8 C
Lahore
Monday, December 9, 2024

Book Store

خواہش، ارادے اور وسائل

احساس کے انداز

خواہش، ارادے اور وسائل

تحریر :۔ جاوید ایاز خان

کہتے ہیں ایک زمانے میں برصغیر کی ایک چھوٹی سی سلطنت کے ایک خود پرست بادشاہ کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ وہ اپنی ہر خواہش  کو پورا  کر سکتا ہے۔
وہ روزانہ ایک نئی خواہش کا اظہار کرتا اور اسے پورا کرنے تک چین سے نہ بیٹھتا۔ اس کو اس کی جائز و ناجائز  خواہشات سے منع یا روکنے والا موت کا حقدار قرار پاتا۔
اس لیے تمام وزراء اور مصاحب اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور اس کی خوشنودی کے لیے اس کے فیصلوں کی تائید کرتے اور پوری کوشش کرتے کہ بادشاہ کی خواہش پوری کر دی جائے،
لیکن  بعض اوقات وہ ایسی خواہش کر دیتا جسے پورا کرنا نہ ممکن ہوتا ۔ایک دن نہ جانے  کیسے اس کے دل میں خواہش جاگی کہ چین پر حملہ کیا جائے جو اس کی سلطنت سے  بہت بڑا ملک تھا۔
اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیر نے کہا، بادشاہ سلامت چین ایک بڑا ملک ہے۔ ہم اس پر حملہ نہیں کر سکتے۔
بادشاہ نے غصہ سے اس کا سر قلم کر دیا۔ پھر دوسرے وزیر سے پوچھا تو اس نے بھی اس کی رائے سے اختلاف کیا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
تیسرا وزیر بہت جہاندیدہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خواہش اور ارادے میں فرق وسائل کا ہوتا ہے۔
اس نے بادشاہ سے کہا:
حضور آپ کا فیصلہ سو فیصد درست ہے۔  چین جیسے ملک کو آپ جیسا بہادر اور عقلمند بادشاہ ہی فتح کر سکتا ہے۔ آپ کی خواہش بالکل  درست اور بروقت ہے ۔
بادشاہ بہت خوش ہوکر بولا:
مجھے تمہارے جیسے بہادر اور دلیر مصاحب ہی کی ضرورت ہے۔ بتاؤ ہم کب حملہ کریں؟
وزیر نے کہا:
حضور نیک کام میں دیر کیسی؟ فوری کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم شام کو بیٹھ کر فوری حملے کا باقاعدہ  پروگرام اور بجٹ بنا لیں۔
شام کو وزیر کاغذ ،قلم اور دوات لے کر پہنچا اور حملے کا پروگرام طے کرنے لگا۔
اس نے کاغذ اور قلم سے لکھنا شروع کیا۔ پہلے حملے کی تاریخ طے کی پھر حملے کے انتظامات اور بجٹ لکھنے لگا کہ  چین پر حملہ معمولی بات نہیں۔ ہمیں اس حملے کے لیے کتنے فوجی، گھوڑے، ہاتھی، تلواریں، نیزے اور دیگر سامان حرب مزید درکار ہو گا؟ کتنی رقم درکار ہو گی؟ ان کی خوراک کتنی چاہیے؟ فوج کے علاوہ کیا کیا سامان چاہیے اور اس پر کتنا خرچ ہو گا؟
ابھی یہ تفصیل درمیان تک ہی پہنچی تھی کہ بادشاہ کو اپنے خزانے کی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا۔ بولا:
میرا خیال ہے کہ باقی تفصیل کل پر رکھیں۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔
وزیر سمجھ گیا۔ بولا، حضور! آپ کی نیند اور آرام  چین پر حملے سے بہت اہم ہے۔ بجٹ اور پروگرام تو ہم کل بنا لیں گے ۔
اس دن کے بعد بادشاہ نے پھر چین پر حملے کا نام نہ لیا کیونکہ اسے اپنے وسائل کا احساس ہو چکا تھا ۔ وہ جان چکا تھا کہ خواہشات کا ارادے اور کسی بھی ارادے کا مطلوبہ وسائل کے بغیر پورا ہونا ممکن نہیں۔ بڑی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل بڑے وسائل سے ہی ممکن ہو سکتی ہے ۔
