16 C
Lahore
Sunday, December 22, 2024

Book Store

Main Shayar Nahi|میں شاعر تو نہیں

میں شاعر تو نہیں

سلطان جمیل نسیم

برقؔ صاحب کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جن کے نام ہماری شاعری کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ زندگی کے چالیس پینتالیس سال انھوں نے اپنے آدرش اور اپنے فن کی لو اونچی کرنے میں صرف کیے ہیں۔ مزدوروں کے ترجمان، غریبوں کے ہمدرد اور انقلابی دستے کے سالار رہ چکے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے استعمار پسند قوتوں کو للکارا ہے۔
آزادی کے جذبے کو اُبھارا اور استحصالی طبقے کے خلاف مظلوم کو سینہ سپر ہو جانے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔ آزادی مل جانے کے بعد بھی ان کے خیالات نے مظلوموں کی طرف سے منہ نہیں موڑا۔
جب وہ تحریک ختم ہو گئی۔ اس کے اثرات مدھم پڑ گئے تو برقؔ صاحب نے نطم کے بجائے غزل کو ترسیل خیال کا ذریعہ بنا لیا۔
غزل کو وہ مقام دیا کہ سارے دیش میں ان کی جے جے کار ہونے لگی۔ سرکار نے پدما بھوشن کا خطاب دیا لیکن بیوی کے ہاتھوں لاچار ہیں۔ گھر میں کوئی وقعت ہی نہیں۔
میں برق صاحب کے شاعرانہ کمال کا بہت عرصے سے معتقد تھا لیکن ملاقات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی تھی۔ آخر ملازمت کے سلسلے میں یہاں آنا ہوا تو برق صاحب سے ملنے کی آرزو دل میں تڑپ پیدا کرنے لگی لیکن رہائش کے مسئلے نے مجھے اس قدر الجھائے رکھا کہ کئی مہینے تک برق صاحب سے ملاقات کی سبیل پیدا نہ کر سکا۔
اسی دوران ایک مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا۔ برق صاحب کو وہاں دیکھا تو ماند خواہش جگمگ جگمگ کرنے لگی۔
برق صاحب نے میری غزل کو بہت توجہ سے سنا۔ کئی مصرعوں کو دہرایا۔ چند اشعار پر داد دی اور چلتے وقت مجھے اپنے دولت کدے پر حاضر ہونے کے لیے فرمایا۔ چنانچہ میں دوسرے ہی دن پہنچ گیا۔ بہت خوش ہوئے۔ بڑی دیر تک مختلف ادبی مسائل پر گفتگو فرماتے رہے۔
باتوں باتوں میں یہ تمنا لب پہ آ ہی گئی کہ میں اپنی غزلیں ان کی خدمت میں اصلاح کی غرض سے پیش کر دیا کروں۔ میری اس خواہش پر وہ ذرا مسکرائے پھر فرمایا:
’’یہاں روز ہی احباب کا اجتماع ہوتا ہے۔ استادی شاگردی کا جھنجھٹ میں نے کبھی نہیں پالا۔ آپ تشریف لاتے رہیے۔ لوگوں کو سنیے اور ان کو سنائیے۔ اس طرح بہت سے گوشے روشن ہو جائیں گے اور اسی روشنی میں آپ اپنی چیزوں کو دیکھیے اور خود ہی ترمیم و تنسیخ کیجیے۔ ویسے آپ کی رہائش کہاں ہے؟
ان کو بتایا کہ میں ایک معمولی سے ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ والدین پاکستان جا چکے اور بڑی بہن آگرہ کے آبائی مکان میں رہ رہی ہیں۔ ان کے شوہر دبئی میں ہیں۔
وہ بھی پاکستان جانا چاہتی ہیں لیکن میری وجہ سے رکی ہوئی ہیں کہ میرے چند معاملات سلجھ جائیں تو وہ میرے ہی ساتھ پاکستان کا رخ کریں۔ میری کتھا سن کر وہ مسکرائے۔
