تحریر، جاوید راہی
قلمی آموں کے درختوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا ،رات کی تاریکی میں ان کے سائے عجیب و غریب اشکال بنائے کھڑے نظر آتے ،یوں محسوس ہو تا جیسے قطار و قطار عفریت ساکت و جامد کھڑے کسی وقت بھی جھپٹ پڑنے کو تیار ہوں۔ ان درختوں کے مشرقی کونے سے ایک سایہ آہستہ آہستہ رینگتاہوا اس راستے پربڑھ رہا تھا جو باغ سے آبادی کی طرف جاتا تھا ۔ جب یہ سایہ آموں کے درخت عبور کر کے کھلی فضا میںآیا تو پھیکے چاند کی روشنی میں اس کے خدو خال ذرا نمایاں ہوگئے۔ یہ درمیانی عمر کا کوئی شخص تھا جو ہاتھ میں رائفل تھامے بڑے محتاط انداز میں آبادی کی جانب بڑھ رہا تھا آبادی قریب آنے پر آوارہ پھرنے والے ایک کتے نے انسانی ہیولے کو دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیا جس کے ساتھ ہی آبادی کی مختلف سمتوں سے جواباً کتوں نے بھونک کر اپنے ہونے کا احساس دلایا مگر وہ سایہ بے خوف و خطر آگے ہی بڑھتا رہا۔ گائوں کی آبادی کے محافظ کتے اس کی لاپرواہی سے اسے گائوں کا کوئی فرد سمجھ کر پل بھر کیلئے غرائے اور اس کے آگے گزر جانے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔وہ سایہ چلتا ہوا گائوں کے وسط میں بنی بڑی سی حویلی نما عمارت کی عقبی دیوار کے سائے میں پہنچ کر رک گیا رات کا پچھلا پہر شروع ہوچکا تھا اس لئے فضا میں خنکی کا احساس بڑھتے محسوس کر کے اس سائے نے اپنی رائفل اپنے جسم کے ساتھ کھڑی کی اور دونوں ہاتھوں کو آپس میںرگڑ کر گرم کیا اور دیوار کا جائزہ لینے لگا۔
پچھلی دیوارخاصی اونچی تھی جسے عبور کرنا ممکن نہیں تھااس لئے وہ سر کو ہلاتا ہوا دیوار کے سائے میں سمٹ کر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر تک ماحول کا زیروبم دیکھ کر اٹھا رائفل کو پشت پر لٹکاتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھ دیوار پر سختی سے جمائے اور ایک بھرپور جست بھری، اب سایہ دیوار کے اوپر جما بیٹھا تھا اور بڑے محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا جب اسے تسلی ہو گئی کہ کوئی اسے دیکھنے والا نہیں تو اس نے دھپ سے چھلانگ اندر کی طرف لگا دی۔ تھوڑی دیر وہ آہٹ لیتارہا پھر جھکا جھکا عمارت کی طرف بڑھنے لگا ۔
رائفل اس نے مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی۔ عمارت کے صدر دروازے کے سامنے پہنچ کر وہ رک گیا۔ جب اسے مکمل یقین ہو گیا کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا تو اس نے بائیں جانب کی راہداری کا انتخاب کیا جس کے اختتام پر مہمان خانہ تھااور اس کے دوسری جانب عمارت کا بڑا صحن جس کے اندر وہ ایک اور دیوار پھاند کر داخل ہو نا چاہتا تھا۔تھوڑی سی محنت کے بعد وہ مہمان خانے کی چھت پر سے ہوتا ہوا صحن میں اتر گیا ۔سردی کے باوجود اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا تھا۔ جسے وہ ہتھیلی سے صاف کرتا ہوا کچن کی آڑ میں ہو گیا ۔ اب وہ ہر طرح کے خطرات سے محفوظ تھا۔
آج وہ اپنے گھر پورے پانچ سال کے بعد داخل ہوا تھا۔ وہی کچن تھا جس میں بیٹھ کر وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتا تھا۔ اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی ۔وہ کچن کے سائے سے نکل کر برآمدے کی جانب آ گیا۔پچھلے دروازے پر رُک کر اس نے آہستہ سے دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد پھر یہی عمل دہرایا کسی کمرے میں روشنی ہوئی اور پھر بیزاری میں ڈوبی ہوئی آواز ،’’اس وقت کون آ گیا ہے‘‘؟ آواز قریب آتی گئی پھر دروازہ کھل گیا سامنے بابا شریف کھڑا تھا، جو حیرت سے اسے غیر یقینی انداز میں دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کے حلق سے دھیمی اور خوشی میں ڈوبی سرگوشی ابھر ی اکبر خاں۔۔۔
’’ہاں بابا‘‘، اکبر خاں رائفل درست کر تا ہوا بولا۔
’’آؤ آؤ اندر آجاؤ۔ کسی نے دیکھا تو نہیں‘‘ بوڑھے نوکر نے بڑے محتاط انداز میں اس بار سرگوشی کرتے پوچھا۔’’نہیں بابا‘‘،اکبر خاںنے اندر داخل ہوتے ہوئے جواب دیا۔
’’ماں جی کا کیا حال ہے‘‘اکبر خاں نے چلتے چلتے پوچھا۔
اکبر خاں تمہاری جوانی اس کیلئے کسی بیماری سے کم نہیں پھر وہ درمیان والے کمرے کے آگے رک گیا اور اشارہ کیا کہ ماں جی اس کمرے میں ہیں۔ اکبر خاں دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔سامنے مسہری پر اکبر خاں کی ماں پڑی سو رہی تھی ۔چند پل وہ کھڑا دیکھتا رہا پھر شدت جذبات سے ماں کی مسہری پر بیٹھ گیا۔ بوڑھی ماں کے ہاتھ کو چھوا اُسے یوں لگا جیسے ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ہو ۔ بڑھیا نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول دیں اوراکبر خاں پر نگاہ پڑتے ہی گم صم ہو گئی۔ پھر دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے سے لپٹے آنسو بہا رہے تھے ۔ اکبر خاں کی ماں اپنے بیٹے کو بار بار اپنی بوڑھی اور کمزور بانہوں میں سمیٹ رہی تھی جیسے پانچ سال کی جدائی ان لمحوں میں پاٹ کر لینا چاہتی ہو۔
’’ماں جی ،چچا کا رویہ کچھ بدلا یا ویسا ہی ہے؟‘‘
بڑھیا ایک آہ بھر کر رہ گئی اور جواب میں بولی ، بیٹا زمین پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے گزارے کیلئے کچھ تھوڑا بہت دے دیتا ہے۔ حویلی کے ایک حصہ میں اس نے مزارع کو بٹھا دیا ہے تاکہ یہاں بھی قابض رہے ۔تھوڑی سی آہٹ ہوئی،دروازہ کھلا اور بابا شریف چائے وغیرہ لے کر آگیا۔
’’ارے بابا !تم نے تکلیف کیوں کی‘‘
با با شریف چائے ڈالنے لگا پھر دونوں ماں بیٹا چائے کی پیالیاں تھامے باتیں کرنے لگے۔
’’بیٹا تم نے کوئی اَتہ پتہ تک نہ بھجوایا‘‘
بابا میں بار ڈر کے علاقے میں نکل گیا تھا ۔ پولیس میرے پیچھے کافی دور تک آئی مگر میں ان کے ہاتھ سے بچ نکلا ۔وہاں چند روز تک بھٹکتا رہا پھر ایک سکھ سے جان پہچان نکال لی۔ یوں اتنا عرصہ نکل گیا۔ ماں جی کی یاد اور سینے کی سلگتی آگ ہر وقت میرے ساتھ رہتی تھی۔ اس بار اکبر خاں کے چہرے پر نفرت کی لہر دوڑ گئی ۔ ماں نے بھی اپنے بیٹے کے چہرے پر کرب کے سائے محسوس کر لئے تھے۔ اسے وہ لمحہ پھر تڑپا گیا، جب اس حویلی کے دالان میں ایک ہی گھر کی پانچ لاشیں اپنے ہی خون کے ہاتھوں خون میں لت پت ہو گئیں۔
دوسری طرف چودھری برکت کے کھیت میں سمیع خاں کے دونوں جوان بیٹوں کی لاشیں گولیوں سے چھلنی ہو چکی تھیں۔ سمیع خاں فیروز خاں کا سوتیلا بھائی تھااور جائیداد کے بٹوارے پر جھگڑا ہو ا دونوں طرف سے کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی۔ سمیع خاں کے بڑے لڑکے جمیل خاں نے اپنے تایا فیروز خاں سمیت تینوں لڑکوں اور ایک لڑکی کو حویلی میں آ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اکبر خاں زمینوں پر تھا. اسے خبر ہوئی تو وہ تڑپ اٹھا ۔ اس نے کبھی تصوربھی نہیں کیا تھا کہ ایک روز یہ رنجش یوں کہرام برپا کر دے گی۔ وہ حویلی آیا اور رائفل نکال کر دیوانوں کی طرح ان کی طرف بھاگا۔ وہ دونوں بھائی فائرنگ کر تے بھاگ نکلے ۔ اکبر خاں تعاقب کرتا ہوا دونوں کے سر پر پہنچ گیا اور پھر ان پر ٹوٹ پڑا۔ وہ سنبھلے مگر اکبر خاں کی چلائی گولیاں ان کے پرخچے اڑا گئیں۔
جب دونوں بھائی دم توڑ گئے۔ تو وہ دوبارہ اپنے چچا سمیع خاں کے گھر کی طرف پلٹا۔ اتنے میں پولیس پہنچ چکی تھی۔ وہ اپنے دل میں نفرت اور انتقام کا طوفان چھپائے بھاگ نکلا۔ آج پانچ برس بعد پھر اسی دکھ کی دہلیز پر زخموں کے منہ کھل جانے کی وجہ سے کسی زخمی ناگ کی طرح بل کھا کر رہ گیا تھا۔
’’اکبر خاں کیا سوچ رہے ہو‘‘ماں کا مدھم لہجہ ابھرا۔
’’کچھ نہیں ماں جی!، اکبر خاں نے آنسو ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔
تینوں فرد باتیں کر تے رہے ، باہر رات آہستہ آہستہ دن کے اجالے میں تحلیل ہو رہی تھی۔
’’ماں جی !مجھے کچھ قرض ادا کرنا ہے، اگر زندگی نے وفا کی تو پھر آؤں گا ‘‘کہتے ہوئے اکبر خاں اُٹھ گیا۔
ماں جی اور بابا شریف اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک نہ سکے۔
رات کے سناٹے میں گولیوں کی کرخت آواز گونج اٹھی اور پھر انسانی چیخوں کی آواز موت کی سرد گود میں اُتر گئی۔ پانچ سال پہلے کی تاریخ پھر دہرائی گئی۔ سمیع خاں اس کی بیوی اور دونوں بیٹیاں کمرے میں انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اکبر خاں رائفل تھامے تھکے تھکے قدموں سے چلتا حویلی کی طرف چلا آ رہا تھا۔ گاؤں جاگ اٹھا اور خوفزدہ نظروں سے اکبر خاں کو دیکھ رہا تھا، جس نے دو خاندانوں کے انتقام کا آخری باب آج ختم کر ڈالا تھا۔
ماں جی کے چہرے پر بہت سے سوالات تھے مگر اکبر خاں رائفل رکھتے ہوئے مسہری پر یوں دراز ہو گیا جیسے لمبی مسافت کے بعد کوئی آرام کی گھڑی ملی ہو۔
’’بابا! پولیس آئے تو مجھے جگا کر گرفتاری کے لئے پیش کر دینا۔‘‘کہتے اکبر خاں ماں کے بازو کے ساتھ لگ کر کسی معصوم بچے کی طرح آہستہ آہستہ آنکھیں بند کرتا چلا گیا۔
ماں جی کے ہاتھ اکبر خاں کے سر کے بالوں میں محبت سے اُلجھ گئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی مالا ٹوٹ کر اکبر خاں کے بے ترتیب بالوں میں بکھر گئی۔
٭٭٭٭٭