آئینہ خانہ
ڈالر پر ست اور خیال فروش انقلابی
حافظ شفیق الرحمن
فروری 22 ، روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والا تازہ کالم
ہمارے ہاں بعض ایسے دانشور جنہیں اصولی طور پر ڈاکٹر عبدالرشید چودھری کے قائم کردہ فاؤنٹین ہاؤس کی ’’معالجانہ مہمان نوازی‘‘ سے لطف اندوز ہونا چاہئے،
آزادیٔ رائے کی آڑ میں جان بوجھ کر لغو خیالات ، رجعت پسندی کے مظہر تصورات اور بے بنیاد خانہ ساز روایات گھڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ ناسٹیلجیا کے مریض ہیں۔مختلف کلیشوں کے جالے ان کے ذہن کی مکڑی کو حصار میں لئے ہوئے ہیں۔
ترک عوام 2000ء میں کمال ازم کو گہرے تابوت میں دفن کرچکے ہیں لیکن یہ بیسویں صدی کے ’ترک نژاد رعمیسس ‘کمال کی’ ممی‘ کی پوجا پاٹ میں مگن ہیں۔
ستانوے برس قبل جنم لینے والے دونوں نظام کمیونزم اور کمال ازم کو روسی اور ترک عوام مسترد کر چکے ہیں۔
ہمارے یہ انقلابی’ ماضی کے مزاروں کے مجاور ‘ہیں۔
انہیں خوش فہمی ہے کہ ان کے خامہ و خیال کی مسیحائی ان گڑے مردوں کو زندہ کر دے گی۔
خود سپردگی اور بزدلی کو ’’امن پسندی ‘‘ اور ’’عملیت پسندی‘‘ قرار دینے والے ترقی پسند افلاطونوں کو کیا خبر کہ اصولی مؤقف نظریاتی استقامت، حریتِ فکر، جرأتِ اظہار اور زیبائیِ کردار کا مظاہرہ کر کے اپنے جسم و جاں پر ظلم و جبر، استبداد اور استعمار کی چیرہ دستیوں کو برداشت کرنے والے صاحبانِ ایمان کس مقام بلند کے حامل ہوتے ہیں۔
کاش! یہ اور ان کے فکری رہنما کبھی سج دھج سے مقتل میں گئے ہوتے تو انہیں پتا چلتا کہ آن اور ایمان والے اپنے مؤقف کی خاطر کس شان اور آن سے جان دیتے ہیں ۔
’وہسکی + واڈکا‘ کے نشہ میں دُھت کوئے یار میں زیر سایۂ دیوار کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر اونگھتی مکھی کی طرح پاؤں توڑ کر بیٹھ جانے کو زندگی اور ترقی پسندی کی معراج جاننے والے ’’کوئے یار ‘‘ اور ’’سوئے دار‘‘ کی قافیہ بندی تو کر سکتے ہیں لیکن ستونِ دار پر سروں کے چراغ روشن نہیں کر سکتے۔
قاہرہ، سکندریہ، حلب، دمشق، گروزنی، بغداد، بصرہ، تکریت، قندھار، کابل، ہرات، قلعہ جنگی اور تورا بورا کے مجاہد ’’بالائے دار ‘‘ کس خوشگوار موت سے ہم کنار ہوئے، ڈالر پر ست اور خیال فروش اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔
افغان شہیدوں کے لہو سے ترجوتوں کے تسموں پر سٹالن گراڈ، لینن گراڈ، لاطینی امریکا اور ویتنام کے وہ لاکھوں جنگجو قربان جو ’’مٹی‘‘ اور ’’کوکین‘‘ ایسی مٹ جانے والی اشیاء کے تحفظ کے لیے تاریک راہوں اور فنا کی وادیوں میں اتر کر اپنا نام و نشان کھو بیٹھے…
تورا بورا، قندوز، قندھار، کابل، ہرات اور مزار شریف کے گلی کوچوں میں امریکی و روسی راتب پر پلنے والے ’’اصحاب الشمال‘‘ اور ان کے سرپرستوں کے نیم جوہری، کیمیائی، جراثیمی اور حیاتیاتی بموں کی بھد اڑا کر رکھ دینے والے طالبان مجاہدوں نے انسانی تاریخ میں جرأتوں، جگرداریوں، اور شجاعتوں کے ہزاروں نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے۔
