کتابی باتیں
عافیہ مقبول جہانگیر
میرے بیٹے، اچھی زندگی گزارنے کے راہنما اصول جاننے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اچھی کتابیں پڑھنا بہت ضروری ہے۔
تم اپنا جو فضول وقت ادھر اُدھر گھومنے اور دوستوں کے ساتھ ہنسی ٹھٹھے میں ضائع کرتے ہو، اس سے تم اچھی زندگی کیسے گزارو گے؟
اپنا فارغ وقت کسی نافع مصرف میں لاؤ۔
میں تمہیں کچھ اولیا کرام اور اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کے اقوال کی کتاب دوں گا۔
تم جب ایسی کتابیں پڑھو گے تو تمہیں زندگی کا مطلب سمجھ میں آئے گا ۔
جب تم ان کی کہے اقوال پر عمل کرو گے اور زندگی کو ان کے نقشِ قدم پر چلاؤ گے تب تمہیں اس کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ ہو گا۔
اسی میں بھلائی اور اصل کامیابی ہے۔
بیٹے نے سر جھکا کر کہا، ٹھیک ہے بابا۔
آپ مجھے کتاب لا دیجیے گا۔ میں ضرور پڑھوں گا۔
باپ نے اگلے ہی دن اسے ایک خوبصورت کتاب لا دی،
جو اولیا کرام کے خوبصورت اقوال پر مشتمل تھی۔
ان کی زندگی کے سبق آموز واقعات اور مخلوقِ خدا کے ساتھ کیسے رہا جائے، اللہ کی خوشنودی کیسے حاصل کی جائے، نیکیاں کیسے کمائی جائیں؟
دوسروں کی غلطیوں کو کیسے درگزر کیا جائے،؟
زندگی کو اللہ کی امانت سمجھ کر اسے دوسروں کے لیے کیسے وقف کیا جائے؟
اچھے کام کیسے کیے جائیں اور گناہوں سے کیسے بچا جائے؟
کتاب کیا تھی بس ایک گلدستہ تھا، جو معتبر شخصیات کی پھول جیسی باتوں اور نصیحتوں سے بنا تھا ۔
اسے وہ کتاب پڑھنے میں مزا آنے لگا۔
یار دوستوں کے ساتھ کلبوں میں گیمز کھیلنا، یہاں وہاں کی ہانکنا، آوارہ گردی کرنا، سب کچھ بے معنی اور بیکار لگنے لگا۔
اسے لگا اس میں اور زمین پر رینگنے والے کسی کیڑے میں کوئی فرق نہیں۔
اس کے دل کی دنیا اب بدلنے لگی تھی۔
نرم مزاجی، برد باری، صلہ رحمی، دوسروں کی مدد کا جذبہ، خوش اخلاقی جیسی صفات دھیرے دھیرے اس میں جنم لینے لگیں۔
باپ خوش تھا کہ اب بیٹا گھر پر واقت گزارنے لگا تھا اور اس میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آنے لگی تھیں ۔
باپ کو لگا اب بیٹا اس کے کاروبار کو سنبھالنے کے قابل ہو چکا اور سنجیدگی سے عملی زندگی میں اس کے شانہ بہ شانہ چلے گا اور دونوں باپ بیٹا مل کر کامیابیوں کی منازل طے کریں گے۔
بیٹا ساتھ ہو تو باپ کے کندھے اور مضبوط ہو جاتے ہیں۔
ایک دن باپ نے بیٹے کو بلایا اور اسے اپنے دفتر میں ساتھ بیٹھنے اور کاروبار میں ہاتھ بٹانے کا حکم دیا۔
بیٹا خوش دلی سے راضی ہو گیا۔
باپ تاجر تھا۔ مختلف بڑی دکانوں اور شاپنگ مالز میں اشیائے خورو نوش ، اور سامان سپلائی کرنے کا ٹھیکا لیتا تھا۔
بیٹے نے جب کاروبار کی سمجھ بوجھ سیکھی تو اس پر افشا ہوا کہ بہت سی جگہوں پر جھول ہے۔
قیمتوں کا جھول،
گاہکوں سے مالی خرد برد،
چھوٹے کسٹمرز کے ساتھ ترش رویے،
بڑی مچھلیوں کو خصوصی رعایت کے ساتھ مال دینے
اور بدلے میں ان سے اپنے مطلب کی مراعات لینا،
خیرات کے نام پر بڑے اداروں میں دکھاوے اور لوگوں کی خوشنودی کے لیے دی جانے والی بڑی رقومات
در پر آئے ہوئے سچ مچ کے کسی غریب کو دھتکارنے کا جھول۔
بیٹے نے باپ کو سمجھانا چاہا۔
اچھی زندگی، کامیاب کاروبار اور نیک ایماندار تاجر بننے کے راہنما اصولوں کا ذکر کیا، جو اس نے کتاب میں پڑھے تھے۔
اعلیٰ دینی شخصیات کے واقعاتِ زندگی بتائے اور ان کے تجربات و کیفیات کا ذکر کیا۔ نیکی کمانے کے اصل ذرائع اور صلہ رحمی، سچ اور صراطِ مستقیم پر چل کر حلال کمائی کی برکات کا تذکرہ کیا۔
اس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا جب باپ کو یہ کہتے سنا۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ آج کل ان اصولوں پر چل کر کس کا بھلا ہوا ہے؟ یہ وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب دور کچھ اور ہے۔ اس خیالی اور کتابی دنیا سے باہر نکلو اور دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے وہی طور طریقے اپناؤ جو آج کے زمانے میں اچھی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔
کتاب پڑھنے کے لیے ہوتی ہے۔
اس میں لکھی ہر بات پر عمل کرنے لگے تو دو وقت کی روٹی کے لیے ترسو گے، احمق کہیں کے۔ کتابوں کی باتیں کتابوں ہی میں اچھی لگتی ہیں۔
تم نماز پڑھتے ہو، قرآن پڑھتے ہو، روزہ زکوٰۃ کرتے ہو، بس کافی ہے۔
بیٹا گھر چلا آیا ۔
اس کے کانوں میں بس ایک ہی جملہ گونج رہا تھا
کتابی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