افسانہ
کالا پربت
نیلم احمد بشیر
نبیل یونیورسٹی تو چلا آیا تھا، مگر بوجھل دل سے۔ نہ جانے کیوں؟ اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اُس کا دل خواہ مخواہ اُداس کیوں ہو رہا ہے، یوں جیسے کچھ ہونے والا ہو۔ مگر کیا؟ سب کچھ ٹھیک تو تھا۔
صبح نو بجے سے کچھ قبل جب اُسے زلزلے کے ایک زوردار جھٹکے نے جگایا تھا، تو وہ زیادہ خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ لاہور میں ہلکے ہلکے جھٹکے تو کبھی کبھار آ ہی جاتے ہیں۔
یہ جھٹکا کچھ لمبا ضرور تھا، مگر لاہور والوں کے جی داروں کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ریشم بھی ایسے ہی کہا کرتی تھی۔ وہ کہتی
’’جب سے تم پڑھنے کے لیے لاہور گئے ہو، کافی ڈھیٹ اور لاپرواہ ہو گئے ہو۔ پہلے کی طرح میرا خیال نہیں رکھتے۔ یہ لاہور والے کیا ایسے ہی بےنیاز ہوتے ہیں؟ کیا اُن پہ کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا؟‘‘
اِس بات کے جواب میں پہلے تو وہ زور زور سے ہنستا، کھلکھلاتا، پھر جھوٹ موٹ پنجابی فلموں کے لاپرواہ قسم کا ہیرو بننے کی اداکاری کرتے ہوئے مونچھوں کو تاؤ دینے لگ جاتا، تو وہ بھی مذاق اڑاتے ہنسنے لگ جاتی اور نبیل مسحور ہو کر اُسے دیکھنے لگتا۔
اُسے لگتا جیسے وادی کی بہتی ندیوں سے اچانک کوئی نیا چشمہ پھوٹ نکلا ہو۔ ایسا چشمہ جس میں خوابوں کی چاندی گھلی ہوئی ہو اَور پانی کی جگہ موتی بہتے ہوں، مچھلیوں کی جگہ جل پریاں رہتی ہوں۔
کلاس سے آ کر نبیل نے خبریں دیکھنے کے لیے ٹی وی لگا لیا۔ خبریں ایسی تھیں کہ دیکھ کر اُس کے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔
صبح کو معمولی سا محسوس ہونے والا زلزلہ ملک کے شمالی علاقہ جات میں اتنی بڑی آفت بن کر نازل ہوا تھا اور اُسے کچھ خبر ہی نہیں تھی۔
’’یا میرے اللہ!‘‘ اُس نے اپنا سر پکڑ لیا اور جلدی جلدی گھر فون ملانے کی کوشش کرنے لگا۔ حیرت کی بات تھی کہ کسی کا بھی فون مل نہیں رہا تھا۔
امی، ابو، بہن، بھائی، چچا کا خاندان اور پھر ریشم، کوئی اپنا فون نہیں اُٹھا رہا تھا۔ آخر سب کہاں چلے گئے تھے؟ نبیل کو پریشانی ہونے لگی۔ ٹی وی پر خبریں سن سن کر اُسے ڈر لگنے لگا تھا۔
نیوز کاسٹر بتائے چلے جا رہے تھے کہ بالاکوٹ، مظفرآباد اور ملحقہ علاقوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
شدید جانی نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔
نبیل کا خون رگوں میں منجمد ہونے لگا۔ زلزلے کے وقت تو ریشم اپنے اسکول پڑھانے کے لیے جا چکی ہو گی۔
نبیل اسلام آباد جانے والی بس میں بیٹھا اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش میں اپنے ہونٹ مستقلاً کاٹتا چلا جا رہا تھا اور کسی کا خوبصورت چہرہ پورے چاند کی طرح اُس کے خیالوں میں دمک رہا تھا۔
ریشم اور وُہ چچازاد اَور بچپن سے ایک دوسرے کی منگ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین دوست بھی تھے۔
دونوں نے مستقبل کے حوالے سے خوبصورت خواب دیکھ رکھے تھے جن کے پورے ہونے کا وقت اب زیادہ دُور نہیں تھا۔
بچپن میں وہ دونوں ہم جولیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے پہاڑوں اور وَادیوں میں دور نکل جاتے۔
کھیل میں بہت مزا آتا، کیونکہ چھپنے کے لیے جگہیں بہت تھیں ۔
وَادی کی گود بہت وسیع۔ نبیل اکثر اوقات سب سے پہلے دوستوں کو ڈھونڈ نکالتا اور جیت جاتا۔
دوست حیران ہو جاتے کہ وہ اُنھیں اتنی مشکل جگہوں سے کیسے ڈھونڈ لیتا ہے۔
وہ ہنستا اور سب ہارنے والوں کو خوب چھیڑتا۔ وہ ڈھونڈ نکالنے میں اتنا ماہر تھا کہ قدموں کی چاپ، پتوں کی سرسراہٹ اور ہوا کی سرگوشیوں سے ہی کھوج نکال لیتا کہ اُس کے ساتھی کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
سینہ پھلا کر کہتا ’’دراصل میرے قبضے میں کوہ قاف کی ایک پری ہے۔
ایک بار وُہ مجھے ایک پہاڑی پر بیٹھی روتی ہوئی ملی۔ مَیں نے پوچھا کیا ہوا، تو کہنے لگی
’مَیں گھر سے نکلی تھی سودا سلف لینے، پھر واپسی کا راستہ بھول گئی۔
کاش مجھے کوئی پرستان پہنچا دے۔‘ مَیں نے اُسے تسلی دی اور اُس کی مدد کی، تو وہ ہنسی خوشی اپنے گھر جا پہنچی۔ انعام کے طور پر اُس نے مجھے یہ سوپُر کان دیے۔‘‘
’’سوپُر کان؟‘‘ ریشم اور ساتھی دوست حیرانگی سے پوچھتے۔
’’ہاں بھئی جیسے سوپُر مین ہوتے ہیں۔ اِسی لیے مَیں تو اتنی آسانی سے تم سب کی باتیں، سرگوشیاں سن لیتا ہوں۔‘‘
وہ منہ بنا بنا کر بولتا جاتا اور ریشم اُس کے کان مروڑ کر اُنھیں گھما کر چیک کرنے لگتی۔
وہ بس میں بار بار فون ملائے جا رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کیسے اُس کے بھائی شکیل نے اپنا فون اٹھا لیا۔
’’شکیل! شکر ہے اللہ کا، تم نے فون تو اٹھایا، کہاں ہو تم؟ سب لوگ خیریت سے تو ہیں نا؟‘‘
نبیل نے بےصبری سے سوالات کرنے شروع کر دیے۔
’’کوئی بھی خیریت سے نہیں ہے بھائی جان۔ سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا ہے۔ کچھ نہیں بچا۔‘‘
شکیل نے ہچکیوں کے درمیان تیز تیز انداز میں جواب دیا۔
’’مَیں تو اتفاقاً باہر گیا ہوا تھا۔ ساتھ والے گاؤں، اِس لیے میری بچت ہو گئی، ورنہ …..‘‘
شکیل نے بات ادھوری چھوڑ دی اور خود سسکیاں لینے لگا۔
نبیل کو لگا اُس کے کلیجے میں جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو۔
’’اور ریشم؟‘‘ اُس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’سب سکولوں کی چھتیں گر چکی ہیں۔ کچھ پتہ نہیں اُن کا۔‘‘
شکیل نے ہچکیوں کے درمیان جواب دیا اور پھر فون کٹ گیا۔
نبیل کو ایسا لگا جیسے وہ کسی پہاڑ کی چوٹی سَر کرنے کے لیے بڑی احتیاط سے قدم جماتا اوپر کو جا رہا ہو۔
رَسی یک دم ہاتھ سے چھوٹ گئی ہو۔ وہ پاتال میں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جا رہا تھا۔
کیا وہ اَب کبھی ریشم کو، اپنی زندگی کو، دوبارہ نہیں دیکھ سکے گا؟
اِس سوال نے اُس کے ذہن میں دھماکے کرنے شروع کر دیے اور آنسو اُس کی آنکھوں سے بےاختیار بہنے لگے۔
’’اے اللہ! مہربانی کر۔ اے میرے رب، میرے عزیزوں، میرے پیاروں کی خیر ہو۔‘‘
اُس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔
نبیل جب بسیں بدلتا، جاگتا، سوتا منزلیں طے کرتا بالاکوٹ پہنچا، تو شام ڈھل رہی تھی۔
اُس کے گھر جانے کا کوئی بھی راستہ سلامت نہ رہا تھا۔ مددگار ٹیموں کے دستوں نے خیمے گاڑ لیے تھے اور اُن میں روشنیاں جلنا شروع ہو چکی تھیں۔
اُن کا گھر کہاںتھا؟ دوسرے مکان کہاں تھے؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ یہ ٹوٹی ہوئی، گری ہوئی عمارتوں، دل چیر دینے والے سناٹوں کا شہر تھا اور بس۔
ہر طرف ملبے کے تودے، بچ جانے والوں کے پریشان چہرے اور خوف زدہ آنکھیں تھیں جو وقفے وقفے سے آنے والے بعد کے جھٹکوں سے مزید سہم جاتی تھیں۔
بھائی اُسے اپنے ماں باپ کے گھر کے آگے بت بنا کھڑا مل گیا۔ نبیل کو دیکھتے ہی وہ رَو دِیا اور اُس کے ساتھ مل کر ملبہ اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
اینٹ، سریا، انسانوں کے نرم و نازک گوشت پوست سے بنے زندہ جسموں کو زندگی کی قید سے آزاد کر چکے تھے۔ وہ دونوں بت بن کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔
کیا یہ وہی گل پوش حسین وادی تھی جہاں زندگی ایک شہزادی کی مانند ناچتی مسکراتی، خوش رنگ پھول چنتی، سر پہ خوشبوؤں کے تاج سجاتی، باؤلی ندیا کی طرح ہر دم اٹھلاتی نظر آتی تھی؟
شریر جھرنے ہنستے گاتے دور نکل جایا کرتے تھے اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی تھی؟ پھر کیا ہوا کہ شہزادی کا راج پاٹ ایک پل میں ہی الٹ گیا اور موت وادی کی رانی بن بیٹھی۔
کالا چوغہ پہنے بدہیبت موت اپنے کارندوں کو حکم دیتی کہ سب کچھ مٹا دو، روند ڈالو، مار ڈالو، ختم کر دو۔ زندگی کا ہر نشان مٹا دو، تباہ کر دو، سب کچھ برباد کر دو۔
’’اے اللہ! ہمیں معاف کر دے۔‘‘ نبیل سسکنے لگا۔ شکیل نے اُس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دینا چاہی۔ یہ سب کیسے ہو گیا؟ وہ سوچتا چلا گیا۔
اُسے خیال آیا شاید انسان بہت جلدی میں رہتے ہیں۔ جلدی ہی جلدی۔ سرعت ہی سرعت۔ شاید وہ ہر وقت کسی خودفریبی میں رہتے ہیں، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں۔
بادشاہوں کی طرح طاقت کے زعم کا کلف لگائے اکڑے اکڑے پھر رہے تھے کہ اُس سب سے برتر طاقت نے ایک ہلکے سے ٹھوکے سے ہلا کر کچھ یاد کروانے کی کوشش کی ، پھر یاد دِلایا کہ کوئی خالق و مالک بھی ہے جس کے قبضے میں سب کچھ ہے۔ جان و مال، زمین و آسمان، پوری کائنات۔
اُس نے یاد دِلا دیا کہ ایک اللہ بھی ہے جسے انسان اکثر کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں اور نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہ اُسی کی ڈانٹ تھی، اُس کا حکم تھا کہ
’’مَیں ہی ہوں فنا اور بقا۔ مَیں ہی ہوں سب سے بڑی حقیقت، باقی سب کچھ مایا ہے۔‘‘
کیا اللہ نے برا منا لیا تھا جو اُس کے غصّے سے بستیاں اجڑ گئیں۔ راستے بند ہو گئے، خوشبوؤں کے سانس گھٹ گئے اور اَللہ یاد آیا جو اوّل و آخر ہے، سب سے اہم رشتےدار ہے۔
نبیل کے دل میں ہوک سی اٹھی اور وُہ دِیوانہ وار ریشم کے اسکول کی جانب بھاگنے لگا جو وہاں سے اتنا دور نہیں تھا۔
وہاں پہنچ کر اُسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ عمارت کے در و دِیوار منہدم ہو چکے تھے اور چاروں طرف ملبے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ سکول کہاں، وہاں اب ویرانی اور وَحشت تھی، خوف اور دَہشت تھی اور کچھ بھی نہیں تھا۔
’’تم کیا لینے آئے ہو یہاں؟ کچھ بھی تو نہیں بچا؟‘‘
جڑ سے اکھڑے ایک اداس درخت نے اُس سے سرگوشی کی۔ نبیل نے پیار سے اُس کی طرف دیکھا اور زمین سے باہر نکلی ہوئی جڑوں کو پیار سے چھونے لگا۔
’’ریشم اِس وقت کہاں ہو گی؟‘‘ اُس نے کرب سے سوچا۔ درخت کی جڑوں کو چھو کر اُسے لگا جیسے اُس نے ریشم کے آنچل کو چھو لیا۔
’’ریشم، ریشم!‘‘ وہ منہ ہی منہ میں اُس کا نام جاپنے لگا۔ کچھ زخمی مائیں اور باپ اپنے اپنے بچوں کو ملبے سے ڈھونڈ نکالنے کے لیے آوازیں دے رہے تھے۔
زور زور سے پکار رَہے تھے۔ کس قدر وَزنی ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے وہ نازک پھول۔
سوچ کر اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ وہ وَہیں سیمنٹ کی ایک سل کے اوپر لیٹ گیا، مگر پھر یک دم کسی خیال کے آتے ہی اچانک وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
کیا پتا اِس سل کے نیچے کوئی زندہ ہو؟ کیا پتہ ریشم ہی ہو۔ مَیں کم از کم اپنے وجود کا بوجھ تو اُس پہ نہ پھینکوں، اُسے مزید مشکل میں نہ ڈالوں۔
یہ سوچ کر وہ اُٹھا اور گھاس پر لیٹ گیا جہاں سے آسمان پہ کھلے چمک دار ستاروں کی تازہ فصل صاف دکھائی دے رہی تھی۔
یہ چاند اور تارے آج اتنے روشن اور دَمکتے کیوں نظر آ رہے ہیں؟
کیا اُنھیں خبر نہیں کہ زمین پہ قیامت آ چکی ہے؟ وقت تھم چکا۔ موت اپنا کالا چوغہ پہنے ہر طرف دندناتی پھر رہی ہے؟
چاند ستاروں کی چمک دمک اِس وقت اُسے بہت بےمعنی اور بےجا محسوس ہونے لگی۔
اُس نے کچھ خفا ہو کر اُن سے منہ پھیر لیا اور آنکھیں بند کر کے پھر سے اِس ناقابلِ یقین سانحے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا جس نے ایک ہی جھپٹے میں اُس سے اُس کے اتنے پیارے لوگ چھین لیے تھے۔
’’سو جاؤ!‘‘ ایک ننھے معصوم ستارے نے اُس سے سرگوشی کی، تو وہ پوری طاقت سے چیخ اٹھا
’’نہیں!‘‘ مَیں بھلا کیسے سو سکتا ہوں؟
مجھے چَین کیسے آ سکتا ہے جبکہ میرے پیارے زمین کے اندر دَبے ہوئے ہیں۔ ’’
ریشم، ریشم بھی تو نیچے ہی ہو گی۔ مجھے اُن کی مدد کرنی ہے۔ مجھے کچھ کرنا ہے۔‘‘
وہ سوچتے سوچتے یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
سکول کی عمارت آخری مغل فرمانروا کی تقدیر کی طرح سرنگوں تھی۔ ہر طرف حسرت و یاس کا سماں تھا۔ موت اپنے بال کھولے، دانت نکوسے وحشت بھری دھمال ڈال رہی تھی۔
اسکول کے طالبِ علموں کے متعدد بستے، پنسلیں، ربڑ، شاپنر، کاغذ اِدھر اُدھر بکھرے نظر آ رہے تھے۔
کئی تو ٹوٹ پھوٹ چکے تھے، مگر کچھ ایسے بھی تھے جنہیں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
وہ بالکل ٹھیک ٹھاک اور سلامت تھے۔
کئی ناشتہ دان الٹے پڑے تھے جن میں اُن کی ماؤں نے اُنھیں آدھی چھٹی کے وقت کھانے کو کچھ نہ کچھ دیا ہوا تھا۔
لفافوں میں بند پراٹھے، کباب، انڈے، بسکٹ، توس مکھن اور نہ جانے کیا کیا۔
چند خوف زدہ اَور بھوکی بلیاں اور کتے کھانے کی خوشبو سونگھ کر اُن لفافوں کی طرف بڑھے اور اُلٹنے پلٹنے لگ گئے۔
یہ دیکھ کر نبیل کے دل میں اچانک ایک نیا اور خوفناک خیال آیا۔ کیا خبر کل کو زلزلے کے مارے ہوئے مردہ اَور نیم مردہ زخمی لوگوں کو بھی یہ کتے بلے سونگھنے لگیں اور ….. اور ….. یہ بھیانک خیال اُسے ڈرانے لگا ۔
اُس نے پتھر اٹھا کر کتوں، بلیوں کو بھگانے کی کوشش میں الٹے سیدھے ہاتھ پاؤں چلانے شروع کر دیے۔
ایک لفافے سے جھانکتا ہوا ناشتہ دیکھ کر وہ خود ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑنے سے باز نہ رہ سکا۔
بستے پہ بچے کا نام ’’عبدالقیوم‘‘ لکھا ہوا تھا جسے پڑھتے ہی اُس کے کلیجے میں پھانس سی چبھی اور اُس کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں۔
عبدالقیوم کی ماں نے لنچ ٹائم کے لیے اپنے پیارے لاڈلے بیٹے کو کھانے کے لیے پراٹھے، انڈے کے ساتھ ساتھ آم کے مربے سے ایک میٹھی قاش بھی دی تھی جس میں سے الائچی کی میٹھی میٹھی اشتہاانگیز خوشبو اُٹھ رہی تھی۔
نبیل کو اُسی لمحے اپنی امی کے ہاتھ کے بنے ہوئے پراٹھے یاد آ گئے۔
اُسے لگا جیسے وہ اِس وقت نبیل نہیں، چوتھی جماعت میں پڑھنے والا چھوٹا سا عبدالقیوم ہو اَور یہ ناشتہ اُس کی اپنی امی نے اُس کے لیے بھیجا ہو۔
اُسے یک دم معدے میں گڑگڑاہٹ سی محسوس ہوئی، تو یاد آیا کہ اُس نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔ مائیں کتنی اچھی اور کتنی بڑی نعمت ہوتی ہیں۔
عبدالقیوم کے حصّے کا مزےدار پراٹھا اور اَنڈہ کھاتے ہوئے اُسے یہی خیال آ رہا تھا۔ بڑے زلزلے کے بعد بھی جھٹکے آ رہے تھے۔
وہ گھبرا کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد غور سے اِدھر اُدھر دیکھتا اور ساکت ہو کر پوری توجہ سے ملبے کی طرف نظر دوڑاتا کہ کیا پتا زمین کہیں سے دوبارہ شق ہو گئی ہو اَور ریشم باہر نکل آئی ہو۔
کھانے کے بعد وہ دوبارہ گھاس پہ لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے سوچنے لگا، نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اچانک اُسے لگا جیسے زمین سے ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی ہوں۔
اُس نے کچھ دیر تک اُنھیں سنا اور پھر یقین کر لینے کے بعد اپنے کان دوبارہ ملبے پہ لگا کر غور سے سننے لگا۔ یہ کیا؟ اُس نے حیرانی سے سوچا۔
آوازیں واقعی زمین کے نیچے سے آتی محسوس ہو رہی تھیں۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے دو بچے آپس میں باتیں کر رہے ہوں۔ نہ جانے زمین کی کس تہ میں چھپے ہوئے تھے وہ۔
’’کون ہے؟ کون بول رہا ہے؟‘‘
نبیل پوری طاقت سے چیخا، لیکن شاید اوپر سے آواز نیچے کو نہیں جا رہی تھی، کیونکہ اُسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یونہی خاموشی چھائی رہی۔ ’’کہیں یہ میرا وَہم نہ ہو۔‘‘
اُس نے اپنے کان پھر زمین پر لگا دیے۔ کیا واقعی کوئی زندہ تھا؟
یا کیا خبر اب بھی کچھ لوگ نیچے دبے سانس لے رہے ہوں؟ اِس کا تو مطلب ہے شاید ریشم بھی ۔
اِس اُمید نے اُس کے وجود میں دیے سے روشن کر دیے اور وُہ ریسکیو ورکرز کی تلاش میں سرپٹ بھاگنے لگا۔
شہر میں کدالیں کم تھیں اور کھدائی کا کام بہت زیادہ۔
ابھی تک بہت زیادہ اِمدادی ٹیمیں وہاں پہنچ بھی نہ سکی تھیں، اِس لیے نبیل کے بےحد اصرار اَور منت سماجت کرنے کے باوجود اُسے مدد حاصل کرنے میں زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔
مشکل کھدائی ہاتھوں سے نہیں بلکہ مشینوں، کرینوں سے ہونے والی تھی اور اَیسی کسی چیز کا وہاں دور دُور تک پتا نہ تھا۔
بعد میں ٹی وی پہ خبریں دیکھنے کے بعد علم ہوا کہ ہیوی ڈیوٹی کرینیں اور اِمدادی مشینیں تو حکمرانوں کے شہر میں گر جانے والی ایک کروڑ پتیوں کی رہائشی عمارت کا ملبہ اُٹھانے کا کام کر رہی تھیں، وہ بھلا چھوٹے گاؤں اور گراؤں کو کیسے بھجوائی جا سکتی تھیں۔
دو دِن کی مستقل محنت، منت سماجت، اصرار کے بعد نبیل کے کہنے پر امدادی کارکنوں نے واقعی دو بچوں کو نیم مردہ حالت میں ملبے کی قبر سے باہر نکال لیا۔
فرطِ مسرت سے نبیل کے آنسو تھمتے نہ تھے۔ اُس روز کے بعد سے نبیل نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حوصلہ نہیں ہارے گا۔
وہ ہر رات خاموشی سے ملبے کی ڈھیریوں پہ کان لگا دیتا اور آوازیں سننے کی کوشش کرتا۔
جہاں سے بھی اُسے کسی سرسراہٹ، کسی سرگوشی کا گمان ہوتا، وہ وَہاں چاک سے نشان لگا دیتا ۔ صبح ہوتے ہی ورکرز کو مجبور کرتا کہ وہ وَہاں کھدائی کریں۔
بڑی مشکلوں سے وہ اُس کی بات مانتے۔ کبھی کبھار تو وہاں سے کچھ بھی نہ نکلتا اور کبھی کبھار کوئی ایک آدھ بچے کھچے سانسوں والا بچہ واقعی نکل آتا، تو سب خوش ہو جاتے۔
ٹی وی والے رپورٹروں نے اُسے ’’سرگوشیاں سننے والا‘‘ شخص قرار دَے کر اُس کے بارے میں ایک دلچسپ سی کہانی بھی تیار کر لی تھی جسے وہ بار بار ٹی وی پر دکھا کر لوگوں کو حیران کر رہے تھے۔
کئی اخبار وَالے اُس سے انٹرویو لینے کے لیے اُس سے ملنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر نبیل کو اِس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اُس پر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اُسے کسی طرح ریشم کا پتہ مل جائے، کسی طرح وہ ریشم تک پہنچ سکے اور بس۔ اُسے ڈھنگ سے سوئے ہوئے تقریباً چار رَاتیں ہو چکی تھیں۔
نیند کے جھونکے آتے، تو وہ اُن سے لڑتا اور چند ہی لمحوں بعد بیدار ہو کر اُٹھ بیٹھتا۔
وادی میں انسانوں اور جانوروں کی لاشوں کا تعفن پھیل چکا تھا، مگر نبیل وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔
’’اتنے دن ہو گئے بھائی جان! اب ہمیں اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘
ایک روز اُس کے چھوٹے بھائی شکیل نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی، مگر نبیل کی خاموشی نے اُسے بتا دیا کہ نبیل ابھی حوصلہ ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اُسے اب بھی کسی معجزے کی توقع اور کسی اَن ہونی کا انتظار تھا۔
’’اگر ایک فی صد بھی کسی کے زندہ بچ جانے کی اُمید ہو، تو ہمیں اُنھیں یہ چانس تو دینا چاہیے نا۔ مَیں ریشم کو ڈھونڈ کر ہی رہوں گا شکیل۔‘‘
اُس نے متوحش آنکھوں سے بھائی کو دیکھا، تو وہ چپ ہو گیا ۔بھائی کی ذہنی صحت اور دِل کے سکون کے لیے دل ہی دل میں اللہ سے دعائیں مانگنے لگا۔
وہ زلزلے کا پانچواں روز تھا۔ دوپہر، شام میں ڈھل رہی تھی۔ جب سکول کے ملبے پہ بےسبب، بےمقصد گھومتے پھرتے، پل بھر کو رکتے، سانس لیتے چلتے ہوئے نبیل تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔
صبح سے اُس نے کسی کی کوئی آہ، ہچکی، پکار کچھ بھی نہ سنا تھا۔
بس ایک اُس کے اپنے دل کی دھڑکن تھی جس کی آواز سے پوری وادی گونج رہی تھی۔ اُسے ریشم بےطرح یاد آ رہی تھی۔
’’کاش! پریوں کی کہانیوں کی طرح زمین کے کسی کونے کھدرے سے ریشم کی اوڑھنی کا کوئی حصّہ ہی دکھائی دے جائے۔ کوہ قاف کی وادی کی ایک خوبصورت پری راستہ بھول کر کہیں پاتال میں جا چھپی تھی۔
وُہ اُس کی مدد کرنے کو بےچَین تھا۔ اُسے راستہ دکھانا چاہتا تھا، مگر شاید وہ کہیں بہت دور چلی گئی تھی جو اَبھی تک اُسے اُس کا کوئی سراغ ہی نہیں مل رہا تھا۔ ریشم تو اِس وادی کی بیٹی تھی، تو شاید دھرتی ماں اُسے پُرسکون نیند دینے کے لیے اپنی آغوش میں لوریاں دے رہی ہو۔ شاید، شاید۔‘‘
’’نہیں، نہیں!‘‘ اُس نے اِس خیال کو فوراً ہی ذہن سے جھٹک دیا اور عمارت کے ملبے کے اردگرد دِیوانہ وار چکر لگانے شروع کر دیے ۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ ملبے کو کھنگالتے پھرولتے اُس کے ہاتھوں میں کلاس روم کے باہر لگی ہوئی ایک تختی آ گئی جس پر جماعت چہارم بی لکھا صاف نظر آ رہا تھا۔
’’یا اللہ!‘‘ نبیل کا سر گھوم گیا۔
یہ تو ریشم کا کلاس روم تھا۔ اُس نے فوراً گھٹنوں کے بل جھک کر ملبے کی کئی تہوں کا بغور مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ کبھی وہ اُٹھتا، کبھی بیٹھتا اور کبھی لیٹ جاتا۔
’’ریشم، ریشم!‘‘ اُس نے اپنے گلے کی پوری طاقت سے آوازیں دینا شروع کر دیں، اُسے لگا جواباً کہیں دور سے کسی نیچی جگہ سے جیسے ہلکی سی تھپتھپاہٹ کی آواز آ رہی ہو۔
’’کہیں یہ میرا وَہم تو نہیں۔‘‘ اُس نے زور زور سے اپنے اردگرد پڑی لوہے کی چیزوں کو سیمنٹ کی سلوں پر مارنا شروع کر دیا اور پھر جواب سننے کے لیے کان زمین سے لگا دیے۔
جواب میں واقعی ہلکی سی آواز آ رہی تھی جو ہوا کی سرگوشی سے زیادہ محسوس نہ ہوتی تھی۔ نبیل دیوانوں کی طرح زمین کھودنے لگا۔ اُس کے ناخن زخمی ہو رہے تھے۔
کہنیاں چھل رہی تھیں، مگر اُس پہ تو جیسے کوئی جنون سوار تھا۔
ریشم زندہ تھی۔ اُس کا دل کہہ رہا تھا، رُواں رُواں پکار رَہا تھا۔
اُسے زمین کھودتے دیکھ کر کچھ اور لوگ بھی اپنے پھاوڑے اٹھائے اُس کی مدد کو آ گئے اور گھنٹے بھر کی جان توڑ کوششوں کے بعد نوجوان لڑکی اور ایک بچے کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
نبیل کو اَللہ پہ بےاختیار پیار آ گیا اور وُہ زمین پہ جھک کر سجدے دینے لگا۔
ریشم اور بچہ نیم مردہ، مرجھائے ہوئے پھولوں، ٹوٹی پھوٹی ڈالیوں کی طرح سٹریچروں پہ ڈال کر فوراً اسپتال لے جائے گے ۔
ٹی وی والوں نے ایک بار پھر نبیل کے بارے میں نئی رپورٹ تیار کرنی شروع کر دی کہ کیسے ایک شخص نے تہ زمین سے آوازیں بلکہ سرگوشیاں سن کر قیمتی جانیں بچا لی ہیں۔
’’ریشم، میری جان، میری زندگی! مَیں جانتا تھا تم مجھے اکیلا چھوڑ کر کبھی نہیں جا سکتی تھیں۔ میری دنیا میں واپس لَوٹ آنے کا شکریہ۔‘‘
اُس نے کئی دن ملبے کے نیچے دبی رہنے والی اپنی خوبصورت محبت کے کانوں میں سرگوشیاں کر کے رس اُنڈیلا اور اُس کا زخمی ہاتھ دھیرے سے چھو کر اُسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
جواب میں ریشم نے ایک لحظے کے لیے اپنی آنکھیں کھولیں ، پھر مسکرا کر دھیرے سے بند کر لیں۔ ایک عجیب سا اطمینان تھا، اُن آنکھوں میں۔ نبیل کا خون سیروں کے حساب سے بڑھ گیا۔
اُسے اپنی خوش بختی پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ ماں، باپ، بہن بھائیوں کے بعد اب شکیل اور ریشم ہی اُس کی کل کائنات تھے۔ اِس لیے وہ دل و جان سے اُن کی حفاظت کرنا چاہتا تھا۔
کئی زخمیوں کی طرح ریشم کو بھی اسلام آباد کے ایک بڑے اسپتال میں داخل کروا دِیا گیا جہاں اُس کی دن رات نگہداشت ہونے لگی۔
اسپتال میں کمرے کم تھے اور مریض زیادہ، اِس لیے بہت سے زخمیوں کو برآمدوں اور گھاس کے قطعوں پر ہی لٹانا پڑ رہا تھا، مگر ایسے وقت میں تو زندہ بچ جانا ہی بہت تھا۔
ہر طرف نفسانفسی اور اَفراتفری کا عالم تھا۔ ہر کوئی اپنے کھوئے ہوئے رشتےداروں کی آس میں دروازوں کی طرف دیکھتا ۔
جلد سے جلد ٹھیک ہو کر وہاں سے رخصت ہو جانا چاہتا تھا، مگر اب تو واپس جانے کے لیے اُن کے پاس مکان بھی نہیں تھے۔ نہ جانے کہاں جانا تھا اُنھیں؟ اُنھیں کوئی پتا نہ تھا۔
ریشم کے جسم پر چوٹیں تو بہت آئی تھیں، مگر ہڈیاں سلامت تھیں۔
ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ پندرہ بیس دنوں میں اسپتال سے فارغ ہو کر گھر جا سکتی ہے۔
گھر اُسے بھی پتا نہیں تھا کہ کہاں ہے۔
نبیل نے ابھی اِس بارے میں کچھ سوچا نہ تھا۔ سوچا تھا، تو بس یہی کہ ریشم کیسے جلد اچھی ہو جائے۔
اُسے مزید کوئی تکلیف نہ پہنچے، سکون ملے، آرام نصیب ہو اَور ہمیشہ چَین سے رہے۔
رات بھر وہ مریضوں کے کراہنے کی آوازیں سنتا تھا۔
اپنے پیارے ماں، باپ، بہن بھائی کا تصوّر اُسے ستانے لگتا، تو نیند اُس سے کہیں دور چلی جاتی۔ وہ جلتی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر سکون پانے کی کوشش کرتا، مگر اُسے کامیابی نصیب نہ ہوتی۔
ریشم کی ہلکی سی ’’سی‘‘ اور ’’اُف‘‘ پر لپک کر اُس کے کمرے میں جا پہنچتا اور اُسے دیکھ کر تسلی کر لینے کے بعد باہر آ کر پھر سے لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے میں مصروف ہو جاتا۔
دن میں بھی نبیل اُس کے قریب ہی منڈلاتا رہتا۔ کبھی اُسے اس کی پسند کا برگر اور بوتل لا دیتا، تو کبھی چاکلیٹوں کے پیکٹ اور پھول۔
اُس کا بالکل بچوں کی طرح خیال رکھتا۔ اُس کی اتنی توجہ اور محبت کی وجہ سے ریشم ذہنی طور پر توانا محسوس کرنے لگی تھی اور اُس کی جسمانی صحت بھی روز بروز بہتر ہوتی جا رہی تھی۔
’’اب مَیں بہت بہتر ہوں نبیل! تم رات کو ہوسٹل جا کر آرام سے سو لیا کرو، خواہ مخواہ یہاں بےآرام ہوتے ہو۔‘‘
ایک رات ریشم نے اُسے پیار سے کمرے سے باہر دھکیلتے ہوئے کہا۔
’’مَیں تمہیں تنہا چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں ریشم! اب ہم دونوں کا اِس دنیا میں ایک دوسرے کے سوا آخر ہے ہی کون؟‘‘ نبیل نے اُسے ہولے سے تھپک کر تسلی دی۔
’’تمہارا نیند سے برا حال ہو جاتا ہے۔ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ پہلے بھی تم کتنا کچھ برداشت کر چکے ہو۔ پلیز جا کر سو جاؤ، تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے۔‘‘
’’تم سے دور جانے کو جی نہیں چاہتا۔ کیا کروں؟‘‘ نبیل مسخری کرتے ہوئے الٹے سیدھے منہ بنانے لگا۔
’’دیکھو، یہاں اسپتال میں اتنے لوگ ہیں میرا خیال رکھنے والے۔ ڈاکٹرز، نرسیں، سوشل ورکرز، رضاکار، پھر تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں اب سونا چاہتی ہوں۔ او کے شب بخیر۔‘‘
ریشم نے مسکرا کر اُسے ہاتھ ہلا کر الوداع کیا۔ وہ بادلِ نخواستہ اٹھا اور اُس کا ماتھا چوم کر باہر کو چلا آیا جہاں اُس کا زمینی بستر حسبِ معمول اُس کا منتظر تھا۔
آج واقعی اُسے بھی بہت زور کی نیند آ رہی تھی۔ اِس لیے تکیے پہ سر رکھتے ہی وہ بےخبر ہو کر سو گیا اور اَسپتال کے کاریڈور میں جلنے والی بتیاں سٹاف نے قدرے دھیمی کر دیں۔
گہری نیند میں ڈوبی ریشم کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ اُس کے زخمی بدن میں درد سا اُٹھ رہا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کوئی اُس کے بالکل قریب کھڑا اُس کے جسم کو ٹٹول رہا ہے۔
’’یہ کیا؟‘‘ وہ بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ پیچھے کو ہٹی، اتنی پیچھے کہ اُسے لگا کہ وہ بستر سے نیچے ہی گر جائے گی۔ مگر کسی نے اُسے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اُس کے لبوں پہ ہاتھ رکھ دیا۔
ایک انجانے سے خوف سے ریشم کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس نے چیخنا چاہا، مگر آواز اُس کے گلے میں گھٹ سی گئی، باہر نہ آئی۔ کمرے میں گھٹاٹوپ اندھیرا تھا، شاید بجلی چلی گئی تھی۔
گہرے اندھیرے کے باوجود ریشم نے ڈاکٹر احسن کو اُس کی بڑی بڑی مونچھوں کی چبھن اور کلون کی مخصوص مہک کی وجہ سے پہچان لیا۔
زخم لگانے والا یہ مسیحا تو دن میں کئی بار اُسے وحشت بھری نظروں سے گھور کر اُس کے پاس سے گزرتے ہوئے اُس کا حال چال پوچھا کرتا تھا۔
اُس کی آنکھیں ہمیشہ ریشم سے یہ سوال کرتی نظر آتیں:
