منو کی گڑیا
(علی حیدر)
آسمان کو دوپہر کے وقت بادلوں نے یوں اوڑھ لیا تھا جیسے کسی میت کو سفید کفن۔
اس دن میاں صاحب کے آنگن میں کہرام مچا ہوا تھا۔سارا گاؤں میاں صاحب کے ہاں جمع تھا۔
گاؤں کی زندگی نہ صرف پُر خلوص اور سادہ ہوتی ہے بلکہ اس کی فِضابھی اِن چیزوں سے سرشار ہوتی ہے ۔شاید آج آسمان بھی اِسی وجہ سے گاؤں والوں کا ہم راہی بن گیا اور اب وہ سفید پلکوں مانند بادلوں سے بارش کی صورت میں آنسو برسانے کے لیے تیار تھا، لیکن ایک شخص میاں صاحب کی موت پر ایک بار بھی نہیں رویا۔
وہ کوئی اور نہیں خود میاں صاحب کی بیٹی مُنو تھی ۔ عام دنوں میں وہ باپ کی سلطنت ہوتی ایک ایسی سلطنت جس سے باپ کبھی باہر نہیں نکلتا۔
اُس کی ماں بچپن میں مر گئی تھی۔ ماں کا پیار تھوڑا بہت باپ کی آغوش میں آ کے مِلا۔
میاں صاحب مُنو کا بہت خیال کرتے تھے۔ وہ ا س کی ہر خواہش پوری کرتے ۔ گاؤں میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ بچپن گھر میں باپ کی گود میں کھیل کر گزارا۔
آج میاں صاحب کی موت پر وہ اٹھارہ سال کی تھی۔اب وہ جوانی کے دھارے میں قَدم رکھ چکی تھی۔ پتا نہیں کیا بات ہے، جوانی میں حٔسن جَوبن پر ہوتا ہے۔ وہ غیر معمولی طور پر حسین تھی۔
اب جوا نی میں اس کا حسن نکھر چکا تھا۔جب وہ کسی بات پہ ہنستی تو اُس کے چہرے کا تِل یوں ابھرتا کہ سیاہ رات کا چاند بھی اس چاند کو دیکھے تو شرما جائے۔ شاید باپ کی پرورش کی وجہ سے وہ گھر کی دہلیز سے باہر قدم نہ رکھ پائی۔ اس کی چند ایک سہلیاں اُسی کے گھر ہی اس کے ساتھ کبھی کبھار کھیلنے آتی تھیں۔
نہ جانے آج باپ کی موت پر اس کی آنکھوں سے ایک اشک بھی نہیں ٹپکا۔ وہ گھر کے آنگن میں باپ کی میت کے پاس زانوں پہ سر رکھے چپ چاپ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ کھڑی عورتیں زار زار رو رہی تھیں۔
چند ایک عورتیں اسے رونے پہ اُکسا رہی تھیں۔ کچھ بوڑھی عورتوں کا خیال تھا کہ منو اگر نہ روئی تو وہ بھی غم کی شدت سے مر جائے گی، لیکن اس کی آنکھیں ایسے خشک تھیں جیسے برسات کے موسم میں بھی کسی دریا پہ طغیانی نہ آئے۔
پھر اچانک ایک عورت دروازے سے اندر داخل ہوئی اور ایسے دھاڑیں مار مار کے روئی کہ جو عورتیں رو رو کہ چپ بیٹھی تھیں وہ دوبارہ رونے لگ گئیں۔ یہ عورت کوئی اور نہیں منو کی پھوپھی تھی جو پاس کے گاؤں میں رہتی تھی۔ بعض اوقات اپنوں کو روتا دیکھ کے آنکھیں ابل پڑتی ہیں ، پر منو اب بھی چپ بیٹھی تھی جیسے اسے مرنے والے سے کوئی سَروکار ہی نہ ہو۔
منو کو بچپن ہی سے گڑیاں پسند تھیں، لیکن اُن سب میں سے اُسے مٹی کی وہ گڑیا پسند تھی۔ جس کی آنکھوں میں موتی لگے ہوئے تھے۔ دیکھنے والا اسے دیکھ کے کہتا کہ کسی نے دو آنسو اٹھا کر اِس گڑیا کی آنکھوں میں رکھ دیے ہیں ۔
منیرہ کا باپ جب کبھی شہر جاتا تو وہ سارا دِن اس گڑیا سے باتیں کر کے اور کھیل کے گزارتی تھی۔ عصر کے وقت میاں صاحب کی میت جنازے کے لیے اٹھ گئی، لیکن اب بھی منیرہ کسی مجسمے کی مانند وہیں بیٹھی تھی۔عورتوں میں سے کہیں آواز آئی کہ لڑکی نے عشق کے چکروں میں باپ کو مار دیا ہے اور اب کسی منڈے سے شادی کرے گی۔
کسی نے کہا کہ یہ میاں صاحب کی بیٹی ہی نہیں ہے۔
لوگ تو آنسوئوں کے بہنے کو غم سمجھتے ہیں۔ رونے کو دُکھ کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے خوشی پر ہنسنا ضروری ہے اور دکھ پر رونا ضروری ہے۔
مُنو میت کے اُٹھ جانے کے تھوڑی دیر بعد اندر کمرے میں چلی گئی ۔اس کی نظریں چراغ کی روشنی میں کسی چیز کی متلاشی تھیں اور پھر اچانک اس کی نظریں فرش پر پڑیں تو اس نے زور سے چیخ ماری اور وہ گر گئی۔ چند عورتیں اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
ہوش آنے پر وہ دھاڑیں مار مار کر رو رو رہی تھی۔ گھر کے آنگن میں صرف اس کی رونے کی آواز تھی۔
اس کی آنکھوں سے اشکوں کا ریلا ایسے بہنے لگا کہ بند ٹوٹنے پر کوئی دریا۔ اُس کے پاس کھڑی ہوئی عورت نے اپنی بچی کو زور سے تھپڑ مارا ۔
تمام عورتیں اس کی طرف متوجہ ہوئیں ۔وہ اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی
اری کم بَخت، گڑیا کیوں توڑ دی؟