احساس کے انداز
اُمید اور روشنی کی کرن
تحریر :۔ جاوید ایاز خان
ماریہ شعمون مسیح, جہد مسلسل کی ایک زندہ مثال
پے در پے ناکامیابیوں کے بعد سی ایس ایس امتحان میں پہلی پوزیشن لینے والی باہمت خاتون
ہمارے ملک میں درپیش مسائل کچھ اس طرح ہیں کہ ہر خاندان چاہتا ہے کہ اس کا ایک فرد ضرور سول سروس سے منسلک ہو جائے تاکہ تھانہ ، زمین۔ عدالت کے معاملات اور دیگر امور میں مستقبل میں پریشانی نہ ہو۔
اس لیے طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ غریب اور پسماندہ لوگ سی ایس ایس جیسے امتحان تک پہنچ ہی نہیں پاتے کیونکہ طبقاتی نظام تعلیم اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو فروغ دیتا ہے۔
طلبا کو طبقات میں بانٹ کر تعلیم دی جاتی ہے۔ جس کا ہماری اشرافیہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ ڈیسک اور ٹاٹ کے فرق کے باوجود پسماندہ اور غریب لوگوں کی خواہشات اور امیدوں پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی ؟
جب والدین اپنے بچوں کو اسکول داخل کراتے ہیں تو ان کی خواہش اور خواب یہی ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ بڑا آدمی بنے ۔ ہمارے ہاں بڑے آدمی سے مراد ڈاکٹر ، انجینیر ۔آرمی آفیسر، بیوروکریٹ، جج، بننے کی ہوتی ہے ۔
یہی بڑی خواہش اور اُمید لے کر ماریہ شمعون کا والد شمعون مسیح ایک عام سرکاری سکول میں ماریہ کو داخل کرانے گیا تھا ۔
وہ ایک کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک غریب ڈرائیور اور آٹھ بچوں کا باپ تھا۔ بڑا خاندان اور کم آمدنی کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری۔ وہ اور اس کی بیوٰی دن رات محنت کر کے اپنے بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی پڑھائی پر اپنا تن من دھن نچھاور کرتے رہے ۔
وہ اپنے بچوں کو اچھا گھر ،اچھے کپڑے تو نہ دے سکے، البتہ اپنی ساری کمائی ان کی تعلیم پر لگا دی ۔یہی وجہ تھی کہ ان کے تمام بچے نہ صرف امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوئے بلکہ تمام ہی اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
ان میں سے پانچ گریڈ ۱۷ کے افسران ہیں ۔اور اب ماریہ نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا اور اسسٹنٹ کمشنر بن کر ان کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔
ان کی سوچ درست تھی کہ بچوں پر سرمایہ لگائیں گے تو کل وہ کچھ بنیں گے ۔باقی آسائشیں تو بعد میں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو ہی اپنا اصل سرمایہ سمجھتے تھے ۔
آخرکار ماریہ نے ان کے خوابوں کو تعبیر دے دی۔
لگاتار تین مرتبہ مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی ہمت نہ ہارنے والی ماریہ سی ایس ایس آفیسر بننے میں کامیاب ہو گئی۔
کیونکہ ہارتے تو وہ ہیں جو ہار مانتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر ناکامی کے بعد مایوسی ضرور ہوتی تھی۔ لیکن وہ اور اس کے والدین خدا سے دعائیں کرتے اور روزے رکھتے جس کی وجہ سے وہ مایوسی کو غالب نہ آنے دیتی۔
پھر سے محنت کرنے کا نیا حوصلہ اور جذبہ مایوسی پر غالب آ جاتا ۔ وہ حوصلہ اور ہمت سے پھر محنت شروع کر دیتی ۔
وہ کہتی ہیں کہ میرا یقین تھا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔میں ایک کمزور لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی، جو رو کر اور حوصلہ ہار کر شکست قبول کر لے۔
میں نے عزم کیا تھا کہ ہر حال میں اسسٹنٹ کمشنر بننا ہے ۔
بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں دو مرتبہ ناکامی کے باوجود ہمت اور حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا۔
آخری موقع کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کی جس میں کامیابی حاصل کی ۔
خدا نے اس کی محنت کا بہت بڑا صلہ دیا ۔
آخری مرتبہ جو نو اُمیدوار اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسر کے عہدوں کے لیے کامیاب ہوئے ان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے بلوچستان جیسے ،
پسماندہ صوبے اور اقلیت سے تعلق رکھنے والی پہلی صنف نازک اسسسٹنٹ کمشنر بن کر صنف آہن بن گئی ۔
ماریہ شمعون اپنے والدین کو اس لیے وژنری اور ہیرو کہتی ہیں کہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود انہوں نے انسانی وسائل پر سرمایا کاری کی۔ ہماری تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دی۔
سب سے بڑھ کر ہر ناکامی کے بعد مزید محنت کر نے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
وہ ایف ایس سی کے بعد ڈاکٹر بننے کی خواہش مند تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جب بلوچستان یونیورسٹی سے ایم ایس سی بائیو کیمسٹری میں اس کی محنت کا صلہ گولڈ میڈل کی شکل میں ملا تو حوصلہ اور بھی بڑھا۔
اس نے طے کر لیا کہ وہ اب سی ایس ایس کر کے اسسٹنٹ کمشنر ضرور بنے گی ،
اور اپنے والدین کے برسوں پرانے خوابوں کو تعبیر ضرور دے گی ۔
اس کے دوستوں اور بہن بھائیوں نے اس کی بے مثال حوصلہ افزائی اور مدد کی ۔
ماریہ بتاتی ہیں کی جب کامیابی کی اطلاع ملی اور وہ خوشخبری سن کر گھر پہنچی،
اس وقت اپنے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھ کر مسرت کی انتہا نہ رہی۔
اپنی خوش قسمتی پر خدا کا شکر ادا کیا کہ کہ اس عمر میں اپنے والدین کو خوشی دے سکی۔
انہوں نے مجھے گلے لگایا اور بہت زیادہ پیار کیا ۔
ماریہ شعمون کے والد اور والدہ اس کی کامیابی پر بےحد خوش ہیں۔
ان کے اور پورے خاندان کے چہرے پر جو خوشی اور مسرت نظر آتی ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو چکا۔
یقیناً یہ ان کی زندگی کے خوشگوار ترین خوبصورت لمحات تھے۔
والدین کے ساتھ ساتھ ان کی کمیونٹی میں بھی خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔
والد شمعون مسیح کا کہنا ہے کہ بچوں کو پڑھانے میں مجھے بہت مالی مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس دوران میری بیوی نے میرا ہر طرح سے مکمل ساتھ دیا۔
اس کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ خدا نے میری اور میری اہلیہ کی محنت کو بارآور کر کے ہمیں سرفراز کیا ۔
مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ ایک معمولی ڈرائیور کی بیٹی بلوچستان میں پہلی مسیحی خاتون اسسٹنٹ کمشنر بن چکی ہے ۔
اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو کامیابی تو نظر آتی ہے
لیکن کامیابی کے پس نظر میں جو طویل جدوجہد اور قربانی ہوتی ہے،
جو ان کے خوابوں کو سچ میں بدل دیتی ہے، وہ بھی سامنے آ سکے ۔
ہم ماریہ اور اس کے والدین کے عزم و حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں ۔
اس سے قبل سی ایس ایس ۲۰۲۱ ء میں شکار پور سندھ سے خاتون ثنا رام چند اور چترال کے پسماندہ علاقے سے شازیہ اسحاق بھی سی ایس ایس میں پوزیشن حاصل کر چکی ہیں ۔
جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر لڑکیوں کو گھر والوں کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہو تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔
پسماندہ علاقوں سے خواتین کا اس سطح تک آگے آنا، والدین اور خاندان کی حمایت کے بغیر ناممکن ہے ۔
چترال، سندھ اور بلوچستان جیسی جگہ،
جہاں بجلی بھی مکمل دستیاب نہ ہو اور انٹرنیٹ کی سہولت تو دور کی بات،
وہاں علم کی روشنی پہنچنا ایک نیک شگون ہے ۔
ان لوگوں کی کامیابی سے نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کا بھی معترف ہونا پڑتا ہے۔
جو نامساعد حالات اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود ،
تعلیمی ترقی کے اس سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔
ہم ماریہ شمعون کو ملنے والے اس اعزاز پر اسے مبارکباد پیش کرتے ہیں
اور میدان عمل میں بہتر کارکردگی کی اُمید کرتے ہیں کہ،
نچلے طبقہ سے ان لوگوں کے آگے آنے سے عوامی اور معاشرتی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں مدد ملے گی۔
ملک میں تبدیلی کی یہ لہر مزید پھیلتی چلی جائے گی ۔
اُمید کی یہی کرن تبدیلی کی وہ علامت ہے جو ہمیں ایک عظیم قوم بننے کی منزل کے قریب تر کرتی ہے۔
“یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی ”
۞۞۞۞