15 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

Mirza Ghalib|مرزا غالبؔ کی برسی

ماہِ فروری کی 15 تاریخ مرزا غالبؔ کی برسی سے متعلق،ایک مختصر لیکن جامع تحقیق
30 دسمبر 2017ء،کراچی
مرزا غالبؔ اور بچوں کا اُردوادب بذریعۂ “قادر نامۂ غالبؔ”
تحقیق و تحریر:پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی
بچّوں کااُردو ادب کےلئےمثنوی ‘”قادر نامہ”از غالب ،

دراصل یہ کتاب غالبؔ نے اپنی اہلیہ،امراؤ بیگم کے بھانجے زین العابدین خاں کے بچوں کے لیے لکھی تھی ۔
غالبؔ کے سات بچے تھے(دیکھئے “حیاتِ غالبؔ “از حالیؔ پانی پتی)، لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لاولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو انکی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگ پر غالب کی ایک رثائی غزل انکے دیوان میں موجود ہے۔
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور

اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کیلیے غالب نے ‘مثنوی “قادر نامہ” لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنےوالوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالبؔ:
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کسطرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔
یہ مثنوی مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ ‘دیوانِ غالب’ میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کی ہے، لیکن دیوانِ غالب کی مشہور و معروف شرح ‘نوائے سروش’ میں اسے شامل نہیں کیا، نہ جانے کیوں۔ میں یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سے لکھ رہا ہوں۔ پہلی بار یہ مثنوی 1856ء میں شائع ہوئی تھی۔
گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کیلیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کردیکھئے۔
مثنوی ‘”قادر نامہ” از مرزا اسدؔ اللہ بیگ خان غالبؔ
قادر اللہ اور یزداں ہے خدا — ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رھنما
پیشوائے دین کو کہئے امام — وہ رسول اللہ(ﷺ) کا قائم مقام
ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے — جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے
بندگی کا ہاں عبادت نام ہے — نیک بختی کا سعادت نام ہے
کھولنا افطار ہے اور روزہ صوم — لیل یعنی رات، دن اور روز، یوم
ہے صلوٰۃ اے مہرباں اسمِ نماز — جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز
جا ےنماز اور پھر مصلّا ہے وہی — اور سجّادہ بھی گویا ہے وہی
اسم وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام — کعبہ، مکّہ وہ جو ہے بیت الحرام
گرد پھرنے کو کہیں گے ہم طواف — بیٹھ رہنا گوشے میں ہے اعتکاف
پھر فلک، چرخ اور گردوں اور سہپر — آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر
مہر سورج، چاند کو کہتے ہیں ماہ — ہے محبت مہر، لازم ہے نباہ
غرب پچھّم اور پورب شرق ہے — ابر بدلی اور بجلی برق ہے
آگ کا آتش اور آذر نام ہے — اور انگارے کا اخگر نام ہے
تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے — فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے
نیولا راسُو ہے اور طاؤس مور — کبک کو ہندی میں کہتے ہیں چکور
خم ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے سبو — آب پانی، بحر دریا، نہر جُو
چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں — دُود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں
سینہ چھاتی، دست ہاتھ اور پائے پاؤں — شاخ ٹہنی، برگ پتا، سایہ چھاؤں
ماہ چاند، اختر ہیں تارے، رات شب — دانت دنداں، ہونٹ کو کہتے ہیں لب
استخواں ہڈّی ہے اور ہے پوست کھال — سگ ہے کتّا اور گیدڑ ہے شغال
تِل کو کنجد اور رُخ کو گال کہہ — گال پر جو تل ہو اس کو خال کہہ
کیکڑا سرطان ہے، کچھوا سنگ پشت — ساق پنڈلی، فارسی مٹھی کی مشت
ہے شکم پیٹ، اور بغل آغوش ہے — کہنی آرنج اور کندھا دوش ہے
دودھ جو پینے کا ہے وہ شیر ہے — طفل لڑکا اور بوڑھا پیر ہے
ہندی میں عقرب کا بچھّو نام ہے — فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے
ہے وہی کژدُم جسے عقرب کہیں — نیش ہے وہ ڈنگ جس کو سب کہیں
ہے لڑائی، حرب اور جنگ ایک چیز — کعب، ٹخنہ اور شتالنگ ایک چیز
ناک بینی، پرّہ نتھنا، گوش کان — کان کی لو نرمہ ہے، اے مہربان
چشم ہے آنکھ اور مژگاں ہے پَلک — آنکھ کی پتلی کو کہیے مردمک
منہ پر گر جھری پڑے آژنگ جان — فارسی چھینکے کی تو آونگ جان
مسا، آژخ اور چھالہ، آبلہ — اور ہے دائی،جنائی، قابلہ
اونٹ اُشتر اور اُشغر سیّہ ہے — گوشت ہے لحم اورچربی پیّہ ہے
ہے زنخ ٹھوڑی، گلا ہے خنجرہ — سانپ ہے مار اور جھینگر زنجرہ
ہے زنخ ٹھوڑی، ذقن بھی ہے وہی — خاد ہے چیل اور زغن بھی ہے وہی
پھر غلیواز اس کو کہیے جو ہے چیل — چیونٹی ہے مور اور ہاتھی ہے پیل
لومڑی روباہ اور آہو ہرن — شمس سورج اور شعاع اسکی کرن
اسپ جب ہندی میں گھوڑا نام پائے — تازیانہ کیوں نہ کوڑا نام پائے
گربہ بلّی، موش چوہا، دام جال — رشتہ تاگا، جامہ کپڑا، قحط کال
خر گدھا اور اس کو کہتے ہیں اُلاغ — دیگ داں چولہا جسے کہیے اُجاغ
ہندی چڑیا، فارسی کنجشک ہے — مینگنی جس کو کہیں وہ پشک ہے
تابہ ہے بھائی توے کی فارسی — اور تیہو ہے لوے کی فارسی
نام مکڑی کا کلاش اور عنکبوت — کہتے ہیں مچھلی کو ماہی اور حوت
پشّہ مچھّر، اور مکھّی ہے مگس — آشیانہ گھونسلا، پنجرہ قفس
بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند — میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند
نام گُل کا پھول، شبنم اوس ہے — جس کو نقّارہ کہیں وہ کوس ہے
خار کانٹا، داغ دھبّا، نغمہ راگ — سیم چاندی، مس ہے تانبا، بخت بھاگ
سقف چھت ہے، سنگ پتھّر، اینٹ خشت — جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں زشت
زر ہے سونا اور زرگر ہے سنار — موز کیلا اور ککڑی ہے خیار
ریش داڑھی، مونچھ سلبت اور بُروت — احمق اور نادان کو کہتے ہیں اُوت
زندگانی ہے حیات اور مرگ موت — شوے خاوند اور ہے انباغ سَوت
ہفت سات اور ہشت آٹھ اور بست بیس — سی اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس
ہے چہل چالیس اور پنجہ پچاس — ناامیدی یاس، اور اُمّید آس
جملہ سب، اور نصف آدھا، ربع پاؤ — صرصر آندھی، سیل نالا، باد باؤ
ہے جراحت اور زخم اور گھاؤ ریش — بھینس کو کہتے ہیں بھائی گاؤمیش
دوش کل کی رات اور امروز آج — آرد آٹا اور غلّہ ہے اناج
چاہیے ہے ماں کو مادر جاننا — اور بھائی کو برادر جاننا
پھاوڑا بیل اور درانتی واس ہے — فارسی کاہ اور ہندی گھاس ہے
سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ — خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں کاہ
چکسہ پڑیا، کیسہ کا تھیلی ہے نام — فارسی میں دھپّے کا سیلی ہے نام
اخلگندو جھجھنا، نیرو ہے زور — بادفر، پِھرکی اور ہے دُزد چور
انگبیں شہد اور عسل، یہ اے عزیز — ام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز
آجُل اور آروغ کی ہندی ڈکار — مے شراب اور پینے والا میگسار
روئی کو کہتے ہیں پنبہ سن رکھو — آم کو کہتے ہیں انبہ سن رکھو
خانہ گھر ہے اور کوٹھا بام ہے — قلعہ دژ، کھائی کا خندق نام ہے
گر دریچہ فارسی کھڑکی کی ہے — سرزنش بھی فارسی جھڑکی کی ہے
ہے بنولا، پنبہ دانہ، لاکلام — اور تربُز، ہندوانہ، لاکلام
ہے کہانی کی فسانہ فارسی — اور شعلہ کی زبانہ فارسی
نعل در آتش اسی کا نام ہے — جو کہ بے چین اور بے آرام ہے
پست اور ستّو کو کہتے ہیں سویق — ژرف اور گہرے کو کہتے ہیں عمیق
تار، تانا، پود بانا، یاد رکھ — آزمودن، آزمانا یاد رکھ
یوسہ، مچھّی، چاہنا ہے خواستن — کم ہے اندک اور گھٹنا کاستن
خوش رہو، ہنسنے کو خندیدن کہو — گر ڈرو، ڈرنے کو ترسیدن کہو
ہے ہراسیدن بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟ — اور جنگیدن ہے لڑنا، کیوں لڑو؟
ہے گزرنے کی گزشتن فارسی — اور پھرنے کی ہے گشتن فارسی
وہ سرودن ہے جسے گانا کہیں — ہے وہ آوردن جسے لانا کہیں
زیستن کو جانِ من جینا کہو — اور نوشیدن کو تم پینا کہو
دوڑنے کی فارسی ہے تاختن — کھیلنے کی فارسی ہے باختن
دوختن سینا، دریدن پھاڑنا — کاشتن بونا ہے، رُفتن جھاڑنا
کاشتن بونا ہے اور کشتن بھی ہے — کاتنے کی فارسی رِشتن بھی ہے
ہے ٹپکنے کی چکیدن فارسی — اور سننے کی شنیدن فارسی

کودنا جستن، بریدن کاٹنا — اور لیسیدن کی ہندی چاٹنا

سوختن جلنا، چمکنا تافتن — ڈھونڈنا جستن ہے، پانا یافتن

دیکھنا دیدن، رمیدن بھاگنا — جان لو، بیدار بودن، جاگنا

آمدن آنا، بنانا ساختن — ڈالنے کی فارسی انداختن

باندھنا بستن، کشادن کھولنا — داشتن رکھنا ہے، سختن تولنا

تولنے کو اور جو سنجیدن کہو — پھر خفا ہونے کو رنجیدن کہو

فارسی سونے کی خفتن جانیے — منہ سے کچھ کہنے کو گفتن جانیے

کھینچنے کی ہے کشیدن فارسی — اور اُگنے کی دمیدن فارسی

اونگھنا پوچھو، غنودن جان لو — مانجنا چاہو، زدودن جان لو

ہے قلم کا فارسی میں خامہ نام — ہے غزل کا فارسی میں چامہ نام

کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو — ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو
بچوں کی غزل
صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا
وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا

پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ
ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا

شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے دھوم
آج عالم اور ہے بازار کا

لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا
پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا

گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا

واہ بے لڑکے پڑھی اچھّی غزل
شوق ابھی سے ہے تجھے اشعار کا

لو سنو کل کا سبق آ جاؤ تم — پوزی افسار اور دمچی پاردم

چھلنی کو غربال، پرویزن کہو — چھید کو تم رخنہ اور روزن کہو

چہ کے معنی کیا، چگویم کیا کہوں — من شَوَم خاموش، میں چُپ ہو رہوں

بازخواہم رفت، میں پھر جاؤں گا — نان خواہم خورد، روٹی کھاؤں گا

فارسی کیوں کی چرا ہے یاد رکھ — اور گھنٹے کی درا ہے یاد رکھ

دشت صحرا اور جنگل ایک ہے — پھر سہ شنبہ اور منگل ایک ہے

جس کو ناداں کہیے وہ انجان ہے — فارسی بینگن کی بادنجان ہے

جس کو کہتے ہیں جمائی فازہ ہے — جو ہے انگڑائی، وہی خمیازہ ہے

یارہ کہتے ہیں کڑے کو ہم سے پوچھ — پاڑ ہے تالار، اک عالم سے پوچھ

جس طرح گہنے کی زیور فارسی — اسی طرح ہنسلی کی پرگر فارسی

بھِڑ کی بھائی، فارسی زنبور ہے — دسپنا اُنبر ہے اور انبور ہے

فارسی آئینہ، ہندی آرسی — اور ہے کنگھی کی شانہ فارسی

ہینگ انگوزہ ہے اور ارزیر رانگ — ساز باجا اور ہے آواز بانگ

لوہے کو کہتے ہیں آہن اور حدید — جو نئی ہے چیز اسے کہیے جدید

زوجہ جورو، یزنہ بہنوئی کو جان — خشم غصہ اور بدخوئی کو جان

ہے نوا آواز ساماں اور اول — نرخ، قیمت اور بہا،یہ سب ہیں مول