’’حضرت۔ آپ نے اتنا تفصیلی تعارف پہلے کیوں نہیں کرایا؟ آپ کے والد سے میری یاد اللہ ہے۔ اس نسبت سے آپ میرے لیے اور عزیز ہو گئے۔ بھئی یہ دو منزلہ مکان ہے۔ اُوپر کا حصہ خالی ہے۔ گھر والی کئی بار مجھ سے کہہ چکی ہیں کہ وہ کرائے پر دے دوں۔
آپ سے زیادہ بھروسے کا اور کون ہو گا۔ ہمشیر کو بلا لیجیے اور یہاں منتقل ہو جائیے۔‘‘
یہ سن کر سوکھے دھانوں پانی پڑا۔ برق صاحب نے مجھے آشیانہ عطا کر کے پریشانیوں کی دھوپ سے بچا لیا۔ میں اسی رات باجی کو لینے چلا گیا۔
برق صاحب کی صحبت میں میرا شعور نکھرنے لگا۔ میری شاعری میں معنی آفرینی اور زبان و بیان کی خوبیاں بڑھنے لگیں۔ زندگی کے مسائل چند مصرعوں میں بیان کرنے کا سلیقہ آنے لگا۔
شام کو دفتر سے آنے کے بعد زیادہ وقت برق صاحب کے ساتھ گزرتا۔ ایک ہی گھر میں رہنے اور کچھ باجی کے توسط سے ان کی نجی زندگی سے بھی شناسائی ہو گئی۔
برق صاحب کے دو بچے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان کے صاحبزادے، جن میاں سے تو میری بھی رسم و راہ ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ برق صاحب کو جب کبھی دوسرے شہر مشاعرے میں شرکت کے لیے جانا پڑتا تو میں شام کا کچھ حصہ ان کے بیٹے کے ساتھ بھی گزارتا۔ البتہ صاحبزادی کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ قبول صورت اور پردے کی پابند ہے۔
ایک دن دفتر سے واپس آیا تو باجی کے ساتھ ایک حسین لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ باجی نے مجھے دیکھا تو چلائیں:
’’ارے ادھر پردہ ہے۔ اپنے کمرے میں چلے جاؤ۔‘‘
میں الٹے قدموں پلٹ تو گیا لیکن وہ موہنی صورت نظروں میں کھُب گئی۔ ایک بار دیکھا ہے،دوسری بار دیکھنے کی تمنا ہے۔ دل پکارنے لگا۔
اس لڑکی کے جانے کے بعد باجی نے بتایا کہ یہ برق صاحب کی بیٹی منن تھی۔ کالج میں پڑھتی اور اپنی اماں سے چھپ کر آزاد نظمیں لکھتی ہے۔
میں دل ہی دل میں ہنسنے لگا۔ رسم و رواج میں جکڑی ہوئی لڑکی اور آزاد نظمیں… پھر میں نے باجی سےکہا:
’’برق صاحب نے اپنے بچوں کے نام خوب رکھے ہیں۔ جن اور منن…‘‘
’’ارے یہ تو پیار کے نام ہیں۔ لڑکے کا نام حبیب اور اس کا نام انجم تاب ہے۔‘‘
’’انجم تاب…! خیر لڑکے کا نام تو ٹھیک ہے لیکن یہ انجم تاب…‘‘
’’انجم تاب… کیوں… اچھا تو نام ہے… ‘‘
’’ہاں اچھا ہے لیکن کسی شاعری کے مجموعے کے لیے۔‘‘
باجی ہنس دیں۔ پھر ہم دونوں دیر تک برق صاحب کے بارے میں باتیں کرتے رہے کہ ایسے اچھے شاعر کی گھر میں کیا درگت بنتی ہے۔
برق صاحب کی بیگم ایسی ہجو گوہیں کہ توبہ… وہ وہ صلواتیں سنانی ہیں کہ پتہ پانی ہو جاتا ہے مگر شاباش ہے برق صاحب پر کہ یہ سب کچھ نہایت خاموشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیتے ہیں۔ باجی نے کہا:
’’کام بھی تو نہیں کرتے سوائے شاعری کے… مشاعروں کی آمدنی سے کہیں گرہستی چلتی ہے… نظریات اور تحریکوں سے وابستہ رہ کر بچے نہیں پالے جا سکتے۔‘‘
میں نے ان کو چھیڑنے کے لیے کہا:
’’باجی… اگر ہر آدمی دبئی چلا جائے تو پھر شاعری کون کرے؟‘‘
’’اگر صرف شاعری ہی کرنا ہے تو گھر کیوں بساتے ہیں۔ رہیں اکیلے۔ خوب شاعری کریں، کون منع کرتا ہے۔ یہ مکان ان کی بیگم کو جہیز میں ملا تھا۔ بقول بیگم برق… اگر یہ ٹھکانا بھی نہ ہوتا تو برق صاحب کی آمدنی در بدر لیے پھرتی…‘‘
باجی نے ایک سانس میں کہا۔ میں برق صاحب کو موضوع بنا کر بحث کرنا نہیں چاہتا تھا، اس لیے خاموش ہو گیا۔
ایک دن بہت دیر سے آنکھ کھلی۔ میں نے جلدی جلدی ناشتا کیا۔ کوٹ کندھے پر ڈال کر زینے کی طرف بھاگا اور جیسے کسی سے ٹکرا گیا۔
ایک چیخ اُبھری… وہ تو خیریت ہوئی کہ میں نے اسے سنبھال لیا ورنہ میرے کوٹ کے بجائے وہ زینے سے گر گئی ہوتی۔
چیخ کی آواز سُن کر باجی دوڑی آئیں۔ انجم کو بدحواس دیکھ کر وہ بھی گھبرا گئیں۔ میں شرم سے پانی پانی اپنا کوٹ پہنتا ہوا نیچے کی طرف اُتر گیا۔
انجم کو میں نے پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا کہ دن بھر دل نے مجھے اس کے سوا کچھ اور سوچنے ہی نہ دیا۔ سارا دن میری عجیب سی حالت رہی۔ کسی کام میں جی ہی نہ لگا۔
انجم کے خیال سے ایک لمحہ کی جدائی بھی بری لگنے لگی۔ بس میں اسی کے تصور میں مگن رہا۔
شام کو گھر پہنچا تو باجی کھانے کے بعد صبح کے تصادم کا قصہ لے بیٹھیں۔
’’انجم بیچاری سویرے سے کتنی ہی مرتبہ آ کے اپنا پچھتاوا ظاہر کر چکی۔ دراصل وہ اس لیے آ رہی تھی کہ تم سے پڑھنے کے لیے بات چیت کرے۔‘‘
’’مجھ سے بات چیت؟‘‘
’’ہاں مگر تم نے زینے پر ہی ساری گفتگو کر ڈالی۔‘‘
’’کیا بتاؤں باجی۔ دفتر کے لیے پہلے ہی دیر ہو گئی تھی اس لیے میں ایک دم جلدی میں بھاگا تھا۔ وہ بھی شاید کچھ عجلت میں تھی اور…‘‘ میں اپنی خجالت چھپانے لگا۔
’’لڑکی پسند ہے…؟‘‘ باجی نے مسکرا کے پوچھا اور پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر کہنے لگیں:
’’وہ صبح یہ کہنے کے لیے آئی تھی کہ امتحان سر پہ آ گیا ہے اور وہ انگریزی میں بہت کمزور ہے۔ اگر تم کچھ وقت نکال سکو تو شاید وہ امتحان میں کامیاب ہو جائے۔‘‘
میں نے باجی کے مسکراتے ہوئے چہرے سے ان کی مرضی بھانپ لی اور لاتعلقی کے انداز میں کہا۔
’’لیکن یہ پردے کی پڑھائی، کچھ عجیب سا نہیں لگے گا؟‘‘
’’یہ بات میں نے بھی کہی تھی… وہ تم سے کانا پردہ کیا کرے گی۔‘‘
’’یعنی۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں… گویا اس شعر کی تفسیر بن کر بیٹھا کریں گی محترمہ…‘‘
دوسرے دن انجم پڑھنے آئی تو وہ شرما رہی تھی اور میں جھجک رہا تھا۔ باجی قریب بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔ میری ہچکچاہٹ تو دو چار دن میں ختم ہو گئی مگر انجم کا حجاب باقی رہا۔ باجی پہلے دن تو ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ دوسرے دن ننھے جاوید کو بہلانے کے لیے اُٹھ گئیں۔ پھر ایک دن پانی اُبلنے لگا۔ ایک دن ہنڈیا جلنے لگی۔
چار پانچ دن کے بعد انھوں نے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ لڑکی پسند ہے؟ باجی کے اس سوال کا جواب تو پہلے ہی دن میرے دل نے اقرار میں دے دیا تھا۔ اب انجم کو پڑھانا شروع کیا تو اس کے گُن گانے لگا۔ دل کی دھڑکن کے ساتھ جذبات کی ادائیگی ممکن نظر نہ آئی تو میں روز ایک غزل کہنے لگا۔
برق صاحب نے روز ایک غزل سنی تو زیرِ لب تبسم کےساتھ فرمایا۔ ’’خوب آمد ہے آج کل۔‘‘
مگر… وہ میرے جذبات و احساسات سے بیگانہ بس اپنی پڑھائی میں مگن تھی اور میرا حال یہ کہ رات کی پرتوں میں اس کی مسکراہٹ روشنی کی لکیروں کے مانند دیکھوں۔ آئینے میں نظر پڑے تو اس کا چہرہ دکھائی دے۔
ستاروں میں وہ پلکیں جھپکاتی نظر آئے… چاندنی میں اس کے سائے سمیٹے ہوئے ملیں۔ اس کی مہک فضا میں گھلی ہوئی معلوم ہو۔ میں کہاں ہوں، اپنا پتہ ہی نہ ملے۔ہر لمحہ،ہر طرف… بس انجم ہی انجم۔ میں بے کہے لفظوں کے ساتھ بیٹھا تھا تو انھوں نے کہا۔
’’میری زندگی سامراج کے خلاف جدوجہد کرتے گزری ہے۔ نظریہ کوئی جامد حقیقت نہیں، اٹل حقیقت آزادی ہے۔
میں نے گیارہ برس جیل میں گزارے ہیں۔ اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آزادی مقدر تھی۔ وہ مل گئی اور بچوں کا مقدر پاکستان ہے۔ لاکھوں انسان جس ملک کے لیے اپنی زندگی کا نذرانہ دے چکے، اب وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے… آپ کے جانے میں اب کیا رکاوٹ باقی ہے۔‘‘
میں نے تفصیل کے ساتھ انھیں اپنی مجبوریوں سے آگاہ کیا۔ وہ میری بات سن کر فرمانے لگے۔ ’’اپنی ہمشیر کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔ آپ جب مجبوریوں سے دامن چھڑا لیں تو چلے آئیے گا۔‘‘
برق صاحب کی اس رائےسے باجی بھی متفق تھیں۔ ہفتہ بھر بعد برق صاحب اپنا مکان میری تحویل میں دے کر پاکستان کے لیے روانہ ہو گئے۔
سب لوگوں کے جانے کے بعد مجھ پہ کیا گزری، میں نے وقت کیسے کاٹا؟ اپنے جلدی جانے کے سلسلے میں کیا کیا تدابیر اختیار کیں؟ یہ قصہ طولانی ہے۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ میں دن کے ہنگامے اور رات کی تنہائی میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔
فطرت کا یہ عجیب دستور ہے کہ دن کے اُجالے میں تکلیفیں بھی روپوش ہو جاتی ہیں اور یادیں بھی لیکن جہاں رات کے زینے پر دن کا پہلا قدم اُٹھا، وہیں درد کی چاندنی پھیلی اور یادوں کی پازیب کھنکی۔
انجم نے کسی طرح بھی مجھے یہ احساس نہیں دلایا تھا کہ وہ میرے جذبات میں شریک ہے۔ میں ان کہے انداز ہی سے جان گیا تھا کہ جو راستہ میں نے اختیار کیا ہے، وہ بھی اسی پر چل رہی ہے۔ چلتے وقت جس طرح اس نے اپنی آنکھوں کو چھپایا تھا۔ جس طرح لرزتے ہونٹوں کو دبایا تھا۔ میرے لیے وہی اظہار بہت تھا۔
میں جب خالی گھر میں آ کر لیٹتا۔ جب کبھی سونے کمروں میں چکر لگاتا تو اس کی آنکھوں کو بولتے اور لبوں کو اپنے آپ سے گفتگو کرتے محسوس کرتا۔ یہ احساس مجھ میں اور وحشت پیدا کر دیتا۔ پھر ایک دن مجھے باجی کے خط کے ساتھ انجم کا چند سطری خط بھی ملا۔
’’آپ کیسے ہیں؟ اکیلے میں عجیب سا لگتا ہو گا۔ اپنا خیال رکھیے اور پاکستان آ جائیے…‘‘
ان لفظوں میں اس نے سارے جذبے سمیٹ لیے تھے۔ میں بار بار پڑھتا، بار بار روتا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ پر لگا کر اُڑوں اور پاکستان جا پہنچوں۔
میں نے باجی کو لکھا کہ بس اب آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ مجھے پاکستان پہنچا ہی سمجھیں اور امی، پاپا سے بات کر کے برق صاحب کے ہاں جائیے۔ پھر برق صاحب کو بھی ایک نیازمندانہ خط لکھا اور ساتھ ہی اپنی تازہ غزل بھی بھیج دی۔
باجی کا خط آیا۔
’’ ہم لوگ برق صاحب کے ہاں گئے تھے۔ سب بہت تپاک سے ملے۔ سارے معاملات طے ہو گئے ہیں۔ تم آ جاؤ تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے۔‘‘
باجی کے خط نے وظیفے کا کام دیا۔ مہینوں سے رُکے ہوئے کام دو چار دن میں نمٹ گئے۔
پاسپورٹ اور ویزا سب تیار تھا۔ میں نے برق صاحب کا مکان ان کے دوست جُگل پرشاد کے حوالے کیا۔ جس شام میری روانگی تھی۔ اسی دن باجی کا ایک اور خط ملا:
’’ یہ بات میں تمہیں لکھنا نہیں چاہتی تھی کہ تم خود یہاں آ کر سب کچھ دیکھو اور سنو اور فیصلہ کرو… مگر میں عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ کل انجم کی امی آئی تھیں۔ بُشرے سے غصہ ظاہر ہو رہا تھا اور گھبراہٹ بھی۔
برق صاحب بھی ساتھ تھے۔ وہ تو پاپا کے ساتھ جا بیٹھے اور ان کی بیوی امی کو عجیب نظروں سے دیکھتی رہیں۔ میں حیران تھی کہ آخر بات کیا ہے۔ پھر گھبرا کے میں نے ان سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے خالہ۔ کچھ تو بتائیے۔‘‘
خالہ نے وحشت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور پوچھا:
’’وہ تمہارا بھائی… کیا وہ شاعر بھی ہے۔‘‘
’’جی ہاں… اچھا شاعر ہے۔ برق صاحب کا تو شاگرد بھی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی انھوں نے ہاتھ میں تھاما ہوا لفافہ امی کی گود میں ڈال دیا، دو ٹوک لہجے میں کہا:
’’میںیہ رقعہ واپس کرنے آئی ہوں… منن زندگی بھر کنواری رہے، یہ مجھے منظور ہے۔ پر میں اسے جیتے جی دوزخ میں نہیں جھونک سکتی۔‘‘
میں نے اور امی نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ وہ اپنی اسی جھوک میں بولیں۔
’’بی بی۔ میں اپنی بیٹی کو کسی شاعر سے ہرگز نہیں بیاہوں گی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ شاعر کوڑی کے کام کا نہیں ہوتا…‘‘
مجھ سے آگے نہیں پڑھا گیا اور میں سر تھام کے بیٹھ گیا۔
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles