14 C
Lahore
Friday, December 13, 2024

Book Store

ماہِ صفر کی غلط فہمیاں

توہُّمات انسان کے منفرد تجربات کا نفسیاتی نتیجہ ہیں

لہٰذا خطراتِ غم و خوشی میںہر شدت کا مداوا صرف ذکرِ الٰہی ہے

محقق ’ایم فل‘ وجیہہ کوثر
’ایم اے‘ عربی

#safar is the #second #month of the #lunar #based #Islamic #calendar.

عالمِ رنگ و بو کی تاریخِ تہذیب و تمدن کے منصفانہ مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسانی معاشرہ کسی ایسے دور سے نہیں گزرا جس میں باشندگانِ عالم توہمات اور شگون و فال، اور اس وجہ سے خوش فہمیوں اور کج فہمیوں، کا شکار نہ ہوئے ہوں۔

یہ حقیقت بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی تجربات نہ صرف متنوع ہوتے بلکہ خیال سازی میں بھی رنگا رنگی کے علمبردار ہوتے ہیں۔

یہی وجہ کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر بعض تجربات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں عقل و دانش کے پیمانوں پر نہیں ماپا جا سکتا۔
اور حق یہ ہے کہ یہی وہ منفرد تجربات ہیں جنہیں عام طور پر توہُّمات کا نام دیا جاتا ہے۔

ان تجربات کی انفرادیت کا اندازہ لفظِ ’’توہُّم‘‘ کے اُن معانی سے ہوسکتا ہے جو عام طور پر لغات میں درج ہے۔ #فرہنگِ آصفیہ میں ہے:
’’توہُّم: وہم میں ڈالنا؛ #وہم، #وسواس، #گمان، #شک‘‘
جبکہ #معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں ہے:
’’تَوَھُّمٌ: اِعْتِقَادٌ خَاطِئٌ غَیْرُ مَبْنِیٍّ عَلَی أَسَاسٍ ۲ـ قِسْمٌ مِنَ الْإِدْرَاكِ وَ ھُوَ إِدْرَاكُ الْمَعْنَی
الْجُزْئِیِّ الْمُتَعَلِّقُ بِالْمَحْسُوْسَاتِ‘‘
’’وہ خطا زدہ #اعتقاد جو کسی اساس پر مبنی نہ ہو۔ ادراک کی ایک قسم اور وہ یہ ہے کہ محسوسات سے متعلق جزوی معنی کو پہنچ پانا۔‘‘
اردو اور #عربی میں اس لفظ کے معانی کا ذرا #تقابل کیجیے اور پھر عربی #لغت میں دیے گئے دونوں معنی کا آپس میں #توازن کرنے سے توہمات کی بابت جو کچھ ہم نے عرض کیا، بخوبی سمجھ آ جائے گا۔

ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ عربی لغت نویس نے پہلے معنی میں مزاج کی تیزی دکھائی ہے جو کہ دوسرے معنی کے #متضاد ہے۔ مگر یہ تیز مزاجی انگریزی لغت میں موجود نہیں۔ 

اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ

oxford Advanced Learner’s Dictionary

 میں لغت نویس نے کس احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
Superstition: The belief that particular events happen in a way that cannot be explained by reason or science;; the belief that particular events bring good or bad luck.

’’توہُّم: یہ اعتقاد کہ خاص واقعات اس طریق سے واقع ہوتے ہیں کہ عقل و سائنس کے ذریعہ سے ان کی وضاحت نہیں ہو سکتی؛ یہ خیال یا اعتقاد کہ مخصوص واقعات اچھی یا بُری قسمت کا باعث ہوتے ہیں۔
توہمات کے بارے میں اس انتہائی ضروری وضاحت سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ توہُّمات کا تعلق انسانوں کے #انفرادی یا #اجتماعی #فہم و #ادراک سے ہے ۔

جو  بار بار افراد کے تجربہ میں آنے کے بعد #نفسیاتی سطح پر انسانی ذہن میں ایک #پختہ #خیال کی حیثیت سے سرایت کر جاتے ہیں۔
ان کا نتیجہ بعض صورتوں میں خود بخود اور بعض اوقات ان کی قدرِ #پختگی کے مطابق برآمد ہوتا ہے۔

یہ وہ #حقیقت ہے جس کا تعلق #شرعیت و #غیرشرعیت سے نہیں بلکہ صرف اور صرف انسان کے #معاشرتی اور #نفسیاتی #تجربات سے ہے۔
لہٰذا انھیں شرعی و غیرشرعی چکر میں الجھانا اور #فتووں پر فتوے جڑے جانا صرف ہمارے صاحبان کا کام ہے۔

کیونکہ ہر بات میں ’’#بدعت بدعت‘‘ کی رٹ لگائے رکھنا ان کا دینِ #بدعت شعار ہے۔
اس لیے کہ ایسے لوگ بدعت آفریدہ اور بدعت گزیدہ ہوتے ہیں
لہٰذا انھیں اپنے اعمال کے سوا ہر کہیں بدعت ہی بدعت دکھائی دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جن توہمات کو یہ لوگ دین میں ٹھونس کر بے وجہ شرعی و غیرشرعی کا ورد کرتے رہتے ہیں انھی توہمات کے ضمن میں عوام الناس
اِن بدعت سراؤں سے متنفر ہو کر اپنا فطری راستہ خود تراش لیتے ہیں۔

یہ بدعت سرا جن معاملات کو توہمات میں بڑی شدومد سے شمار کرتے ہیں ماہِ صفر انھی میں سے ایک ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی مقام پر بھی مستند انداز میں سوائے ایک آدھ حدیث کے، اس مہینے کی کوئی فضیلت وارد ہوئی ہے اور نہ ہی قباحت۔

لہٰذا ہمارے قارئین پر شروع سے ہی واضح ہو جانا چاہیے کہ
ماہِ صفر کے معاملے میں بات شرعی ہے نہ غیرشرعی اور اس لیے نہ ہی بدعت۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ شریعت کا معنی ہے اسلامی قوانین و ضوابط یعنی  اور یہ کوڈ آف لاء صرف وہاں فعال ہوتا ہے
جہاں انسانی زندگی کے ظاہری پہلو انفراد سے گزر کر ریاستی اجتماع و معاشرہ کے باہمی نفع و نقصان سے مربوط ہو جاتے ہیں۔

جب ایسے معاملات گڈمڈ ہو جائیں تو وضاحت کے لیے صرف اور صرف قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کی جاتی ہے
تاکہ فرد و ریاست کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی رشتے واضح طور پر فعّال رہیں اور انھی قوانین پر عدالت فیصلے دیتی ہے۔

لہٰذا اگر کوئی شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ صفر آ گیا ہے
جس کی وجہ سے اس پر کوئی مصیبت نازل ہو سکتی ہے،

اور اگر کوئی مصیبت اس پر آ پڑے تو شریعت وہاں متحرک نہیں ہو گی
اور وہ شخص اگر مصیبت سے بچ جاتا ہے
تو شریعت اسے کوئی انعام نہیں دے گی، نہ اس دنیائے فانی میں نہ اس دارِ آخرت میں؛

کیونکہ یہ معاملہ شریعت کا ہے ہی نہیں۔
اس لیے اس کی طرف کوئی واضح اشارہ قرآن و سنت میں موجود ہی نہیں ہے۔

عوامی سطح پر ماہِ صفر کی بابت پائے جانے والے خیالات و تصورات یعنی توہُّمات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جانچا جائے کہ ان توہُّمات کا آغاز آخر ہوا کہاں سے؟

ہمارے نزدیک اگر اس مہینے کی وجہِ تسمیہ پر ہی غور کر لیا جائے
تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ علم الدین سخاوی ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’ماہ صفر کا نام اس لیے صفر رکھا گیا کہ اہل عرب اس مہینے میں جنگ جوئی اور دیگر مہماتی سفروں پر نکل جایا کرتے تھے جس کی وجہ سےان کے گھر خالی پڑ جاتے۔
کہا جاتا ہے:
صَفَرَ الْمَکَانُ جب وہ جگہ خالی ہو جائے۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر۴/۱۴۶، التوبہ، زیرِ آیت:۳۶)
سید مستقیم علی شاہ مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:
صفر محرم الحرام کے بعد واقع ہوتا ہے اور ’’ماہِ محرم الحرام میں عرب قبائل جنگ و قتال کو حرام جانتے تھے۔

چنانچہ جیسے ہی محرم الحرام ختم ہوتا تو عرب قبائل جنگ و قتال کے لیے نکل پڑتے
اور گھروں کو خالی چھوڑ جاتے۔ اس لیے اس کو صفر یعنی خالی کا مہینہ کہتے ہیں‘‘
(اسلامی سال کے مہینوں کے اعمال و فضائل، ص:۲۶)

ماہِ صفر کی وجہِ تسمیہ پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس مہینے کی بابت جو تصورات عرب معاشرہ میں رواج پا گئے وہ تہذیبی و تمدنی سطح پر بالکل فطری تھے
کیونکہ ہر سلیم الفطرت انسان جانتا ہے کہ جنگ و جدال، نفع و نقصان دونوں صورتوں میں نحوسات و مصائب کا ہی باعث ہوتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ دورِ جہالت میں عربوں کے ہاں نسیئ
(محرم کی حرمت کو صفر تک پھیلا کر صفر کی آمد میں تاخیر کر دینا) کا طریقہ رائج ہو گیا
اور حق یہ ہے کہ صفر کی یہ تاخیر بھی عین فطری تھی۔

لیکن چونکہ سالانہ مہینوں میں تقدیم و تاخیر سے نظامِ حیات تعطُّل کا شکار ہو جاتا تھا
لہٰذا جب اسلام چھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے نسیئ پر کڑی پابندی لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴾
’’بے شک نسیئ کفر میں زیادتی ہے۔‘‘ (توبہ:۳۷)
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلام نے جنگ کی اجازت پورے سال کے لیے عام کر دی تھی لہٰذا اس مقصد کے لیے اب تخصیصِ صفر کی ضرورت نہ رہی تھی۔

تاہم قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن نے نسیئ کا تو خاتمہ کر دیا
کیونکہ اس کا تعلق فرد، معاشرہ اور ریاست کے باہمی ربط و ضبط سے تھا لہٰذا شرعی ضابطہ (Legal Code) مہیا کیا گیا،

مگر صفر سے متعلق عرب معاشرے میں پائے جانے والے تصوراتِ نحوست پر کوئی بھی اچھا یا برا تبصرہ نہ کیا کیونکہ ان تصورات و توہمات کی موجودگی یا عدم موجودگی سے شریعت پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑتا تھا۔
پھر یہی کیفیت سنتِ رسول ﷺ میں بھی برقرار رہی۔ ایک موقع پر سید العالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۞لَا عَدْوَی وَ لَا طِیَرَةَ وَ لَا ھَامَةَ وَلَا صَفَرَ ، وَ فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۞
’’چھوت، بد شگونی، ہامہ اور صفر کچھ نہیں ہے
ہاں البتہ مبتلائے جذام سے بھاگ جیسے تُو شیر سے بھاگتا ہے۔‘‘ (بخاری، ۵۷۰۷)

اس حدیث کے بیانِ روایت و درایت اور بذریعہ تقابل اس کے درست معنی کی تعیین سے اجتناب کرتے ہوئے ہم اس حدیثِ مبارک کے صرف ایک حصہ ’’وَلَا صَفَرَ‘‘ کی مراد متعین کرنے کی کوشش کریں گے

اور وہ بھی اس لیےکہ بعض بدعت سرا اسے ماہِ صفر کے بارے میں موجود تصوراتِ نحوسات و مصائب کو رد کرنے کے لیے بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
’’عربوں کا گمان تھا کہ صفر ایک سانپ ہے
جو انسان کو بھوک کے عالم میں آ لیتا ہے اور اسے اذیت پہنچاتا ہے
پھر یہ ایک سے دوسرے آدمی میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اسلام نے اس تصور کو باطل قرار دیا۔

یہ بھی کہا گیا ہےکہ یہاں ’’صفر‘‘ سے حضور ﷺ کی مراد ’’نسیئ‘‘ ہے جس پر دورِ جاہلیت میں عرب عمل پیرا تھے اور وہ ہے صفر تک محرم کی تاخیر کر دینا۔
یعنی عرب صفر کو ہی ماہِ حرام قرار دیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس رسم کا ابطال کر دیا۔‘‘

(عمدۃ القاری: بدر الدین عینی، ۲۱/۳۶۸)
اس کا تیسرا معنی یہ ہے کہ:
’’صفر پیٹ کے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو کہتے ہیں جو بعض اوقات پسلیوں اور جگر کو کاٹتے ہیں یہاں تک کہ وہ بندے کو ہلاک کر دیں…

لہٰذا شارع نے اس دلیل پر اس اعتقاد کا ردّ کیا ہے کہ موت صرف اسی وقت واقع ہوتی ہے جب
مدتِ حیات پوری ہو جائے…

اور صفر بھوک کی وجہ سے پیٹ درد کی بیماری کو بھی کہتے ہیں جس سے پیٹ میں پانی بھر جاتا اور آدمی پیاس کی بیماری (استسقاء) میں مبتلاء ہو جاتا ہے‘‘
(فتح الباری: ابن حجر عسقلانی، ۱۳/۱۱۶)
لفظِ صفر کے مذکورہ بالا مطالب پر ایک سرسری نگاہ سے یہ عقدہ کھل جاتا ہے کہ یہاں پر سید الانبیاء ﷺ کی مراد ماہِ صفر نہیں بلکہ صحیح مفہوم کے مطابق صفر پیٹ کی ایک متعدی بیماری ہے اور عربوں کو وہم تھا کہ اس سے موت یقینی واقع ہو جاتی ہے۔

حضور تاجدارِ عرب و عجم ﷺ نے بیماری کا انکار نہیں کیا بلکہ صرف اس بیماری کی بناء پر وقوعِ موت کا انکار کیا ہے تاکہ مریض علاج کی طرف سنجیدگی سے رجوع کرے
کیونکہ موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اپنے وقتِ مقرر پر آدمی کو آ لیتی ہے۔

اس کے باوجود پھر اگر ماہِ صفر ہی مراد لینے پر اگر کوئی صاحب تُل جائے تو بھی یہاں صفر سے مراد صرف اور صرف نسیئ ہے۔
لہٰذا ماہِ صفر کی کوئی فضیلت بیان ہوئی نہ کوئی قباحت۔ ایسا ہونا بھی محال تھا

کیونکہ صفر کی بابت عربوں کے تصورات و توہمات کا تعلق انسانی تجربات سے ہے جو
کہ زمان و مکان اور شخصیات کے اعتبار سے ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور قرآن و سنت کی شان نہیں کہ ایسے اوہام و خیالات پر فتوی زنی کرے۔

اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ خود قرآن و سنت سے ہی ایک غیر مرئی نظامِ نحوسات و سعودات اور نظمِ شقاوت و سعادت و برکت کا وجود ہر کہیں ثابت و سالم ہے۔ جس کے مطابق قرآنِ عظیم میں ایک جگہ قومِ عاد پر نزولِ عذاب کے دن کو اللہ  نے
﴿یَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ﴾
’’دائمی منحوس دن‘‘ (القمر:۱۹)
کہا اور جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ دائمی منحوس دن کون سا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۞یَوْمَ الْاَرْبِعَاءِ۞
’’بدھ کا دن‘‘ (السنن الکبری: بیہقی، ۲۰۶۵۵)
یہاں پر امام صنعانی اپنے نکتہ دار تبصرے میں فرماتے ہیں:
’’ممکن ہے اس سے مراد ہر مہینے کا آخری بدھ ہو اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا مقدر نحوست اس لیے کیا ہو کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے باغیوں اور سرکشوں پر عذاب نازل فرمایا،

