صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
منطقی نتائج اور غیر منطقی تجزیے
17/05/13
ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ شورش پسندی کے باوجود پاکستان نے انتخابات کا پُل عبور کر لیا ہے
اور سیاسی جماعتوں نے غیر معمولی استقامت اور عزیمت کا ثبوت دیا ہے۔
انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی عالمی برادری میں دہشت گردی سے زخم زخم سرزمین کے لیے
بے پناہ جوش و خروش اُبھرنے لگا ہے
اور ترقی اور خوشحالی کی راہیں کشادہ ہوتی دکھائی دیتی ہیں ٗ مگر بدقسمتی سے ہمارے اندر
ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو بیمار ذہن کے ساتھ خوشیوں کو بھی اداسیوں میں تبدیل کرنے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُنہیں قلبِ سلیم عطا کرے اور وہ بھی زندگی کی حقیقتوں سے
عشق کرنا سیکھیں
مجھے تو انتخابات کے نتائج بڑی حد تک منطقی اور فطری دکھائی دیے۔
مختلف جماعتوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں جو کچھ بویا تھا ٗ اُن کے اختتام پر کم و بیش وہی کچھ کاٹا ہے۔
فطرت کی تعزیریں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں
جو اﷲ کے عذاب کو دعوت دینے والوں پر نازل ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور اُس کے
حواریوں نے عوام کو جس بے رحمی اور ڈھٹائی سے ذلیل و رسوا کیا ٗ وہ آج کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔
اُنہوں نے رینٹل پاور پراجیکٹس میں اربوں کمائے اور اہلِ وطن کو ہولناک اندھیروں میں دھکیل دیا۔
اُس کے صدر ٗ وزیر اعظم اور وزرائے کرام تو پاکستان سے بالکل لاتعلق رہے۔
ملک میں تباہ کن سیلاب آئے اور صدرِ محترم فرانس کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے اور
جناب وزیر اعظم بھی بیش قیمت ملبوسات میں دادِ عیش دیتے رہے۔
اُنہیں اِس امر سے کوئی غرض نہیں تھی کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹوں تک پہنچ گیا ہے
پی آئی اے کا طیارہ ایندھن کی قلت سے کسی غیر ملکی ہوائی اڈے پر کھڑا ہے یا ریل کے
انجن ویران بستیوں میں فیل ہو گئے ہیں۔
اُنہیں اِس بات سے بھی کوئی غرض نہیں تھی کہ اُن کے اللے تللوں پر ملک اندرونی اور
بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ہانپ رہا ہے اور معیشت آخری سانس لے رہی ہے۔
وہ تو صرف مال بنانے اور لینڈ مافیا کی عفریت کو دودھ پلانے آئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے عہد میں
ہر منصب نااہل افراد کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا رہا
اور پنجاب کو اِس جرم کی سزا دی گئی کہ اُس نے پیپلز پارٹی کو اکثریت سے کیوں نہیں نوازا
چنانچہ پنجاب کے صنعتی مراکز ویران ہوتے گئے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے مرکز ٗ بلوچستان اور سندھ میں مخلوط حکومتیں قائم کیں
اور خیبر پختونخواہ میں وہ اے این پی کے ساتھ اقتدار میں شامل تھی۔
اِس کی شامتِ اعمال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ پنجاب ٗ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان
میں تقریباً وائپ آؤٹ ہو گئی ہے
اور ’’ہم بھٹو ہیں ٗ ہم بے نظیر ہیں‘‘ کے جذباتی نعروں سے اپنا وجود فقط سندھ تک محدود رکھ سکی ہے۔
اب اِس فطری عمل میں اگر کوئی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی سازش تلاش کرتا ہے
تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ٗ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے
دھاندلیوں کے الزامات کے باوجود انتخابات کے نتائج تسلیم کر لیے ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں اے این پی کو بے حساب کرپشن اور اندرونی اختلافات کی سزا ملی ہے۔
محترمہ بیگم نسیم ولی خاں نے جناب اسفند یار ولی کے بارے میں جو بیان دیا ہے
اُس نے یہ حقیقت فاش کر دی ہے کہ معاملات غیر سیاسی انداز میں چلائے جا رہے تھے۔
اے این پی کی غیر مقبولیت سے جو خلا پیدا ہوا ٗ اُسے تحریکِ انصاف نے ایک حد تک پُر کیا ہے
اور جمعیت علمائے اسلام ف ٗ مسلم لیگ نون ٗ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی طاقت
کے مراکز کے طور پر اُبھری ہیں۔
مذہبی جماعتیں وقت پر انتخابی اتحاد کرنے میں ناکام رہیں اور اُن کی کسی قومی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی نہ ہو سکی ٗ چنانچہ وہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بہت بڑی سیاسی طاقتیں نہ بن سکیں۔ سندھ میں انتخابات کے آخری دنوں میں دس جماعتی اتحاد قائم ہوا
مگر اُس کی قیادت بڑی حد تک غیر فعال رہی اور ایم کیو ایم کے مدِمقابل سیاسی قوت کا
بھرپور مظاہرہ نہ ہو سکا ٗ تاہم جماعت اسلامی
اور تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کی مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف رائے عامہ بڑی حد تک منظم کی ہے
اور اِس کے اثرات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے اور جبر کا شکنجہ آخر کار ٹوٹ جائے گا
کیونکہ الطاف بھائی کے ’’ارشادات‘‘ اُن کے مستقبل کا طوق بننے والے ہیں۔
پانچ سال کے طویل عرصے میں پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت نے اپنے مدبرانہ طرزِ عمل کے ذریعے ایک زبردست کردار ادا کیا اور ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
مرکز میں اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے اُس نے تمام سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل کو اوّلین اہمیت دی۔
اُسے اپوزیشن کی بعض جماعتیں قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جانے پر اُکساتی رہیں
اور اُس پر ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے تیر بھی برساتی رہیں
مگر میاں نواز شریف نے غیر معمولی ژرف نگاہی اور سیاسی استقامت کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ نہیں ہونے دیا اور اِس امر کا اہتمام کیا
کہ تبدیلی صرف بیلٹ کے ذریعے آنی چاہیے۔ اُن کی اِس حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومتوں کو اپنی کارکردگی دکھانے اور عوام کو اُن کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ کو جانچنے کا پورا پورا موقع ملا
اور اُنہوں نے اپنی عدالت میں کھلا فیصلہ سنا دیا۔ دوسری طرف اِس جماعت کو بے پناہ دشواریوں کی فضا میں پنجاب کی حکومت چلانے کا موقع ملا ٗ تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے
شبانہ روز محنت سے لوگوں کے دل جیت لیے اور پے درپے معجزے تخلیق کیے۔ ڈینگی بخار کا خاتمہ اُن کا پہلا معجزہ اور ریپڈ بس سروس کا گیارہ مہینے میں اجراء دوسرا بڑا کارنامہ تھا۔
اُنہوں نے صوبے میں سڑکوں اور فلائی اوورز کا ایک جال بچھا دیا۔ اُن کا سب سے بڑا معجزہ صوبے کو دہشت گردی سے محفوظ بنا دینا تھا۔
اُن کے بلا خیز جنوں اور استغراق نے پنجاب کی ہیت بدل کے رکھ دی۔ انتخابی مہم کے دوران میاں نواز شریف نے جس بردباری ٗ شائستگی اور جواں ہمتی کا مظاہرہ کیا
اُس نے پوری قوم کو یہ تاثر دیا کہ اُن کے اندر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اُمنگ پائی جاتی ہے۔ اُن کی یہی فقید المثال کارکردگی انتخابی نتائج میں جلوہ گر ہے۔
لاہور کی انتخابی کامیابیوں میں تو جوان ٹیم کے علاوہ محترمہ مریم نواز اور عزیزی سلمان شہباز کا بہت بڑا حصہ ہے۔
جناب عمران خاں کی تحریک انصاف کو ایک فطری کامیابی ملی ہے۔ اُنہوں نے نوجوانوں کے اندر تبدیلی کا صور پھونک دینے کے بعد بہت زیادہ انتخابی کامیابیوں کی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔
اِس کے علاوہ اُن سے بعض اسٹریٹیجک غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ اُنہیں جب عام انتخابات کے لیے صف بندی کرنی چاہیے تھی ٗ وہ پارٹی کے انتخابات میں اُلجھتے چلے گئے
اور اِسی سبب وہ مناسب اور تجربے کار اُمیدواروں کا بروقت انتخاب نہیں کر سکے۔
اُن کا زیادہ تر دائرہ عمل خیبر پختونخواہ اور لاہور تک محدود رہا۔ اُن کی زباں سے شعلے بھی نکلے اور وہ غیر سیاسی باتیں بھی کرتے رہے۔ انتخابات میں بدانتظامی کے آثار تو نظر آتے ہیں
مگر اُن کی بنیاد پر پورے سیاسی عمل کو ہی ہنگاموں کی نذر کر دینا پاکستان کی قسمت سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔ وہ خیبر پختونخواہ میں ایک مثالی حکومت قائم کریں
اور جناب نواز شریف وفاقی کابینہ میں چھوٹے صوبوں کو برابر نمائندگی دیں ٗ تو اُمیدوں کو ایک طویل سفر شروع ہو سکتا ہے۔
انتخابات کا سب سے تابناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو مخلوط حکومت کی ’’ڈائن‘‘ سے نجات مل گئی ہے
اور بلوچستان میں قومیت پرست جماعتیں قومی دھارے میں شامل ہوتی جا رہی ہیں
اور وہاں مسلم لیگ نون حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے
جو شورش زدہ صوبے کے لیے ایک درخشندہ دور کا پیغام ثابت ہو گا۔