ترکی، مصر، الجزائر، عراق، شام، لیبیا، تیونس اور یمن میں سوویت روسی اور امریکی سامراج کے پٹھو حکمرانوں کی آمریتوں کے خلاف الاخوان اور اسلامی تحریکوں کے پرچم تلے شہ رگ کے لہو سے داستانِ حریت رقم کرنے والوں کا ذکر کبھی کسی لبرل فاشسٹ دانشور کے قلم کی نوک پر نہیں آیا۔
ان میں اخلاقی جرأت نہیں کہ یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک کے کرنل سٹالن، یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو، کیوبا کے آمرِ مطلق فیڈل کاسترو، ترکی کے جمال گرسل اور کنعان ایورن، 20ویں اور 21ویں صدی کے الٹرا ماڈ فراعنہ جمال عبدالناصر، انوارالسادات،حسنی مبارک، شام کے حافظ الاسد، لیبیا کے کرنل قذافی اور الجزائر کے جنرل بومدین کے خلاف انہوں نے کبھی کوئی نظم، رزمیہ ترانہ، ہائیکو، افسانہ، کہانی، کالم، انشائیہ یا کوئی رپور تاژ سپردِ قلم کی ہو۔
انہیں دنیا میں صرف اور صرف ایک ہی ڈکٹیٹر دکھائی دیتا ہے اور اس کا نام ہے جنرل ضیاء الحق… جنرل ضیاء الحق کے جرائم میں سے سنگین جرائم یہ تھے
امتناعِ قادیانیت آرڈیننس
احترامِ رمضان آرڈیننس
نفاذِ نظامِ زکوٰۃ
قانونِ توہینِ رسالتؐ کی سزا میں ترمیم
شرعی عدالت کا قیام
فوجی چھاؤنیوں کے میسز میں شراب نوشی پر مکمل پابندی
اور اسلامی نظریاتی کونسل کی توسیع
ایسے عوام دوست فلاحی اقدامات کئے۔
ان کا یہ جرم بھی لبرل فاشسٹ کالم نگاروں کے قریب ناقابلِ معافی ہے کہ انہوں نے افغانستان میں توسیع پسند سوشل سامراج سوویت روس کے جارحانہ اور غاصبانہ قبضے کے خلاف تمام عالمی پلیٹ فارموں پر صدائے احتجاج بلند کی
اسی پر بس نہیں بلکہ تمام افغان مستضعفین کی اعانت اور مہاجرین کی نصرت کی۔ باقی جہاں تک جیالوں کو کوڑے مارنے کی خانہ ساز ہوشربا کہانیوں کا تعلق ہے تو یار لوگوں نے کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ بڑھا بھی دیا ہے زیبِ داستاں کے لئے۔
دنیا جانتی ہے کہ سامراج پرستی ان نام نہاد ترقی پسندوں کی گھٹی میں پڑی ہے تو استعمار دوستی ان روشن خیالوں کے خمیر اور خصلت میں شامل ہے۔ سوشل سامراج کاسرخ بھیڑیا جب تک جوان اور طاقتور تھا اور یوگوسلاویہ ، پولینڈ، چیکو سلواکیہ، رومانیہ ، بلغاریہ اور وسط ایشیائی ریاستوں کی بھیڑوں کو ’’پانی گدلا کرنے کے جرم کی سزا دیتے ہوئے انہیں سموچا نگل کر توسیع پسندانہ عزائم کی توند میں اتار سکتا تھا
اور افغانستان کے ’’مارخور‘‘ کی مار کی تاب نہ لاتے ہوئے دم دبا کر جب یہ بھاگا تو تمام ترقی پسند اور روشن خیال ’’اینٹی سوشل سامراج‘‘ کے بدمست ہاتھی کی ’’سیوا‘‘ کو معراج انسانیت قرار دینے لگے… اس بدمست ہاتھی کو جس نے بھی ’’راہ راست‘‘ دکھانے اور سبق سکھانے کا عزم کیا، وہ انسانیت کا خیر خواہ، سامراج دشمن ان’’لوٹے انقلابیوں‘‘ کے نزدیک ’’جنگ پرست‘‘ اور ’’عسکریت پسند دہشت گرد‘‘ ٹھہرا۔
ان سابق کامریڈوں کا کمال یہ ہے کہ جس عمل میں یہ شامل ہو جائیں، معاً اس کے حق میں ’’دلائل‘‘ و ضع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
برصغیر کے عوام، آزادی اور انصاف کے ازلی دشمن برطانوی سامراج کی فوج میں جب یہ بھرتی ہوئے تو ’’سند جواز‘‘ کے طور پر دور کی کوڑی یہ لائے کہ ’’جناب ہم نے تو فاشزم کے خلاف جنگ میں برطانوی سامراج کا ساتھ دیا‘‘ …
یہ اس دور میں برطانوی سامراج کی فوج میں بھرتی ہوئے جب برصغیر میں تحریکِ آزادی عروج پر تھی۔ آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کیلئے جیلوں کے دروازے چوپٹ کھلے تھے، آزادی کے طلب گار ٹکٹکیوں کے ساتھ بندھے تھے اور سامراجی جلاد کے کوڑے ان کے جسموں کے پرخچے روئی کے گالوں کی طرح اڑا رہے تھے۔
تب آزادی کی جنگ میں حصہ لینا چونکہ ’’جنگی جنون‘ ‘ تھا اس لئے ان ترقی پسند اور امن پرست ادیبوں اور شاعروں میں سے آدھے تو سر جھکا کے ’’داخلِ میخانہ‘‘ ہو گئے
اور بقیہ نے سامراجی افواج کی چھائونیوں کے رنگین کلبوں میں کلائیو زادوں ، ولزلی زادوں اور ہڈسن زادوں کی مصاحبت ہی میں عافیت جانی۔
چھائونیوں کے باہر آزادی کے طلب گاروں کے سینے جنرل ڈائر کے بھائی بند بندوقوں کی گولیوں سے چھلنی کر رہے تھے اور آج کے امن پسند دانشور وں کے سرخیل شیشوں سے پیمانوں کی جانب بڑھتے ’’سیال شعلوں‘‘ کے رومانوی منظر سے دل بہلا رہے تھے۔
برصغیر کے کفن بردوش حریت پسندوں کے ہونٹوں پر نعرہ ہائے رستخیز تھے تو امن کی خواہاں یہ وردی پوش فاختائیں میجریوں اور کرنیلیوں کی ڈالیوں پر بیٹھی یوں چہچہا رہی تھیں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
ماضی کے انقلاب فروش ، اب خیر سے ، ارتقائی مراحل طے کرکے لبرل ازم اور ٹالرنس کے خواب فروش بن چکے ہیں۔ ماضی کے یہ رومانوی ،تصوراتی اور تخیلاتی نعرہ بازمحض واڈکا کے چند کریٹوں، روبلوں کے چند بریف کیسوں اور یوکرینی رشیا یا سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے بعض سرکاری ہوٹلوں میں پرولتاری پریوں کے ساتھ چند رنگین و حسین شب بسریوں کے عوض پاکستان میں سرخ انقلاب کی راہیں ہموار کرنے کے لئے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے رہے۔
تب یہ سرخ انقلاب کے جنازہ بردار تھے اور اب یہ واڈکولائی انقلاب کے تابوت بردار ہیں۔ان ناکام، قنوطی اور مایوس’’انقلابیوں‘‘کی زندگیوں کا مقصد وحید محض سستی شہرت اور مغرب و امریکا کی خوشنودی کا حصول رہ گیا ہے۔ ویسے یہ شرابی، کبابی اور ربابی…تھے بھی کہاں کے انقلابی؟
وہ مارکسزم، لینن ازم، سٹالن ازم، مائوازم، سوشلزم اورکمیونزم کے “اُجرتی مناد” تھے۔
جب تک سوویت روسی سفارت خانہ ان کے نان نفقے کا انتظام و انصرام کرتا رہا یہ ہر محب وطن پاکستانی اور اسلام دوست شخصیت پر امریکی ایجنٹ ہونے کا بے بنیاد الزام لگاتے رہے۔
حالات نے باشعور پاکستانی عوام کے سامنے حقائق نتھار کر رکھ دئیے۔
ادھر سوویت روس کا سقوط ہوا اور ادھر یہ’’ اداس نسلیں‘‘ راتوں رات کمیونزم اور سوشلزم کی ’’جڑواں ممی‘‘ کو ’’ماضی کے مزار ‘‘ میں دفن کر کے امریکی سفارت کاروں کی دہلیزوں پر سرخ سلامی پیش کرتی دکھائی دیں۔
اب ان کے نزدیک مارکسزم، کمیونزم اور سوشلزم کی بات کرنا تاریک راہوں میں مارے جانے کے مترادف تھا۔ کمیونزم کی عروسِ ہزار داماد بہ صد ہزار شیوہ و ادا انہیں پکارتی رہی
لیکن انہوں نے اس کے دست ناتواں سے اپنا دامن جھٹک کے چھڑایا اور پرلے درجے کی کج ادائی اور بیوفائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر سوئے واشنگٹن روانہ ہوئے
مجھ سے پہلی سے محبت اے میری محبوب نہ مانگ