یا پھر اس دن کی نحوست سے مراد ویسی ہی ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر اور نصفِ شعبان کی شب کے حق میں نزولِ برکات مقدر کیا اور جمعہ کے دن کو بپائے قیامت کے لیے مقدر فرمایا
اور اسی طرح کی دیگر باتیں‘‘۔

(التنویر شرح الجامع الصغیر، زیرِ حدیث:۸، ۱/۱۹۴)
امام صنعانی  یہاں تقابلی انداز میں عرب کے ایک مخصوص تمدنی پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ مکہ اور جدہ کے باسی صفر کے آخری بدھ کو کام سے چھٹی کر کے اپنے گھروں میں بند بیٹھ جاتے ہیں اور ہمیں نہیں علم کہ ان کے ہاں اس عمل کی سند کیا ہے؟ (ایضاً)

ملاحظہ ہو کہ ہمارے بدعت سرا مولویوں کی طرح امام صنعانی نے اہلِ مکہ و جدہ پر کوئی فتویٰ نہیں جڑا۔ اور یہی طریقِ انبیاء ؊ رہا ہے۔ لہٰذا جب ایک دیہہ کے باشندوں نے انبیاء ؊ سے کہا:
﴿اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ﴾
’’ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں‘‘ (یٰسٓ:۱۸)
تو انھوں نے الزامِ نحوست کو ردّ نہیں کیا بلکہ افرادِ انسانی کے ساتھ نحوست چپکے رہنے کی تصدیق کرتے ہوئے جواب دیا:
﴿طَائِرُکُمْ مَعَکُمْ﴾ (یٰسٓ:۱۹)
’’تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہے‘‘
کیونکہ انبیائے کرام ؊ کو اس الہٰیاتی نظامِ نحوس و سعود کا مکمل علم تھا۔
اسی بناء پر ابن مردویہ کی ایک حدیث میں رسولِ آفاق گیر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

۞إِنَّ لِکُلِّ یَوْمٍ نَحْسًا فَادْفَعُوْا نَحْسَ ذَلِکَ الْیَوْمِ بِالصَّدَقَةِ۞
(الدر المنثور: سیوطی، سبا، زیرِ آیت:۳۹، ۶/۷۰۷)

’’ہر دن کا کچھ حصہ منحوس ہوتا ہے لہٰذا اس دن کی نحوست کو صدقہ سے دور کرو‘‘۔
اسی کی تصدیق میں حضرت ابن عباس ؄ نے فرمایا:
’’دن سارے ہی اللہ کے ہیں لیکن اس نے ان میں کچھ کو نحس اور کچھ کو سعد پیدا فرمایا ہے‘‘۔
(حاشیۃ الشہاب:۷/۳۹۵)

یہاں پر حلیمیؒ نے بڑے پتے کی فیصلہ کن بات بیان فرمائی ہے:
’’بیانِ شریعت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کچھ دن نحس ہوتے ہیں
اور نحس کا مقابل سعد ہے۔ جب اول (نحس) ثابت ہو گیا تو ثانی (سعد) بھی ثابت ہو گیا،
لیکن یہ گمان کہ دن یا ستارے خود اپنی مرضی سے اوقات و اشخاص کو نحس یا سعد بنا دیتے ہیں بالکل غلط ہے۔
ہاں البتہ یہ بات کہ ستارے کبھی حسن و قبح اور خیروشر کا سبب ہوتے ہیں
جبکہ ایمان یہ ہو کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فعل ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ (روح المعانی: ۱۴/۵۸)

ذرا غور فرمائیے امام حلیمیؒ نے کس دانشمندانہ اپچ کے ساتھ مسئلہ کا حل فرمایا؛
عوام پر بدعت و توہم کا کیچڑ بھی نہ اچھالا اور شریعت کو بھی بے داغ رکھا
بلکہ پیغامِ رسالت علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کا ابلاغ بھی کر دیا۔
اور سلیم الفطرت علمائے دین کا حق بھی یہی ہے۔بلکہ حدیثِ رسول ﷺ بھی اسی رویے کی تائید کرتی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:

۞لَا عَدْوَی وَ لَا طِیَرَةَ، وَ یُعْجِبُنِی الْفَأْلُ الصَّالِحُ،
وَ الْفَأْلُ الصَّالِحُ الْکَلِمَةُ الطَّیِّبَةُ۞ (سنن ابی داؤد، ۳۹۱۶)
’’چھوت اور بدشگونی کچھ نہیں ہے۔ مجھے نیک فال پسند ہے، اور نیک فال بھلی بات کو کہتے ہیں۔‘‘
حدیث پر غور فرمائیے اور دیکھیے کہ فرمانِ رسول ﷺ سے کیا حقیقت ثابت ہوئی؟
کتبِ تفسیر و حدیث کھنگالنے پر صفر کے بارے میں جو کچھ برآمد ہوتا ہے
ان میں ایک حدیث بھی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ:

۞مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ أُبَشِّرُ ہُ بِالْجَنَّةِ۞
’’جو مجھے صفر گزر چکنے کی خوشخبری دے میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔‘‘
(روح البیان: امام حقّی، ۳/۴۲۸، التوبہ، زیرِ آیت:۳۸)
اسی حدیث کا حوالہ دینے کے بعد حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے فرمایا:
صفر ’’نہایت سخت اور گراں مہینہ ہے‘‘ پھر فرمایا،
’’چونکہ اس مہینے میں مصائب و آلام کا نزول ہوتا ہے
لہٰذا اس مہینے میں دعا اور عبادت میں مشغول رہنا چاہیے۔ بعد ازاں اس مہینے کی نحوسات سے بچنے کے لیے کچھ دعائیں اور نوافل تجویز فرمائے۔‘‘

(راحت القلوب، دیکھیے: ص:۱۰۰-۱۰۲)
ہمیشہ سے اہلِ حق کا طریقہ یہی رہا ہے،
کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ہر مشکل میں اللہ ہی حامی و ناصر اور محافظ ہے۔ ہر نفع و نقصان کا مالک ہے۔
اس خالقِ حکیم نے تمام مخلوق کو ایک خاص نظامِ نحس و سعد میں پرویا ہوا ہے
اور ان کے اثرات سے جب بھی پناہ طلب کی جائے گی تو
اس کا واحد حل صرف اللہ کی طرف رجوع اور اس کا بہترین طریقہ کثرتِ ذکرِ الٰہی ہے۔
جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انشاء اللہ بندے کو مخلوقات کی نحوسات سے محفوظ و مامون فرما دیتا ہے۔ تاہم ہر انسان کو حضور سید المرسلین ﷺ کی یہ حدیث یاد رکھنی چاہیے کہ
اللہ تعالیٰ ہر شخص کے شقی یا سعید ہونے کے بارے میں اسی وقت فیصلہ فرما دیتا ہے
جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے
لہٰذا

’’تم میں سے کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا رہتا ہے
یہاں تک اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ یا ایک میٹر کا فاصلہ رہ جاتا ہے
تو اس پر نوشتہ غالب آجاتا ہے
اور وہ جنتیوں کے کام کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
پھر ایک آدمی اہلِ جنت کے کام کرتا رہتا ہے
یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے مابین ایک ہاتھ یا ایک میٹر کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر نوشتہ غالب آ جاتا ہے
اور وہ جہنمیوں کے کام کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے لہٰذا وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ (بخاری:۶۵۹۴)

حضرت ابوہریرہ ؄ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۞جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا اَنْتَ لَاقٍ۞
’’تمہاری تقدیر لکھ کر قلم خشک ہو چکا۔‘‘
(بخاری: کتاب القدر، باب:۲، ۴/۲۰۸)
یہی وجہ ہے کہ بندہ ہر تنگ حالی و خوشحالی میں اللہ کریم سے استغفار کرتا رہے اور تلاوتِ قرآنِ پاک اور درود شریف کی کثرت رکھے۔
اللہ  چاہے گا تو اسے ہر بلا، ہر مصیبت اور ہر شر سے اپنی امان و ضمان عطا فرمائے گا۔

اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا اِنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمیْنَ وَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles