صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
08 March, 2013
اسمبلیوں کی تحلیل کاوقت جوں جوں قریب آ رہا ہے ٗ عوام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیر اعظم پر اتفاقِ رائے کے شدت سے منتظر ہیں۔
آئین کی بیسویں ترمیم نے اِس اہم عہدے پر تقرر کا ایک لائحہ عمل طے کر دیا ہے
جس میں مختلف امکانات کے پیشِ نظر اتفاقِ رائے کی تین صورتیں متعین کی گئی ہیں جو دیکھنے میں آسان معلوم ہوتی ہیں
مگر اِن میں ہر ایک مرحلہ جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیں۔
قوم اپنے سیاسی قائدین سے یہ حُسنِ ظن رکھے ہوئے ہے کہ جس طرح وہ چیف الیکشن کمشنر کے
انتخاب پر متفق ہو گئے تھے
اِسی طرح نگران وزیر اعظم کا معاملہ بھی حسن و خوبی سے طے پا جائے گا اور
پارلیمانی کمیٹی اور الیکشن کمیشن کو درمیان میں آنا نہیں پڑے گا
مگر اب تک قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کی جو سیاسی چہل بازیاں اور
خرخشے دیکھنے میں آئے ہیں ٗ اُن سے عوامی حلقوں میں اضطراب پھیلتا جا رہا ہے۔
مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے ہی نگران وزیر اعظم کا فیصلہ سامنے آ جائے
تاکہ جس شخص کو یہ اہم ذمے داری سونپی جائے
وہ اِس عظیم کام کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی ہو اوربروقت ایک قابلِ عمل پروگرام بھی طے کر سکے۔
قدرے تاخیر سے جناب وزیر اعظم نے اپوزیشن لیڈر کو باقاعدہ مشاورت کے لیے خط لکھ دیا ہے
اور چودھری نثار علی خاں نے ایک پریس کانفرنس میں جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ٗ جسٹس (ر)
شاکر اﷲ جان اور جناب رسول بخش پلیجو کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔
نون لیگ کے صدر جناب نواز شریف جو ایک سیاسی مدبر کے طور پر اُبھرے ہیں
اُنہوں نے نہایت معقول بات کی ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے پیش کردہ نام ہمارے ناموں سے بہتر ہوئے
تو ہم اُن سے اتفاق کریں گے۔
جناب عمران خاں کا خیال ہے کہ کسی غیر سیاسی شخصیت کو یہ منصب سونپا جانا چاہیے
جبکہ صدر زرداری کا موقف یہ ہے کہ ہم اتنی بڑی ذمے داری کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ جج
کو دینے کے بجائے ایک قابلِ اعتماد اور غیر جانب دار سیاست دان ہی کے کیوں نہ سپرد کریں
اور یہ تاثر کیوں دیا جائے کہ سیاست سے وابستہ لوگ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کی
صلاحیت سے محروم ہیں۔ دونوں موقف اپنی اپنی جگہ خاصا وزن رکھتے ہیں
مگر اصل اہمیت خلوصِ نیت اور آزمودہ صلاحیت کی ہے۔ 1993ء میں دونوں بڑی جماعتوں کی
رضامندی سے جناب معین الدین احمد قریشی کا نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے تقرر ہوا
جو معروف بینکار اور غیر سیاسی آدمی تھے ٗ مگر اُن کے زیادہ تر اقدامات نے ایک سیاسی جماعت
کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں صدر فاروق احمد خاں لغاری نے
جناب ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے بہت پرانا تھا
مگر انتخابات میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا۔
اِس اعتبار سے سیاسی اور غیر سیاسی نگران وزیر اعظم کا ایک مستقل اصول طے نہیں کیا جا سکتا
البتہ یہ امکان موجود ہے کہ ہمارے ’’غیر سیاسی صدر‘‘ جیسی کوئی شخصیت دریافت کر لی جائے
جو ایک پارٹی کی سربراہ بھی ہو اور کھلے بندوں تمام سیاسی امور نپٹاتی بھی رہی ہو ۔
دراصل ہماری تاریخ سیاسی رقابتوں اور دشمنیوں سے داغ دار ہے اور بہت کم سیاسی شخصیتیں
ایسی بچی ہیں
جن پر تمام سیاسی جماعتیں خوش دلی سے اتفاق کر سکیں۔ آج کے حالات میں سردار عطاء اﷲ مینگل
اپنے سیاسی قدوقامت کی بدولت نہایت موزوں نگران وزیر اعظم ہو سکتے ہیں
مگر وہ حالات سے حددرجہ درلبرداشتہ ہیں اوراُن کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت پر اعتبار کرنا دشوار ہو گا کہ
اُن کی حکومت 1973ء میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے برطرف کی تھی اور
فوجی آپریشن 1977ء تک جاری رہا تھا۔
نگران وزیر اعظم یوں تو کسی بھی صوبے کا ہو سکتا ہے ٗ لیکن بلوچستان اور خیبر پختون خواہ
کا انتخاب قومی یک جہتی کے اعتبار سے نہایت مفید رہے گا۔ اِس اہم عہدے کے لیے ایک ایسے
شخص پر اتفاق کیا جانا چاہیے
جو انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال اور سیاسی نزاکتوں کا ادراک رکھتا ہو۔
وفاقی اور صوبائی کابینہ میں ایسے تجربے کار افراد شامل کیے جائیں جو امن عامہ اور
معیشت کے بگڑئے ہوئے معاملات پر قابو پانے کی حکمتِ عملی وضع کر سکتے ہوں۔
اُن کی عمدہ کارکردگی انتخابات کو شفاف بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے علاوہ الیکشن
کمیشن کو بھی توانائی فراہم کرے گی جو اِن دنوں شدید دباؤ میں ہے
کیونکہ اُسے روز افزوں مطالبات اور مافیاؤں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
بعض عناصر جناب فخرو بھائی کو مشتعل کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اُن کی برادری پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں
اور غلط یا صحیح الزام ایم کیو ایم پر آ رہا ہے جس کے خلاف کراچی میں اپوزیشن کی
دو درجن جماعتیں متحد ہو گئی ہیں اور وہ درست انتخابی فہرستوں اور حلقوں کی
نئی حد بندیوں کے لیے ٹرین مارچ کر رہی ہیں
جن کا حیدر آباد ٗ ملتان ٗ لاہور اور راولپنڈی میں زبردست استقبال ہوا ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکام پر الیکشن کمیشن عمل درآمد میں
اِس لیے بے بس ہے کہ ایم کیو ایم کا دباؤ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے اور
اُس کا عسکری ونگ شورش بپا کرنے
پر آمادہ ہے۔
عباس ٹاؤن میں دہشت گردی کی جو خوں آشام واردات ہوئی ہے ٗ اُس نے انتظامیہ کی بے حسی اور سنگ دلی پوری طرح بے نقاب کر دی ہے
اور محترمہ شرمیلا فاروقی کی منگنی پر پورے شہر کے اعلیٰ افسران اور پولیس فورس اُمڈ آئی تھی جس کے باعث دہشت گردوں کو بچوں ٗ عورتوں اور جوانوں کو لقمۂ اجل بنا دینا بہت سہل ہو گیا تھا۔
اِس دردناک سانحے پر پورا ملک کرب سے بلبلا اُٹھا ہے اور آہیں اور سسکیاں ہمارے وجود کو ورق ورق کیے دیتی ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ شہیدوں کی مرقد پر شبنم افشانی کرے اور زخمیوں کو شفا دے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ ہم تمام شہری اُن کے لواحقین میں شامل ہیں۔
اِن حالات میں بہتر یہی ہو گا کہ نگران وزیر اعظم کراچی کے بجائے کسی اور علاقے سے لیا جائے۔
بلاشبہ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد بڑے عظیم والد کے فرزندِ ارجمند ہیں جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے
پہلے گورنر اور پہلے پنج سالہ منصوبے کے خالق تھے۔
اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے لیے قائد اعظم سخت بیماری کی حالت میں زیارت سے تشریف لائے تھے
اور یہ اعلان فرمایا تھا کہ ہم جدید عہد میں اسلامی معیشت کے اصولوں پر ایک عظیم تجربہ کرنے چلے ہیں۔
جناب ناصر اسلم زاہد اُن بااصول اور جرأت مند جج صاحبان میں شامل ہیں جنہوں نے جنرل مشرف
کے پی سی او پر حلف اُٹھانے سے انکار کر کے شہادتِ حق کا فریضہ بڑی استقامت سے ادا کیا تھا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی بیشتر سیاسی جماعتوں کا اُن کے نام پر اتفاق ہو چکا ہے
تاہم ابھی وزیر اعظم کی طرف سے ناموں کا اعلان ہونا باقی ہے اور شاید وہ سیاسی شخصیتوں پر اسرار کریں
اور یوں معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں چلا جائے اور وہاں جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کے نام پر اتفاق ہو جائے۔
ایسی صورت میں اُنہیں کراچی کے مافیاؤں کے دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے میڈیا ٗ سول سوسائٹی
اور سیاسی جماعتوں کو ایک مضبوط حصار قائم کرنا اور شفاف انتخابات کے لیے پوری طرح بیدار اور چوکس رہنا ہو گا
جو ہماری سیاسی سمت اور جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے
اِس لیے پوری قوم کو زبردست شعور اور قوتِ ارادی کا ثبوت دینا پڑے گا۔