ہم عام طور پر خواہش اور ارادے کو ہم معنی الفاظ سمجھ لیتے ہیں۔ خواہش اور ارادے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
“میں چاہتا ہوں ” اور  “میں یہ کر رہا ہوں۔ ”
دونوں  بالکل الگ باتیں ہیں۔
آپ دونوں میں زمین آسمان کا فرق محسوس کر سکتے ہیں۔ کسی کام کا کرنا ارادہ اور اور کسی کا چاہنا خواہش ہوتی ہے. ترقی اور کامیابی خواہش سے نہیں ارادے سے ملتی ہے۔
ارادہ محبت اور عقیدت سے جنم لیتا ہے۔
آپ کی بے پناہ محبت اور عقیدت سے ہی ارادے پختہ ہوتے اور کامیابی کی منزل کے قریب تر ہو جاتے ہیں لیکن ارادے کی کامیابی کا انحصار ہمیشہ آپ کے وسائل پر ہوتا ہے۔
وسائل اور اسباب اللہ کی رحمت سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ۔آپ حج کے سفر کی خواہش کو اپنے ارادے میں بدل سکتے ہیں لیکن ایک قرعہ اندازی کی ناکامی، طوفان، بارش ، زلزلہ، سواری کی عدم دستیابی آپ کے ارادے کو کامیاب ہونے سے روک سکتی ہے۔
ہاں صرف اللہ کی رحمت ان تمام روکاوٹوں کو دور کر کے آپ کے ارادے کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے ۔ہمار ا کام خواہش کو ارادے میں بدلنا ہے، کامیابی کے وسائل صرف رحمت خداوندی سے ہی ممکن ہیں ۔
اسی لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ:
“میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے پہچانا۔ ”
ناجانے کوہ پیماوں کے کتنے مشن خواہش اور ارادے کے باوجود موسمی حالات کی وجہ سے ناکام ہو چکے۔ جانے کتنے ہی خلائی مشن اپنے آغاز میں ہی ناکام ہو چکے ہیں ۔طلب ،مرضی ،منشا خواہش ہیں جبکہ قصد ،عزم ،نیت اور عملی اقدام ارادہ کہلاتا ہے۔
وسائل چاہے جیسے بھی ہوں وہ خدا کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وسائل کے بغیر خواہش اور ارادے تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے۔ آپ کے وسائل چاہے قدرتی ،انسانی یا معاشی جو بھی ہوں مگر سب کی ودیعت اور عطا  رب کریم کی جانب سے ہوتی ہے۔
اسی لیے عام زندگی میں ہمیں اپنی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل کے لیے اپنے وسائل کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے کیونکہ انسان کی خواہشات کی کوئی حد مقرر نہیں۔
خواہشات کا حد سے بڑھ جانا بےسکونی اور بے چینی کو جنم دیتا ہے۔ باہم ارادوں اور وسائل میں توازن نہ رہے تو زندگی غیر متوازن ہونے لگتی ہے ۔
خواہشات اور حاصل میں جتنا زیادہ فاصلہ بڑھتا جائے گا ۔انسان اسی قدر مضطرب اور ڈیپریشن میں مبتلا رہنے لگتا ہے ۔
اس لیے زندگی کے سفر میں خواہشات مختصر رکھیں۔
اللہ کے عطا کردہ وسائل کے مطابق اپنے ارادے کی تکمیل کو ممکن بنائیں ۔
اللہ کی تقسیم پر قناعت کرنا اور اس کی عطا کردہ نعمتوں اور وسائل پر شکر گزاری ہی کامیابی کا زینہ ہے ۔اچھی خواہش اور نیک ارادے کوشش اور جدوجہد کے ساتھ ہمیشہ رب کی رضا اور رحمت سے کامیاب ہوتے ہیں ۔

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles