کوٹ نانک کی مسیحا
کتابوں ہی نہیں بڑے آدمی زندگی میں بھی ملتے ہیں مگر ہم انھیں دیکھ نہیں پاتے
محرم النساء بیگم ضلع حافظ آباد کے ایک گاؤں میں رہتی ہے۔
کوٹ نانک نامی یہ گاؤں حافظ آباد سے بیس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، قادر آباد بلوکی لنک کینال کے پاس۔ اس گاؤں کا نام نانک ہے لیکن اس کا گورونانک سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے سردار نانک سنگھ نامی ایک سکھ اس گاؤں کا واحد مالک تھا۔ ہندوستان تقسیم ہوا۔
سکھ یہاں سے چلے گئے لیکن نانک کے نام کی تختی یہیں لگی رہی۔ مشرقی پنجاب کے مختلف علاقوں سے آنے والے یہاں آباد ہونے لگے اور گاؤں کا گاؤں چند دنوں میں مسلمان ہو گیا۔
کوٹ نانک کو ایک اور شرف بھی حاصل ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا تعلق بھی اسی گاؤں سے جڑ گیا۔ لیاقت علی خان اور ان کے خاندان کو ہندوستان میں چھوڑی ہوئی زمینوں کے عوض کچھ رقبہ اس گاؤں میں الاٹ ہوا۔ گاؤں کی عورتیں آج بھی بہت فخر سے بتاتی ہیں کہ انھوں نے شہید وزیراعظم کے کھیتوں سے فصلیں چنی ہیں۔
لیاقت علی خان یہاں کبھی نہ آ سکے۔ یہ ساری جائیداد اور گاؤں کے اندر موجود ایک بڑی حویلی اپنے مالک کی راہ تکتی رہی۔ لیاقت علی خان کو فرصت نہ مل سکی۔ ان کے سامنے دو راستے تھے۔ وہ لٹے پٹے افراد کو آباد کرتے یا خود آباد ہوتے۔ انھوں نے پہلا راستہ اپنایا کہ بڑے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ یہاں نہیں بسے لیکن لوگوں کے سینوں میں پرانی یادوں کے چراغ اب تک روشن ہیں۔
کوٹ نانک سے سکھ چلے گئے۔ مسلمان آ گئے لیکن بودوباش، رہن سہن اور طور اطوار میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی۔ 1990ء تک اس گاؤں میں بچیوں کا کوئی اسکول قائم نہ ہو سکا۔ تعلیم انسان کا زیور ہے لیکن کوٹ نانک تک شاید یہ خبر نہیں پہنچی۔ 1990ء میں گاؤں کے لوگ محرم النساء کو بیاہ کر یہاں لے آئے۔
شادی سے پہلے وہ قلعہ دیدار سنگھ کے پاس ایک گاؤں میں پڑھاتی تھی۔ جب وہ یہاں آئی تو درس و تدریس کی خواہش بھی اس کے ساتھ ہی چلی آئی لیکن یہاں پر کوئی اسکول ہی نہ تھا۔
اس نے محکمہ سے یہاں ٹرانسفر کی درخواست کی تو اسے پتا چلا کہ اس گاؤں میں اسکول تو کب کا منظور ہے لیکن عمارت نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔
محرم النسا نے گاؤں میں تبادلہ کروایا تو اس کے میاں نے اپنا گھر پیش کر دیا کہ جب تک اسکول نہیں بنتا، اسے ہی اسکول سمجھو۔ یوں کوٹ نانک میں آزادی کے چالیس سال بعد علم کی پہلی آواز محرم کے گھر سے بلند ہوئی۔
بچیوں نے میرے گھر کے صحن میں لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کی صدا بلند کی تو میری آنکھیں بھیگنے لگیں۔
محرم نے بتایا اور ماضی میں کھونے لگی۔ اس بات کو پندرہ برس گزر گئے ہیں۔ میں نے ان پندرہ برس میں اس گاؤں کی کئی سو بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کیا ہے۔
اس گاؤں کا کوئی گھر ایسا نہیں جس کی بچی نے مجھ سے چند حروف نہ سیکھے ہوں۔ گاؤں میں اب کئی کنال پہ محیط ایک گرلز اسکول بن چکا جہاں میرے علاوہ سات اور اُستانیاں ہیں۔ محکمہ کی طرف سے کئی بار میری خدمات کو سراہا گیا۔ مجھے بہترین استاد کا اعزاز ملا۔ لیکن میرا اصل اعزاز گاؤں کی طرف سے ملنے والی عزت ہے۔
وہ بچیاں جنہیں میں نے علم کے نور سے سرفراز کیا ، میرا انعام ہیں ۔
شادی کے کئی سال بعد جب میرے ہاں ایک بیٹے نےجنم لیا تو میرے گھر کا صحن مبارک باد دینے والوں سے بھر گیا۔ لوگ آتے رہے اور میری آنکھوں کی نمی بڑھتی رہی۔ اتنے تحفے ملے کے کمرے میں نہیں سمائے۔‘‘
محرم نے ہمیں یہ ساری باتیں بڑے فخر سے بتائیں۔ ہم اس گھر کے جس کمرے میں بیٹھے اس کا فرش کچا تھا لیکن لپائی اتنی خوبصورتی سے کی گئی تھی کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہا۔ کمرے کے ایک طرف تین چارپائیاں ایک دوسرے کے اُوپر پڑی تھیں۔ رنگین اور منقش پائے۔ خوبصورت بستر، تکیے اور پنجاب کے روایتی کھیس اور سب سے بڑھ کر کچی مٹی کی خوشبو!
محرم کہنے لگی کہ علم کی پگڈنڈی پہ میں اس وقت اکیلی کھڑی تھی۔ اب تو ایک قافلہ ہے۔ میں نے علم کی روشنی پھیلانے کی کوشش کی۔ بچیاں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنے لگیں۔ ‘‘
محرم النسا کی باتیں متاثر کر رہی تھیں۔ کوٹ نانک میں جہالت کے جن اندھیروں کو حکومت دُور نہ کر سکی، اس نے دور کر دیا۔ وہ نہ ہوتی تو اس گاؤں کے آدھے مکین شاید جاہل رہتے۔ طاقتور تو پڑھ لکھ جاتے ہیں لیکن مصلی، کمی، ترکھان، جولاہے… ان کے حصے میں کیا آتا؟ محرم النساء سے مل کر خیال آیا کہ بڑے آدمی کتابوں میں ملتے ہیں اور زندگی میں بھی لیکن ہم انھیں دیکھے بغیر گزر جاتے ہیں۔
٭٭٭