باب سوم ۔
کورونا ٹیسٹ اور وارث نہاری
محمد توفیق
ٹیم دو بجے کوسٹر میں #شوکت خانم ہسپتال جوہر ٹاؤن کے لیے روانہ ہوئی۔
اس ہسپتال کے حوالے سے سن تو بہت کچھ رکھا تھا، دیکھنے کا موقع اب پہلی مرتبہ ملا۔
فنِ تعمیر اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے ابتدائی تاثر خوشگوار رہا۔
یہ شاندار فلاحی منصوبہ #عمران خان کے جذبۂ جنوں اور میاں محمد #نواز شریف کی فیاضانہ اعلیٰ ظرفی کی بدولت معرض وجود میں آیا۔
ہم میں ذاتی پسند نا پسند، تعصبات اور پارٹی لائن سے بلند ہو کر ان شخصیات کے اس کارنامے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بالغانہ شعور ہونا چاہیے۔
چوہدری یعقوب بھی اسی اثنا میں ٹیسٹ کے لیے ٹیم سے آن ملے۔ مستعد اور چابکدست عملے نے آدھے گھنٹے میں ٹیم کے ٹیسٹ مکمل کر لیے۔
ٹیم مینجمنٹ کو اب یہ انجانا خوف دامن گیر تھا کہ خدانخواستہ اگر آخری لمحے میں کسی کھلاڑی کا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا تو پھر اس خلا کو کیسے پُر کیا جا سکے گا؟
پاکستانی روایات کے مطابق کچھ لیبارٹریز نے” سب اچھا“ کی رپورٹ دینے کی حامی بھر لی تھی مگر چوہدری یعقوب کے اندر کے پولیس آفیسر نے کسی قسم کا رسک لینا مناسب نہ سمجھا۔
ان کا مؤقف تھا کہ خدانخواستہ اگر کسی کھلاڑی کا ٹوکیوپہنچ کر ٹیسٹ مثبت آ گیا، تو نہ صرف اس کھلاڑی کو چودہ دن کے لیے فیڈریشن کے خرچ پر قرنطینہ کر دیا جائے گا۔
بلکہ پاکستان کو پریس اور میڈیا میں سُبکی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
خیر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور رزلٹ کا انتظار کرنے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں بچا تھا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
ٹیسٹ سے فارغ ہو کر دی بحریہ مال میں واقع پی او ایف کے گیسٹ ہاؤس میں ڈیڑھ دو گھنٹے سستانے کے بعد رات آٹھ بجے پرانی انارکلی کی پیچیدہ گلیوں سے ہوتے وارث نہاری آن پہنچے۔
دن کی ہلکی ہلکی بارش کے باعث موسم قدرے خوشگوار تھا۔
N.C.O.C کی کورونا ہدایات کے مطابق ان ڈور ڈائننگ کی ممانعت تھی۔ ہم پاکستانی مگر ایسی پابندیوں کے خوگر نہیں۔ کوئی نہ کوئی چور دروازہ نکال ہی لیتے ہیں۔
وارث نہاری کے باہر گیس کے چولہوں پر بڑی بڑی دیگوں میں نہاری تیار کی جا رہی تھی۔ گلی کے دونوں اطراف سڑک کنارے کرسی میزیں بچھا دی گئی تھیں۔
ہمیں جو میز ملی اس کے اُوپر بجلی کی ان گنت تاروں کاجال بچھا ہُوا ہے۔ جو زُلفِ جاناں کی طرح اتنا پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ جتنے پاکستان کے قومی مسائل۔
ہمیں اسپیشل نہاری سرو کی گئی۔ جسے دیسی گھی کا تڑکا لگایا گیا تھا۔ اس میں بونگ، مغز اور نلی شامل تھی۔
دل کے دورے کا مجرّب نسخہ! عام پلیٹ کی قیمت 400 روپے، جبکہ اس شاہی نہاری کی قیمت 2200 فی پلیٹ تھی۔
ساتھ میں ادرک، سبز مرچوں، پیاز اور سپرائیٹ کا چسکا۔ تندور سے اُترتے گرما گرم نان۔
دو مرتبہ تو گریوی بھی طلب کی گئی۔ نجانے ہم کتنے نان چٹ کر گئے۔
مال روڈ پر واپڈا ہاؤس کے سامنے سے یوٹرن لیتے ہُوئے پنجاب یونیورسٹی،
بھنگیوں کی توپ،
مینارِ پاکستان،
بادشاہی مسجد کی زیارت کرتے ہم بیڈن روڈ پر واقع چمن آئس کریم آن پہنچے۔
جہاں کسی زمانے میں خشک میوہ جات سے بھرپور پاکستان کی بہترین آئس کریم دستیاب تھی۔ لیکن اب وہ مولوی مدن والی بات کہاں!
بدقسمتی سے ہمارے ہاں شہرت اور مقبولیت مل جائے تو پھر معیار برقرار رکھنے کے بجائے مال بنانے کو ترجیح دی جانے لگتی ہے۔ کار کی اس ”چہل قدمی“ میں اب کافی تھکن محسوس ہونے لگی تھی، یا شاید نہاری کے خمار کا غلبہ!
اب جسم کا تقاضا نرم آرام دہ گدّے میں خوابِ خرگوش کے مزے لینے کا تھا۔ آنکھیں نیند اور تھکاوٹ سے بند ہوئی جا رہی تھیں۔ یہی عیاشیاں مسلمانوں کو لے ڈوبی ہیں کہ مشتاق یوسفی کے بقول ” برصغیر کے مسلمانوں کے پاس اُٹھانے کے لیے تو کُجا، ہتھیار ڈالنے کے لیے ہتھیار نہیں تھے۔“ اور ہاں تھکاوٹ سے یاد آیا، سید ضمیر جعفری مرحوم عطا الحق قاسمی کے ہمراہ کسی پہاڑی علاقے کو سر کرتے ہُوئے بری طرح ہانپ رہے تھے۔ اسی اثنا میں سامنے سے آنے والے ایک مقامی باشندے نے سلام عرض کیا تو جعفری صاحب کی حسِ مزاح پھڑک اُٹھی۔
عطا الحق قاسمی سے بولے۔ ” یار اسے میری طرف سے وعلیکم السلام کہہ دو۔ “
رات دیر گئے یہ سیر سپاٹا تو خیر دل بہلانے کی خودفریبی تھی۔ اندر ہی اندر ہمیں یہ فکر کھائی جا رہی تھی کہ کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ جانے کیا چاند چڑھائے گی؟
گھٹنے کا پرانا زخم بھی پریشان کر رہا تھا۔ ہر چند پاکستان کے بڑے مستند اور نیک نام ڈاکٹر وقار احمد نے گزشتہ رات کمال شفقت اور مہربانی سے I-8 اسلام آباد میں واقع اپنے کلینک میں سٹیرائیڈز کے ٹیکے لگائے اور ٹھنڈی جیل “Gel” سے مسلسل ٹِکور کا علاج تجویز کیا۔
حسن نے”De-Watson” اسلام آباد سے یہ جیل خرید لیا تھا۔ اب میرے گھٹنے پر وہی آزما رہا تھا۔ رات دیر گئے واٹس ایپ پر اپنے رفیقِ کار اور ایڈمن امور کے ماہر و نگران وقار خان،
صاحبزادی حِرا صبیح،
یارانِ غار راجہ اعجاز گوہر،
محترم عطا چوہدری،
برادرم اشفاق ہاشمی اور ایبٹ آباد میں ممتاز اسپورٹس آرگنائزر اور فٹ بالر حمید سے گپ شپ لگائی۔
برادرِ نسبتی شفقت نے موبائل پر مری گیسٹ ہاؤس میں ایک شب بسری کی فرمائش کی تو محترم بریگیڈیر میر امیر علی نے کمال شفقت و سرعت سے اس کی تکمیل بھی کر دی۔
رات بارہ بجے کوچ سعید نے فون پر تمام رزلٹ نیگیٹو آنے کی نوید سنائی تو گویا جان میں جان آئی۔
یہ واحد نیگیٹو ہے، جو پازیٹو سے بھی پیارا لگتا ہے۔
جاپان سے موصول اطلاعات کے مطابق آج وہاں پیرا اولمپکس بھی اختتام پزیر ہو گئے تھے، لیکن کرونا کےمتاثرین اور ان کے ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔
اولمپکس اور پیرا اولمپکس کے حوالے سے جاپان نے 25 ارب ڈالر صرف کیے ۔
83 فیصد آبادی کی مخالفت کے باوجود رِسک لے کر تماشائیوں سے خالی اسٹیڈیم اور جمنازیمز میں یہ مقابلے تو کروا دیے ہیں۔
لیکن اس کی بھاری قیمت جاپانی وزیر اعظم ” سوگا“ کو اپنے استعفے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
نئے وزیر اعظم سابق وزیر خارجہ “Fumio Kishida” ہوں گے جو جاپان کے 100ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھائیں گے۔
ویسے بھی جاپان میں #وزیراعظم مٹی کے مادھو نہیں ہوتے۔
میری کرسی مضبوط ہے ، کی گردان نہیں کرتے بلکہ عوامی نبض کو بھانپتے ہُوئے ، عوام کے ”گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو“ کے نعروں کا انتظار کیے بغیر، اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے ہیں۔
مشتاق یوسفی نے کہیں لکھا ہے، ”بہت کم لیڈر ایسے گزرے جنہیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی“۔
چوہدری محمد یعقوب ٹوکیو آمد پر سخت پابندیوں کی پہلے ہی چتاؤنی دے چکے۔
اب بھلا ہم چار براعظموں اور بتیس گھنٹوں پر محیط سفر کے بعد ٹوکیو یاترا سے بھی محروم رہیں گے ؟
ذہن میں کشمکش جاری ہے۔
خیر” چڑھ جا بیٹا سولی، رام بھلی کرے گا“۔
(5 ستمبر 2021ء)