوڑھے نے اپنا آدھا بوجھ اس پہ ڈال رکھا تھا اور اب اپنے ایک ہاتھ سے اسک کا بازو پکڑ رکھا تھا۔
’’یہ ہے جناب!‘‘
گلی کے شروعات پر نوجوان رُک کر استفسار کرنے لگا۔
’’بس سکام یہیں۔ آگے میں خود جاؤں گا۔ یہاں تک آپ کو زحمت دی۔ اس کے لیے ممنون ہوں۔‘‘ بوڑھے نے پہلی دفہ اس کا نام لیتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بات نہیں جناب۔‘‘
نوجوان نے ایک الوداعی مسکراہٹ ان پر اُچھالی اور تیزی سے واپس مڑ گیا۔
جبکہ وہ بوڑھا تیز تیز قدموں سے آگے بڑھا۔
گلی میں کسی مکان کے سامنے رُکنے کے بجائے وہ سیدھا سیدھا تیزی سے چلتا گلی کے دھانے سے نکلا اور ایک تنگ گلی میں داخل ہوا۔
کونے پر بنی اس ٹوٹی پھوٹی بلڈنگ کے دروازے کو کھٹکھٹائے بنا وہ اندر داخل ہوا۔
اس کے چہرے پر کامیابی کی خوشی چمک رہی تھی۔
عیار چہرے کے ساتھ ہیٹ اُتارتے ہی اس نے دائیں جیب میں ہاتھ ڈالا۔
باہر ہاتھ نکالتے ہی ان کی آنکھیں شیطانی روشنی سے چمک اُٹھی۔
اس کے ہاتھ میں اس نوجوان کا پرس تھا۔ جو پیسوں سے بھرا ہوا تھا۔
للچاتی نظروں کے ساتھ اس نے پرس کھولا۔ کافی سارے ڈالر تھے۔
ڈالر ہاتھ میں نکال کر اس نے پرس پھینک دیا۔ پھر ان ڈالروں کو ہمیشہ کی طرح اپنے پرس میں ڈالنے کے لیے اس نے اپنا ہاتھ بائیں جیب میں اپنا پرس نکالنے کے لیے ڈالا لیکن…
وہ بوڑھے کو گلی کے اندر جاتے دیکھ کر تیزی سے مڑا۔
سڑک پار کرتے ہی سامنے ایک خالی گلی تھی۔ وہ اس میں جا گھسا۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ چہرے پر وہی معصوم مسکراہٹ تھی۔
اس نے جیکٹ کے اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا۔
اس کے ہاتھ میں بوڑھے کا پرس تھا۔ جس میں کافی سارے ڈالرتھے۔ اتنے ڈالر دیکھ کر اس کی آنکھی چندھیا گئیں۔
پرس پھینکنے کے بعد ڈالر نکال کر وہ ہمیشہ کی طرح اپنے پرس میں ڈالنا چاہتا تھا۔
اس نے اپنا ہاتھ دوبارہ بائیں جیب میں ڈالا تاکہ اپنا پرس نکال سکے لیکن۔۔۔
جیب خالی تھی۔