سیر لہسن، تُرب مولی، ترہ ساگ — کھا بخور، برخیز اُٹھ، بگریز بھاگ

روئی کی پونی کا ہے پاغُند نام — دُوک تکلے کو کہیں گے، لاکلام

گیتی اور گیہاں ہے دنیا یاد رکھ — اور ہے ندّاف، دُھنیا یاد رکھ

کوہ کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ — فارسی گلخن ہے اور ہندی ہے بھاڑ

تکیہ بالش اور بچھونا بسترا — اصل بستر ہے سمجھ لو تم ذرا

بسترا بولیں سپاہی اور فقیر — ورنہ بستر کہتے ہیں برنا و پیر

پیر بوڑھا اور برنا ہے جواں — جان کو البتہ کہتے ہیں رواں

اینٹ کے گارے کا نام آژند ہے — ہے نصیحت بھی وہی جو پند ہے

پند کو اندرز بھی کہتے ہیں ،ہاں — ارض ہے، پر،مرز بھی کہتے ہیں ہاں

کیا ہے ارض اور مرز تم سمجھے؟ زمیں — عنق گردن اور پیشانی جبیں

آس چکّی، آسیا مشہور ہے — اور فَوفل چھالیا مشہور ہے

بانسلی نے اور جلاجل جانجھ ہے — پھر ستَروَن اور عقیمہ بانجھ ہے

کُحل سرمہ اور سلائی میل ہے — جس کو جھولی کہتے ہیں زنبیل ہے

پایا قادر نامہ نے آج اختتام — اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام

بچوں کی ایک اور غزل
شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل نہیں
علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ہے وہی انسان جو جاہل نہیں

کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟
آج ہنستے آپ جو کِھل کِھل نہیں

کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق
ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

پھرآگے”قطعہ”،”رموزحروف”،”ابیاتِ شہروبازار دہلی”،”نظم دلچسپ”،”نظم ہاتھی”،”رباعی”،”شیر”،”دریائی گھوڑا”،”گائے”،”بیل”،”زرافہ”،”کنگارو”،”مگر”،”پردارویل”،”ایکمیوس کا کُتّا”،”عربی اونٹ”،”مذمتِ افیون”،”وجہ مہر و دستخط برخاتمہ(28 فروری 1891ء،مطبع نظامی)تحریریں ملتی ہیں۔
15-فروری 1869ءمرزاغالبؔ اِس عالمِ آب و گِل سےاُس عالمِ ارواح کو سدھارے،جہاں سبھی کو جاکراپنے”اعمال” کاجہاں بسانا ہے۔
ـــــــــــــــــــ———–
حوالے :
٭ عبد القوی (پیدائش یکم نومبر 1930ء دسنہ ، نالندہ صوبہ بہار،بقیدِ حیات)کی تصنیف :”نِکاتِ قادر نامۂ غالبؔ ” 1998ء صوبہ بہار ،غالب کی مشہور زمانہ کتاب “قادر نامہ غالب” کی نوترتیب بھی ان کا ایک کارنامہ ہے ۔”قادر نامہ” کی مختلف اشاعتوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے اس کتاب کی ترتیب و تدوین کی ہے۔
٭”قادر نامۂ غالبؔ ازپروفیسرمحمدباقر)
٭قادرنامہ غالب از عبدالقوی دسنوی(شعبۂ اُردو،سیفیہ کالج ، بھوپال 1971ء)
٭مکاتیبِ غالبؔ از امتیازعلی عرشی صفحات 1 تا 35
___________________

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles