بسم ﷲ الرحمن الرحیم
خاتون جنت:حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالی عنھا
(20جمادی الثانی ،یوم پیدائش کے حوالے سے خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
اس نیلے آسمان کے نیچے اور زمین کے اس سینے پر محسن انسانیت ﷺ کو سب سے عزیز ترین اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ آپﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالی عنھا ہی تھیں۔آپ ﷺ نے اپنی اس جگر گوشہ کو جنت میں عورتوں کی سردار قرار دیا۔
ایک روایت کے مطابق آپﷺ حضرت فاطمہ الزہرا رضی ﷲ تعالی عنھا کی خوشبو سونگھ کر فرماتے کہ ان میں سے مجھے بہشت کی خوشبو آتی ہے کیونکہ یہ اس میوہ جنت سے پیدا ہوئی ہیں جو شب معراج جبرائیل نے مجھے کھلایا تھا۔
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی ﷲ تعالی عنھا کے بطن سے آپﷺ کی کل چار شہزادیاں تھیں، حضرت زینب، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی ﷲ تعالی عنھن، ان میں سے حضرت فاطمہ سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ لاڈلی تھیں۔
بڑی تینوں آپﷺ کی عمر عزیز میں ہی انتقال فرما گئی تھیں، صرف حضرت فاطمہ الزہرا رضی ﷲ تعالی عنھا وصال مبارک کے وقت موجود تھیں۔ آپﷺ نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں ،بیٹی کو روتا دیکھ کر آپﷺ نے ایک بار پھر ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکرانے لگ گئیں۔
بعد کے دنوں میں حضرت فاطمہ نے وضاحت کی پہلی دفعہ آپﷺ نے مجھے اپنے وصال کی خبر دی تو میں رونے لگی، بعد میں فرمایا کہ میرے خاندان میں سے سب سے پہلے آپ ہی مجھ سے آن ملو گی تو میں مسکرانے لگی۔
یہ فرط محبت کا ایک اچھوتا انداز تھا۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی ﷲ تعالی عنھا کی پیدائش مبارکہ بعثت نبوی ﷺ کے پانچویں سال ہوئی، یہ صبح صادق کا وقت تھا، جمعۃ المبارک کا دن اور21 ربیع الثانی کی متبرک تاریخ تھی۔آپ ؓ خاص قریش، آل بنی ہاشم، بنی عبدالمطلب اور اہل بیت نبویﷺ میں سے تھیں، آپؓ کا شمار پنجتن پاک شریف میں ہوتا ہے۔
امت مسلمہ کے ہاں آپ ؓ کی عقیدت و مودت کسی بھی اور خاتون سے کہیں زیادہ ہے۔ آپؓ کی پہچان صرف آپ کی ذات مبارکہ یا آپ کاحسب و نسب ہی نہیں بلکہ آپ کی آل والاد اور آپ کی نسل بھی اسلام اور تاریخ اسلام کے شاندار ابواب اور عالم انسانیت میں قابل فخر و قابل ستائش ہے۔ مسلمان معاشروں میں خواتین اسلام کے ہاں یہ نام ’’فاطمہ‘‘ سب سے زیادہ کثرت کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور باعث برکت سمجھا جاتا ہے۔
آپ ؓ کی فضیلت عالیہ کے باعث آپ سے منسوب القابات کی بہتات ہے۔ آپ ؓ کے مشہور القابات ’’زہرا‘‘اور’’سیدۃ النساء العالمین‘‘ ہیں اس لیے آپﷺ نے آپؓ کو دنیا و جنت کی خواتین کی سردار قرار دیا تھا۔ آپؓ کی مشہور کنیت ’’ام الائمہ‘‘ ہے ،اس لیے کہ اثنا عشریہ کے کل ائمہ معصومین آپؓ کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
آپ ؓ کے دو فرزندان حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالی عنھما کے باعث آپؓ کو ’’ام السبطین‘‘ اور ’’ام الحسنین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
آپؓ کو خاتون جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ وغیرہ سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ بتول بھی آپؓ کا مشہور لقب مبارک ہے۔ پیدائش کے بعد آپﷺ نے بذات خود آپؓ کی تربیت کی،ام المومنین حضرت خدیجہ رضی ﷲ تعالی عنھا بھی ظاہر ہے کہ اس تربیت میں آپﷺ کے ساتھ ساتھ تھیں۔
بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالی عنھا کے وصال کے وقت آپؓ بہت کم سن تھیں چنانچہ قریش کی متعدد خواتین نے حضرت فاطمہ کو اپنی زیر تربیت لیے رکھا، ان میں فاطمہ بنت اسد جو حضرت ابو طالب کی زوجہ محترمہ تھیں ، ام الفضل جو حضرت عباس بن عبدالمطلب کی زوجہ محترمہ تھیں، حضرت ام ہانی جو آپﷺ کی پھوپھی تھیں، اسماء بنت عمیس جو حضرت جعفر طیار کی زوجہ محترمہ تھیں اور حضرت صفیہ بنت امیر حمزہ بن عبدالمطلب کا نام خاص طور پر ملتا ہے۔
یہ خواتین اہل بیت کی سرخیل خواتین ہیں۔ ان سورج چاند ستاروں کے زیر تربیت رہنے والی خاتون کو واقعی حضرت فاطمہ الزہرارضی ﷲ تعالی عنھا ہی ہونا زیب دیتا ہے۔ بی بی پاکؓ کی پیدائش اور تربیت کا زمانہ مکی زندگی کا دور ابتلا و آزمائش تھا، چنانچہ آپؓ نے ابتداء اسلام کے بہت ہی کٹھن دور کا بنظر غائر مشاہدہ کیا۔
ابولھب کا مکان اور بی بی خدیجہ کے گھر کی ایک ہی دیوار ہوا کرتی تھی، صبح جب آپ ﷺ گھر سے نکلنے کے لیے در اقدس کھولتے تو ام جمیل زوجہ ابولھب نے کانٹوں کا ڈھیر لگا رکھا ہوتا، بی بی صاحبہؓ آگے بڑھ کر اپنی ننھی منی انگلیوں سے پہلے راستہ صاف کرتیں پھر پدر بزرگوار روانہ ہوتے اور اس کوشش میں انگلیوں کے مقدس و محترم و معصوم پور کانٹوں کے باعث خون سے رنگین ہو چکے ہوتے تھے۔
اہل مکہ جب کبھی نبی علیہ السلام پر اوجھڑی پھینک کر جسم اطہر کو آلودہ کر دیتے تو بی بی پاک ؓ پانی سے غسل دیتی تھیں اور ساتھ کے ساتھ اشکوں کی برسات بھی جاری رہتی جس پر سب سے بڑا مشفق باپ سب سے زیادہ اطاعت کیش بیٹی کو تسلی ارشاد فرماتے تھے اور ﷲ تعالی کی مدد پر یقین کی تلقین کرتے۔ شعب ابی طالب کے کٹھن ترین مرحلے میں آپ اپنی کم سنی کے ساتھ شریک آزمائش تھیں۔
ہجرت کاواقعہ تاریخ اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔مردوں کے بعد خواتین اسلام نے بھی ہجرت کی ،چنانچہ حضرت فاطمہ الزہرارضی ﷲتعالی عنھانے حضرت فاطمہؓ بنت اسد،ام المومنین حضرت سودہ ؓاورام المومنین حضرت عائشہؓ کے ساتھ ایک قافلے میں ہجرت کی۔مدینہ طیبہ آمد کے بعد حضرت فاطمہ الزہرارضی ﷲتعالی عنھافاطمہ بنت اسد کے زیرتربیت رہیں،پھر جب حضرت ام سلمی کو ام المومنین کا مرتبہ ملاتو بی بی پاک ؓکو آپﷺ نے ان کے زیرتربیت دے دیا۔ام المومنین حضرت ام سلمی فرماتی ہیں میں نے بی بی پاکؓ کو ادب سکھاناچاہاتو خداکی قسم وہ پہلے سے ہی مودب تھیں۔خاتون جنت سے کئی حضرات نے شادی کی خواہش کااظہارکیاان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓاورحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓبھی شامل تھے ،لیکن ہربار وحی کے انتظارکاجواب ملا۔حضرت علی کرم ﷲ وجہ بذات خودبھی خاندانی قربت کے باعث بی بی پاکؓ سے نکاح کے خواہاں تھے لیکن شیرخداہونے کے باوجود عقیدت و محبت کے باعث رشتہ مانگنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔چنانچہ انصارکے سردارحضرت سعد بن معاذرضی ﷲ تعالی عنہ نے حضرت علی کی درخواست دربارنبوت تک پہنچائی اور بی بی پاک کے رشتے کی درخواست کی ۔چنانچہ آپﷺ نے حضرت علی کو بلاکر فرمایامجھے ﷲ تعالی نے حکم دیاہے کہ فاطمہ بنت محمدﷺکی شادی آپؓسے کروں۔یکم ذولحجہ2ہجری کو 500درہم حق مہر کے عوض مسجدنبوی میں مسلمانوں کی بھری مجلس کے اندریہ مبارک نکاح عمل میں آیا۔حضرت علی کرم ﷲ وجہ نے شادی کے اخراجات کے لیے اپنی زرہ فروخت کردی تھی،جس کے عوض پانچ سودرہم ملے اور یہ کل رقم آپ ؓ نے محسن انسانیت ﷺ کے سپرد کر دی جو مہر قرارپایا۔جہیزکے سامان کے لیے آپﷺ نے حضرت مقدادؓبن اسود،حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت بلال ؓکو رقم دے کربھیجا۔جہیزمیں ایک قمیص،سرڈھانپنے کاایک کپڑا،ایک سیاہ کمبل،کھجورکے پتوں سے بناایک بستر،موٹے ٹاٹ کے دوفرش،چارچھوٹے تکیے،ہاتھ سے آٹاپیسنے والی ایک چکی،کپڑے دھونے کے لیے تانبے کاایک برتن،پانی کے لیے چمڑے کی ایک مشق،لکڑی کاایک گلاس،مٹی کے دوپیالے،مٹی کی ایک صراحی،زمین پربچھانے کاایک چمڑا،ایک سفیدچادراورایک لوٹاشامل تھا۔اس مختصرسے جہیزکودیکھ کر چشمگان نبوی ﷺآبدیدہ ہو گئیںاور برکت کے لیے دعالبوں پر پہنچ گئی۔
رخصتی کے وقت حضرت فاطمہ الزہرارضی ﷲتعالی عنھا’’اشہب‘‘نامی اونٹنی پرسوارتھیںاوراسکی مہارحضرت سلمان فارسی نے تھامی تھی۔رخصتی کے جلوس میں ازواج مطہرات سب سے آگے آگے تھیںاوراونچی آواز سے رجزگارہی تھیں،خاص طورپر حضرت عائشہ نے جو رجز گایااس میں فرمایا کہ حضرت فاطمہ کوساتھ لے کر چلو،ﷲتعالی نے ان کے ذکرکوبلندکیاہے اوران کے لیے انہیں کے خاندان کے ایک پاک و پاکیزہ فرد کوشوہربنایاہے۔ام المومنین حضرت ام سلمی اورام المومنین حضرت حفضہ نے بھی اونچی اونچی آواز میں رجز گائے۔آپﷺ اس دوران خواتین سے کہتے جارہے تھے کہ رجزپڑھیں اور ﷲتعالی کی تکبیربلند کریں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ﷲتعالی ناراض ہو۔بنی ہاشم کے نوجوان ننگی تلواریں لیے ہمرکاب تھے،مسجد نبویﷺکے طواف کے بعد بی بی پاک ؓکوحضرت علی کے گھرمیں اتاراگیا۔آپﷺ نے پانی منگوایااور اس پر دم کر کے بی بی پاکؓاور حضرت علی کے سربازؤںاورسینے پر چھڑکااوردعافرمائی کہ اے بارالہ میں ان کی نسل کو شیطان مردودسے تیری پناہ میں دیتاہوں۔حضرت علی ؓکے حجرے اورحجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے درمیان ایک اور صحابی رسولﷺ کا حجرہ تھا۔شادی کے بعد آپﷺ نے اس مسلمان سے کہاتواس نے حضرت علی سے اپناحجر ہ تبدیل کرلیا،گویا لخت جگرسے اتنی قلیل مسافت بھی مزاج نبویﷺپر گراں تھی۔آپﷺ جب فجرکی نماز کے لیے نکلتے تو حضرت علی کے حجرے کادروازہ بجاتے اور فرماتے کہ اے اہل بیت نماز کے لیے چلو۔شادی کے بعد خواتین نے حضرت فاطمہ الزہرارضی ﷲتعالی عنھاکوطعنے دیے کہ تیراشوہر غریب ہے ،آپﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ،میں نے تیری شادی ایک ایسے فرد سے کی ہے جواسلام میں سب سے اول ہے،علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے،پھرآپﷺ نے فرمایا اے فاطمہ کیاتمہیں نہیں معلوم کی دنیاوآخرت میں علیؓ میرابھائی ہے۔اس پر حضرت فاطمہ الزہرارضی ﷲتعالی عنھامسکرانے لگیں اور مطمئن ہوگئیں۔
آپ کے دوبیٹے حضرت امام حسن رضی ﷲ تعالی عنہ اورحضرت امام حسین رضی ﷲ تعالی عنہ تھے جب کہ دوبیٹیاں حضرت زینب رضی ﷲ تعالی عنھااورحضرت ام کلثوم رضی ﷲ تعالی عنھاتھیں۔شادی کے ابتدائی ایام میں حالات بہت زیادہ تنگ دستی کا شکاررہے تھے،لیکن بی بی پاکؓ نے کبھی حالات کی شکایت سے اپنے شوہر کو پریشان نہیں کیا،بلکہ سوت کات کر یا رسی کے گولے بناکر حضرت کو کرم ﷲ وجہ کو دیاکرتی تھیں تاکہ شوہر کے ساتھ مالی معاونت ہوسکے۔غربت اور سادگی کے باوجود حسن معاشرت کے باعث آپ کے شوہر کو کبھی آپ سے شکایت پیدانہیں ہوئی تھی۔اپنے شوہر سے بہت پیاربھری اور محبت سے لبریزگفتگوفرماتی تھیںلوگوں کے سامنے کنیت’’ ابولحسن‘‘ کہ کر بڑے ادب و احترام سے پکارتی تھیں۔جب شوہر کے گھرآنے کاوقت ہوتاتوخود کو اچھی طرح تیارکرتی تھیںاورشوہر کے لیے کشش کاباعث رہتی تھیں۔دربارنبویﷺ سے ’’فضہ‘‘نامی کنیرمیسرآئیں تو گھرکاسارابوجھ ان پر نہیں ڈالاتھا،آدھاکام خود کرتیں اور آدھاکام ان سے لیتی تھیں۔بعض سیرت نگاروں نے اس کی عملی صورت یہ بتائی ہے کہ ایک دن بی بی پاکؓ خانگی امورسرانجام دیتی تھیں اور ’’فضہ‘‘آرام کرتی تھی جب کے دوسرے دن پھر کنیزکی ذمہ داری تھی وہ جملہ خانگی امور نپٹادے۔
بی بی پاک ؓنے مکہ مکرمہ کا دورصعوببت سمیت کئی جنگیں دیکھیں،لیکن کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔جنگ احد میں رسول ﷲﷺ زخمی ہوگئے اور حضرت علی کرم ﷲ وجہ کو سولہ گہرے ذخم آئے،بی بی صاحبہؓ عین میدان جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری،دوادارواورمرہم پٹی میں مصروف کاررہیں اور شکوہ و شکایت یا خوف وگھبراہٹ کاشائبہ تک چہرہ مبارک پر ہویدانہیں ہوا۔مسیحی پادریوں کا ایک وفدجب خدمت اقدس ﷺمیں پیش ہوا اور گفت و شنیدبے نتیجہ رہی تو ﷲ تعالی نے حکم نازل فرمایاکہ
’’ فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالُوْا نَدْعُ أَبْنَآئَ نَا وَ أَبْنَآء کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ أنْفْسَنَا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ{۳:۶۱}‘‘
ترجمہ:یہ علم آجانے کے بعداب جوکوئی اس معاملے میں آپﷺ سے جھگڑاکرے تواس سے کہیں کہ ’’آؤہم اورتم خود بھی آجائیں اوراپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیںاورخداتعالی سے دعاکریں کہ جوجھوٹاہو اس پر خداتعالی کی لعنت ہو‘‘(سورہ آل عمران،آیت61)۔اس حکم ربانی کے بعد آپﷺ نے مسیحیوں کو دعوت مباہلہ دی اور اگلے دن آپ ﷺ حضرات علی ؓ و فاطمہؓوحسنؓ حسین رضی ﷲ تعالی عنھم کی معیت میں باہر نکل آئے،لیکن مسیحی اس موقع پر مباہلہ کے لیے سامنے نہ آئے اور ان کے سردارنے کہاکہ میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں کہ اگر یہ بددعادے دیں توروئے زمین ایک بھی مسیحی باقی نہ بچے۔اس واقعے سے بی بی پاک فاطمہ الزہرااور ان کے گھرانے کی اہمیت مسلم ہو جاتی ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں آپﷺنے فرمایا ایک فرشتہ جو زمین پر کبھی نہ اتراتھا صرف مجھے یہ بتانے کے لیے اتراکہ حضرت فاطمہؓ جنتی خواتین کی سرداراورحسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردارہیں۔ایک اورموقع پرآپﷺ نے فرمایا کہ فاطمہؓ میری جان کاحصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیااس نے مجھے ناراض کیا۔آپﷺ کامعمول مبارک تھا سفرپرجانے کے لیے سب سے آخرمیں حضرت فاطمہؓ سے ملتے تھے اور سفرسے واپس آکرسب سے پہلے بھی حضرت فاطمہؓ سے ملتے تھے۔ایک موقع پر جب بی بی پاک صاحبہ ؓ نے تھکاوٹ کی شکایت کی توآپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز کے بع تیتیس تیتیس مرتبہ الحمدللہ،سبحان ﷲ اور ﷲ اکبرپڑھ لیاکریں تو امت میں یہ اذکار’’تسبیح فاطمہ‘‘کے نام سے معروف ہیں ۔بعض کتب کے مطابق خلافت راشدہ کے ابتدائی زمانے میںحضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالی عنھاکے حضرات ابوبکروعمررضی ﷲ عنھماسے ’’باغ فدک‘‘نامی جائدادپر اختلافات تھے۔بادی النظرمیں اپناکل گھربار مال و اسباب کوﷲ کے راستے میں لٹادینے والے ایمان و عمل کے اعلی ترین مناصب پر فائز لوگ ایک دنیاوی بے حقیقت وبے وقعت جائدادپرباہم دست و گریباں ہوجائیں جب کہ ﷲ تعالی نے ان کے جنت جیسی بے عمیق جگہ کے دروازے کھول رکھے ہوں ،عقل سلیم اس نزاع کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔وصال نبویﷺ کے کم و بش چھ ماہ بعد3جمادی الثانی 11ہجری آپ کی رحلت ہوئی اور بمطابق وصیت رات کی تاریکی میں آپ کاجنازہ پڑھاگیااورجنت البقیع میں آپ اپنی مرقد انورمیں محو خواب ہیں۔
بی بی پاکؓ کی شادی کے بعد کی زندگی کل خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔غربت اور تنگ دستی نے گھرمیں ڈیرے ڈالے رکھے لیکن شکایت کاکوئی لفظ زبان پر نہ آیا۔جب بھی بیمارہوتیں تو حضرت علی کچھ لانے کاپوچھتے توفرماتیں میرے والد محترمﷺنے مجھے منع کیاہے کہ میں آپ سے کچھ مانگوں۔اگرکوئی صبروقناعت کی زندہ تصویرکودیکھناچاہے توآپؓ کی زندگی کامطالعہ کرے۔ایک بار کچھ لونڈی غلام کہیں سے آئے تو بی بی پاکؓ پدربزرگوارﷺکے پاس تشریف لے گئیں اور اپنے ہاتھ پر پڑے ہوئے گٹے دکھاکر عرض کی کہ آٹاپیس پیس کر ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں ،کوئی خدمت گار عطا کر دیں تو جواب میں انکارملا کہ ابھی بدرکے یتیم باقی ہیں۔فاقوں پر فاقے گزرجاتے تھے لیکن آل رسولﷺ کے اس گھرانے کی چوکھٹ سے کوئی سوالی خالی نہ جاتاتھا۔یہ وہ گھرا نا ہے جس پر درودپڑھے بغیرمسلمانوں کی نماز ہی مکمل نہیں ہوتی ۔ان ہستیوں سے تعلق و عقیدت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے بغض و عداوت ،شروفساداور طاغوت کی نشانیاں ہیں۔مسلمان عورت اگردنیاوآخرت کی کامیابیاں و کامرانیاں چاہتی ہے تو دختررسولﷺسے بڑھ کراورکوئی نسوانی مثال موجود نہیں ہے۔