’’اے خوبصورت پری! تُو اسپتال کے اِس بےرنگ دُکھ بھرے وارڈ میں کیسے؟ تجھے تو کسی عالیشان محل کے مخملیں بستر پہ ہونا چاہیے تھا۔‘‘
ریشم کی قوتِ مدافعت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ شاید یہ اُس ٹیکے کا بھی نتیجہ تھا جو خوفناک جن نے اُس کے بازو میں اچانک ٹھونک کر اُسے بےبس کر دیا تھا۔
’’نبیل! میری مدد کرو، بچاؤ۔‘‘ ریشم کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلیں۔ بچاؤ نبیل!‘‘
اُس کے لبوں پہ سسکی اُبھری جس نے چند ہی لحظوں میں اُس کے لبوں پہ دم توڑ دیا۔
ریشم کو ہوش آیا، تو صبح کا اجالا کمرے میں پھیل چکا تھا۔ نرس سفید براق لباس میں اُس کے پاس کھڑی اُس کا فشارِ خون لینے کی کوشش کر رہی تھی۔
نبیل ناشتے کے لیے چائے کا گرم کپ ہاتھ میں تھامے، دو سنکے ہوئے سلائس اور مکھن جیم کی چھوٹی سی طشت لیے اُس کے قریب کھڑا پیار سے اُسے تکے جا رہا تھا۔
’’آج بہت سوئیں تم؟‘‘ نبیل نے خوش دلی سے کہا۔
’’رات تم کہاں چلے گئے تھے نبیل؟ مَیں اتنا چیخی، تم اندر کیوں نہیں آئے؟‘‘ ریشم نبیل پر برسنے لگی۔
’’اوہو بھئی۔ نرمی سے کام لو۔ اتنا غصّہ کیوں؟ بارہ بجے تک تو مَیں تمہارے پاس ہی تھا یاد نہیں؟ پھر جب بجلی چلی گئی، تو مَیں باہر آ گیا۔‘‘ نبیل نے چائے کا گرم مگ اُس کے آگے کر دیا۔
’’ڈر گئی ہوں گی۔ اتنے بڑے زلزلے سے گزری ہیں، نارمل ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا نا۔‘‘
نرس نے نبیل کے پاس منہ لے جا کر آہستہ سے کہا اور خود اَپنا سامان اٹھا کر دوسرے مریضوں کی طرف چل دی۔
’’آہستہ آہستہ سب ڈر دُور ہو جائے گا ….. تم فکر نہ کرو۔‘‘ نبیل نرمی سے اُس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔
’’مگر تم میری چیخیں سن کر اندر کیوں نہیں آئے نبیل؟
تم تو پتھروں سے، سیمنٹ کی سلوں سے میری سرگوشیاں سن لیتے تھے ….. تم نے میری آوازیں نہیں سنیں کیا؟ یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔‘‘
ریشم مٹھیاں بھینچ کر زور زور سے پلنگ کی آہنی اطراف پہ مارنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُسے دورہ سا پڑ گیا۔ وہ دِیوانگی سے اپنے بال نوچنے لگی اور آگے بڑھ کر نبیل کا گریبان پکڑ لیا۔
’’سوری یار! مجھے کیا پتہ تھا تم اتنا ڈر جاؤ گی، لیکن تم ہی نے تو مجھے کل رات دھکے دے کر سونے کے لیے بھیجا تھا، تو بس مَیں سو گیا، غلطی ہو گئی جان ….. اب کبھی نہیں سوؤں گا۔‘‘
اُس نے لاڈ سے اپنے کان پکڑ لیے اور مسخری کرنے لگا۔
ریشم کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا جو اُس نے فوراً ہی پونچھ ڈالا۔
’’تمہیں سب کچھ یاد آ گیا ہو گا نا ….. مَیں سمجھتا ہوں۔‘‘ نبیل سنجیدہ ہو گیا۔
’’ہاں ….. زلزلہ …..‘‘ ریشم آہستہ سے بولی۔ ’’زلزلہ آیا تھا۔‘‘
’’اچھا چھوڑو یہ اُداس باتیں اور اَب اپنا موڈ ٹھیک کر لو۔ بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ اور ہم اپنے گھر چلیں ….. مَیں نے کچھ پلاننگ کی ہے۔‘‘
نبیل نے محبت سے اُس کے منہ میں ٹوسٹ کا ایک ٹکڑا ڈالتے ہوئے کہا۔ ریشم کے دل میں پھانس سی چبھی۔
’’گھر؟‘‘ پری نے حیرت سے نظریں اٹھا کر دیکھا اور لمحہ بھر کے لیے کھو سی گئی۔
اُسے لگا اُس کی روح اچانک بہت میلی ہو گئی ہو اَور وُہ اَب ساری دنیا میں تنہا رہ جانے والا واحد انسان ہو۔
پری نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پرستان جانے والی سڑک کو دیکھا۔
گھر کتنا دور اَور اُس تک پہنچنا کتنا مشکل تھا۔ اُس نے دکھ سے سوچا۔
بھول بھلیوں کا ایک وسیع جنگل اُس کے سامنے بچھا تھا۔ دشوار گزار رَاستوں میں گہری کھائیاں اور اَندھی گھاٹیاں تھیں۔
ایک متعفن دلدل میں اُس کے ٹوٹے ہوئے پَر گرے تھے جن میں چبھے ہوئے کانچ کے ٹکڑوں سے سرخ لہو قطرہ قطرہ رِس رہا تھا اور ایک بہت بڑا پُرہیبت کالا پربت اُس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