کچھ مغرب زدہ والدین کی انٹرنیٹ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی۔ مشغلوں نے اولاد کو یہ کھیل وراثت میں دے دیا
عافیہ مقبول جہانگیر
#Parents and her #kids
دورِجدیدمیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ان کے فوائد اور نقصانات کو بنظرِغائردیکھا جائے توہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ سب ہماری سوچ اور ذہنیت پر منحصرہے کہ ہم اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ایک قابل تشویش حقیقت
ایک بے حد تشویشناک صورتحال ہمارے معاشرے میں وبا کی صورت پھیل رہی ہے۔ جو نو عمر بچوں کا ان سوشل میڈیاز کا انتہائی آزادانہ اور بے محابہ استعمال ہے۔۲۰۰۷ ء میں فیس بُک نامی سماجی رابطے کی اس سائٹ نے شروعات کی۔ تب چند ایک نے ہی اسے استعمال کیا اُس وقت اس سائٹ پر اکاؤنٹ بنانے کی آپشن کے ساتھ ہی خاص طور پر تاکید کی جاتی کہ اکاؤنٹ بنانے والے کا شناختی کارڈ نمبر یا کریڈٹ کارڈ نمبر بھی لکھیں تاکہ واضح ہو سکے کہ آئی ڈی بنانے والا انسان بالغ ہے۔
اس طرح بننے والی آئی ڈی قابلِ بھروسہ ہوتی تھی۔ اُس کا غلط استعمال بھی ممکن نہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہوتی نظر آئی، بلکہ کئی ایسے سوفٹ وئیر بنا لیے گئے جو اِن قوانین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صارف کو غلط معلومات پر مبنی آئی ڈی بنانے میں مدد دیتے تھے ۔
کچھ ان ویب سائٹس نے بھی اپنے ذاتی مفاد، پھیلتی شہرت و دولت کے چکر میں ، شرائط نرم کر دیں۔ یوں ہر کسی کے لیے عمرکی قید اور درست معلومات کے بغیربھی ان کا استعمال بہت آسان ہو گیا۔اور آہستہ آہستہ انہوں نے معصوم بچوں کو ہی نہیں بلکہ ماؤں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
عمر کے جس نازک دور میں نئی نسل کووالدین کی راہنمائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ والدین نے اپنے مشاغل میں اولاد کو اُس خاص جذباتی وابستگی سے محروم کر دیا۔ ایسے ماحول میں بچوں کی تربیت کیونکر ممکن ہو،جہاں والدین کے پاس اپنی اولاد کے لیے ہی وقت نہیں۔
درحقیقت والدین کے منصب پر فائض ہونا آسان نہیں۔ ماں باپ کے سر پر صرف اپنے بچے کی ہی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی کی ذ مہ داری ہوتی ہے۔ یہاں یہ قابلِ غور ہے کہ بچے کی تربیت کس نہج پر اور کن محرکات کے تحت کی جا رہی ہے؟ ان کے کورے، معصوم اور کچے ذہنوں میں کس قسم کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔ یہی عوامل طے کرتے ہیں کہ ان بچوں کے والدین کس ماحول یا ذہن کے حامل ہیں۔
ایک ماں کی خواہش تو یہ ہونی چاہیئے کہ اپنی ناتمام آرزوؤں کی تکمیل اولاد کی تعلیم وتربیت کے ذریعے کرے لیکن اس دورِ جدید میں تو ماؤں کے پاس اولاد کے لیے وقت ہی نہیں۔ اُن کی ذاتی مٖصروفیات میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ اپنے جگر گوشوں کے لیے بھی دو لمحے نکال سکیں۔
سوال یہ ہے کہ یہی مائیں جب کل کوبڑھاپے کی دہلیز پر ہوں گی۔تو کیا ان کے بچے ان کی دیکھ بھال کریں گے؟ شائد نہیں۔۔۔ کیونکہ انہوں نے خیال رکھنا سیکھا ہی نہیں تھا ۔ تب شائد اولڈ ہوم کی بھی ضرورت نہ پڑے کیونکہ یہی بچے گھر کے کسی کونے میں اپنے والدین کو ڈال کر ایک عدد موبائل ہاتھ میں تھما دیں گے۔
خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ مگرا ٓنے والے خدشات کی بدترین تصویر کھینچے بغیر اُنہیں احساس نہیں دِلایا جا سکتاکہ وہ ان سوشل میڈیاز کے جنون میں مبتلاہو کر اپنے ہی گھرکو آگ لگا رہی ہیں اور اس آگ میں نہ صرف ان کا بڑھاپا ، بلکہ ان کے بچوں کا مستقبل بھی جھلس جائے گا۔
Always #busy #mother cannot be An #ideal
ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ایک بچے کی بہترین تربیت ایک ماں ہی کر سکتی ہے ۔ ایک ماں کبھی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کیا کرتی۔لیکن کیا کیِا جائے آج کل کی ماؤں کا۔ انھیں اپنی ذات کے سوا کچھ دِکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ بچے سکول سے گھر آ کرماںکی بھرپُور توجہ چاہتے ہیں۔ لیکن ۔۔۔
۔ ماں نے بیرونِ ملک بسنے والی ایک دوست کو چیٹنگ کا وقت دے رکھا ہے ۔دورانِ گفتگو کیمرہ بھی آن ہے ،خوب گپیں لگ رہی ہیں۔ ملکی غیر ملکی حالات بھی زیرِ بحث لائے جا رہے ہیں۔ یہ محترمہ پاکستان کی مہنگائی اور سیاست کا رونا رو رہی ہیں۔ دوسری محترمہ وہاں کے اعلیٰ نظامِ زندگی پر روشنی ڈال کر انھیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر رہی ہیں۔
اگر نسلِ نو کی تربیت کا یہی معیار رہا تو پھر پاکستان کر چُکا ترقی۔ کل جب آپ کی اولاد اسی رونے دھونے سے متاثر ہو کر آپ کے بغیر ترکِ وطن کر چُکی ہو گی۔ تب آپ کا ذہن و ضمیر کچوکے لگائے گا
:اب کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میںاس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
تب آپ بیٹھ کر سوچیں گی کہ کاش اِدھر اُدھر کی ہانکنے سے اچھا تھا کہ اپنے بچوں کے مسائل سُنے ہوتے، اُن کو وقت دیا ہوتا، اُن کی سرگرمیوں پر نظر رکھی ہوتی۔ آج وہ ایک اچھے مسلمان اور بہترین انسان ہوتے۔ جب بنیاد ہی غلط ہو، تو معاشرہ ، اخلاقیات ، اقدارات اور روایات سے نابلد افراد پر ہی مشتمل ہو گا ۔
اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ ان ـــ’’بھٹکی‘‘ ہوئی ماؤں کو ان کا اصل مقام یاد دِلایا جا سکے۔ یہ ماڈرن مغرب زدہ یہ مائیں اپنے قدموں تلے موجود اس جنت کو ہائی ہیل پہن کر فیشن شوز اورکلبوں میں جا کر یتیم بچوں کے حقوق میں تنظیمیں بنا کر ،مغرب ذدہ ماحول میں اپنے بچوں کی پرورش کر کے، سڑکوں پر جلسوں میں ،احتجاجوں میں،دھرنوں میں ،ضائع کر رہی ہیں۔
اس ملک و قوم کوان کی بنائی ہوئی پارٹیوں کی،تنظیموں کی ضرورت بعد میں ہو گی۔ پہلا حق ان کے بچوں کا ہے۔ جو اپنی ماؤں کو سڑکوں پر ،میڈیا کے سامنے لڑتے جھگڑتے، گرفتار ہوتے،مردوں سے الجھتے، شور مچاتے دیکھتے ہیں۔ اپنے سکول کالجز میں اپنے دوستوں استادوں سے منہ چھپاتے ہیں۔ ٹی وی پر اُن کی ماں قوم کو جگانے کے چکر میں اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر سُلانا بھول بیٹھی ہے۔
ماں کے آنچل میں سونے کا سُکھ اگلی نسل کیا پائے گیجینز پہننے والی ماں آنچل کہاں سے لائے گی۔۔۔۔؟
دوسری طرف سوشل میڈیا کے ذریعے بچے بھی اپنے ہی والدین کے ہاتھوں تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ معصوم بچوں کو ان کے والدین سمیت نگل رہا ہے۔ ایک خاتون نے محض بوریت سے بچنے اور وقت گزاری کے لیے گھر میں پارلر کھول لیا۔
اب اس پارلر کی تشہیر بھی ضروری تھی۔ اس خاتون نے فیس بک کا سہارا لیا اور اپنی آئی ڈی پر بھی اپنے پارلر کا حوالہ لکھنا شروع کر دیا ۔یہاں تک تو سب بظاہر ٹھیک لگتا ہے۔اس میں کوئی بُرائی نہیں اگر کوئی خاتون اپنا کاروبار چلا رہی ہے۔
اصل خرابی تب ظہور پزیر ہوئی جب اس بیوقوف خاتون نے اپنی ۱۵ سالہ بچی پر میک اپ کے طرح طرح کے تجربات کرنے اور اس کی تصویروں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے تعریف وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
یوںوہ معصوم بچی اس نازک سی عمر میں فیس بک کے اس ’’فائدے‘‘ سے آگاہ ہو گئی۔ ذرا سی عمر میں سیلفی لینے،فیشن کرنے اور پھر تصاویر اپ لوڈ کر کے تعریفیں بٹورنے کی بھی عادت پڑ گئی۔ اگر وہ بچی کسی مصیبت میں پھنس جائے۔غلط لوگوں کے ہاتھ اس کی تصاویر لگ جائیں تو ذمہ دار کون کہلائے گا ؟شائد آج کل کے دور میں بچوں کی نہیں ،ماؤں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔
مشہور قول
نپولین بونا پارٹ کا مشہور قول ہےؔتُم مجھے بہترین مائیں دو،میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔
والدین جیسا ماحول اپنی اولاد کو دیں گے ۔ اولاد ویسا ہی بدلے میں کل کو انہیں دے گی ۔کہنے کو تو زمانہ ترقی کر رہا ہے۔ شائد ہم ترقی نہیں پستی اورجہالت کی طرف جا رہے ہیں۔اگر آج کی ماں یہ نہیں جانتی کہ اس کا بچہ کیوں رو رہا ہے. بچی سکول کیوں نہیں جا رہی؟ وہ وقت پر اپنا ہر کام کیوں نہیں انجام دے رہے۔
زمانہ جاہلیت کی ماں
اس سے اچھا تو پھر زمانہء جاہلیت کی مائیں ہی تھیں۔ جنہیں اپنے بچے کی صورت دیکھ کر معلوم ہو جاتا تھا کہ اسے کیا چاہیے۔ لاعلمی اور جہالت اور بچوں کی طرف سے بے خبری ہی اصل جہالت ہے۔،تو پھر کیسی ترقی کہاں کا معیارِ زندگی۔رشتے، تعلق خواب اور شوق سب اپنی جگہ لیکن۔۔!
سب سے پہلے آپ ایک ماں ہونے کا فرض پُورا کریں۔ خاندان کو ،دوستوں ،ملک کو ،آپ کی ضرورت بعد میں پہلے آپ کے بچوں کو ہے۔ ملک کے بجٹ پر نظر رکھنے سے پہلے اپنے گھر کے بجٹ پر نظر رکھیں ۔ آپ کے بچے باہر سے کیا کیا الا بلا خرید کر کھا رہے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ آپ کے پاس ان کے لیے پکانے کھلانے کا وقت نہیں رہا۔
سیاستدانوں اور شوبز کے ستاروں کی زندگیوں پرروشنی ڈالنے سے پہلے اپنے بچوں پر دھیان دیں۔ ان کے مشاغل پر کڑی نظر رکھیں۔ آپ کی کس دوست نے نیٹ پر کون سا پیج لائک کیا ہوا ہے۔ کس رشتہ دار کی فیس بُک میں کون کون ایڈ ہے۔ یہ جاننے سے پہلے ایک جائزہ یہ لے لیں کہ آپ کے گھر کون آتا جاتا ہے۔ کس سے مِل کر آپ کے بچے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ کس کے آنے پر ناگواری ظاہر کرتے ہیں اور ’’کیوں‘‘؟۔
اس ’’کیوں‘‘ کا پتا لگانا بہت بہت ضروری ہوتا ہے اور اکثر والدین اسی جگہ مات کھا جاتے ہیں۔ اس بات کو لازماً اہمیت دیں کہ اگر آپ کا بچہ کسی کو نظرانداز کر رہا ہے۔آپ کے کسی خاص مہمان کے آنے پر ناگواری ظاہر کر رہا ہے۔ خاص طور پر آپ کی بچیاں۔ یہ نظرانداز ہرگز نہ کریں۔ اس کے برعکس کئی مائیں بچی کو ہی ڈانٹتی ہیں کہ وہ مہمان سے گھُل مِل کیوں نہیں رہی۔ ٹھیک سے بات کیوں نہیں کر رہی۔
ماؤں کو تو اپنی بچیوں پر مکمل نظر رکھنی چاہئے کہ وہ اجنبیوں سے بِلاوجہ بے تکلف ہو کرنہ مِلیں۔ جبکہ یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہتی نظر آتی ہے۔ صرف بچی ہی نہیں، لڑکوں کو بھی اتنی ہی توجہ کی ضرورت ہے۔ آپ کا بچہ کہاں جاتا ہے۔ کس سے مِلتا ہے۔ اس کے دوست کس قسم کے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر کس قسم کی سرگرمیاں رکھتا ہے۔ ان سب سے واقف ہونا والدین کے لیے بہت ضروری ہے۔ جب والدین خود ہی اس سوشل میڈیا کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے ہوں تو پھر بچوںکا کیا قصور۔
مائیں اپنی ایک سیلفی ضائع نہیں ہونے دیتیں ، روتے ، بھوکے بچے کو تو بعد میں چپ کرا لیا جائے ۔ یہ مشکل سے بنا پوز دوبارہ نہیں بنے گا۔ چلو اور کچھ نہیں تو روتے بچے کے ساتھ ایک سیلفی ہی سہی۔ ساتھ ایک کمنٹ’’ واٹ اے لائف آف اے وومین‘‘ ۔(feeling sad)۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