اللہ اپنے خاص بندوں کی قوت ایمانی کا امتحان بھی لیتا اور انھیں ارفع و اعلی مقامات پر فائز بھی کرتا ہے
حضرت امام حسینؓ نور کربلا ہیں اور تا قیامت رہیں
عافیہ مقبول جہانگیر
انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا اور اپنے قرب و وصال کی نعمتوں سے نوازا، اسی طرح انھیں بڑی کٹھن منزلوں سے بھی گزرنا پڑا۔
انھیں بڑی سے بڑی قربانی کا حکم ہوا لیکن ان کے مقام بندگی کا یہ اعجاز تھا کہ
سر مو حکم ربی سے انحراف یا تساہل نہ برتا۔
سلسلۂ انبیاء میں سیدنا ابراہیمؑ کی داستان عزیمت بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے۔
ان کے لیے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن سیدنا ابراہیمؑ اس آزمائش میں بھی پورا اُترے کیسے؟
قرآن میں ارشاد ہے:
اے میرے پروردگار مجھ کو نیک بیٹا عطا فرما۔
پس ہم نے ان کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (اسمٰعیل) ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچے فرمایا
اے میرے بیٹے، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں پس تم بھی غور کرلو کہ تمہارا کیا خیال ہے
(اسمٰعیل نے بلا تردد) عرض کیا
اے اباجان (پھردیر کیا ہے) جو کچھ آپ کو حکم ہوا کر ڈالیے (جہاں تک میرا تعلق ہے) آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
پھر جب دونوں نے (اللہ کا) حکم مان لیا اور (ابراہیم نے) ان کو ماتھے کے بل لٹایا۔
اور ہم نے ان کو ندا دی کہ اے ابراہیم (کیا خوب) تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔
ہم نیکو کاروں کو یوں ہی بدلہ دیتے ہیں۔
(بے شک باپ کا بیٹے کے ذبح کے لیے تیار ہو جانا) یہ ایک بڑی صریح آزمائش تھی
(حضرت ابراہیم اس آزمائش میں پورا اُترے) اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔
(الصٰفٰت:37: 107۔100)
اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت اسمٰعیلؑ کو بچانا ہی مقصود تھا تو پھر ان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم کیوں ہوا؟
یہ اس لیے ہوا کہ سراپائے ایثار و قربانی پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کے لخت جگر سے ذبح کی تاریخ کی ابتدا ہو جائے کہ راہ حق میں قربانیاں دینے کا آغاز انبیاء کی سنت ہے۔
بچایا اس لیے گیا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل پاک میں نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺکی ولادت با سعادت ہونا تھی۔
اولاد ابراہیمؑ میں تاجدار کائنات ﷺ کو تشریف لانا تھا۔ آزمائش کا مرحلہ گزر گیا۔
کامیابی کا نور حضرت ابراہیمؑ کی مقدس پیشانی پر چمکنے لگا۔
پھر تعمیر کعبہ کا حکم ہوا۔ عظیم باپ اور عظیم بیٹا تعمیر کعبہ میں مصروف ہو گئے۔
ایک ایک پتھر لاتے اور کعبہ کی دیواریں تعمیر کرتے۔
ایک پتھر عطا ہوا جس پر کھڑے ہوکر تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔
جوں جوں دیواریں اونچی ہوئیں، یہ پتھر بھی بلند ہوتا گیا۔
حضرت اسماعیلؑ تعمیر کعبہ میں اپنے والد گرامی کی معاونت فرماتے۔ پتھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ،
جب سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا اسماعیلؑ تعمیر کعبہ میں مصروف ہوتے تو یہ کلمات ان کی زبان اقدس پر جاری ہوتے ’’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ،
مولا! ہم تیرے گھر کی تعمیر کر رہے ہیں،
ہماری یہ مشقت قبول فرما،
اس مزدوری کو قبولیت کا شرف عطا کر،
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ،
یا باری تعالیٰ! ہماری جبینیں تیرے حضور جھکی رہیں، ہمارے سجدوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔
وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ،
ہماری آل اور ذریت میں سے امت مسلمہ پیدا کر۔
پھر اگلی آیت میں حکم ہوا
تم نے آج ہمارا گھر تعمیر کیا ہے جو مانگنا ہے مانگ لو،
اپنی مشقت کا صلہ طلب کرلو،
بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھ گئے
’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُO‘‘
باری تعالیٰ ہم نے تیرے گھر کی دیواریں بلند کی ہیں ہم نے اپنی ذریت میں سے امت مسلمہ مانگ لی ہے۔
اے خدائے رحیم و کریم،
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر مجھ تک ہر زمانے میں نبی آخر الزماں ﷺ کے ظہور کا اعلان کرتا رہا ہے۔
یہ سلسلہ نبوت و رسالت اس مقدس ہستی پر جا کر ختم ہو جائے گا۔
وہ رسول معظمﷺ جس کی خاطر تو نے یہ بزم کائنات سجائی۔
کرہ ارض پر ہزارہا انبیاء کو مبعوث فرمایا وہ رسول آخر ﷺ جس کے لیے تو نے ملتوں کو پیدا کیا۔
دنیائے رنگ و بو کو آراستہ کیا، آبشاروں کو تکلم کا ہنر بخشا، ہواؤں کو چلنے کی خو عطا فرمائی۔
وہ رسول برحق جس کی خاطر تو نے اپنا جلوہ بے نقاب کیا،
جس کی خاطر تو نے اپنی مخلوقات کو پردہ عدم سے وجود بخشا،
جس کی خاطر تو نے انسانوں کے لیے ہدایت آسمانی کے سلسلے کا آغاز کیا،
اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کائنات رنگ و بو میں ظہور ہونے والا ہے۔
باری تعالیٰ نے فرمایا:
ہاں ابراہیم ہمارا وہ محبوب رسول آنے والا ہے، بتا ابراہیم! تو کیا چاہتا ہے۔
فرمایا: رب کائنات! اگر تو تعمیر کعبہ کی ہمیں مزدوری دینا چاہتا ہے، اگر تعمیل حکم میں ہمیں تو کچھ عطا کرنا چاہتا ہے تو اے پروردگار
اپنے اس آخری رسول ﷺ کو میری اولاد میں مبعوث ہونے کا شرف عطا فرما۔
میری ذریت کو نور محمدیﷺ کے جلووں سے ہمکنار کر دے،
میری اولاد کو حضور ﷺ کی قدم بوسی کی سعادت بخش دے، مولا! مجھے اپنا محبوبﷺ دے دے۔
ارشاد ہوا،
ابراہیم تو نے تین چیزیں نبوت و رسالت، ختم نبوت اور امت مسلمہ اپنی ذریت کے لیے مانگ لی ہیں،
ابراہیم تو نے میری محبت اور رضا کے لیے میرا گھر تعمیر کیا ہے اور دعا بھی وہ مانگی ہے جسے میں رد نہیں کر سکتا
اس لیے ابراہیم! جا ہم نے تجھے تیری مزدوری کے صلے میں یہ تینوں چیزیں عطا کر دیں۔
(حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا پہلے پارے کے آخر میں ہے۔
( ابقرہ آیت ۱۲۴ تا ۱۲۹)
حضرت ابراہیم ؑنے اللہ سے قوموں کی امامت کا سوال کیا، امامت کی دو شکلیں کر دی گئیں۔
کیونکہ حضورﷺ کے ساتھ نبوت کو ختم ہونا تھا اور تاجدار کائناتﷺ کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا جانا مقصود تھا، اس لیے امامت کے دو جزو کر دیے گئے۔
ایک امامت سے نبوت اور دوسری امامت سے ولایت۔ حکمت یہ تھی کہ
جب حضور ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو جائے تو پھر فیض نبوت بشکل امامت میرے نبی ﷺ کی امت کو ملنا شروع ہو جائے
یوں سورہ بقرہ آیت 151 سے 157 تک دعائے ابراہیم کا جواب ہے۔
دعا تو فقط یہ تھی کہ مولا! اپنا وہ پیغمبر، رسول آخر الزماںﷺ میری آل میں میری نسل میں مبعوث فرما۔
اللہ رب العزت نے جواب میں فرمایا کہ
دو چیزیں عطا کرتا ہوں ایک نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت اور پھر شہادت۔ فرمایا
’’ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ ،
آگے اس سے متعلق فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگنا
’’وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ،
جو اللہ کی راہ میں شہید ہوں انھیں مردہ نہ کہو
بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO ’’
وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔‘
بعثت محمدی اور شہادت کا باہمی ربط مذکورہ آیات میں بڑے اہم نکات کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
دعائے ابراہیم ؑ کے جواب میں ایک طرف حضورﷺ کی ختم نبوت بیان کی جا رہی ہے
تو دوسری طرف شہادت کا ذکر ہے۔
اس وجدانی اور عرفانی نکتے کی وضاحت میں یہاں صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ
حضور ﷺکی شان ختم نبوت کے ساتھ آپ کو مرتبہ شہادت پر بھی فائز کرنا مقصود تھا جس کا مظہر نواسہء رسولؐ سیدنا امام حسینؓ قرار پائے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ہی ذبح عظیم کا مصداق سمجھتے ہیں۔
ذبح اسمٰعیل اور شہادت امام حسین کا باہمی تعلق
اگر شہادت حسین ؓ کا تعلق ذبح اسماعیل سے جوڑا نہ جائے تو شہادت کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے اور بات مکمل نہیں ہوتی۔
حضر ت اسماعیلؑ کی قربانی کو صرف ’’ذبح،، کے لفظ سے ذکر کیا گیا۔
ان کی جگہ مینڈھے کی قربانی ہوئی تو اسے ’’ذبح عظیم‘‘ کہا گیا۔
اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مینڈھے کی قربانی کو ذبح عظیم اور پیغمبر کے بیٹے کی قربانی کو محض ذبح کہا جائے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ذبح عظیم سے مراد کون سی قربانی ہے؟
ذبح عظیم یقیناً وہی قربانی ہو گی جو ذبح اسمٰعیل سے بڑی قربانی کی صورت میں ادا ہو گی۔
اسماعیلؑ حضرت سیدنا ابراہیمؑ کے فرزند تھے جبکہ سیدنا حسینؓ حضور سرور کونین ﷺکے لخت جگر اور نور نظر تھے۔
قطع نظر اس کے کہ نبی اور صحابی کے مرتبے میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن نسبت ابراہیمی سے نسبت مصطفوی یقیناً ارفع و اعلیٰ ہے.
علاوہ ازیں سیدنا حسین علیہ السلام کو سبط پیغمبر اور پسر بتول و حیدر ہونے کے ساتھ ساتھ نسبت ابراہیمی بھی حاصل ہے۔
نیز شہادت امام حسینؓ چونکہ سیرت رسول ﷺ کا ہی باب ہے
اس لیے کائنات کی اسی منفرد اور یکتا قربانی کو ہی ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔
لہٰذا بڑی صداقت کے ساتھ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے ضمن میں جس ذبح عظیم کا فدیہ دیا گیا وہ ایک مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ لخت جگر مصطفیٰ ﷺ حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی قربانی تھی۔
حکیم الامت علامہ اقبال ؒنے اس حقیقت کو بڑے خوبصورت شعری قالب میں ڈھالا ہے۔
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنئی ذبح عظیم آمد پسر
ذبح عظیم کے لیے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب کیوں؟
غور طلب بات یہ ہے کہ ذبح عظیم کا مصداق اگر امام حسینؓ ہیں تو آپؓ کا تعلق حضور نبی اکرم ﷺ سے وہ نہیں جو سیدنا اسماعیل ؑ کو سیدنا ابراہیمؑ کے ساتھ تھا۔
یعنی وہ باپ بیٹا تھے اور یہاں بیٹا نہیں بلکہ نواسہ رسولﷺ کا انتخاب ہو رہا ہے۔
ذبح عظیم کا اعزاز حضور ﷺ کے حقیقی بیٹے کے حصے میں آنا ممکن نہ تھا کیونکہ حضور صلیﷺ کا کوئی بیٹا جوانی یا بلوغت کی عمر کو پہنچا ہی نہیں۔
یہ اللہ تعالی کی حکمت تھی جس کی طرف قرآن نے یوں راہنمائی فرمائی۔
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاO
محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جاننے والا ہے۔
(احزاب، 33 : 40)
یعنی وحی الٰہی کا دروازہ بند اور حضور تاجدار کائناتﷺ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں۔
قرآن آسمانی ہدایت پر مشتمل آخری صحیفہ ہے جو تا قیامت اللہ کے بندوں کی راہنمائی کے لیے کافی ہے۔
جس طرح سورۃ اخلاص میں بیاں ہے :
’’ آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔
(الاخلاص، 112)۔
جس طرح توحید الوہیت نے رب کو بیٹے سے پاک رکھا، اسی طرح شان ختم نبوت نے حضور ﷺ کو جوان بیٹے سے علیحدہ رکھا۔
حضرت ابراہیم ؑنے دو دعائیں مانگی تھیں۔
ایک یہ کہ باری تعالیٰ میری ذریت سے خاتم الانبیاء پیدا فرما،
دوسری میری ذریت کو منصب امامت عطا کر۔
چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی شکل میں نبی آخر الزماں تشریف لے آئے۔
حضور ﷺ پر نبوت ختم ہو جانے کے بعد اب یہ لازمی تقاضا تھا کہ حضور رحمت کونین ﷺ کی نبوت کا فیض اب امامت و ولایت کی شکل میں آگے چلے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی ذریت میں ولایت بھی آ گئی، حضور ﷺ کا اپنا صلبی بیٹا نہ تھا لہٰذا اب نبوت مصطفیٰ ﷺ کا فیض اور امامت و ولایت مصطفوی کا مظہر تھا۔
اس لیے ضروری تھا کہ یہ کسی مقدس اور محترم خاندان سے چلے۔
ایسے افراد سے چلے جو حضور رحمت عالم ﷺ کا صلبی بیٹا تو نہ ہو مگر ہو بھی جگر گوشۂ رسول۔
چنانچہ اس منصب عظیم کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضور ﷺ کی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا پر قدرت کی نگاہ انتخاب پڑی۔
حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ سے حب رسولﷺ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہؓ کا حضرت علیؓ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔
(المعجم الکبير للطبراني، 10 : 156، ح : 10305)
یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لیے کہ حضرت علی ؓ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علیؓ کو تکمیل دعائے ابراہیم ؑکا ذریعہ بنانا تھا۔
اسی مقصد کے لیے تاجدار کائناتﷺ سے ان کی حضرت فاطمہؓکے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔
قدرت نے ان دو منتخبہ شخصیات کے نور نظر سیدنا امام حسینؓ کی قسمت میں ذبح عظیم کا منصب جلیلہ لکھ دیا تھا۔
حضرت فاطمہ الزہرا ؓخاتون جنت ہیں۔ یہ حضور ﷺ کی وہی لاڈلی بیٹی ہیں جن سے تاجدار کائناتﷺ نے فرمایا تھا کہ میری فاطمہ کیا تُو اس بات پر راضی ہے کہ ساری کائنات کے مومنوں کی عورتوں کی تُو سردار ہو۔
(صحیح بخاری ،صحیح مسلم)
حضرت مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
(میری بیٹی) فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا بے شک اس نے مجھے ناراض کیا۔
(صحيح البخاري، 2 : 532)
حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
جب قیامت کا دن ہو گا تو (اچانک) پردوں کے پیچھے سے کوئی منادی اعلان کرے گا کہ
اے اہل محشر! اپنی نگاہیں جھکا لو فاطمہ بنت محمد ﷺ سے (وہ آ رہی ہیں) حتی کہ وہ گزر جائیں گی۔ (المستدرک للحاکم، 3 : 153)
حضرت جمیع بن عمیر التیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ مل کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی خدمت میں حاضر ہوا۔
میں نے پوچھا لوگوں میں سے کون سب سے بڑھ کر رسول اللہﷺ کو محبوب تھا؟
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے جواب دیا حضرت فاطمہ، دوبارہ پوچھا گیا کہ مردوں میں سے کون سب سے بڑھ کر
محبوب تھے؟ فرمایا فاطمہ کا شوہر (علی رضی اللہ عنہ) اور پھر فرمایا کہ میں خوب جانتی ہوں کہ وہ بڑے روز ہ رکھنے والے اور تہجد پڑھنے والے تھے۔
(جامع الترمذي، 2 : 227 (المستدرک، 3 : 155)
حضرت جابرؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔
(4. کنزل العمال’ 11 : 400، ح : 32892، 1. المعجم الکبير لطبراني، 3 : 44، ح : 2630)
حضرت علیؓنبیﷺ کے قائم مقام
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اصحاب رسولﷺ میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبویؐ (کے صحن) کی طرف کھلتے تھے۔
ایک دن حضورﷺ نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے۔ راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ مہ گوئیاں کیں۔
اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے، خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا ہوں۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 125)
منافق کی نشانی
حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، رسول اللہﷺ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ
مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔
(صحيح مسلم، 1 : 60)
ام المومنين حضرت سلمہؓ فرماتي ہيں کہ :
حضور ﷺ یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علیؓ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علیؓ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ (جامع الترمذي، 2 : 213)
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا،
’’ علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔‘
‘یار غار حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے۔(4. کنز العمال، 11 : 60، ح : 32895، 1. المستدرک للحاکم، 3 : 141 – 142)
علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں
بخاری شریف میں حضرت براء ؓکی ایک روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: انت مني و انا منک
(صحيح البخاري، 2 : 610)
’’اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘
یہی بات انھوں نے حضرت حسینؓ کے لیے بھی فرمائی۔
حضرت یعلی بن مرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے حسین سے محبت کی۔ حسین نواسوں میں ایک نواسا ہے۔
(جامع الترمذي، 2 : 29)
چونکہ ولایت مصطفیٰ ﷺ کا فیض حضرت علی سے چلنا تھا اور ’’ذبح عظیم،، حسینؓ کو ہونا تھا
اس لیے ضروری تھا کہ ولایت مصطفیٰ ﷺ، ولایت علی شیر خدا بن جائے اور ولایت علی شیر خدا ولایت مصطفیٰﷺ تصور کی جائے۔
روایت کے آئینہ خانے میں اس حدیث مبارک سے ایک اور عکس ابھرتا ہے اور غبار نفاق چھٹ جاتا ہے۔
حضرت ریاح بن حرثؓروایت کرتے ہیں کہ ایک گروہ حضرت علیؓ کے پاس رحبط کے مقام پر آیا۔
انھوں نے کہا اے ہمارے
مولا! تجھ پر سلام ہو۔ آپؓ نے فرمایا، میں کیسے تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے ’’غدیرخم‘‘ کے مقام پر حضور نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ (علی) مولا ہے۔
(مسند احمدبن حنبل، 5 : 419)
جامع الترمذي، 2 : 213 میں یہی حدیث حضرت زید بن ارقم ؓسے مروی ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں جس کا مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔
پہلی حدیث میں تاجدار عرب و عجم نے فرمایا ہے کہ
جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے، پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا
تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)
حضرت علیؓ سے روایت ہے بے شک حضور ﷺ نے حضرت حسنؓ و حسینؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا، جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔
( جامع الترمذي، 5 : 642، ح : 3733)
ساری دنیا جب مصطفیٰ ﷺ سے مخاطب ہوتی ہے یا اصحاب رسولؐ، حضور ﷺ کی بارگارہ میں عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں
یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔
سیدنا حضرت فاروق اعظم ؓفرماتے ہیں
خدا کی عزت کی قسم میں نے اپنے آقاﷺ کی زبانی سنا ہے کہ جب آپ فاطمہؓ کو بلاتے تو فرماتے،
فاطمہ! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، مصطفیٰﷺ اپنے ماں باپ کو فاطمہؓ پر قربان کر رہے ہیں، اس لیے کہ فاطمۃ الزہرا ؓولایت مصطفیٰ ﷺ کی امین ہیں، یہ محبت رسول ﷺ ہے۔
قربت مصطفیٰﷺ ہے۔
فاطمہؓ صرف مصطفیٰ ﷺ کا لخت جگر ہی نہیں حسنین کریمینؓ کی امی بھی ہیں۔ اس گود میں حسینؓ کی پرورش ہوئی۔ جنت کے سرداردوں کی تربیت ہوئی۔
حسنینؓ کی محبت، محبت رسولﷺ ہے
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی،
اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 288)
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے حضرات
حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا
’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،
(مسند احمد بن حنبل، 5 : 369)
حضور نبی اکرم ﷺکے جسم اطہر سے مشابہت
حضور ﷺکا لخت جگر ہونے کے ناطے حضرت امام حسینؓ کو چونکہ قربانی مصطفےٰﷺ کا مظہر بنایا گیا تھا اور انھیں ذبح عظیم کی خلعت فاخرہ عطا کی گئی تھی،
اس لیے امام حسینؓ کے جسم کو جناب رسالت مآبﷺ کے جسم اطہر سے قریبی مشابہت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
آقائے دو جہاںﷺ کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے عظیم پیغمبر کی یاد ستاتی تو وہ فاطمہؓ کے در دولت پر حاضر ہوتے اور حسینؓ کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔
حضور ختمی مرتبت ﷺکا فیض دو طریق سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفیٰ ﷺ کا فیض اور روحانیت مصطفیٰﷺ کا فیض۔
ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی ؓبنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کے حصے میں آیا۔
فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی مرتضیٰؓ کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسینؓ کو ذبح عظیم بنانا مقصو دتھا؟
ذبح اسماعیلؑ کے بارے میں تو حضرت ابراہیمؑ کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسینؓ کے لیے حضور آئینہ رحمتؐ کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔
آپﷺ کو عالم بیداری میں جبرائیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ
یا رسول اللہﷺ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسینؓ کو قتل کردیا جائے گا
اور حضورﷺ کے طلب کرنے پر جبرئیل امین علیہ السلام نے آپﷺ کو حسینؓ کے مقتل کی مٹی بھی لا کر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علیؓ کے نور نظر اور فاطمہؓ کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا۔
وہ حسینؓ جو حضور ﷺ کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔
جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائناتﷺ نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آ جائے۔
وہ حسینؓ جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا ﷺ کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسینؓ جس کے منہ میں رسول آخرﷺ نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ
ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا
مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائے گا۔
میں نے کہا،
جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا
پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
( البدايه والنهايه، 8 : 196 – (200 (کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
حضور صلی ﷺنے فرمایا :
اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہو گیا ہے۔
ام سلمہؓ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں
اے مٹی! جس دن تو خون ہو جائے گی وہ دن عظیم ہو گا۔
( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108) (الخصائص الکبری، 2 : 125)
شہادت امام حسینؓ کی عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے تذکرے عہد رسالت میں ہی ہونے لگے تھے۔
آقاﷺنے نہ صرف حضرت امام حسینؓ کے مقتل کی نشاندہی کر دی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہو گا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہو گا۔
ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔
10 محرم الحرام کا دن تھا۔ دوپہر کاوقت تھا۔ میں لیٹی ہوئی تھی۔
خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ تشریف لائے ہیں۔ آپ ﷺ رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے۔ میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہﷺ! یہ کیفیت کیا ہے؟
آپ نے فرمایا، ’’میں نے ابھی ابھی حسینؓ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،
(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)
شہادت حسینؓ تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی ﷺ کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سر اقدس نیزے پر سجایا۔
یہی نہیں، خاندان رسول ﷺ کے شہزادوں اور اصحاب حسین ؓ کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے۔
انھوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
انھوں نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا۔
حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
محدثین بیان کرتے ہیں کہ امام عالی مقامؓ کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، زمین و آسمان نے بھی آنسو بہائے۔ شہادت حسینؓ پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا۔
انسان تو انسان جنات نے بھی مظلوم کربلاؓ کی نوحہ خوانی کی۔
محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول ﷺ کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو بھی پتھر اُٹھایا گیا اس کے نیچے سے خون نکلا۔ شہادت حسینؓ کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ اُبل پڑا۔
محدثین کے مطابق شہادت حسینؓ پر پہلے آسمان سرخ پھر سیاہ ہو گیا۔
ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہو جائے گی۔
یوں لگا جیسے قیامت قائم ہو گئی ہو۔ دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
امام طبرانی نے ابوقبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ :
’’جب سیدنا امام حسینؓکو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا حتیٰ کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہو گئے یہاں تک کہ انھیں یقین ہونے لگا کہ یہ رات ہے۔‘‘
(مجمع الزوائد، 9 : 197 معجم الکبير، ح : 2838)
https://shanurdu.com/hazrat-zainab/
ابن زیاد کا انجام
مختار ثقفی کے لشکر کے سپہ سالار نے ابن زیاد کا سر قلم کیا اور اسے نیزے پر چڑھا کر مختار ثققی کے پاس بھیجا۔
بدبخت ابن زیاد کا سر مختار ثقفی کے سامنے رکھا تھا۔
ایک سانپ کہیں سے نمودار ہوا۔ وہ مقتولین کے سروں کو سونگھتا رہا۔
جب ابن زیاد کے سر کے قریب پہنچا تو اس کے منہ میں داخل ہوتا اور ناک کے نتھنوں سے باہر آتا۔
یہ عمل اس نے کئی بار دہرایا گویا زبان حال سے کہہ رہا تھا
: یزیدیو! تمہارے چہروں پر لعنت بھیجتا ہوں۔
ابن زیاد قتل ہوا… یزید برباد ہوا لیکن حسینؓ زندہ ہے اور قیامت تک حسینؓ زندہ رہے گا۔
یزید مرگیا۔ آج کوئی یزید کا نام بھی نہیں لیتا۔
کربلا میں آج حسینؓ کی قبر بھی زندہ ہے۔ جبکہ دمشق میں یزید کی قبر بھی مردہ ہے۔
وہاں ہر لمحہ لعنت برس رہی لیکن ساری دنیا حسینؓ کی قبر پر سلام کے پھول نچھاور کر رہی ہے۔