خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
چوتھا حصہ
کوپن ہیگن کا بیلی
طارق مرزا، سڈنی
جہاز رُکتے ہی مسافر اُٹھ کھڑے ہو ئے۔ تھوڑی دیر میں ہم کوپن ہیگن ایئرپورٹ کے اندر کی گہما گہمی کا حصہ بن چکے تھے۔ امیگریشن کے لیے یورپی اور غیر یورپی مسافروں کے لیے الگ الگ کاؤنٹر تھے۔ میرا نمبر آیا تو امیگریشن افسر نے صرف ایک سوال کیا
یورپ میں کتنے دن رُکنے کا پروگرام ہے ؟
دو ہفتے۔ میں نے مختصر جواب دیا۔ اس نے پاسپورٹ پر مہر لگا ئی اور ویلکم ٹو ڈنمارک کہہ کر پا سپور ٹ میرے حو الے کر دیا۔ میں سامان ٹرالی پر رکھ کر صدر دروازے سے باہر نکلا تو مسافروں کے اعزہ و اقربا اور احباب ایک نیم دائرے کی شکل میں کھڑ ے تھے۔
اُن کی نظیں دروازے پر جمی تھیں۔ میں دائرے کے درمیان جا کر رُک گیا اور رمضان رفیق کی تلاش میں نظروں کے گھوڑے دوڑائے جو بے نیل و مرام واپس لوٹ آئے کیونکہ انہیں کوئی شناسا چہرہ دکھائی نہیں دیا۔ رمضان رفیق سے میں کبھی ملا نہیں تھا۔
رمضان رفیق پر ہی کیا موقوف، ان چاروں ملکوں میں میرا کوئی پرانا دوست نہیں تھا۔ محض ادبی تعلق تھا۔ یوں کہیے کہ ان اصحاب کی محبت اور مہمان نوازی تھی کہ اگلے بیس دن بے شمار دوستوں کی رفاقت حاصل رہی۔ تاہم محبتوں کے یہ سلسلے یکطرفہ نہیں ہیں ۔یہ محبتیں بانٹنے اور سمیٹنے کا دو طرفہ عمل ہے۔ ہماری بھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ علم و ادب سے متعلق جو شخصیت آسٹریلیا تشریف لائے، دل و جان سے اُس کی مہمان نوازی کر سکیں ۔ یُوں محبتوں کے یہ چراغ ملکوں ملکوں روشنی پھیلاتے رہتے ہیں۔
رمضان رفیق کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے میں ٹرالی لیے باہر نکل آیا۔ دراصل طویل پرواز کے بعد سگریٹ کی طلب ستا رہی تھی۔ گیٹ سے باہر نکل کر میں نے سگریٹ نوشی کے لیے مختص مقام ڈھونڈنے کے لیے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی مگر کوئی سائن وغیرہ نظر نہ آیا۔
تاہم گیٹ کے باہر کئی خواتین و حضرات کو سگریٹ نوشی کر تے دیکھ کر میں نے سکون کا سانس لیا اور سگریٹ سلگا کر ان کی پارٹی میں شریک ہو گیا۔
فرش پر سگریٹ کے ٹوٹے بکھرے تھے جنہیں دیکھ کر مزید اطمینان ہوا۔ یہ اطمینان اس وجہ سے تھا کہ ڈنمارک ، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی طر ح کا مُلک نہیں ہے جہاں سگریٹ نوشوں کا جینا حرام ہے۔ جہاں سگریٹ نوشی کے لیے کونے کھدرے میں جگہیں مخصوص ہوتی ہیں۔
ایسی جگہوں میں کھڑے ہو کر سگر یٹ نوشوں کو یُو ں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ماہ ِرمضان میں روزہ خوروں کی طر ح چھپ کر یہ عمل کر رہے ہیں۔ ان مخصوص مقامات کے علاوہ نہ تو وہاں کوئی سگریٹ پیتا ہے اور نہ سگریٹ کے ٹو ٹے زمین پر پھینکتا ہے۔ کسی ریستوران یا پارٹی ہال میں کھانا کھانے کے بعد سگریٹ نوشی کے لیے اتنے دُور جانا پڑتا ہے کہ کھایا پیا ہضم ہو جاتا ہے۔
اس طرح ان ملکوں میں صفائی کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کچھ پھینکنا تقر یباً ناممکن ہے۔ اب اتنی بھی صفائی اور نازک مزاجی اچھی نہیں کہ کچرا جیب میں لیے پھر تے رہیں ۔
میرے جاپانی دوست ناصر ناکا گاوا بغرض ِسیاحت آ سٹریلیا آئے تو اُن کی جیب میں چمڑے کی ایک تھیلی ہوتی تھی۔ اس تھیلی میں نقدی یا کوئی قیمتی شے نہیں تھی۔ بلکہ وہ سگریٹ پی کر اس کی راکھ اور ٹوٹا اس میں ڈال کر تھیلی بند کر کے جیب میں رکھ لیتے تھے۔
میں بار بار ان کی جیب کی طرف دیکھتا رہتا تھا کہ اس میں سے دُھواں نہ نکلنا شر وع ہو جائے مگر جاپانیوں نے اتنا پکا انتظام کیا ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ویسے آپس کی بات ہے آسٹریلیا ہو یا جاپان ان ملکوں میں صفائی تو بہت ہے مگر وہ اس آزادی سے محروم ہیں جو ہم پاکستانیوں کو حاصل ہے۔ نہ تو وہ چلتی گاڑی سے پان کی پیک کا فوارہ کھول سکتے ہیں۔ نہ ہماری طرح مالٹے کے چھلکے باہر پھینک سکتے ہیں۔ نہ ہر جگہ تھوک سکتے ہیں اور سب سے بڑ ھ کر مثانہ چھلک رہا تو کسی دیوار کی جانب منہ کر کے یہ وزن ہلکا نہیں کر سکتے ۔ کتنی پابندی بھری زندگی گزارتے ہیں یہ بے چارے۔
سگریٹ ختم کر نے کے بعد میں انتظارگا ہ کی جانب چلا ہی تھا کہ رمضان رفیق اسی جانب سے آ تے دکھائی دیے۔ بھلا ہو فیس بُک اور واٹس ایپ کا ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ہم نے پہچان لیا۔
رمضان رفیق انتہائی تپاک سے ملے۔تاخیر سے آنے کی معذرت کی اور میرے ہاتھ سے ٹرالی لے لی۔ سیاہ گھنی مونچھوں، مسکراتی نکھوں اور تیکھے نقوش کے مالک اس نوجوان کی شخصیت بہت دل آویز لگی۔ رمضان رفیق نے زراعت میں گریجوایشن کی ہوئی ہے۔ مگر ڈنمارک آ کر کاروبار کی طر ف متو جہ ہو گئے اور اب ایک ریستوران کے مالک ہیں۔
انہیں شعر و ادب سے گہرا شغف ہے۔ بہت دلچسپ بلاگ تحریر کر تے ہیں۔ بحیثیت مجموعی حساس ، محبت کر نے والے اور ادب نو از شخص ہیں۔ وہ ’بیلی ‘‘ کے رُوحِ رواں ہیں جو ڈنمارک میں ادبی سرگرمیاں جاری رکھے ہو ئے ہے۔
یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
https://shanurdu.com/copenhagens-belly/